انتخاب:
حکیم کی چالاکی
ایک مچھیرا بہت غریب تھا۔ وہ روزانہ دریا پر جاتا اور مچھلیاں
پکڑ کراپنے بچوں کا اور اپنا پیٹ پالتا ۔کسی دن بہت ساری مچھلیاں پکڑی جاتیں تو
وارے نیارے ہو جاتے اور بعض دن تو کچھ بھی ہاتھ نہ آتا تو غریب مچھیرے اور اس کے
بچوں کو بھوکا اور پیاسا ہی سونا پڑتا۔ مچھیرے کا ایک اصول تھا کہ وہ دریا میں صرف
تین مرتبہ جال ڈالتا اگر اس میں کچھ ہاتھ لگ جاتا تو بہت خوب ور نہ واپس آجاتا ۔
اسی طرح غریب مچھیرے
کے دن گزر رہے تھے ۔ ایک دن مچھیرا دریا پر گیا اور اللہ کا نام لے کر دریا میں
جال ڈال دیا جال ایک دم بہت بھاری اور وزنی معلوم ہوا پھر بہت خوش ہوا کہ ضرور کوئی
بھاری اور موٹی سی مچھلی ہاتھ لگی ہے اور اس کو بیچ کر بہت سے روپے ہاتھ لگیں گے لیکن
جب مچھیرے نے جال باہر نکالا تو اس کی مایوسی کی انتہا نہ رہی کیونکہ جال میں مچھلیوں
کی بجائے بہت سا کیچڑ پھنسا ہوا تھا۔ اب تو مچھرا بہت مایوس ہوا اور پھر ایک مرتبہ
اور دریا میں ذرا آگے کر کے جال پھینکا۔ جال دریا کے اندر چلا گیا۔ مچھیرے نے جال
کو جھٹکا دے کر دیکھا، جال وزنی معلوم ہو رہا تھا۔ مچھیرے کی بانچھیں کھل گئیں کیونکہ
اسے بہت امید ہو چلی تھی کہ اس دفعہ جال میں بہت سی مچھلیاں ہوں گی۔
جن سے وہ گھر کا خرچہ چلا سکے گا۔ خیر اس نے زور لگا کہ جال
باہر نکالا لیکن اس مرتبہ بھی اس کی مایوسی اور غم کی انتہا نہ رہی جب اس نے دیکھا
کہ جال میں بہت سے پتھر بھرے ہوئے ہیں مچھیرا بہت دل برداشتہ ہوا لیکن پھر بھی تیسری
اور آخری مرتبہ آسمان کی طرف منہ اٹھا کر بولا " اے اللہ ! اگر آج تو چاہتا
ہے کہ میرے بچے بھوکے اور پیاسے سو جائیں تو پھر ایسا ہی سہی! یہ کہہ کر اس نے پوری
قوت سے جال کو چکر دیا اور دریا میں پھینک دیا۔ جال دریا میں جا گرا اور زور دار
آواز پیدا ہوئی اور جال دریا کے پانی میں غائب ہو گیا۔ مچھیرے نے تھوڑی دیر انتظار
کیا اور پھر آہستہ آہستہ کر کے جال کو دریا سے باہر کھینچنا شروع کر دیا لیکن اس
دفعہ جال میں وہ وزن نہیں محسوس ہو رہا تھا جو کہ پچھلی دو مرتبہ محسوس ہوا تھا
پھر بھی یہ ضرور محسوس ہو رہا تھا کہ جال میں کوئی نہ کوئی چیز ضرور موجود ہے آخر
مچھیرے نے ایک جھٹکے سے جال کو دریا سے باہر نکال لیا۔ اس نے دیکھا کہ جال میں ایک
بڑی اور چپٹی سی بوتل پھنسی ہوئی ہے۔ مچھیرے نے کچھ حیرت اور کچھ تعجب سے دیکھا۔
اس نے سوچا کہ شاید اس بوتل میں کوئی قیمتی چیز ہو۔ یہ خیال
کر کے مچھیرے نے بوتل کو جال سے نکال لیا اور اس کا ڈھکنا کھولنا چاہا لیکن ڈھکنا
بہت مضبوطی سے بند کیا گیا تھا، آسانی سے کھل نہیں رہا تھا۔ آخر مچھیرے نے زور لگا
