=" Urdu Kahaniyan (AreeB): Shahzada Jan-e-Aalam

Shahzada Jan-e-Aalam

 شہزادہ جانِ عالم (کہانی)

شہزادہ جانِ عالم

پُرانے زمانے کا ذکر ہے کہ ملک یمن میں ایک بہت انصاف پسند بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ رعایا بہت خوش تھی، ہر طرف خوشحالی تھی اور لوگ اپنے بادشاہ کو دعائیں دیتے تھے ۔ یوں تو بادشاہ کو دنیا کی ہر دولت میسر تھی لیکن اس کی کوئی اولاد نہ تھی جس کی وجہ سے بادشاہ بہت اُداس رہتا تھا کہ اگر وہ مرگیا تو اس کے بعد گھر بار اور تخت تاج کا کیا بنے گا ۔

آخر بہت سی دُعاؤں اور منتوں کے بعد بادشاہ کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا۔ بادشاہ نے اس کا نام شہزادہ جان عالم رکھا۔ شہزادہ جان عالم اس قدر خوبصورت تھا کہ جو بھی دیکھتا سبحان اللہ کہہ اٹھتا۔ شہزادہ جان عالم ذرا بڑا ہوا تو اسے مختلف علوم و فنون سکھانے کے لئے بہت سے استاد مقرر کئے گئے۔ تھوڑے عرصے میں شہزادہ جان عالم اس قدر عمدہ تلوار اور نیزہ چلانا سیکھ لیا کہ جو بھی دیکھتا عش عش کر اٹھتا اور دنگ رہ جاتا کہ اتنا سالڑکا بجلی کی تیزی سے تلوار چلاتا ہے

شہزادہ جانِ عالم جب جوان ہوا تو اس کی خوبصورتی اور علم کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ در حقیقت شہزادہ جان عالم اس قدرخوبصورت تھا کہ جو بھی اسے دیکھتا دانتوں میں انگلی دبا لیتا اور کہتا کہ اس نے اس سے زیادہ خوبصورت نوجوان آج تک نہیں دیکھا۔

ایک دن شہزادہ جان عالم شہر کی سواری کو نکلا۔ اس نے دیکھا کہ ایک چوک پر لوگوں کا ہجوم لگا ہوا ہے ۔ شہزادے کو اشتیاق ہوا کہ دیکھیں کیا قصہ ہے جو اتنے لوگ اکٹھے ہو گئے ہیں۔ شہزادے نے قریب جا کر دیکھا تو ایک بہت عمر رسیدہ آدمی نظر آیا۔ اس نے ہاتھ میں ایک پنجرہ اٹھا رکھا تھا جس میں ایک طوطا تھا۔ یہ طوطا لوگوں کو بڑی شائستگی سے عمدہ عمدہ قصے اور لطیفے سنا رہا تھا، اور لوگ اس کے قصے سن کر واہ واہ کر رہے تھے ۔

شہزادہ جانِ عالم اس طوطے کو دیکھ کر رک گیا اور گھوڑے سے اُترا اور مجمع کے قریب آیا۔ شہزادے کو دیکھ طوطا چہکا" اے بھئی! مد اری آج تیری قسمت جاگ اُٹھی کہ ایک شہزادہ خود تیرے پاس چل کر آیا ہے۔ شہزادہ طوطے کے انداز بیان پر بہت خوش ہوا اور بوڑھے مداری سے پوچھنے لگا کیوں اے بزرگ ! اس طوطے کی کیا قیمت ہے ؟ مداری نے تو جواب نہیں دیا البتہ طوطا بولا " قدردان کے نز دیک شئے کی کوئی قیمت نہیں ہوتی ۔" یہ بات سن کر شہزادہ اور زیادہ متاثر ہوا اور بوڑھے مداری کو اشرفیوں سے مالا مال کر کے طوطے کو خرید لیا۔

