کومل جوئیہ کی شاعری کا فنی Funny 😉جائزہ
_________________________
نعیم سلیم، مالیگاؤں مہاراشٹر انڈیا
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺
*منسوب چراغوں سے طرف دار ہواکے*
*تم لوگ منافق ہو منافق بھی بلا کے*
جیسے چبھتے ہوئے شعر کی خالق محترمہ کومل جوئیہ پڑوسی ملک پاکستان کی ایک باکمال شاعرہ ہیں.سوشل میڈیا کے توسط سے آپ کے کلام نظر نواز ہوتے رہتے ہیں. وطن عزیز ہندوستان بالخصوص شہر محبت مالیگاؤں کے ادب نواز حلقے میں موصوفہ کی شاعری کافی پسند کی جاتی ہے. خود ناچیز بھی محترمہ کے فن کے قدردانوں میں شامل ہے. آپ میں درد مند دل، شاعرانہ ذوق کے ساتھ ہی بہترین حس مزاح بھی پائی جاتی ہے. فیس بک اکاؤنٹ پر تازہ غزلیات، اشعار کے ساتھ مزاحیہ پوسٹ لگاکر پھلجھڑیاں بکھیرنا بہترین مشغلہ ہے. آپ کی شاعری پر ناقدین ادب لکھ رہے ہیں اور لکھتے رہیں گے. آج ناچیز اپنے ذوق کے مطابق آپ کی شاعری کا funny تجزیہ پیش کررہا ہے. مقصد آپ قارئین کو محظوظ کرنا ہے. محترمہ کومل سے پیشگی معذرت کے ساتھ
اکثر شعراء کو یہ شکایت رہتی ہے کہ ہم اتنی محنت سے اشعار کو پروتے ہیں غزلیں نظمیں لکھتے ہیں مگر ہمیں وہ پذیرائی نہیں ملتی جو شاعرات کو ملتی ہے. بالکل یہی بات محترمہ کومل کو بھی پریشان کرتی ہے جب وہ پوسٹ لگاتی ہیں اور تھوڑی ہی دیر میں دو چار سو لائک کمنٹس آجاتے ہیں کہتی ہیں
*میں کتنے دشمنوں میں گھر چکی ہوں حیرت ہے*
*کہاں سے آگئے یہ لوگ ان کے نام ہیں کیا؟*
ہر چند نام نظر آتے ہیں پوسٹ میں مگر پہچان کے تو چند ایک ہی ہوتے ہیں. باقی واہ واہ کرنے والی پوری ایک انجان فوج ہوتی ہے...
شاید وہ کچھ لوگوں سے دھوکہ کھاچکی ہیں اسی لئے فرماتی ہیں کہ
*میں ایسے اژدھوں کے بارے میں بھی جانتی ہوں*
*جنھوں نے دوستوں کے روپ دھارے ہوتے ہیں*
اتنے لائک کمنٹس کسی شاعر کو مل جائیں تو وہ خوشی سے پاگل ہوجائے مگر محترمہ بہت محتاط رہتی ہیں مزید کہتی ہیں کہ
*مری صفوں میں یہ سارے منافقین نہ ہوں*
*ہرا نہ دے کہیں اپنی مری سپاہ مجھے*
تو آپی اپیا کے نعرے بلند کرنے والے فالورس اپنی کمنٹس میں محترمہ کو یقین بھی دلادو کہ آپ لوگ کبھی آپی اپیا سے غداری نہیں کروگے..
پھر انہیں کبھی یہ نہیں کہنا پڑے گا کہ
*اتنے دشمن تو خدایا کسی دشمن کے نہ ہوں*
*ہاتھ جھٹکوں تو کئ کف سے نکل آئیں گے*
آپ جتنی خوب صورت اور معصوم نظر آتی ہیں اس سے زیادہ خوش مزاج ہیں. لیکن بار بار مزاج اور خیریت پوچھنے والوں کو یوں ٹکا سا جواب دیتی ہیں کہ
*مرے مزاج کے بارے میں پوچھنے والو*
*میں بد مزاج سی لگتی نہیں ہوں، ہوں بھی بہت*
مل گیا نا جواب! اب مت پوچھنا کیسے مزاج ہیں.........
خواتین اور اپنی بات کے آگے مقابل کی بات مان جائیں؟ قطعی نہیں ہوسکتا.
*میں اپنے حق میں کی اک بات بھی نہیں مانوں*
*میں مسترد کروں ساری دلیلیں تم کو کیا؟*
جب خود کے حق میں دلیلیں نہیں مان رہی ہیں تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خلاف کا عالم کیا ہوگا. پوری غزل ہی ایک دم لڑنے جھگڑنے کے انداز میں لکھی گئی ہے. پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے.
گھر میں بچوں کے ساتھ کھیلنا اچھے ماں باپ کی نشانی ہے. موبائل عہد میں بچے آج بھی چور پولس کھیلتے ہیں.
محترمہ کی بچی نے پلاسٹک کی بندوق سر پر تان دی اور تین تک گنتی کی مہلت دی یہ چیختی رہیں دس تک مگر افسوس تین پر ہی انہیں ڈھیر کردیا.
*اس نے بس تین تلک گن کے مجھے مار دیا*
*میں نے سو بار یہ آواز لگائی دس تک*
خیر بچوں نے بھی وعدہ کرلیا ہے اگلی بار دس تک پوری گنتی کریں گے...
