=" Urdu Kahaniyan (AreeB): December 2023

Shahezadi Ka Enam

 انتخاب: 

شہزادی کا انعام

 

ملک شمان کے بادشاہ اشلو کی بیٹی شہزادی نونا بہت ذہین اور حسین تھی ، چنانچہ آس پاس کی ریاستوں کے سارے شہزادے اُس سے شادی کرنا چاہتے تھے۔ جس کی وجہ سے اشلو بادشاہ بے حد پریشان تھا ۔ اُس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس مصیبت سے کیسے جان چھڑائے۔ کیونکہ جن شہزادوں سے وہ انکار کرتا وہ اُس کے دشمن ہو جاتے اور غصے میں آکر اُس کے ملک پر چڑھائی کر دیتے ۔ آخر سوچ سوچ کر جب وہ تھک گیا تو اُس نے اپنے بڑے وزیر کو کل کو طلب کر لیا اور اُس سے اس مسئلے کا حل پوچھا ۔ کو کل وزیر بہت سیانا اور عقلمند تھا۔ اُس نے اشلو بادشاہ کی پریشانی سن کر کہا : " جہاں پناہ اگر جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں ؟ "

اشلو بادشاہ نے فوراً  اُسے جان کی امان دےدی ۔ " تمہیں امان دی جاتی ہے ۔ کہو کیا کہنا چاہتے ہو" ؟

جواب میں کو کل وزیر ہاتھ باندھ کر بولا :" جہاں پناہ اس مسئلے کا حل اس ناچیز کے ذہن میں یہ آیا ہے کہ آپ شہزادی صاحبہ کی شادی اس طرح نہ کریں ، بلکہ تمام شہزادوں کا مقابلہ کرایا جائے، اس میں جو شہزادہ جیت جائے شہزادی کی شادی اُس سے کر دیجئے گا۔ اس طرح باقی شہزادوں کو کوئی گلہ نہیں رہے گا ۔"

اشلو بادشاہ کو کو کل وزیر کی یہ تجو یز بہت پسند آئی، چنانچہ شہزادی نونا کو بلا کر اس ترکیب سے آگاہ  کردیا اور بولا :"نونا بیٹی ! ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ تمہاری شادی کے لئے تمام شہزادوں میں مقابلہ کرایا جائے اور اس میں جو شہزادہ جیتے گا، اُس سے تمہاری شادی کردی جائے ۔ اس بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟"

 " ابا حضور ! میں اس معاملے میں بھلا کیا رائے دے سکتی ہو ہوں ؟  آپ جو فیصلہ کریں گے وہ میرےلئے بہتر ہی ہوگا۔ "

شہزادی نونا نے جواب دیا ۔ بادشاہ اشلو اپنی بیٹی کی فرمانبرداری سے بہت خوش ہوا ، اور اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیر کر بولا: شاباش بیٹی ! تم نے یہ کہہ کہ ہمارا دل خوش کر دیاہے۔ پھر بھی ہم تم سے پوچھ رہے ہیں کہ شادی کرنےکے لئے ہمیں یہ طریقہ منظور ہے ؟ " شہزادی نونا اپنے باپ کی پریشانی سمجھ گئی تھی اس لئے گردن جھکالی بولی :مجھے منظور ہے ابا حضور ! " تو ٹھیک ہے ان شرطوں کو تیار کرو جنہیں شہزادوں کے آگے رکھا جائے گا ۔ جو شہزادہ ان شرطوں کو پورا کر دے گا وہی تمہارا دو لہا ہو گا۔ اشلوبادشاہ نے جلدی سے کہا ۔ " میں اکیلی شرطیں تیار نہیں کر سکوں گی ابا حضورمجھے اجازت دیجئے کہ میں اپنی مدد کے لئے کو کل وزیر کی صاحبزادی شومی کو بلالوں ۔ شہزادی نونا باپ کی گردن میں بانہیں ڈال کر بولی۔ضرور بلالو بیٹی ، ایک اور ایک گیارہ ہوتے ہیں۔ لیکن ذرا جلدی شرطیں تیار کرنا ، تاکہ اس کے بعد میں مقابلے کی تاریخ کا سارے ملکوں میں اعلان کردوں ۔



