=" Urdu Kahaniyan (AreeB): Magroor Shahzadi

Magroor Shahzadi

❤❤ مغرور شہزادی❤❤

پیارے بچّو!

    بہت پُرانے زمانے کی بات ہے ملک فارس پر ایک راجہ حکومت کرتا تھا۔ اس راجہ کی ایک بہت ہی خوبصورت بیٹی تھی۔ لمبے سنہرے بال ، نیلی آنکھیں اور رنگ ایسا گورا تھا کہ پورے ملک میں اُس سےزیادہ خوبصورت لڑکی موجود نہ تھی۔ شہزادی ہونے کے علاوہ وہ بڑی عقل مند تھی۔ راجہ رانی اُس سے بہت پیار کرتے اور اُس کی ہر خواہش پوری کرتے ۔

        چاہیے تو یہ تھا کہ شہزادی اللہ کا شکر بجا لاتی ، مگر وہ مغرور ہوگئی۔ کئی ملکوں کے شہزادے اس سے شادی کی خواہش لے کر آئے مگر شہزادی نے سب کو ٹھکرا دیا۔

    اب تو راجہ رانی بھی پریشان ہوگئے اُنھوں نے پوری کوشش کی کہ کسی طرح شہزادی شادی کے لیے رضا مند ہوجائے مگر ہر شہزادے میں کوئی نہ کوئی عیب نکال دیتی۔ خاصی مدّت تک یہی چکر چلتا رہا۔ آخر کار راجہ رانی کے اصرار سے مجبور ہوکر شہزادی شادی کے لیے رضامند ہوگئی۔ مگر اُس نے ایک شرط رکھی کہ جو شخص میرے پانچ سوالوں کا جواب دے گا میں اُس سے شادی کروں گی اور جو میرے سوالوں کا درست جواب نہ دے سکے گا اُسے پھانسی دے دی جائے گی۔

    اعلان کرا دیا گیا بہت سے شہزادے آئے لیکن اُنہیں پھانسی کا پھندہ ہی گلے میں ڈالنا پڑا۔ کوئی سوالوں کے صحیح جواب نہ دے سکا ۔ ملک فارس میں ایک نوجوان لکڑہارا بھی رہتا تھا۔ وہ بڑا ایمان دار اور سچا انسان تھا۔ ایک دن وہ گاؤں سے لکڑیاں بیچنے شہر آیا تو شہر کے دروازے پر ایک اشتہار لگا دیکھا ۔ جس میں شہزادی کی شرط کا حال لکھا ہوا تھا۔ لکڑہارے نے شہزادی کی شرط غور سے پڑھی اور محل پہنچ گیا۔

       دربان نے جب ایک غریب نوجوان کو دیکھا تو کڑک کر بولا ،

 ’’ ابے کہاں چلا جا رہا ہے ، یہ شاہی محل ہے کوئی سرائے نہیں ہے ۔‘‘

لکڑہارے نے کہا ، ’’ مجھے معلوم ہے بھائی میں تو شہزادی کے سوالوں کے جواب دینے آیا ہوں ۔‘‘  کیا۔۔۔۔! دربان چلایا۔ بڑے بڑے عقل مند شہزادے جو کام نہ کر سکے تم کس طرح کرلو گے۔ جاؤ میاں اپنا راستہ ناپو۔ کیوں مُفت میں اپنی جان گنواتے ہو۔ 

لکڑہارے نے اصرار کیا تو دربان نے اندر جانے کی اجازت دے دی۔ دربار سجا ہوا تھا ۔ راجہ تخت پر بیٹھا تھا اس کے ساتھ رانی اور شہزادی بھی تھیں ۔ لکڑہارے نے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا تو شہزادی کھِلکھلا کر ہنس پڑی اور بولی،

’’ تم میرے سوالوں کے جواب دو گے؟‘‘ 

’’ہاں‘‘  لکڑہارے نے بڑے تحمل سے جواب دیا۔ ’’ اگر میں جوا ب نہ دے سکا تو آپ مجھے پھانسی پر لٹکا دیجیے گا۔‘‘

’’اچھا‘‘! شہزادی بولی۔

’’ تو سنو! میرا پہلا سوال یہ ہے کہ شاہی ہاتھی کا وزن کتنا ہے؟‘‘

بچّو! اُس زمانے میں بڑے بڑے ترازو تو ہوتے نہیں تھے اس لیے ہاتھی کا وزن کیسے ہوتا ۔؟؟

