ماونٹ ایورسٹMount Everest
دنیا کی سب سے اونچی چوٹی ہے۔ وہ نیپال اور چین کی سرحد پر ہمالیہ کی پہاڑیوں میں واقع ہے۔ یہ پہاڑ کی چوٹی سطح سمندر سے 29 ہزار فٹ (تقریباً 8400 میٹر) بلندی پر واقع ہے ۔ اس اونچائی کا مطلب یہ ہے کہ تقریباً 29 منزلہ عمارت کی اونچائی۔
1852 میں ماونٹ ایورسٹ دنیا کی سب اونچی چوٹی ہونے کا اندراج کیا گیا ۔ اس کے بعد بہت ساروں نے اس چوٹی کو سر کرنے کا خواب دیکھا ہے۔لیکن اس چوٹی تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ سال 1953 میں نیپال کے تینزنگ نارگے اور نیوزی لینڈ کے ایڈمنڈ ہلری نے سب سے پہلے اس چوٹی کو سر کیا۔ تب سے آج تک دنیا بھر کے مختلف ممالک کے 4000 سے زیادہ لوگوں نے اس چوٹی کو سر کیا۔ اس دوران تقریباً 200 لوگوں نے اپنی جان بھی گنوائیں۔
سال 1965 میں اوتار سنگھ چیما کی قیادت میں فوج کی ایک جماعت نے ایورسٹ کو سر کیا۔ اس جماعت کے افراد ایورسٹ کو سر کرنے والے پہلے بھارتی تھے۔ 1984 میں بچیندری پال نامی پہلی بھارتی خاتون نے اسے سر کیا جبکہ 1993 میں سنتوش یادو ایک سال میں اس چوٹی کو دومرتبہ کرنے والی پہلی بھارتی خاتون تھی۔
ماونٹ ایورسٹ پر چڑھنا مالاؤتھ پورنا( تصویر میں بتائی ہوئی لڑکی )
کاایک ناممکن سا خواب تھا۔ اس کی پیدائش 2000 میں ہوئی۔ اس کا خاندان تلنگانہ ریاست کے نظام آباد ضلع کے جنگلوں میں رہنے والے ادی واسی قبائل سے ہے۔ اس کے ماں باپ غریب اور کھیت مزدوری کرنے والے تھے۔ وہ ہر ماہ کسی طرح 3000 روپے کمالیتے تھے۔ وہ پکالا نامی اپنے گاؤں کے مدرسے میں تعلیم حاصل کرتی رہی۔
جب وہ پانچویں جماعت میں تھی تب اس نے ایک امتحان دیا۔ یہ امتحان کامیاب ہونے کے بعد ادی واسی اور دلت بچوں کے اسکول میں داخلہ مل گیا۔اس اسکول میں رہائش کا بھی انتظام تھا۔ سری آرایس پروین کمار اس مدرسے کے نگران تھے۔ وہ ایک پولیس آفیسر تھے ۔ وہ خود اسی اسکول سے تعلیم حاصل کر چکے تھے۔ اس لیے وہ بچوں کو ذہنی اور جسمانی ترقی کے لیے ہر وقت مواقع فراہم کرتے تھے۔
کوہ پیمائی جیسے مشکل کھیل میں بچوں کو شامل کرنے کی شری پروین کمار ترغیت دیا کرتے۔ شری پروین کمار کے علم میں یہ بات آچکی تھی کہ مالاوتھ کبڈی اور والی بال بہت اچھا کھیلتی ہے۔ انھوں نے اُسے اونچے ٹیلوں پر چڑھنے کی تربیت دینا شروع کی۔ اسکول کی جانب سے منعقد کوہ پیمائی سیر کے لیے مالاوتھ نے اپنے سرپرستوں سے اجازت لی اور روانہ ہوئی۔وہاں بچوں کو بھونگیر نام بیضوی شکل کی اونچی چٹان جو زمین سے تقریباً 700 فٹ اونچی تھی، پر چڑھنا تھا۔ جب مالاوتھ نے یہ منظر دیکھا تواس کے پیروں میں کپکپاہٹ شروع ہوئی لیکن جب وہ سب سے اوپری حصے پر پہنچی تو اس کا خوف جاتا رہا۔
دراجلنگ میں کوہ پیمائی کی تربیت میں جانے والے 20 بچوں کی جماعت میں پروین کمار نے مالاوتھ کو بھی شامل کیا۔ دارجلنگ پہنچنے کے بعد اس نے زندگی میں پہلی مرتبہ برف سے ڈھکے پہاڑ دیکھے۔ یہ تربیت انتہائی خطرناک تھی۔ برف پر چلنے اور چڑھنے کا تجربہ پہارپر چڑھنے سے بالکل الگ تھا۔ مالاوتھ نے ان تمام چیلنجز کو مات دی۔ سمندر سے 17000 ؍ فٹ اونچے پہاڑ ’رےناک‘ کو مالاوتھ اورچند طلبہ نے سرکیا۔