ماشاءاللہ گھر پر بہت کام کرتی ہیں. جس سے تھک جانا فطری امر ہے. اور کام کی زیادتی سے بھلا کیا دھیان رہتا ہے. کہتی ہیں کہ
*میں لڑکھڑا کے گری اپنے دھیان چلتی ہوئی*
*گلے سے آکے لگی جب تھکان چلتی ہوئی*
درخواست ہے کہ کام کو خود پر اتنا سوار نہ کریں کہ تھک کر گرجائیں. صحت پر دھیان دیں.
صحت سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں ہے..
اسی طرح خیالوں میں گم رہنا اچھی بات نہیں ہے. جب یاد آئے تو میاں سے کال ملالینا چاہیے. سروس میں اتنی بھی پابندیاں نہیں ہوتیں کہ بندہ اپنی بیوی کی کال بھی ریسیو نہ کرسکے.
*ترے خیال نے رستہ بھلا دیا ہے مجھے*
*میں چھوڑ آئی ہوں پیچھے مکان چلتے ہوئے*
اور پھر بات بات میں دعا دینے کی کتنی اچھی عادت ہے میاں کو قطعی برا نہیں لگے گا اس بات کا
*تو مسکرا کے مجھے دیکھ میں دعا دوں گی*
*یہ صدقہ تیرے مسائل کو ٹال کر رکھ دے*
حسن وعشق کی باتیں تو شاعری کی جان ہوا کرتی ہیں اس کا احساس کرتے ہوئے کبھی کبھار چھوٹ دے دیا کرتی ہیں کہ
*اتنی سی چھوٹ تو بنتی ہے مرے عشق پرست*
*پاس بیٹھے تو مرا ہاتھ پکڑ سکتا ہے*
ویسے بندہ مارسے بچنے کیلئے بھی مقابل کا ہاتھ پکڑلیتا ہے.
بازار جاتی ہیں تو بہت محتاط رہنے پر بھی دھوکہ کھا جاتی ہیں کبھی نوٹ خراب تو کبھی سامان خراب، بڑا دھوکہ کھاکر فراڈیے کو یوں شکریے سے نوازتی ہیں کہ
*ترے ہی دھوکے سے دنیا سمجھ میں آتی ہے*
*لہٰذا شکریہ اے شخص بے شمار ترا*
میاں سے لڑکر خود تو کئ غزلیں انا کی تسکین کیلئے لکھ مارتی ہیں مگر میاں ذرا بھی بے رخی بتائیں تو یوں گویا ہوتی ہیں
*تو ایک خاک کا انساں ہے میری جانب دیکھ*
*یہ بس خدا کو ہی جچتا ہے بے نیاز رہے*
بے رخی پر یہ عالم ہے تو سمجھ سکتے ہیں کہ محترمہ بے وفائی کو کتنا برا سمجھتی ہیں.مثال کے طور پر
*نارسائی کا گلہ ہے تو فقط اتنا ہے*
*وہ میسر مری خواہش سے خدایا کم ہے*
لاک ڈاؤن نے اس گلے کو بھی ختم کردیا. سال بھر چوبیس گھنٹے میسر.. کرلو گل..
ویسے لاک ڈاؤن نامی بلا کے دور میں جہاں بہت سارے بڑے بڑے بزنس ختم ہوئے وہیں گھروں سے نئے بزنس بھی شروع ہوئے دکانیں تلاش کرنے کی ضرورت نہیں گھروں سے ہی سامان دستیاب. ایسے ہی ایک گھر کو دیکھ کر یوں فرماتی ہیں.
*اب مرے بعد میرے گھر میں پڑے ہوتے ہیں*
*عطر لوبان اگر بتیاں کافور چراغ*
موصوفہ کا گھر اسلئے نہیں لکھا کہ فینس کل سے ہی ان کے یہاں عطر اگر بتی لوبان وغیرہ لینے نہ پہنچ جائیں. اور مہکتے گلدستے کو خوشبوؤں کی کیا ضرورت ہے وہ تو خود اس سے گریزاں رہتی ہیں.
*میں خوشبوؤں سے گریزاں ہوں اس لیے کہ کئ*
*پرانے زخم مہکتے ہیں پرفیوم کے ساتھ*
اتنی پیاری خوش مزاج فنکارہ کبھی کبھی ڈپریشن میں آجاتی ہیں اس تعلق سے پوسٹ بھی نظر سے گزری مایوسی چھا جاتی ہے تو یوں رقم طراز ہوتی ہیں
*یہ زندگی کا سفر اب تھکا رہا ہے سو ہم*
*یہیں پہ ریل کی زنجیر کھینچ لیتے ہیں*
*دم گھٹ رہا ہے آج تو پوشاک عمر سے*
*دل ہے کہ اس لباس کے بخیے ادھیڑ دوں*
بخیے دشمنوں کے ادھیڑیں آپ سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں. آپ کا پہلا مجموعہ آرہا ہے. ایسے کئ مجموعے اور دیوان دیکھنے ہیں.
یہ تو سرسری funny جائزہ رہا. ساری تشریحات من گھڑت ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں. ان شاءاللہ آپ کے فکروفن پر بھی سنجیدگی سے لکھوں گا اسلئے ناچیز پر کوئی غیر قانونی یا قانونی کارروائی نہ کریں کیونکہ پاکستان بالخصوص ملتان دیکھنے کی تمنا ہے وہاں کی عدالتیں نہیں.........
