سبز مگر مچھ (کہانی) :
یہ شخص کون ہے ؟
’’ہمیں جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت ہے ۔‘‘ اُس نے ادب سے کہا ۔ ’’درویش جھوٹے نہیں ہوا کرتے ۔ ہم جیسے درویشیوں کی کوئی منزل نہیں ہوتی ۔ جدھر دل نے کہا اُدھر ہی چل پڑے ۔‘‘ بادشاہ نرم پڑ گیا اوراس کی آواز میں لجاجت ہو گئی ۔ اللہ کے نیک بزرگ ہو تو تم ہمارے متعلق سب کچھ جانتے ہوگے ۔
بزرگ نے اسے غور سے دیکھا اور کہا،
"بادشاہ سلامت ! ہم تمہارے متعلق سب کچھ جانتے ہیں ۔"
"کیا جانتے ہیں آپ"؟
"یہی کہ آپ بے اولاد ہیں" ؟
بادشاہ سلامت! آپ کی قسمت میں اولاد ہے صرف ایک
شہزادہ ۔ بز رگ نے کہا ۔
آپ کے ہاں
ایک شہزادہ ہو گا ، مگر وہ بڑی اُلجھنوں میں گرفتار رہے گا ۔
"الجھنوں سے نکلنے کا کوئی راستہ ہے"؟
دریائے نربدا میں ایک سبز رنگ کا مگر مچھ ہے
شہزادہ جوان ہو کر وہاں جائے ۔ وہ اس مگر مچھ کو ہلاک کرے ۔ مگر مچھ کے پیٹ سے ایک
ہیرا نکلے گا ۔ وہ اس ہیرے کو گلے میں ڈال لے ۔ تب اس کی الجھنیں دور ہونگی۔
بادشاہ سوچ
میں پڑ گیا پھر بولا ،
"اے نیک
دل بز رگ ! مگر ہمارے ہاں شہزادہ کب ہوگا ؟
ایک سال کے
بعد ۔ بزرگ نے کہا ۔
" ہم
کیسے یقین کرلیں کہ شہزادہ ضرور ہوگا۔"
یہاں سے سومیل کے فاصلے پر ایک سفید رنگ کی پہاڑی ہے ۔
اس پہاڑی پر سیب کا ایک درخت ہے آپ ملکہ کو ساتھ لے جائیں اور اس درخت کے سیب توڑ
کر کھائیں ۔
ہمیں کب
جانا ہوگا ؟ بادشاہ نے پوچھا
کل چلے جائیں۔
انہوں نے سب سے پہلے خدا کے حضور سجدہ کیا اور اولاد کے لئے گڑ گڑا کر دعا مانگی پھر سیب توڑ کرکھائے اور ٹھنڈا میٹھا پانی پیا۔ کچھ دیر وہاں قیام کر کے پہاڑی سے نیچے اتر آئے ۔
محل میں آ کر وہ ہاتھی سے اترے ۔ وزیر اور مشیر ان سے رخصت لے کر چلے گئے ۔ بادشاہ اور ملکہ اپنےکمرے میں آگئے ۔ایک سال گذرنے کے بعد الله تعالے نے انہیں ایک چاند سا شہزادہ بخشا ۔ محل میں چراغاں کیا گیا ۔ غریبوں کو کھانا کھلایا گیا ۔ انعامات تقسیم کئے گئے ۔ غریبوں کی جھولیاں بھر دی گئیں ۔ پورے ملک میں جوش و خروش سے جشن منایا گیا اور اس جشن کا سلسلہ پورے ایک ماہ تک جاری رہا ۔ لوگوں نے شہزادے کے لئے درازی عمر کی دعائیں مانگیں ۔
