=" Urdu Kahaniyan (AreeB): Aadam Khor Sher

Aadam Khor Sher

🌲 آدم خور شیر⚠

اریب کے والد ملک کے سب سے بڑے اور ماہر شکاری تھے۔ اریب کو بھی بچپن سے ہی شکار کا شوق تھا۔ جب وہ چودہ برس کا ہوا تو اس کے والد بنگلہ دیش کے جنگلوں میں شکار کھیلتے ہوئے ہلاک ہوگئے ، اُن کی ہلاکت کا سبب وہ آدم خور شیر تھا ۔ جس نے پورے علاقے میں دہشت پھیلارکھی تھی۔ اریب کی والدہ بچپن میں ہی فوت ہوچکی تھی۔ اب وہ اس دنیا میں اکیلا رہ گیا تھا۔ 

اس نے فیصلہ کیا کہ اُس آدم خور سے انتقام لے گا جس نے اُس کے والد کو ہلاک کر کے اُن کی لاش کو کھایا۔ جنگل کے قریبی گاؤں کے لوگوں نے اریب کے وہاں پہنچنے سے پہلے اُس کے باپ کی آدھی کھائی لاش دفنا دی تھی۔ جب اریب وہاں پہنچا تو اپنے باپ کی قبر سے لپٹ کر خوب رویا۔ 

بستی کا سردار ،اریب کو اپنے گھر لے گیاوہاں اُسے کھانا کھلایا اور پھر اُس کے باپ کی رائفل اریب کے حوالے کرتے ہوئے بولا ،’’ یہ رائفل اُس مقام پر پڑی ہوئی ملی جہاں سے آدم خور تمہارے باپ کی لاش  کو گھسیٹتاہوا اپنی کچھار میں لے گیا تھا۔‘‘

رائفل دیکھ کر اریب ایک بار پھر رو پڑا ۔ اُس نے رائفل چوم کر ایک قسم کھائی کہ جب تک وہ اپنے باپ کا انتقام نہیں لے گا اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے گا۔ اس نے سردار سے کہا،’’ آپ مجھے آدم خور کے متعلق کچھ بتائیں تاکہ اُسے ڈھونڈ نے میں مجھے دشواری نہ ہو۔‘‘

سردار نے کہا ،’’ اریب بیٹے ، ابھی تم بچّے ہو جس آدم خور کو تمہار اباپ شکار نہ کرسکا اُسے تم کیسے ہلاک کر سکو گے‘‘

’’جناب! یہ آپ کی غلط فہمی ہے کہ میں آدم خور کو ہلاک نہ کرسکوں گا۔‘‘ اریب نے کہا ، میں شکاری کا بیٹا ہوں اور اچھی طرح جانتا ہوں شکار کس طرح کیا جاتا ہے۔ آپ مجھے صرف اتنا بتادیں کہ وہ آدم خور  کب سے اس جنگل میں رہ رہا ہے۔ اس کی پہچان کیا ہے اور وہ جنگل کے کس حصّے میں رہتا ہے،پھر وہ آدم خور جانے اور میں۔‘‘اریب کی ضد دیکھ کر سردار کو وہ سب بتانا پڑاجو اریب معلوم کرنا چاہتا تھا۔اُس نے کہا ،

’’ آدم خور شیر ایک ماہ پہلے آدم خور بنا تھا۔ جب ایک شکاری نے اُس کی مادہ کو ہلاک کیا تو شیر نے اُس شکاری کو ما ر ڈالا او راُس کے خون سے اپنی پیاس بجھائی ، بس انسانی خون اور گوشت کا مزہ چکھتے ہی اُس نے جنگلی جانوروں کو غذا بنانا چھوڑ دیا اور انسانوں پر حملے کرنے لگا۔ جنگل کے ارد گرد بستیو ںمیں اُس کی دہشت پھیل گئی اور لوگوں نے رات کے وقت گھروں سے نکلنابند کردیا، کیونکہ آدم خور رات کے اندھیرے میں ہی بستی کا رُخ کرتا تھا۔‘‘

پھر کئی شکاری اُسے ہلاک کرنے کے لیے آئے مگر آد م خور ان کے ہاتھ نہ آیا۔ دس بارہ شکاری اُس کی غذا بن چکے تھے۔ جب تمہارے والد صاحب یہاں آئے ۔ ایک ہفتے کی مسلسل کوشش کے بعد تمہارے باپ نے اُس کی ٹانگ زخمی کی تھی۔ زخم بھرنے کے بعد آدم خور نے دوبارہ بستوں پر حملہ شروع کر دیے۔ آخر کار تمہارا باپ بھی اُس کا شکار ہوگیا۔ میرا مشورہ ہے کہ اب بھی اپنا ارادہ بدل دو اور اپنے گھر واپس چلے جاؤ۔ ابھی تمہارے کھیلنے کودنے کے دن ہیں۔

