دوبندر: DO BANDAR
نمو اور
ٹمو نام کے دو بندر ایک دوسرے کے اچھے دوست تھے۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی خوشی
رہتے ، ایک درخت سے دوسرے درخت پر چھلانگیں لگاتے ، ایک ساتھ کھیلتے اور اپنے لیے
کھانے کی چیزیں تلاش کرتے ۔ وہ ایک دوسرے کو بہت چاہتے تھے۔ اپنی دوستی اسی طرح
برسہا برس قائم رہے یہ دعا کرتے ۔
اس کے باوجود انھیں ایک دوسرے کی بعض بری عادتیں
ناگوارگزرتیں۔ یہ بات وہ ایک دوسرے کو بتانا چاہتے تھے لیکن کسی کی ہمت نہیں ہوتی۔
ایک دن بہت
سخت دھوپ تھی اور وہ پیٹ بھر کر پھل کھا کر ایک گھنے سایہ دار درخت کی شاخ پر بیٹھے
ہو ئے تھے کہ نمو نے ٹمو سے کہا،
کیا ہم
دونوں ایک دوسرے کے اچھے دوست نہیں ہیں؟ اپنی دوستی اس طرح قائم رہے میں تمھیں ایک
بات پوچھنا چاہتا ہوں؟ تمھاری ایک بری عادت مجھے ہرگز پسند نہیں ہے؟ یہ سن کر ٹمو کو بڑا تعجب ہوا۔ اس نے جسم کھجاتے ہو ئے پوچھا،
کون سی عادت ہے؟ اس پر نمو نے کہا،ارے تم! روزانہ صحیح ڈھنگ سے غسل نہیں کرتے اور
ہر وقت جسم کھجاتے رہتے ہو؟ ٹمو نے کہا ”جی ہاں! لیکن اس سے تمھیں کیا واسطہ۔۔۔۔۔
مجھے معلوم ہے کہ تم یہی کہوگے کہ مجھے روزانہ غسل
کرنا پسند نہیں ۔ غسل کرنا میرے لیے مشکل کام ہے۔ یہ کوئی معقول وجہ نہیں ہے ہمیں
ہر وقت صاف ستھرے رہنا چاہیے؟ میری طرف دیکھو میں روزانہ غسل کرتا ہوں ۔
نہیں نہیں۔
مجھے بھی تم سے کچھ شکایت ہے ۔ ٹمو نے غصے کے لیجے میں کہا۔
نمو
نے جب اس کا غصہ دیکھا تو بولا’ تم اس قدر غصے میں کیوں آ رہے ہو؟
ٹمو نے کہا
'' تم میری بات کبھی بھی غور سے نہیں سنتے اور اپنی ہی ہانکتے جاتے ہو؟ مجھے کیا
کہنا ہے اس کا جواب تم خود دے دیتے ہو؟ اپنی ہی بات کو منوانے کی کوشش کرتے ہو۔‘
مجھے تمھاری یہ عادت قطعی پسند نہیں ہے اور اس کی وجہ سے مجھے ایک قسم کی نفرت سے
ہوتی ہے ۔
ٹمو کو اس
قدر غصے میں دیکھ کر نمو کو بھی احساس ہوا کہ وہ دوسروں کو بات کرنے اپنی صفائی میں
کچھ کہنے کا موقع ہی نہیں دیتا ہے اور یہ اس کی بری عادت ہے۔
اس کے بعد
دو دنوں تک ان میں بات نہیں ہوئی۔لیکن انھیں ایک دوسرے کی یا دستانے لگی ۔
دو دن بعد
نمو نے خود سے ٹمو سے کہا ارے یار! ہم دونوں میں ایک ایک بری عادت ہے اور ہمیں اسے
ختم کرنا ہے ۔
نمو نے کہا
تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔اس پر نمو نے کہا ” مجھے یقین نہیں ہوتا کہ میں اپنی بری عادت
کو چھوڑ پاؤں گا۔ کیونکہ دوسرے بات کرتے وقت مجھے درمیان میں بولنے کی عادت پڑ گئی
ہے۔
اس پرٹمو
نے کہا، مجھے بھی بار بار جسم کھانے کی عادت سی پڑ گئی ہے۔
نمو نے کہا،ہم ایک کام کرتے ہیں ۔ ہم اپنی بری
عادتوں کو ایک طرف رکھتے ہیں۔ اور کوئی علاج تلاش کرتے ہیں۔ میں بیچ بیچ میں نہ
بولنے کی کوشش کرتا ہوں اور تم بھی درمیان میں جسم کھجانے کی طرف توجہ دو۔
ٹمو نے کہا
کہ یہ تو بہت اچھا علاج ہے وہ فوری تیار ہو گیا۔ اس نے نمو نے دریافت کیا، میں تم
سے کس موضوع پر بات کروں؟
نمو نے کہا ” کچھ بھی بولو۔ اچھا تم یہ بتاؤ کہ
تم نے کل رات کیاکھایا؟
ٹھیک
ہے ٹھیک ہے ۔ یہ کہتے ہوئے ٹمو نے بات شروع کی لیکن اسی دوران اسے جسم کھجانے کی
بھی بڑی خواہش ہوئی۔ اسے یہ احساس ہوا کہ بات روک کر پہلے خوب کجھا لیا جائے ۔ لیکن
اس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ بات کرتے وقت کھجائے گا نہیں ۔ اور یہ بات بھی یہ کہ اس سے اس کی بری
عادت ٹوٹ جائے ۔ تو کیوں نہ ہمیں کوشش کرنی چاہیے؟
جس طرح ٹمو کو بغیر کھجائےبات کرنا دشوار
نظر آ رہا تھا۔ اسی طرح نمو کو بھی خاموشی کے ساتھ دوسرے کی بات سننا بھی دشوار
ہوتا جا رہا تھا۔
آخر کارٹمو
نے یہ بات بتائی کہ انھوں نے گزشتہ شب کیا کیا کھایا۔ بات مکمل ہونے کے بعد اس نے
اطمینان کا سانس لیتے ہوۓ کہا کہ یہ بات میرے لیے
بڑی مشکل نظر آ رہی تھی لیکن میں نے جسم کو کھجائے بغیر اپنی بات ختم کی۔ مجھے یقین نہیں آ رہا ہے
کہ میں نے بغیر کھجائے اپنی بات مکمل کی ہے۔ اب اس کے بعد میں روزانہ غسل کرنے کی
کوشش کروں گا۔ جس کی وجہ سے مجھے بار بار کھجانے کی نوبت نہ آئے۔
ٹمو نے اس
پر کہا ”ارے مجھے بھی اپنے آپ پر بہت قابو رکھنا پڑ اکہ مجھے درمیان میں بات نہیں
کرنی ہے۔ یہ کام میرے لیے بھی بڑا مشکل تھا۔ مجھے بھی یقین نہیں تھا کہ میں درمیان
میں بات نہیں کروں گا۔ آج میں نے کوشش کی اور آئندہ بھی اس پر پابندی کروں گا۔‘ ٹمو
نے کہا ”چلو آج سے ہم اپنی سابقہ بری عادتوں سے پر ہیز کریں گے اور وعدہ کر میں کہ
آئندہ بھی اس پر قائم رہیں گے ۔“ ٹمو نے کہا کوشش کرتے ہیں ۔“
سبق آموز کہانی...... اچھی شروعات ہے
ReplyDeleteKya bat hai, Masha Allah, bacchon ki tarbiyat ke lehaz se behtreen kahani👌
ReplyDeletebahot shukriya
Delete