شہزادہ طوطے کو اپنے محل میں لے آیا۔ طوطا خوب مزے مزے کی باتیں کرتا تھا، دیس دیس کے قصے سناتا رہتا تھا جنہیں شہزادہ بہت شوق سے سنتا تھا۔ شہزادہ جانِ عالم کو اپنی خوبصورتی پر بہت ناز تھا۔ ایک دن وہ نہا دھو کر نئی پوشاک پہن کر طوطے کے پاس آکھڑا ہوا جس نے بھی اسے دیکھا اس کی خوبصورتی کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکا مگر طوطا چپ رہا اس نے کچھ نہ کہا۔ آخر شہزادے سے نہ رہا گیا وہ بولا : کیا بات ہے ؟ اےطوطے ! تم نے میری تعریف میں کچھ نہیں کہا ؟ طوطے نے جواب دیا " حضور ! آپ بے شک بہت حسین ہیں لیکن میں پھر بھی اس بارے میں کچھ کہنا نہیں چاہتا کیوں کہ آپ برا مان جائیں گے۔"  شہزادے نے جلدی سے کہا " تم کہو، یقین مانو ہم قطعاً ناراض نہیں ہوں گے؛ طوطا بولا " حقیقت معلوم کرنا چاہتے ہیں تو وہ یہ ہے کہ اگر میں نے دنیا میں کسی کو حسین دیکھا ہے تو وہ شہزادی حسن آرا ہے۔ اس کا حسن دیکھ کر تو چاند سورج شرما جاتے ہیں، پریوں کا رنگ رُوپ پھیکا پڑ جاتا ہے۔ شہزادی حسن آرا کی کنیزیں بھی اس قدر خوبصورت ہیں کہ کوئی عام عورت انہیں دیکھ لے تو حسد کے مارے جل جائے۔"



طوطے نے شہزادی حسن آرا کے بارے میں اس قدر تعریفیں کیں کہ شہزادہ بے چین ہو گیا اور فیصلہ کر لیا کہ وہ شہزادی حسن آرا کو ضرور دیکھے گا۔ شہزادہ جانِ عالم نے طوطے سے پوچھا کیا تم شہزادی حسن آرا کے ملک کا راستہ جانتے ہو ؟" طوطے نے جواب دیا " میں تمام راستہ جانتا ہوں اور آپ کو وہاں لے جا سکتا ہوں لیکن میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ وہاں جانے کا فیصلہ نہ ہی کریں تو بہتر ہے کیونکہ شہزادی حسن آرا کے ملک کا راستہ بہت دشوار گزار ہے اور راستہ میں اس قدر مشکلات ہیں کہ جان کا بھی خطرہ ہے ۔ لیکن شہزادہ جان عالم کے سر پر شہزادی حسن آرا کو دیکھنے کا اس قدر شوق سوار تھا کہ اس نے فیصلہ کر لیا کہ چاہے اس سفر میں اسے کتنی ہی مشکلات کیوں نہ پیش آئیں وہ اس سفر پر روانہ ضرور ہو گا۔ آخر ایک دن شہزادہ اپنے چند جانثاروں اور اس طوطے کو لیکراس سفر پر روانہ ہو گیا۔ ان کا قافلہ طوطے کی بتائی ہوئی سمت کی طرف تیزی سے اُڑا جا رہا تھا۔ اچانک شہزادے کو سامنے سے دو تین نہایت خوبصورت ہرن دوڑتے نظر آئے۔ شکار کا شوق تو شہزادے کو شروع سے تھا۔ اس نے اپنے آدمیوں کو اشارہ کیا اور انہوں نے اپنے گھوڑے ہرن کے پیچھے ڈال دیئے۔ طوطے نے لاکھ منع کیا شور مچایالیکن کسی نے اس کی ایک نہ سنی ۔

 اسی بھاگ دوڑ میں وہ ایک دوسرے سے جدا ہو گئے اور راستہ بھٹک کر کہیں سے کہیں نکل آتے۔ اب جو شہزادہ جانِ عالم نے دیکھا تو نہ اس کے ساتھی ساتھ تھے اور نہ ہی بولنے والا طوطا ۔ وہ ایک ویران جنگل میں کھڑا تھا۔ تھوڑی دیر تک تو وہ کھڑا سوچتا رہا کہ کیا کرے پھر اللہ کا نام لے کر ایک طرف چل پڑا۔ ابھی وہ تھوڑی دور گیا تھا کہ اسے ایک باغ نظر آیا۔ شہزادہ اس باغ میں داخل ہو گیا۔ اس نے دیکھا کہ سامنے بارہ دری میں ایک عورت بیٹھتی ہے اور بہت سی کنیزیں اس کے گھر دکھڑی ہیں۔ اس باغ میں بہت خوبصورت پرندے چہچہاتے پھر رہے تھے۔ درخت پھلوں سے لدے ہوئے تھے شہزادے نے عجیب ماجرا دیکھا کہ وہاں موجود جو بھی شخص پھل کھانے  کی خواہش کرتا ہے پھل خود بخود اس کے منہ کے قریب چلا جاتا اور اسے ہاتھ بڑھانے کی ضرورت نہ پڑتی۔ شہزادہ بارہ دری کے قریب چلا گیا۔ بارہ دری میں بیٹھی عورت شہزادے کو دیکھ کر بولی: "آؤ شہزادہ جان رُک کیوں گئے۔ مجھے مدتوں سے تمہارا انتظار تھا اور آج میرا جادو تمہیں کھینچ لایا۔"