شہزادہ کیا
تھا ۔ چاند کا ٹکڑا تھا ۔ ملکہ اور بادشاہ اسے دیکھ دیکھ کے جیتے ۔ ویسے تو شہزادے
کو سبنھالنے اور دیکھ بھال کرنے کے لئے لونڈیاں اور نوکرانیاں کیا کم تھیں لیکن
ملکہ کو جیسے سارے جہاں کی دولت مل گئی تھی شہزادے کے سارے کام خود کرتی ، نہلاتی
کپڑے بدلاتی ، وقت پر دودھ، خوراک غرض کہ ہر ضرورت کاخیال رکھتی ۔
شہزادے کی تعلیم و تربیت کے لئے بہترین اتالیق مقرر کئے گئے ۔ شہزادے کو فنون لطیفہ کے ساتھ ساتھ جنگی تربیت بھی دی جانے لگی ۔ شہزادہ پورے انہماک کے ساتھ اپنی تعلیم مکمل کرنے لگا ۔بزرگ کے کہنے کے مطابق شہزادہ کسی نہ کسی الجھن میں گرفتاررہتا تھا ۔ کئی مرتبہ شدید بیمار ہوا ۔ ایک دن کشتی رانی کرتے کرتے دریا میں گر پڑا تھا ۔ اور ایک دفعہ شکار کو گیا تو راستہ بھول گیا تھا ۔
ایک دفعہ
اسے کئی جنگلی اُٹھا کر لے گئے تھے ۔ بادشاہ کی فوج جنگلیوں کو تباہ کر کے واپس
لائی تھی اس لئے اب شہزادے کو باہر نہ نکلنے دیا جاتا تھا ۔ محل میں بھی اسے چوٹیں
لگتی رہتی تھیں ۔ شہزادہ کسی نہ کسی الجھن میں گرفتار رہتا تھا۔
الجھنوں میں
پھنسا پھنسا ہی شہزادہ جوان ہو گیا ۔ جب شہزادہ جوان ہوگیا تو بادشاہ کو خیال آیا
کہ شہزادے کو اب اس کی منزل کی طرف بھیجا جائے ۔ بادشاہ نے شہزادے کو بلایا ۔ جب
شہزادہ آگیا تو اسے اپنے قریب سونے کے تخت پر بٹھایا اور کہا ۔ شہزادے ! اب تم
جوان ہو گئے ہو اس لئے اب تمہارافرض ہے کہ تم اس مگر مچھ کو تلاش کرو ۔
کس مگر مچھ کو حضور ؟
بادشاہ نے
اسے غور سے دیکھا
اسی مگر مچھ کو جو تمہاری الجھنوں کا حل ہے ۔
بادشاہ نے کہا ۔ تم ہمیشہ الجھنوں میں گرفتار رہتے ہو۔ اگر الجھنوں سے نکلنا چاہتے ہو تو دریائے نربدا کی طرف جاؤ ۔ اس دریا میں ایک سبز رنگ کا مگر مچھ ہے ۔ اس کو ہلاک کر کے اس کے پیٹ سے ہیرا نکال لاؤ۔ اور اسے گلے میں ڈال لو ؟
بہت اچھا ابا حضور!