کر جھٹکا جو دیا تو بوتل ایک دم کھل گئی اور اس میں سے دھواں نکلنے لگا مچھیرا حیران
ہو کر بوتل کو دیکھنے لگا کہ اس میں سے یہ دھواں کیسا نکل رہا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے
یہ دھواں ایک خوفناک جن کی شکل اختیار کر گیا اور وہ جن کہنے لگا "اے بادشاہ
سلیمان ! آپ مجھے معاف کر دیں آئندہ میں کبھی ایسی غلطی نہیں کروں گا۔
ماہی گیر پہلے تو
بہت خوفزدہ ہوا لیکن جن کے الفاظ سن کر وہ رک گیا۔ اس نے کہا " اے جن! مجھے
معلوم ہے کہ حضرت سلیمان کا زمانہ تو بہت پرانا تھا لیکن اب تم ان سے کس بات کی
معافی مانگ رہے ہو، کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ تم کون ہو ؟ " جن نے سُرخ سُرخ
آنکھوں سے مچھیرے کو دیکھا اور بولا " اے بے ادب ! حضرت سلیمان کا نام ذرا تمیز
سے لے اور اپنے آخری وقت جیسے یاد کرنا ہے کرلے،میں تجھے قتل کر نیوالا ہوں: ماہی
گیر بولا " بھائی ! میں نے تمہیں کیا نقصان پہنچایا ہے کہ تم مجھے قتل کرنے
پر تیار ہو گئے حالانکہ تم کئی سو سالوں سے اس جگہ بند پڑے تھے اور اب مجھے قتل کر
نا چاہتے ہو " جن نے کہا "بے شک ! تم نے مجھے رہا کیا ہے لیکن میں نے
قسم کھائی ہے جب حضرت سلیمان نے ناراض ہو کہ مجھے اس بوتل میں قید کیا۔ میں نے قسم
کھائی کہ سو سال میں جو مجھے اس بوتل سے آزاد کرے گا میں اسے بادشاہ بنا دوں گا لیکن
مجھے کسی نے اس قید سے آزاد نہیں کیا۔ پھر میں نے قسم کھائی کہ جواب دو سو سال میں
مجھے آزاد کرے گا میں ساری دنیا کے خزانے اس کے قدموں میں ڈھیر کر دوں گا لیکن پھر
بھی کسی انسان نے مجھے آزاد نہ کیا. اب میں تنگ آچکا لہذا میں نے اب قسم کھائی کہ
اب جو بھی مجھے اس بوتل سے باہر نکالے گا میں اسے قتل کر دوں گا۔ چنانچہ اب تم نے
مجھے آزاد کرایا ہے اور میں تمہیں قتل کر دوں گا۔ مچھیرا بہت پریشان ہوا کہ وہ بیٹھے
بٹھائے کس مصیبت میں پھنس گیا۔
آخر اس کے ذہن میں
ایک ترکیب آئی۔ وہ جن سے بولا ٹھیک ہے، میں تیرے ہاتھوں قتل ہونے کو تیار ہوں لیکن
پہلے تجھے یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ تم جو کہہ رہے ہو وہ سچ ہے یا جن حیران ہو کر
بولا گیا مطلب ہے تمہاری بات کا ؟ مچھیرا بولا یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ تم مجھے
قتل کرنے کے بہانے یہ کہانی سنارہے ہوا جن غصے میں آکر بولا " تمہارا مطلب ہے
میں یہ جھوٹ بول رہا ہوں اور تم مکاری کر رہا ہوں ۔ مچھیرا مکاری سے بولا " سچ
پوچھو تو مجھے یہی معلوم ہوتا ہے ور نہ سوچنے کی بات ہے کہ تمہارے جیسا بڑا جن اس