شہزادہ جانِ عالم نے سوال کیا " تم کون ہو ؟" میں جادو گروں کے بادشاہ شہر یال کی بیٹی ہوں اور تم سے شادی کرنا چاہتی ہوں، میری بہت بڑی سلطنت ہے تم ساری عمر عیش و آرام سے رہو گے ۔ شہزادے نے کہا " میں شہزادی حسن آرا کی تلاش میں نکلا ہوں اور میں کسی بھی صورت تم سے شادی نہیں کر سکتا ، جادو گر شہریال کی بیٹی نے کہا " تم حسن آرا کا خیال چھوڑ دو اور میرے ساتھ رہو میں دُنیا کی ہر نعمت تمہارے لئے حاضر کروں گی ! جان عالم نے مضبوط لہجے میں کہا۔ یہ کبھی نہیں ہو سکتا یہ جادوگر شہریال  کی بیٹی غصے سے زمین پر پاؤں پٹخ کر بولی تو پھر ٹھیک ہے، تمام عمر اسی باغ میں سڑتے رہو ۔ جب تک تم میری بات نہیں مانو گے اسی باغ میں قیدر ہو گئے اتنا کہہ کہ جادوگر شہریال کی بیٹی اپنی کنیزوں کے ساتھ باغ سے چلی گئی۔ اس کے بعد شہزادہ جانِ عالم نے باغ سے باہر نکلنے کی کوشش کی لیکن کوئی دروازہ نہیں ملا، دیوار پھلانگنے کی کوشش کی تو دیواریں اونچی ہوگئیں ۔ شہزادہ اندر باغ میں پھر تار ہا پھر تھک کے ایک درخت کے نیچے سو گیا ۔ اس نے خواب میں دیکھا کہ ایک بزرگ کہ رہے ہیں۔ بیٹا اُٹھ کر اس درخت کے نیچے زمین کھودو، تمہاری تمام مشکلات حل ہو جائیں گی۔

اتنی دیر میں شہزادے کی آنکھ کھل گئی اور اس نے اللہ کا نام لے کر درخت کے نیچے زمین کھودنی شروع کر دی۔ ابھی تھوڑی زمین کھودی تھی کہ ایک تختی نکل آئی جس پر لکھا تھا، اگر کوئی کسی جادو گر کے چنگل میں پھنس جائے تو ایسے یہ اسم پڑھنا چاہئے۔ شہزادہ جان عالم نے سختی کے نیچے لکھا ہوا اسم یاد کر لیا تختی کو جیب میں ڈالا اور اسم پڑھتا ہوا باغ کی دیوار کی جانب چل پڑا۔ جیسے ہی دیوار کے قریب پہنچا دیوار میں خود بخود راستہ پیدا ہو گیا۔ شہزادہ آرام سے باہر نکل آیا اور چل پڑا۔ کئی مہینے سفر کر تا رہا ۔ آخر اسے دور سے ایک محل چمکتا ہوا نظر آیا۔ شہزادہ جانِ عالم ادھر ہی چل پڑا۔ جلد ہی وہ اس شہر میں داخل ہو گیا لیکن شہزادے نے ایک عجیب بات یہ دیکھی کہ شہر کے ہر آدمی نے سیاہ رنگ کا لباس پہن رکھا ہے اور ہر شخص اُداس اور افسردہ ہے ۔ آخر شہزادہ جانِ عالم نے ایک آدمی کو روک کر پوچھا " بھائی یہ کون سا مقام ہے ؟" اس آدمی نے سر سے پاؤں تک شہزادے کا جائزہ لیا اور پھر بولا اس ملک کو " زرنگار "کہتے ہیں ۔ شہزادہ جان عالم نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا۔ کیوں کہ شہزادی حسن آرا زرنگار ملک کی شہزادی تھی ۔ اور آخر کار وہ شہزادی حسن آرا کے ملک میں پہنچ گیا تھا۔ اس نے پوچھا آخر آپ لوگوں نے یہ سیاہ رنگ کے ماتمی لباس کیوں پہن رکھے ہیں ؟   اُس آدمی نے جواب دیا " بات دراصل یہ ہے کہ ایک جادو گر ہمارے ملک کی شہزادی کو اُٹھا کر لے گیا ہے جب سے تمام ملک نے سیاہ ماتمی لباس پہن رکھا ہے اور بادشاہ ملکہ سمیت تمام رعایا اُداس ہے۔

