=" Urdu Kahaniyan (AreeB): Do Dost

Do Dost

 انتخاب: نوشادعلی ریاض احمد

دو دوست

گنگا رام اور موتی رام دونوں وظیفہ یاب ضعیف حضرات ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے رہتے تھے۔ ان دونوں کی اولادیں بیرون ملک میں رہتی تھیں۔ وہ دونوں اکیلے رہتے تھے۔اس لیے دونوں میں خوب جمتی تھی۔صبح اٹھ کر دونوں ایک ساتھ سیر کو جاتے اور آتے وقت سبزی تر کاری لاتے۔ آتے وقت کسی ایک مقام پر بیٹھ کر گپ شپ کرتے۔

گنگا رام ، موتی رام کے لیے اکثر دو پہر کا کھانا بناتا تو کبھی موتی رام، گنگا رام کے لیے رات کا کھانا بنا لیتا۔ ان دونوں کو بہت اچھا پکوان نہیں آتا لیکن وہ ایک دوسرے کے دوست تھے اس لیے کبھی بھی کھانے سے متعلق تکرار نہ کرتے تھے۔

ایک دن گنگا رام نے دل ہی دل میں سوچا کہ ” کیوں نہ میں ایک پنجرہ خریدوں اور اس میں ایک طوطا پالوں اور اسے بات کرنا سکھاؤں گا تا کہ مجھے ایک ساتھی مل جائے ۔“

گنگا رام بازار گیا اور طوطے کے ساتھ پنجرہ خرید لایا۔ وہ طوطے کو باتیں کرنا سکھانے لگا۔ بہت دن گزر گئے لیکن اس طوطے نے کوئی بات کرنا نہیں سیکھا۔ اس کے بجائے وہ زور زور سے چلانے لگا۔

اس آواز کو سن کر موتی رام اس سے خفا ہونے لگا۔ ایک تو  گنگارام اس طوطے کو باتیں سکھانے میں گھنٹوں صرف کرنے لگا اور موتی رام سے ملنے جلنے میں کمی واقع ہوگی۔ طوطے کے بار بار چلانے سے موتی رام کا غصہ آسمان پر چڑھ گیا۔

اب اس نے خود سے کہا کہ یہ بہت ہو چکا۔ گنگا رام نے طوطا خرید کر اپنے آپ کو بڑا ہو شیار سمجھنے لگا ہے۔ میں بھی بازار سے دو طوطے خریدتا ہوں جو اس سے زیادہ آوازیں کریں۔ پھر دیکھتے ہیں کیا ہوتاہے؟“

موتی رام جلدی جلدی بازار گیا اور بڑی آواز والا طوطا تلاش کرنے لگا۔ اسے اس طرح کا کوئی پرندہ نہیں ملا۔ بالآخر وہ غصے کی حالت میں گھر کی طرف روانہ ہوا۔

اس وقت ایک کسان وہاں سے گزر رہا تھا اس نے موتی رام کی بڑ بڑ سنی تو کہنے لگا ‘‘ کیا تمھیں اونچی آواز والا پرندہ چاہیے یا صرف طوطا ؟



مجھے صرف اونچی آواز والا پرندہ چاہیے ۔ موتی رام نے کہا۔

کسان نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ میرے پاس ایک مرغا ہے جس کی کرخت آواز سے میں بھی پریشان ہوں۔ آپ میرے ساتھ چلو اور مرغا لے جاؤ۔ تم مجھے اس کی کوئی قیمت بھی نہ دیں تو کوئی بات نہیں ۔

اس طرح اونچی آواز والا مرغا موتی رام کو مل گیا۔ گھر آنے کے بعد اس نے طوطے کے سامنے والی کھڑکی میں مرغے کو رکھ دیا۔

موتی رام مرغے سے مخاطب ہوا اب چلاؤ۔ اتنی زور سے آواز کرو کہ اسے سن کر طوطے کی آواز اس میں مدغم ہو جائے ۔

مرغے کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں تھی وہ تو صرف کسی مقام پر سکون سے بیٹھ کر آوازیں کرنا چاہتا تھا۔ کھڑکی میں بیٹھ کر وہ مرغا زور زور سے آواز میں کرنے لگا۔

مرغے کی آواز سن کر گنگا رام اس کے گھر کی طرف دیکھنے لگا اور سوچنے لگا کہ میرے طوطے کی حرص میں موتی رام نے یہ مرغا لے آیا؟ اور یہ بے وقوفی کر بیٹھا۔