چھوٹی سی بوتل میں کس طرح آگیا، جتنی بڑی یہ بوتل ہے اس میں تو میرا ایک بھی پاؤں
نہیں آسکتا پھر تم کیسے سما گئے ، جن مزید غصے میں آکر بولا " لو یہ کون سی
بڑی بات ہے میں تمہیں اس بوتل میں پھر داخل ہو کہ دکھا سکتا ہوں، پھر تو تمہیں میری
بات کا یقین آجائے گا ۔ ہاں ! پھر مجھے تمہاری بات کا یقین آجائے گا ۔ مچھیرا سر
ہلا تا ہوا بولا لیکن اس کے بعد میں تمہیں قتل کر دوں گا کیونکہ میں قسم کھا چکا
ہوں ۔ جن نے یاد دلایا۔ مچھیرا جن کی حماقت پر دل ہی دل میں ہنستا ہوا بولا"
بالکل ٹھیک ہے، مجھے یہ بھی منظور ہے ۔ اب جن ایک مرتبہ پھر دھویں میں تبدیل ہوا
اور بوتل میں چلا گیا ۔
جن کا بوتل میں
داخل ہونا تھا کہ مچھیرے نے جلدی سے لپک کر بوتل کے اوپر حضرت سلیمان والی مہر
لگادی ۔ جن اب ایک مرتبہ پھر بوتل میں قید ہو چکا تھا۔ جب جن کو مچھرے کی چالاکی
کا علم ہوا تو وہ گڑ گڑانے لگا اے مچھیرے مجھے معاف کر دے میں تو صرف تجھے ڈرا رہا
تھا ورنہ میرا مقصد تجھے قتل کرنا نہیں تھا۔ اب مجھے باہر نکال دے میں وعدہ کرتا
ہوں کہ آئندہ کبھی انسان کو تنگ نہیں کر وں گا۔ مچھیرا کہنے لگا " تجھے معاف
نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ تو نے بالکل وہی کام کیا ہے جو ایک یونانی بادشاہ نے حکیم
لقمان کے ساتھ کیا تھا۔
کون سا کام ہے جن
نے کہا ۔ مجھے حکیم اور بادشاہ والی کہانی ضرور سُناؤ مچھیرے نے کہا میں تمہیں یہ
کہانی ضرور سناؤں گا کیونکہ وہ بادشاہ بھی تمہاری طرح احسان فراموش تھا یہ مچھیرا
تھوڑی دیر رکا اور پھر بولنے لگا۔ ایک دفعہ یونان کا بادشاہ ایک بہت خطرناک بیماری
میں مبتلا ہو گیا۔ اس نے بہت سے حکیموں اور طبیبوں سے علاج کرایا لیکن کچھ فائدہ
نہ ہوا۔ تمام حکیموں نے جواب دے دیا کہ اگر کچھ عرصہ تک بادشاہ اسی طرح بیماری میں
مبتلا رہا تو اس کی موت یقینی ہے۔
ایک دن بادشاہ کو معلوم ہوا کہ ایک حکیم لقمان ہے اس کے پاس
تقریباً ہر بیماری کا علاج موجود ہے۔ اگر بادشاہ اپنا علاج اس سے کرائے تو ضرور
صحت یاب ہو سکتا ہے ۔بادشاہ نے اپنی فوج کے آدمی روانہ کر دیتے کہ حکیم لقمان کو
اس کے دربار میں حاضر کیا جائے حکیم لقمان کو بادشاہ کے علاج کیلئے دربار میں پیش
کیا گیا۔ لقمان حکیم نے بڑی توجہ سے بادشاہ کا معائنہ کیا اور بولا آپ بالکل فکر
نہ کریں آپ کی بیماری کا علاج میرے پاس موجود ہے۔ بادشاہ خوش ہو کر بولا اگر تم میرا
علاج کرنے میں کامیاب ہو گئے تو میں تمہیں انعام سے مالا مال کر دوں گا۔ حکیم
لقمان نے جواب دیا حضور مجھے انعام کا لالچ نہیں ہے۔ میں تو بس آپ کی صحت چاہتا
ہوں۔ آپ کی بیماری کے لئے جس دوا کی ضرورت ہے اسے تیار کرنے میں چند دن لگیں گےاور