سردار نے آخر میں کہا ،

مگر اریب جو فیصلہ کر چکا تھا وہ اٹل تھا اُس کے مرحوم والد کا کافی سارا سامان سردار کے پاس رکھا تھاجس میں کارتوسوں کے علاوہ ایک ٹارچ، ایک لمبا خنجر نما شکاری چاقو  اور ایک دوربین تھی۔ دور بین جنگل میں کام نہیں دے سکتی تھی ،البتہ باقی چیزیں اریب نے ساتھ لے لیں اور صبح سویرے اُٹھ کر جنگل کی طرف چل پڑا۔

اریب جنگل کے قریب پہنچ گیا ۔ وہ رائفل ہاتھ میں تھامے بلا خوف وخطر آگے بڑھتا رہا۔ یہاں چند ہڈیاں بکھری ہوئی تھیں۔ جن کے ساتھ کپڑے کی دھجیاں اُلجھی ہوئی تھیں۔

زمین پر خون کو دیکھ کر معلوم ہوتا تھا آدم خور نے آج ہی حملہ کیا ہے ۔ وہ قریب بھی ہوسکتا تھا اور دُور بھی۔ 

اس لیے اریب نے اُس کے پاؤں کے نشانات تلاش کرنے کی کوشش کی۔ ایک جگہ اُسے پنجوں کے نشان مل ہی گئے۔ وہ اُن نشانات کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ 

اچانک جنگل خوفناک دھاڑ سے گونج اُٹھا ۔ وہ دھاڑ آدم خور شیر کے سوا کس کی نہیں ہو سکتی تھی۔ اس لیے اریب پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا تھا۔ اچانک ایک جھاڑی میں سرسراہٹ ہوئی اور اریب ایک دم رُک گیا۔ اُس نے رائفل کا رُخ جھاڑی کی طرف کر دیا۔ چند منٹ اسی طرح گزر گئے ۔ پھر دوبارہ جھاڑی میں حرکت ہوئی اور ایک خرگوش اُس جھاڑی سے نکل کر دوسری جھاڑی میں جا گُھسا۔اریب بے اختیار ہنس پڑا اور دوبارہ آگے بڑھنےلگا۔کچھ دور جانے کے بعد وہ رُک گیا۔ دفعتاً اُس کی نگاہ زمین پر پڑی اور وہ چوکنّا ہوگیا۔

زمین پر شیر کے پنجوں کے نشانات بنے ہوئے تھے۔ اچانک ایک جھاڑی میں حرکت محسوس ہوئی ۔ اریب نے رائفل کی نالی اُسی طرف کرکے لبلبی پر اُنگلی رکھ دی ۔ جھاڑی میں یقیناً شیر ہی تھا ۔ چند لمحے اسی طرح گزر گئے۔ اور اچانک شیر نے جھاڑی سے اریب پر چھلانگ لگادی۔ اُس نے فوراً فائر کر دیا۔ مگر گولی شیر کو نہ لگ سکی۔ شیر اریب کی ٹانگ پر اپنا پنجہ مارتا ہوا آگے نکل گیا۔اریب نے تکلیف کے باوجود مڑ کر شیر پر دوسرا فائر کردیا۔ وہ بچ کر جھاڑیوں میں گھس کر نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ 

اُس نے جھاڑیوں کو کھنگال ڈالا۔ مگر شیر وہاں ہوتا تو ملتا۔ وہ تو نہ جانے کہاں غائب ہوگیا تھا۔ اریب کے گوشت کا ایک ٹکڑا اُتر چکا تھا اور زخم سے فوارہ کے مانند خو ن نکل رہا تھا ۔ اُس نے جیب سے رومال نکال کر زخم پر باندھا۔ زخمی حالت میں اُس کا پیچھا کرنا فضول تھا۔ اس لیے اریب لنگڑاتا ہوا جنگل سے نکلا اور بستی کی طرف چل پڑا۔

بستی کے سردار غلام علی نے ایک بار پھر اُسے سمجھانے کی کوشش کی مگر اریب تو آدم خور کو ہلاک کرنے کا تہہ کئے ہوئے تھا۔ اریب کو افسوس تھا کہ اُس کے صحت یاب ہونے تک آدم خور دو ؍۲ بے گناہ انسانوں کو چٹ کر گیا تھا۔ زخمی ہونے کے چوتھے دن اُس نے رائفل اور کارتوس کی پیٹی سنبھالی اور جنگل کی طرف چل دیا۔ دوپہر تک اس نے سارا جنگل کھنگال ڈالا۔ مگر آدم خور کا کہیں نشان نہ ملا ۔ آخر کار ہار کر اریب ایک درخت کے تنے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ ساتھ لایا ہوا کھانا نکال کر کھایا ۔ چند منٹ آرام کیا اور پھر دوبارہ شیر کو تلاش کر نے لگا۔ 