 آپ فکر نہ کریں ابا حضور ! میں زیادہ سے زیادہ  آٹھ گھنٹے لگاؤں گی ۔شہزادی نونا نے انتہائی سعادت مندی سے کہا۔ اس کے بعد اشلو بادشاہ نے اسے جانے کی اجازت دے دی اور وہ سیدھی کو کل وزیر کے گھر چلی گئی ، وہاں جونہی اس کی گہری سہیلی شومی نے اُسے دیکھا تو دوڑ کر اس کے گلے سے لگ گئی اور ہنس کر بولی : آج پیاری نونا کیسے راہ بھول کر ہمارے گھر آگئی ہے ! نونا مسکرا کر بولی :" آج کوئی پہلی بار آئی ہوں ۔ روز ہی تو آتی ہوں ،کیوں جھوٹ بولتی ہو " کیوں ؟

شہزادی نونا نے شرارت سے اس کے بال کھینچے ۔ پھر دونوں سہیلیاں ایک  کمرے میں جا بیٹھیں اور شہزادوں کے آگے رکھنے کے لئے شرطیں سوچنے لگیں ۔کافی دیر غور

کر نے پر بھی جب اُنہیں کوئی شرط نہ سوجھی تو وہ اُداس ہو گئیں اور غمناک آنکھوں سے ایک  دوسرے کو دیکھنے لگیں۔ اسی وقت کو کل وزیر ادھر آگیا اور اُنہیں اداس دیکھ کر حیران رہ گیا۔" ارے کیا ہوا میری بیٹیوں کو ، کیوں چہرے لٹکا کے بیٹھی ہو۔"

اُس نے باری باری دونوں کو دیکھا اور پیار سے پوچھا۔ جواب میں شومی نے جھٹ اپنے باپ کواصل بات بتادی۔

" تو اس میں فکر کرنے کی کون سی بات ہے ۔"

کو کل وزیر نے ہنس کر کہا۔ " میں تمہیں شرطیں بتا دیتا ہوں۔ یہ شرطیں ایسی ہیں جنہیں صرف ذہین اور بہادر شہزادہ ہی حل کر سکے گا۔ یہ کہہ کر کو کل وزیر اُن کے کان میں کھسر پھسر کرنے لگا جس پر دونوں سہیلیوں کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں۔اور وہ دوڑتی ہوئی بادشاہ کے پاس آگئیں ۔ اشلو بادشاہ کو جب اُنہوں نے ان شرطوں سےآگاہ کیا تو وہ بہت خوش ہوا ۔ "بھئی بہت اچھی شرطیں ہیں۔ میں تمہیں اتنی اچھی شرطیں سوچنے پر مبارک باد دیتا ہوں اور ایک ایک سچے ہیروں کا ہار بطور تحفہ دیتا ہوں" اس کے ساتھ ہی اشلو بادشاہ نے اپنے گلے میں سے بے شمار قیمت قیمتی ہاروں میں سے دو ہار نکال کر انہیں بخش دیئے ۔جنہیں پا کر دونوں سہیلیاں پھول کر کپا ہو گئیں۔ اگلے روز اشلو بادشاہ نے تمام ملکوں میں ڈھنڈورچی بھیج کر اعلان کر دیا کہ میں عنقریب اپنی اکلوتی بیٹی شہزادی نونا کی شادی کر رہا ہوں۔ شادی اُس شہزادے سے کروں گا جو ان شرطوں کو پورا کرے گا ۔ شرطیں یہ ہیں کہ کوہ قاف کی چوٹی پر رہنے والے جن کمبل کی ناک کاٹ کر لانا ہے ۔ اشلو کی جنگل سے ہرنوں کی ملکہ تانتی کوپکڑ کر لانا ہے، اور شہزادی نونا کو اسکی سہیلیوں کے جھرمٹ میں سے پہچاننا ہے۔