بہرحال لکڑہارا یک دن کی مہلت لے کر آگیا دن بھر وہ سوچتا رہا۔ 

        آخر ایک ترکیب اس کے ذہن میں آگئی۔ اُس نے شاہی محل سے ہاتھی کو لیا اور دریا پر پہنچ گیا۔ ہاتھی کو ایک بڑی کشتی میں سوار کیا۔ اُس کے وزن سے کشتی کا کچھ حصّہ پانی میں ڈوب گیاتو لکڑہارے نے ڈوبتے ہوئے حصّہ پر نشان لگا کر ہاتھی کو کشتی سے اُتار دیا۔ اب لکڑہارے نے کشتی میں ریت بھرنی شروع کی اور جب کشتی ریت کے وزن سے اس نشان تک پانی میں ڈوب گئی جتنی ہاتھی کے وزن سے ڈوبی تھی تو لکڑہارے نے ریت کا وزن کرنا شروع کر دیا۔ اس طرح ہاتھی کا وزن معلوم کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ 

اگلے دن لکڑہار اشاہی دربار میں حاضر ہوا اور شہزادی سے کہا ، ’’ آپ کے ہاتھی کا وزن چالیس من ہے ۔‘‘  شہزادی نے پوچھا،

’’ تم نے وزن کیسے معلوم کیا ؟؟؟‘‘ لکڑہارے نے ساری بات بتا دی ۔ درباری اور راجہ لکڑہارے کی ذہانت دیکھ کر عش عش کر اُٹھے۔

شہزادی نے کہا ، تم نے پہلا سوال حل کرلیا ۔ اب دوسرا سوال یہ ہے کہ ایک من وزنی پتھر کو پھُونکوں سے اُڑا دو۔

یہ سوال سُن کر لکڑہارے کا دماغ گھوم گیا ۔ بھلا ایک من وزنی پتھر پُھونکیں مار کر کس طرح اُڑایا جا سکتا ہے۔؟بہر حال ایک دن کی مہلت لے کر چلا آیا اور سوچنے لگا کہ کیا کیا جائے؟لکڑہارا بڑا با ہمت تھا، وہ مایو س نہ ہوا ۔ انسان کو چاہیے وہ کبھی مایوس نہ ہو۔ مایوسی گُناہ ہے ہمیشہ انسان کو ہر مسئلے پر غور کرنا چاہیے کوئی نہ کوئی حل نکل آتا ہے۔لکڑہارے نے جب ٹھنڈے دل سے سوچاتو جواب ڈھونڈ لیا۔ اگلے روز وہ ایک ہتھوڑا لے کر شاہی محل پہنچ گیا اور بولا

شہزادی صاحبہ ! ایک من وزنی پتھر کہاں ہے ۔؟فوراً پتھر منگوایا گیا ۔ لکڑہارے نے ہتھوڑے سے پتھر کے ٹکڑے ٹکڑے کیے پھر ان ٹکڑوں کو پیس کر سُفوف سا بنا لیا اور اُسے پُھونکوں سے اُڑا دیا۔یوں تو شہزادی کا دوسرا سوال بھی حل ہوگیا۔ اب شہزادی نے تیسرا سوال پوچھا۔ ’’ بتاؤ، دنیا میں سب سے قیمتی اور مال دار چیز کیا ہے؟‘‘

لکڑہارے نے کہا ، ’’ اس کا جواب تو بہت آسان ہے سب سے مال دار شئے زمین ہے کیونکہ وہ ہمیں ضرورت کی ہر چیز فراہم کرتی ہے۔ زمین سے ہم اناج حاصل کرتے ہیں ۔ اُ س میں درخت اُگاتے ہیں اور زمین کھود کر ہی پانی حاصل کرتے ہیں ۔‘‘

سارے درباری واہ واہ کر اُٹھے ، شہزادی نے تیسرے سوال کا درست جواب پا کر کچھ پریشان ہوگئی۔ پھر اپنا چوتھا سوال پوچھا،   بتاؤ وہ کون سا جرم ہے جسے کرتے وقت انسان پکڑا جائے تو اُسے سزا ملتی ہے لیکن اگر وہ جرم کر لے تو پھر کوئی اُسے سزا نہیں دے سکتا۔‘‘ 