" کیا مجھے اکیلے ہی جانا
ہوگا؟ شہزادے نے پوچھا۔
اکیلے
ہی جانا ہو گا ۔
شہزادے
نے کوئی جواب نہ دیا ۔ اور وہ اُٹھ کر اپنے کمرے میں آ گیا ۔ اس نے اگلے دن جانے
کے لئے اپنی تیاری مکمل کرلی ۔
اگلے
دن وہ بادشاہ اور ملکہ سے اجازت لے کراپنے سیاہ گھوڑے پر بیٹھا اور آگے چل پڑا ۔
اُسے کچھ معلوم نہ تھا کہ دریائے نربدا کہاں ہے ۔ وہ شمال کی طرف گھوڑا بڑھانے لگا
۔ اس کے پاس کھانے پینے کا سامان کئی دنوں کے لئے کافی تھا - اس کے پاس تلوار کے
علاوہ تیر کمان بھی تھی ۔ اس کا نشانہ بہترین تھا۔ وہ ایک بہترین تلوار بازی بھی
تھا۔
وہ
کافی طاقت و راور جوشیلا تھا ۔ وہ اکیلا دس آدمیوں کے ساتھ مقابلہ کر سکتا تھا ۔
کمان اس نے کند ھے پر لٹکا رکھی تھی ترکش بھی کندھے پر لٹکا ہوا تھا ۔ اس کے پاس
کافی تعداد میں تیرتھے دہ بڑے وقاراور شان سے گھوڑے پر بیٹھا تھا ۔ گھوڑا شمال کی طرف
بڑھا جارہا تھا
جب
رات ہو گئی تو اس نے درخت کے قریب اپنا گھو ڑاکھڑا کیا اور وہیں بیٹھ گیا ۔ کافی دیر
بیٹھا رہا۔ نیند بھی آرہی تھی لیکن محلوں میں رہنے والا شہزادہ تھا بھلابیٹھ کر یا
زمین پر لیٹ کر کیسے سو سکتا تھا۔ بس ایسے ہی گھٹنوں پر سر رکھے بیٹھا تھا اُس نے
کچھ دیر پہلے کھانا کھا لیا تھا اور قریب ہی بہتے ہوئے چشمے سے پانی بھی پی لیا
تھا ۔
اب اس نے تلوار تیر کمان اور کھانے پینے کا سامان اپنے قریب کیا اور گھوڑے کو اسی درخت کے ساتھ باندھ دیااس نے دیکھا دُور دُور تک آبادی کا کوئی نام ونشان تک نہ تھا ۔ چاروں طرف جنگل بیابان اور سناٹا چھایا ہوا تھا ۔ وہ درخت کے نیچے بیٹھ کر رات گزارنے لگا۔ اُسے بیٹھے ہوئے ابھی زیادہ دیر نہیں گذری تھی کہ اُسے درخت پر سے پرندوں کے شور مچانے کی آواز سنائی دی ۔ وہ ایکدم اٹھ کر بیٹھ گیا اور پریشان ہوکر چاروں طرف دیکھنے لگا کہ پرندے رات کے وقت اتنا شورکیوں مچارہے ہیں ۔ شہزادے نے دیکھا کہ ایک بہت بڑا سانپ پرندوں کے گھونسلوں کی طرف بڑھ رہا ہے اور چھوٹے چھوٹے پرندے اسے دیکھ کر شور مچا رہے ہیں ۔ شہزادے نے فو راً تلوار نکالی اور سانپ کی طرف لپکا۔ سانپ نے دیکھا کہ اس پر حملہ ہو رہا ہے اس نے پھن پھیلا کر شہزادے پر حملہ کرنا چاہا ۔ جو نہی سانپ اُچھل کر آگے بڑھا۔ شہزادے نے تلوار سے اس کے دوٹکڑے کر دیئے ۔
جب
اُس نے دیکھا کہ سانپ ٹھنڈا ہو گیا ہے تودوبارہ اپنی جگہ پرآ کر بیٹھ گیا ۔
پرندے
اب خاموش ہو گئے تھے ۔ شہزادہ بے چین سا تھا ۔ اسی لئے اسے نیند نہیں آرہی تھی بہت
دیر بعد اس کی آنکھ لگی اور وہ سو گیا۔