 تینوں شرطوں کو چودہویں رات کےچاند کے آنے سے پہلے پہلے پورا کرنا ہے۔ شہزادوں نے ان شرطوں کو سنا تو وہ انہیں پورا کرنے کیلئے فوراً روانہ ہو گئے کیونکہ شہزادی بہت خوبصورت تھی اور وہ ضرور اس سے شادی کرنا چاہتے تھے لیکن شرطیں اتنی مشکل تھیں کہ کسی سے پوری نہ ہوئیں ۔کسی شہزادے کو کوہ قاف کا جن کمبل کھا گیا اور کسی شہزادے کو اشلو کی جنگل میں رہنے والے ہرنوں نے مار دیا ۔البتہ ملک زلوم کے شہزادے تلام نے پہلی دونوں شرطیں پوری کر دیں کیونکہ وہ بہت بہادر شہزادہ تھا ۔عقلمند بھی بہت تھا۔ وہ کوہ قاف اس وقت پہنچا  جب جن کمبل نہا رہا تھا۔ شہزادہ تلام ایک بڑے پتھر کے پیچھے چھپ کر اسے نہاتے دیکھتا رہا اور جونہی اُس نے منہ پر صابن لگایا شہزادے نے جلدی سے جا کہ اُسترے سے اُس کی ناک کاٹ لی۔ کمبل جن نے زور سے چیخ مار کر آنکھیں کھول دیں اور شہزادے کو پکڑنے لگا مگر اُسکی آنکھوں میں صابن چلا گیا جس سے شہزادے کو بھاگ آنے کا موقع مل گیا۔ ہرنوں کی ملکہ تانتی کو بھی شہزادے نے عقل سے کام لے کر پکڑ لیا ۔

وہ ہری ہری گھاس کھا کر لیٹی ہوئی تھی۔ باقی ہرنیاں کے گروہ  پہرہ دے رہی تھیں کہ شہزادے نے ایک بڑے سے درخت پر چڑھ کر اور پتوں میں چھپ کرزور زور سے ہاؤ ہاؤ کرنا شروع کر دیا ۔ اُس کے اس طرح کرنے سے ملکہ تانتی کی نیند خراب ہو گئی۔

اس نے سب ہر نیوں کو حکم دیا :" جس کسی نے بھی یہ حرکت کی ہے مار مارکہ اس کی ہڈی پسلی ایک کر دو۔ یہ حکم ملتے ہی ساری ہرنیاں فوراً جنگل میں پھیل گئیں

اور شہزادے تلام کو تلاش کرنے لگیں۔

تب شہزادہ میدان صاف دیکھ کر درخت سے اتر آیا اور آہستہ آہستہ ملکہ تانتی کی طرف بڑھنے لگا ملکہ کا منہ دوسری طرف تھا ۔ لہٰذا شہزادے نےاس کے پاس پہنچ کر جھٹ اُس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا ، تاکہ ملکہ تانتی آواز نہ نکال سکے اور اُسے اُٹھا کر پھر اسی درخت پر چڑھ کے چھپ گیا۔ ملکہ تانتی نے جان چھڑانے کے لئے بہت زور لگایا مگرشہزادے نے اُسے مضبوطی سے پکڑے رکھا۔ ہرنیاں سارا جنگل گھوم کر واپس آئیں تو اپنی ملکہ کو غائب پاکر زور زور سے رونے لگیں اور پھر ڈر کر ندی کی طرف بھاگ گئیں ۔ تب شہزادہ تلام ہرنوں کی ملکہ تانتی کولے کر جنگل سے نکل آیا ۔ یوں اُس نے اشلو کی بادشاہ کی دو شرطیں پوری کر دیں ۔ اور سیدھا اُس کے دربار میں چلا گیا ۔ اشلو بادشاہ کو جب پتہ چلا کہ شہزادہ تلام نے دو شرطیں پوری کر دی ہیں تو وہ بہت خوش ہوا، کیونکہ وہ بھی یہی چاہتا تھا شادی شہزادے تلام سے ہو تا کہ اُس کی بیٹی کو  بہادر اور عقل مند نوجوان ملے۔ شہزادی نونا کو بھی بہت خوشی ہوئی۔ وہ بھی دل ہی دل میں شہزادے تلام کو پسند کرتی تھی اور اُس سے شادی کرنا چاہتی تھی ۔ جب بادشاہ نے شہزادے تلام کے آگے تیسری شرط رکھی کہ آج رات جب چودہویں رات کا چاند ہر طرف چاندنی بکھیر رہا ہوگا ۔ شہزادی نونا اپنی سہیلیوں کے ساتھ باغ کی سیر کو جائے گی، تم کو اُسے پہچانتا ہے۔