گھومتے گھومتے وہ تالاب پر پہنچ گیا اُس وقت وہاں دو بندر ، ایک ہرن اور تین لومڑیاں پانی پی رہی تھیں۔ اریب کو دیکھتے ہی وہ سب بھاگ کر درختوں میں روپوش ہوگئے۔اریب نے تالاب سے پانی پیا ۔ پانی بے حد میلا تھا۔ مگر مجبوری تھی ۔ وہ صبح سے پیاسا تھا۔ پانی پینے کے بعد اُس نے ادھر اُدھر دیکھا فوراً ہی اُس کے ذہن میں ایک خیال آیا کہ شاید آدم خور پانی پینے اِدھر آنکلے۔

تالاب ایک ایسی جگہ تھی جہاں جنگل کا ہر جانور بلا ناغہ پانی پینے آتا تھا۔ جنگل میں یہ واحد تالاب تھا۔وہ کچھ سوچ کر تالاب کے کنارے ایک اونچے درخت پر چڑھ گیا اور خود کو گھنی شاخوں میں چھپا کر آدم خور کے آنے کا انتظار کرنے لگا۔شا م ہوئی تو کئی جانور وہا ں پانی پینے آئے۔ مگر یہ سب بے ضرر جانور تھے۔ اریب کو تو آدم خور شیر کا انتظار تھا۔ جو ابھی تک نہیں آیا تھا۔

اب ہر طرف اندھیرا پھیل چکا تھا ۔ درختوں سے چھن کر آتی ہوئی چاند کی روشنی تالاب میں پڑ رہی تھی اور اس کے عکس سے وہاں ہلکی ہلکی روشنی پھیل رہی تھی۔ رات آہستہ آہستہ گزرنے لگی اور اس طرف اریب کو نیند نے تنگ کیا مگر وہ ہمّت کر کے شیر کاانتظار کرنے لگا اور نیند کی بالکل پرواہ نہ کی۔

مگر ٹھیک آدھی رات کو شیر کی زبردست دھاڑ بلند ہوئی اور اریب ہوشیار ہو کر بیٹھ گیا۔ رائفل کارُخ اُس نے تالاب کی طرف کر دیا۔ تھوڑی دیر بعد دوبارہ شیر دھاڑا۔ اس بار آواز قریب سے ہی آئی تھی۔ چند لمحے بعد آدم خور شیر بڑے وقار سے چلتا ہوا تالاب کے کنارے پہنچا ۔ مگر وہ منہ اُٹھا کر ادھر اُدھر دیکھ رہاتھا۔ شاید اُس نے کسی انسان کی بو محسوس کر لی تھی۔ اریب دم سادھے اس پر نظریں جمائے بے حس و حرکت بیٹھا تھا۔ شیر نے اطمینان سے پانی پیا ۔ پھر جونہی وہ مڑا۔ اریب نے فائر کردیا۔ اس بار گولی سیدھے آدم خور شیر کی کھوپڑی میں لگی اور اُس کا بھیجا پھاڑتی ہوئی نکل گئی۔ 

آدم خور کے منہ سے کربناک دھاڑبلند ہوئی اور وہ تالاب کے کنارے گر کر تڑپنے لگا۔ اریب نے احتیاط کے طور پر ایک گولی اُس کے سینے میں ماری اور خود درخت سے اُتر آیا۔ جب وہ شیر کے قریب پہنچا تو وہ دم توڑ چکا تھا ۔ اریب نے اپنے باپ کا انتقام لے چکا تھا۔ اور بستی والوں کو آدم خور سے نجات مل چکی تھی۔

اریب خوشی خوشی اپنے شکاری چاقو سے اُس کی قیمتی کھال اُتاری اور پھر بستی کی طرف چل دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


2 comments:

  1. بہترین کہانی بچپن کی یادیں تازہ ہو گئیں

    ReplyDelete
    Replies
    1. بالکل ، اگر بچپن میں جو حضرات مطالعہ کے شوقین تھے انہوں نے ضرور پڑھی ہوگی۔ بچوں کے ساتھ بھی شیئر کیجیے۔ نوازش

      Delete

Bhoton Ki Shahezadi

انتخاب : انصاری اریب نوشاد علی۔ بھوتوں کی شہزادی پچھلے زمانے میں ملک شام پر ایک بادشاہ پرویز حکومت کرتا تھا۔ اس بادشاہ کا ایک ہی بیٹا تھا ش...