صبح جب وہ اُٹھا تو چاروں طرف صبح کا اجالا پھیلا ہوا تھا ۔ پرندے خدا کی حمد و ثنا میں مصروف تھے پاس ہی سانپ مرا ہوا پڑا تھا۔ پرندے درخت پر سے اُڑ کر شہزادے کے سامنے ہیں اڑنے لگے جیسے اس کا شکریہ ادا کر رہے ہوں۔ اسی طرح انہوں نے بڑے پرندوں کو شہزادے کے کارنامے سے آگاہ کر دیا تھا ۔ وہ شہزادے کے کانامے پر بہت خوش ہوئے ، اُنہوں نے بھی شہزادے کے سامنے اُڑکر شکر یہ ادا کیا۔ پھر وہ اڑ کر دور چلے گئے جب واپس آئے تو ان کی چونچوں میں سیب تھے ۔ پرندے وہ سیب شہزادے کے آگے پھینک دیئے ۔ شہزادے نے خوش ہو کر وہ سیب کھائے ، سیب نہایت لذیزتھے۔
تھوڑی
دیر بعد جب سورج نکل آیا تو اس نے اپنے سفر کی تیاری شروع کر دی ۔ کھانا کھایا ۔ چشمے
کا ٹھنڈا پانی پیا۔ پرندوں نے اسے پھر سیب لا کر دیئے شہزادے نے سیب کھائے پھر وہ
گھوڑے پر بیٹھ کر اپنے سفر کے لئے روانہ ہو گیا اس نے دیکھا کہ دو پرندے اس کے
گھوڑے کے آگے پیچھے اُڑ رہے ہیں ۔ پرندے ایک طرف کو مڑ گئے ۔ مگر شہزادہ سیدھا
جانے لگا ۔ پرندے پھر واپس پلٹ کر اس کی طرف آگئے ۔ ایک پرندے نے اسے پر مارا اور
آگے آگے اڑنے لگا ۔ شہزادہ سمجھ گیا کہ پرندہ اسے دوسری طرف لے جانا چاہتا ہے ۔
اُس نے گھوڑا موڑ لیا۔
وہ سوچنے لگا کہ پہ پرندے اُسے کہاں لے جانا
چاہتے ہیں ؟ مگر پرندوں کو اس سے کیا دشمنی ہوسکتی تھی ؟ پھر اس نے سوچا کہ پرندے
اس کے دل کا حال جان گئے ہیں وہ اسے ضرور دریائے نربدا کی طرف لے جانا چاہتے ہیں ۔
اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ پرندوں کے بتائے ہوئے راستہ پر ہی چلے گا۔
پرندے
آگے آگے اُڑ رہے تھے اور وہ ان کے ساتھ ساتھ گھوڑا چلانے لگا ۔ پرندے اُسے شام تک دریائے
نربدا کے کنارے لے گئے وہ دریائے نربدا دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ اُس کے کنارے
کھڑا ہو گیا۔ سامنے سورج غروب ہورہا تھا۔ بہت ہی شاندار نظارہ تھا۔
وہ
اب سوچ رہا تھا کہ اتنے بڑے دریا میں سبز مگر مچھ کو کیسے تلاش کرے ۔ وہ اسی سوچ میں
کھڑا تھا کہ ایک پرندہ تیزی سے اڑا اور لہروں کی طرف چلا گیا ۔ وہ لہروں پر پَر
مارنے لگا۔ دوسرے پرندے نے بھی ایسا ہی کیا وہ لہروں پر پَر مارتے کنارے کی طرف
آرہے تھے ۔
شہزادے
نے دیکھا کہ سبزمگر مچھ گھبرا یا ہوا کنارے
کی طرف آرہا تھا ۔ پرندوں نے پَر مار مار کر اسے بدحواس کر دیا تھا ۔ جب مگر مجھے
کنارے پر آ گیا تو شہزادے نے اس کے پیٹ میں تلوار گھونپ دی اور اس کا پیٹ چیر دیا۔
پیٹ کے پھٹتے ہی ایک ہیرا نکل کر زمین پر گر پڑا مگر مچھ تڑپنے لگا ۔ اور تڑپ تڑپ
کر مر گیا ۔ شہزادے نے ہیرا اپنے قبضے میں کر لیا اور اسے ساتھ لے کر اپنے ملک آگیا۔
ختم
شد
#sabz Magar Mach #Areebtlm #naushadali19881
Achchi kahani hai
ReplyDeleteMast
ReplyDelete