شہزادے تلام نے کہا : "ٹھیک ہے، میں اس شرط کو بھی پورا کروں گا"۔اور رات ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ رات ہوئی تو شہزادی نونا نے کنیزوں جیسا لباس پہنا جس میں اُس کی شناخت کرنا بہت مشکل ہو گیا تھا۔ سہیلیوں کو اُس نے سختی سے منع کر دیا تھا کہ وہ اُسے شہزادی صاحبہ بالکل نہ کہیں ۔ اس کی بجائے ، اُس کا نام کن کن کنیز

پکا ریں   ۔ تا کہ شہزادہ تلام اُسے پہچان نہ لے۔ وہ سہیلیاں سیر کرتی ہوئی جو نہی باغ کے فواروں پر پہنچی اور سہیلیوں کے ہمراہ شاہی باغ میں چلی گئی ۔ اب وہ با لکل شہزادی نہیں لگ رہی تھی، بلکہ اتنی سہیلیوں کے پاس پہنچیں تو وہاں اُنہوں نے ایک سفید داڑھی والے بوڑھے کو بیٹھے ہوئے دیکھا ۔

دہ بوڑھا زور زور سے کہہ رہا تھا ۔ جس کو جو بات  پوچھنی ہے پوچھ لے ۔ شہزادی نونا  اور اس کی سہیلیاں بوڑھے کا اعلان سن کر کھل اُٹھیں اور سیدھی اُس کے پاس چلی گئیں اور باری باری اُس سے اپنے دل کی بات پوچھنے میں سب سے پہلے شہزادی نونا جو کن کن کنیز بنی ہوئی تھی نے بوڑھے سے پوچھا :

"میری شادی کس سے ہوگی ؟ " شہزادے تلام سے ۔ بوڑھے نے اُس کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

شہزادی یہ سن کر شرم سے لال ہو گئی۔پھر فوراً بولی :" مگر میں ایک کنیز ہوں میری شادی شہزادے تلام سے کیسے ہوگی ؟ "

بس ہو جائے گی میں نے جو کہہ دیا ہے، بوڑھے نے کہا۔ شہزادی نے خوش ہو کر اپنے سر کا ایک بال توڑ کر انعام میں اسے دیا اور پیچھے ہٹ گئی ، اس کے بعد کو کل وزیر کی بیٹی شومی کی باری آئی اور اس نے بھی بوڑھے سے پوچھا. "میری شادی کس سے ہوئی ؟ " بوڑھے نے اُسے بھی کہا کہ شہزادے تلام سے شومی یہ سن کر ہنس پڑی ۔ پھر اُس نے اپنی انگوٹھی اُتار کر انعام میں دے دی۔ اسی طرح ساری لڑکیوں نے بوڑھے سے یہی پوچھا ۔ بوڑھے نے سب کو یہی جواب دیا ۔ وہ کوئی نہ کوئی قیمتی شے انعام میں دے دیتیں۔ جب ساری لڑکیوں نے سوال پوچھ لئے ، تو اُس بوڑھے نے اپنی داڑھی اور کپڑے اُتار پھینکے۔

لڑکیاں یہ دیکھ کر دنگ رہ گئیں ، وہ تو شہزادہ تلام تھا۔ اگلے روز شہزادہ تلام نے بادشاہ کو بتایا کہ جس لڑکی نے مجھے بال انعام میں دیا تھا وہ شہزادی نونا ہے

تو بادشاہ نے اُن دونوں کی شادی کر دی ہے ۔

ختم شد .