بڑا مشکل سوال تھا، لکڑہارا ایک دن کی مہلت لے کر واپس آگیا ۔ اُسے نیند بھی نہیں ۔ وہ سوچتا رہا آخراُس کے ذہن نے اس سوال کا جواب بھی ڈھونڈ ہی لیا۔ اگلے دن جب لکڑہارا شاہی دربار پہنچا تو شہزادی نے مسکرا کر کہا، ’’ ذرا بتاؤ تو ہمارے چوتھے سوال کا جواب کیا ہے؟‘‘ شہزادی کا خیال تھا کہ لکڑہارا اتنے مشکل سوال کا جواب نہ دے پائے گا۔ وہ خود کو بہت عقل مند سمجھ رہی تھی ۔ لیکن یہ بات بھول گئی تھی کہ غرور کا سر نیچا ہوتا ہے۔لکڑہارے نے کہا ، 

’’شہزادی صاحبہ! میں نے ڈھونڈ لیا ہے اور وہ جرم  "خودکُشی"  ہے ۔ اگر کوئی انسان خود کشی کرتا پکڑا جائے تو اُسے سزا دی جاتی ہے ۔کیونکہ اسلا م میں خود کشی حرام ہے لیکن اگر انسان خود کشی کر کے مرجائے تو مردے کوکون سزا دے سکتا ہے۔‘‘

دربار تو واہ واہ کی آواز سے گونج اُٹھا ۔ رانی نے بھی خوشی سے تالیاں بجائیں۔ راجہ نے لکڑہارے کی پیٹھ ٹھونکی۔ شہزادی کے چار سوالوں کا جواب مل چکا تھا ۔ اب صرف ایک سوال باقی تھا  اگر لکڑہارا اُس کا جواب بھی دے دیتا تو اس نے شرط جیت جانا تھی۔ شہزادی نے اپنا پانچواں اور آخری سوال کیا ۔ اُس نے ایک ہی لباس میں دس آدمی بلوائے اور کہا ،’’ بتاؤ ان میں سے کون کون غلام ہے اور کون وزیر زادے ہیں۔‘‘

لکڑہارے نے سب کے چہروں کو غور سے دیکھا ۔ ان کے لباس دیکھے مگر کچھ معلوم نہ کرسکا  وہ سب ایک جیسے لگتے تھے ۔ لکڑہارے نے کچھ سوچ کر پانی لانے کو کہا ، پانی آگیا تو لکڑہارے نے آٹھوں آدمیوں کو ہاتھ دھو نے کا حکم دیا ۔ ویسا ہی کیا گیا جونہی وہ ہاتھ دھو کر فارغ ہوئے لکڑہارے نے تین آدمیوں کو پکڑ کر ایک طرف کردیا اور کہا ۔’’ یہ تین وزیر زادے ہیں اور باقی غلام ہیں۔‘‘

بالکل صحیح جواب تھا ۔ شہزادی نے پوچھا ،’’ تم نے یہ کس طرح معلوم کیا ؟‘‘

لکڑہارا ہنس کر بولا ، ’’ جو وزیرزادے تھے اُنہوں نے امیرانہ طریقے سے ہاتھ دھوئے جب کہ غلاموں نے غلاموں نے صرف انگلیاں ہی گیلی کی تھیں۔‘‘ شہزادی نے اپنی شکست تسلیم کر لی لکڑہارے نے اپنی ذہانت سے اُس کا غرو ر توڑ دیا تھا ۔ اِسی لیے تو کہا گیا ہے کہ کبھی غرور نہ کریں  اللہ تعالیٰ مغرور انسان کو پسند نہیں کرتا ۔ اور ہاں ایک بات اور یاد رکھیں کبھی مایوس نہ ہوں کتنے ہی بُرے حالات ہوں اُمید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور خدا پر بھروسہ رکھیں۔ 

۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔۔۔

#UrduStory #Free#AreeBTLM



11 comments:

Bhoton Ki Shahezadi

انتخاب : انصاری اریب نوشاد علی۔ بھوتوں کی شہزادی پچھلے زمانے میں ملک شام پر ایک بادشاہ پرویز حکومت کرتا تھا۔ اس بادشاہ کا ایک ہی بیٹا تھا ش...