پھر اس کے استعمال سے آپ کی بیماری جاتی رہے گی۔ بادشاہ نے حکیم لقمان کو انعام دے
کر رخصت کر دیا۔
چند روز بعد حکیم
لقمان بادشاہ کے پاس ایک گیند لیکر آیا اور بولا حضور ! آپ میدان میں جا کر خوب
دوڑ لگائیں اور جب خوب تھک جائیں اور سارے جسم سے پسینہ بہنے لگے تو اس گیند کو
جسم پرمل کر نہا لیں۔ انشاء اللہ مجھے امید ہے کہ اس کے بعد آپ بالکل تندرست اورر
صحت یاب ہو جائیں گے ۔ بادشاہ نے گیند لے لی اور اس دن میدان میں خوب دورا اتنا
دوڑا کہ جسم پسینے سے شرابور ہو گیا۔ اب بادشاہ نے حکیم لقمان کی ہدایت کے مطابق
اس گیند کو جسم پر ملااور تھوڑی دیر بعد گرم پانی سے اچھی طرح نہا لیا ۔ در اصل اس
گیند میں ایک دوائی بھری ہوئی تھی جومساموں کے ذریعے جسم میں داخل ہو گئی تھی۔
غسل کرنے کے بعد بادشاہ نے اپنے جسم میں ایک نئی قوت اور
توانائی محسوس کی اور ایک آدھ روز میں اس کی بیماری مکمل طور پر ختم ہو گئی۔ اب تو
بادشاہ بہت خوش ہوا اور اس نے حکیم لقمان کو بلا کر انعام سے مالا مال کر دیا ۔
بادشاہ کا وزیر بہت کمینہ پرور تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ بادشاہ
حکیم پر بہت مہربان ہے تو اس نے بادشاہ کے کان بھرے کہ یہ حکیم مجھے دشمن کا جاسوس
معلوم ہوتا ہے۔ ہمارے ملک کے راز معلوم کرنے کے لئے اس نے آپ کی جان ہے۔
مکار وزیر نے بادشاہ کے ایسے کان بھرے کہ اس نے حکیم کو بلایااور
سپاہیوں کو حکم دیا کہ اس حکیم کا سر قلم کردو ۔ جب حکیم سے اس کی آخری خواہش پوچھی
گئی تو اس نے کہا " میرے گھر کی الماری میں ایک کتاب رکھی ہے، اسے لایا جاتے
ہیں وہ بادشاہ کو پڑھوانا چاہتا ہوں ۔ کتاب لائی گئی لیکن جب بادشاہ نے کتاب کو
پڑھنا چاہا تو اس کے صفحے جڑےہوئے تھے۔ بادشاہ نےانگلی گیلی کر کے صفحے علیحدہ
کئے۔ ہر صفحے پر زہرلگا ہوا تھا۔ یہ زہر تھوک کے ساتھ بادشاہ کے اندر چلا گیا اور
وہ تڑپ تڑپ کر مر گیا ۔ حکیم نے کہا " اگر بادشاہ مجھے مروانے کی کوشش نہ
کرتا تووہ خود نہ مرتا یہ کہانی سنا کر
مچھیرا بولا" اگر تو مجھے قتل کرنے کی خواہش نہ کرتا تو اس مصیبت میں نہ
پھنستا۔
جن اس کہانی سے بہت متاثر ہوا اور پھر حضرت سلیمان کی قسم کھا کہ بولا کہ اگر مچھیرے نے اسے یہ رہا کردیا تو وہ اسے مالا مال کر دیگا۔ مچھیرے نے جن کو رہا کر دیا۔ اس پر جن نے خوش ہو کر مچھیرے کو اس قدر دولت دی کہ اس کی کئی نسلوں کے لئے کافی تھی ۔
ختم شُد
مصیبت کے وقت گھبرانا نہیں چاہیئے..... دانشمندانہ فیصلہ 👆🌼🌼🌼😊
ReplyDeleteBahut khoob👌👌👌
ReplyDeleteKya bat hai
ReplyDeleteدلچسپ کہانی
ReplyDelete