مصنف ضیا ساجد

Shahezadi Ka Enam

Do Dost

 انتخاب: نوشادعلی ریاض احمد

دو دوست

گنگا رام اور موتی رام دونوں وظیفہ یاب ضعیف حضرات ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے رہتے تھے۔ ان دونوں کی اولادیں بیرون ملک میں رہتی تھیں۔ وہ دونوں اکیلے رہتے تھے۔اس لیے دونوں میں خوب جمتی تھی۔صبح اٹھ کر دونوں ایک ساتھ سیر کو جاتے اور آتے وقت سبزی تر کاری لاتے۔ آتے وقت کسی ایک مقام پر بیٹھ کر گپ شپ کرتے۔

گنگا رام ، موتی رام کے لیے اکثر دو پہر کا کھانا بناتا تو کبھی موتی رام، گنگا رام کے لیے رات کا کھانا بنا لیتا۔ ان دونوں کو بہت اچھا پکوان نہیں آتا لیکن وہ ایک دوسرے کے دوست تھے اس لیے کبھی بھی کھانے سے متعلق تکرار نہ کرتے تھے۔

ایک دن گنگا رام نے دل ہی دل میں سوچا کہ ” کیوں نہ میں ایک پنجرہ خریدوں اور اس میں ایک طوطا پالوں اور اسے بات کرنا سکھاؤں گا تا کہ مجھے ایک ساتھی مل جائے ۔“

گنگا رام بازار گیا اور طوطے کے ساتھ پنجرہ خرید لایا۔ وہ طوطے کو باتیں کرنا سکھانے لگا۔ بہت دن گزر گئے لیکن اس طوطے نے کوئی بات کرنا نہیں سیکھا۔ اس کے بجائے وہ زور زور سے چلانے لگا۔

اس آواز کو سن کر موتی رام اس سے خفا ہونے لگا۔ ایک تو  گنگارام اس طوطے کو باتیں سکھانے میں گھنٹوں صرف کرنے لگا اور موتی رام سے ملنے جلنے میں کمی واقع ہوگی۔ طوطے کے بار بار چلانے سے موتی رام کا غصہ آسمان پر چڑھ گیا۔

اب اس نے خود سے کہا کہ یہ بہت ہو چکا۔ گنگا رام نے طوطا خرید کر اپنے آپ کو بڑا ہو شیار سمجھنے لگا ہے۔ میں بھی بازار سے دو طوطے خریدتا ہوں جو اس سے زیادہ آوازیں کریں۔ پھر دیکھتے ہیں کیا ہوتاہے؟“

موتی رام جلدی جلدی بازار گیا اور بڑی آواز والا طوطا تلاش کرنے لگا۔ اسے اس طرح کا کوئی پرندہ نہیں ملا۔ بالآخر وہ غصے کی حالت میں گھر کی طرف روانہ ہوا۔

اس وقت ایک کسان وہاں سے گزر رہا تھا اس نے موتی رام کی بڑ بڑ سنی تو کہنے لگا ‘‘ کیا تمھیں اونچی آواز والا پرندہ چاہیے یا صرف طوطا ؟



مجھے صرف اونچی آواز والا پرندہ چاہیے ۔ موتی رام نے کہا۔

کسان نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ میرے پاس ایک مرغا ہے جس کی کرخت آواز سے میں بھی پریشان ہوں۔ آپ میرے ساتھ چلو اور مرغا لے جاؤ۔ تم مجھے اس کی کوئی قیمت بھی نہ دیں تو کوئی بات نہیں ۔

اس طرح اونچی آواز والا مرغا موتی رام کو مل گیا۔ گھر آنے کے بعد اس نے طوطے کے سامنے والی کھڑکی میں مرغے کو رکھ دیا۔

موتی رام مرغے سے مخاطب ہوا اب چلاؤ۔ اتنی زور سے آواز کرو کہ اسے سن کر طوطے کی آواز اس میں مدغم ہو جائے ۔

مرغے کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں تھی وہ تو صرف کسی مقام پر سکون سے بیٹھ کر آوازیں کرنا چاہتا تھا۔ کھڑکی میں بیٹھ کر وہ مرغا زور زور سے آواز میں کرنے لگا۔

مرغے کی آواز سن کر گنگا رام اس کے گھر کی طرف دیکھنے لگا اور سوچنے لگا کہ میرے طوطے کی حرص میں موتی رام نے یہ مرغا لے آیا؟ اور یہ بے وقوفی کر بیٹھا۔