پروین کمار نے اب طے کیا کہ مالاوتھ اور چند منتخب طلبہ اس سے زیادہ مشکل کام انجام دے سکتے ہیں یا نہیں اس کی جانچ کریں۔ اس کے لیے مالاوتھ اور دیگر چار طلبہ کو ریاست جموں و کشمیر کے لداخ علاقے میں روانہ کیا گیا۔ یہ2013-2014 کے موسم سرما کی بات ہے۔ مالاوتھ اور اس کے چار ساتھی طلبہ کو انتہائی سخت سردی کا موسم لداخ میں گزارنا پڑا۔ یہاں کا درجہ حرارت صفر درجہ سے بھی کم ہوتا ہے۔ اس وقت پانی بھی برف میں تبدیل ہوجاتا ہے ۔ روزمرہ زندگی بھی کافی مشکل ہوجاتی ہے۔ مالاوتھ اور اس کے ساتھیوں نے اس ماحول میں اپنے آپ کو ڈھال لیا ۔ اب پروین کمار کو معلوم ہو اکہ مالاوتھ اور اس سے عمر میں دو سال بڑا آنند نامی لڑکا دنیا کے سب سے بڑے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اب ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کی باری تھی۔ اس وقت مالاوتھ صرف 13؍ سال کی تھی۔ نیپال حکومت اتنے چھوٹے بچوں کو ایورسٹ چڑھنے کی اجازت نہیں دے رہی تھی۔ اس لیے ان کو پیماؤں نے ایک اور مشکل راستے کا انتخاب کیا ۔ ہمالیہ پہاڑ کا وہ حصہ جو چین سے متصل ہے وہاں سے چڑھائی کرنا طے پایا۔ سمندر سے 19000 ؍ فٹ بلندی پر چڑھنا شروع کیا گیا۔ اس اونچائی پر صرف برف ہی برف ہوتی ہے۔ درخت یا انسانی بستی کا نام و نشان بھی نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ سمندر سے 5000 ؍ فٹ کی بلندی پر انسان کو سانس لینے میں دشواری پیش آتی ہے۔ ہوا میں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے اکثر لوگوں کو سر درد شروع ہوجاتا ہے۔ سانس پھولنے لگتی ہے اور یہاں بھوک کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے مالاوتھ اور اس کے ساتھی کوہ پیماؤں نے تین ماہ قبل ہی دوڑنے ، مراقبہ کرنے اور یوگا کی سخت مشق کر لی تھی۔
اب ان کے آگے جسمانی چیلنج کے علاوہ ذہنی چیلنج بھی تھا۔ چڑھائی کا آغاز کرنے سے قبل بھی انھیں ایک حادثے کی اطلاع ملی۔ ایورسٹ کی دوسری جانب تیز برف باری کی وجہ سے 16 ؍ چرواہے اپنی جان گنوا بیٹھے ۔ مالاوتھ اور آنند نے جب ہمالیہ چڑھنا شروع کیا تب انھیں چھ چرواہوں کی لاشیں نظر آئیں۔
اس خوف و ڈر کے ماحول کے باوجود مالا وتھ اور اس کے ساتھیوں نے چڑھائی جاری رکھی۔ مسلسل 52 دنوں کی انتھک کوشش کے بعد مالاوتھ اور آنند 24 مئی 2014؍ کو ایورسٹ پر پہنچ گئے۔ مالاوتھ کی چودھویں سالگرہ کے لیے ابھی ایک مہینہ باقی تھا۔ ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والی وہ نہ صرف بھارت بلکہ ساری دنیا کی پہلی کم عمر لڑکی ثابت ہوئی۔
اس کی اس غیر معمولی کوشش کو دنیا بھر میں سراہا گیا۔ لیکن مالاوتھ اسی پر مطمئن نہیں ہے بلکہ اسے اور بھی پہاڑوں کو سر کرنا ہے۔ اسے شری پروین کمار کی طرح پولیس آفیسر بننا ہے۔ اُسے امید ہے کہ اس کی مثال بھارت کے لاکھوں بچوں کو ترغیب دلائے گی۔ ایک صحافی نے جب ایورسٹ سر کرنے کے مضبوط ارادے کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے کہا ،’’ مجھے یہ ثابت کرنا تھا کہ اگر لڑکیاں کسی بات کا ارادہ کر لیں تو اسے پورا کر کے ہی دم لیتی ہیں۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمنٹس کر کے بتائیے یہ مضمون آپ کو کیسا لگا؟؟؟؟
Good girl
ReplyDeleteبہادری لڑکی کا کارنامہ ...
ReplyDeleteاوکے بھیا
ReplyDeleteIf possible... We are waiting for you at...
ReplyDelete🌹🌹🌹😜
ReplyDelete🥀🌷🌷🥀💐🌺
ReplyDelete