اب دن بھر طوطے اور مرغے کی آواز سن کر گنگا رام کا سر چکرانے لگا۔ شام کو گنگا رام، موتی رام کے پاس گیا اور اس سے کہنے لگا " میرے پاس طوطے ہونے کی وجہ سے تم نے یہ مرغا لایا؟ یہ کیا بے وقوفی کر بیٹھے ۔ جلد ہی اس کا بندو بست کرو اور اس آواز سے چھٹکارا پاؤ۔"

غصے میں موتی رام نے کہا یعنی میں بے وقوف ہوں ؟ تم اپنے الفاظ واپس لو۔ اصل میں بے وقوف تو تم ہو جو طوطے کو لے آئے ۔“

یہ سن کر گنگا رام آگ بگولہ ہو گیا اور کہنے لگا میں اور بے وقوف ؟ اپنی زبان کو لگام دوور نہ زبان کاٹ ڈالوں گا۔

اب دونوں زور زور سے جھگڑنے لگے۔ ان کا جھگڑا دیکھنے لوگ جمع ہو گئے ۔ بعض لوگ جھگڑا مٹانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن وہ بے سود ہوا جا رہا تھا۔

اس دوران ایک اندھی عورت اپنی نواسی کے ساتھ وہاں سے گزر رہی تھی اس نے اپنی نواسی سے پوچھا ”کس بات پر ؟ کس بات پر جھگڑا ہو رہا ہے؟ جاؤ اور دیکھ کر آؤ۔ لڑکی نے وہاں موجود لوگوں سے جھگڑے کے بارے میں دریافت کیا لیکن اسے کوئی خاص وجہ معلوم نہیں ہو سکی۔

لڑکی نے نانی سے جا کر کہا کہ بات تو سمجھ میں نہیں آئی لیکن طوطے اور مرغے پر سے جھگڑا ہو رہا ہے۔ بوڑھی نے کہا طوطا ! ہاں ٹھیک ہے اس کی آواز مجھے سنائی دے رہی ہے۔ اس کی آواز سے سردرد ہوتا ہے۔ دوسرا پرندہ کون سا ہے؟

 

لڑکی نے کہا ” مرغا، مجھے اس کی آواز سنائی دے رہی ہے۔“ ۔ بوڑھی نے کہا ” مجھے بھی اس مرغے کی آواز سنائی دے رہی ہے۔ اب میری سمجھ میں آ گیا کہ جھگڑے کی کیا وجہ ہے۔ بوڑھی نے لڑکی سے کہا کہ تم میرے قریب آؤ مجھے تم سے ایک راز کی بات کرنی ہے۔

تھوڑی دیر میں موتی رام اور گنگا رام جھگڑا کر کے تھک گئے۔ پسینے میں شرابور ہو کر وہ نیچے بیٹھ گئے ۔ تماشائی بھی ادھر ادھر ہو گئے ۔

بہت دیر تک وہ ایک دوسرے سے کچھ بات نہ کر سکے۔ اس کے بعد انھوں نے محسوس کیا کہ انھیں نہ تو طوطے کی آواز آ رہی ہے اور نہ ہی مرغے کی۔

وہ آہستہ آہستہ اٹھ کر اپنی اپنی کھڑکیوں میں جھانکنے لگے۔ دونوں کھڑکیاں خالی تھیں وہ نہ تو طوطا تھا اور نہ ہی مرغا۔

اس واقعہ کے بعد انھیں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے سے بھی شرم محسوس ہونے لگی۔ لیکن چند دنوں بعد ترکاری خریدتے ہوئے ایک دوسرے سے ملاقات ہوگی۔ انھوں نے ایک دوسرے کا حال چال دریافت کیا۔ لیکن انھوں نے نہ تو طوطے اور نہ ہی مرغے کے بارے میں کچھ کہا ہوگا۔

کسی نے نہ تو دوبارہ طوطا دیکھا اور نہ ہی مرغا ۔ اندھی عورت اوراس کی نواسی نے کیا کیا کسی کو پتہ نہیں۔

۔۔۔ختم شد۔۔۔

ماخوذ

No comments:

Post a Comment

Bhoton Ki Shahezadi

انتخاب : انصاری اریب نوشاد علی۔ بھوتوں کی شہزادی پچھلے زمانے میں ملک شام پر ایک بادشاہ پرویز حکومت کرتا تھا۔ اس بادشاہ کا ایک ہی بیٹا تھا ش...