اب دن بھر طوطے اور مرغے کی آواز سن کر گنگا رام کا سر چکرانے لگا۔ شام کو گنگا رام، موتی رام کے پاس گیا اور اس سے کہنے لگا " میرے پاس طوطے ہونے کی وجہ سے تم نے یہ مرغا لایا؟ یہ کیا بے وقوفی کر بیٹھے ۔ جلد ہی اس کا بندو بست کرو اور اس آواز سے چھٹکارا پاؤ۔"

غصے میں موتی رام نے کہا یعنی میں بے وقوف ہوں ؟ تم اپنے الفاظ واپس لو۔ اصل میں بے وقوف تو تم ہو جو طوطے کو لے آئے ۔“

یہ سن کر گنگا رام آگ بگولہ ہو گیا اور کہنے لگا میں اور بے وقوف ؟ اپنی زبان کو لگام دوور نہ زبان کاٹ ڈالوں گا۔

اب دونوں زور زور سے جھگڑنے لگے۔ ان کا جھگڑا دیکھنے لوگ جمع ہو گئے ۔ بعض لوگ جھگڑا مٹانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن وہ بے سود ہوا جا رہا تھا۔

اس دوران ایک اندھی عورت اپنی نواسی کے ساتھ وہاں سے گزر رہی تھی اس نے اپنی نواسی سے پوچھا ”کس بات پر ؟ کس بات پر جھگڑا ہو رہا ہے؟ جاؤ اور دیکھ کر آؤ۔ لڑکی نے وہاں موجود لوگوں سے جھگڑے کے بارے میں دریافت کیا لیکن اسے کوئی خاص وجہ معلوم نہیں ہو سکی۔

لڑکی نے نانی سے جا کر کہا کہ بات تو سمجھ میں نہیں آئی لیکن طوطے اور مرغے پر سے جھگڑا ہو رہا ہے۔ بوڑھی نے کہا طوطا ! ہاں ٹھیک ہے اس کی آواز مجھے سنائی دے رہی ہے۔ اس کی آواز سے سردرد ہوتا ہے۔ دوسرا پرندہ کون سا ہے؟

 

لڑکی نے کہا ” مرغا، مجھے اس کی آواز سنائی دے رہی ہے۔“ ۔ بوڑھی نے کہا ” مجھے بھی اس مرغے کی آواز سنائی دے رہی ہے۔ اب میری سمجھ میں آ گیا کہ جھگڑے کی کیا وجہ ہے۔ بوڑھی نے لڑکی سے کہا کہ تم میرے قریب آؤ مجھے تم سے ایک راز کی بات کرنی ہے۔

تھوڑی دیر میں موتی رام اور گنگا رام جھگڑا کر کے تھک گئے۔ پسینے میں شرابور ہو کر وہ نیچے بیٹھ گئے ۔ تماشائی بھی ادھر ادھر ہو گئے ۔

بہت دیر تک وہ ایک دوسرے سے کچھ بات نہ کر سکے۔ اس کے بعد انھوں نے محسوس کیا کہ انھیں نہ تو طوطے کی آواز آ رہی ہے اور نہ ہی مرغے کی۔

وہ آہستہ آہستہ اٹھ کر اپنی اپنی کھڑکیوں میں جھانکنے لگے۔ دونوں کھڑکیاں خالی تھیں وہ نہ تو طوطا تھا اور نہ ہی مرغا۔

اس واقعہ کے بعد انھیں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے سے بھی شرم محسوس ہونے لگی۔ لیکن چند دنوں بعد ترکاری خریدتے ہوئے ایک دوسرے سے ملاقات ہوگی۔ انھوں نے ایک دوسرے کا حال چال دریافت کیا۔ لیکن انھوں نے نہ تو طوطے اور نہ ہی مرغے کے بارے میں کچھ کہا ہوگا۔

کسی نے نہ تو دوبارہ طوطا دیکھا اور نہ ہی مرغا ۔ اندھی عورت اوراس کی نواسی نے کیا کیا کسی کو پتہ نہیں۔

۔۔۔ختم شد۔۔۔

ماخوذ

Bhoton Ki Shahezadi

انتخاب : انصاری اریب نوشاد علی۔ بھوتوں کی شہزادی پچھلے زمانے میں ملک شام پر ایک بادشاہ پرویز حکومت کرتا تھا۔ اس بادشاہ کا ایک ہی بیٹا تھا ش...