 شہزادی حسن آرا کے بارے میں سُن کر شہزادے کا رنگ اُڑ گیا۔ پھر وہ حوصلے سے کام لیتا ہو ا بولا: کیا تم بتا سکتے ہو یہ جادو گر شہزادی کو لے کر کہاں گیا ہے اس کا ٹھکانہ کون سا ہے ؟ " اس آدمی نے جواب دیا: یہاں سے چار پانچ کوس سفر کر و تو چاروں طرف آگ نظر آئے گی۔ اس آگ کے درمیان ایک قلعہ ہے اس قلعے میں ہی وہ منحوس جادوگر رہتا ہے ۔ جو بھی اس جادوگر کی تلاش میں گیا پھر زندہ واپس نہیں آیا ۔ اتنا کہہ کر وہ تو آگے چل پڑا اور شہزادہ جان عالم نے جادوگر کے قلعہ کی جانب اپنا گھوڑا ڈال دیا۔ چار پانچ کوس سفر کرنے کے بعد اسے ایک قلعہ نظر آیا جو چاروں طرف سے آگ میں گھرا ہوا تھا اور اس سے آگے جانے کا راستہ نظر نہیں آتا تھا۔ شہزادہ جان عالم نے دیکھا کہ ایک ہرن اس آگ میں سے اچھلتا ہے اور پھر دوبارہ آگ میں غائب ہو جاتا ہے شہزادہ جانِ عالم نے جیب میں سے طلسمی تختی نکال کر دیکھی لکھا تھا اس ہرن پر تیر سے نشانہ لگا ؤ  اگر درست بیٹھا تو جادوگر کا یہ سارا طلسم خانہ تباہ ہو جائے گا ورنہ تم خود مارے جاؤ گے۔ شہزادے نے کمان میں تیر چڑھایا اور  جیسے ہی ہرن اچھلا شہزادے نے نشانہ لے کر تیر چھوڑ دیا۔ تیر ہرن کو جاکر لگا ایک دم ہر طرف شور مچا اور اندھیرا چھا گیا۔ جب اندھیرا ختم ہوا تو شہزادے نے دیکھا کہ تمام قلعہ اور آگ غائب ہے۔ تھوڑے فاصلے پر ایک بھیانک صورت جادو گر کی لاش پڑی ہے اور قریب ہی گھٹنوں میں سر دئیے ایک لڑکی بیٹھی ہے یہ شہزادی حسن آرا تھی، شہزادہ اس کے قریب چلا گیا شہزادی سمجھ گی کہ یہی شخص ہے جس نے مجھے اس مصیبت سے نجات دلاتی ہے۔

شہزادہ جانِ عالم نے شہزادی حسین آرا کو گھوڑے پر بٹھایا اورواپس اس کے شہر لے آیا۔ جب شہزادی حسن آرا کے باپ کو شہزادہ جان عالم کے کارنامے کے بارے میں پتہ چلا تو اس قدر خوش ہوا کہ اس نے شہزادی حسن آرا کی شادی شہزادہ جانِ عالم کے ساتھ کر دی اور اپنا ملک بھی اس کے سپرد کر دیا ۔

ختم شد

انتخاب: نوشاد علی ریاض احمد۔

#Shahzada Jan-e-Aalam #Selection # AreeBTLM #naushadali19881

7 comments:

Bhoton Ki Shahezadi

انتخاب : انصاری اریب نوشاد علی۔ بھوتوں کی شہزادی پچھلے زمانے میں ملک شام پر ایک بادشاہ پرویز حکومت کرتا تھا۔ اس بادشاہ کا ایک ہی بیٹا تھا ش...