=" Urdu Kahaniyan (AreeB): May 2022

Berahem Lutera (Urdu Kahani)

 بے رحم لٹیرا: Berahem Lutera 

Urdu Kahani @Areebtlm

بستی میں منادی ہورہی تھی کہ بے رحم لٹیرا زندہ بچ گیا ہے ا س نے یہ پیغام بھیجا ہے کہ وہ بستی والوں سے انتقام لے گا اور اس نے دریا کے پار اپنا ڈیرہ لگالیا ہے۔ بستی کے لوگ یہ پیغام سُن کر ڈر گئے کیونکہ بے رحم لٹیرا کئی بار بستی کو لوٹ چکا تھا اور نوجوانوں کو چُن چُن کر قتل کردیتا تھا۔

بے رحم لٹیرے کے ساتھی بھی بڑے ظالم تھے وہ مرُدوں کے کان کاٹ کر لے جاتے تھے اور جو کوئی ان کی راہ روکتا تھا، اُس کی بوٹیاں کر دیتے تھے۔ بستی والوں نے اپنی حفاظت کے لیے بھالے اور تیر کمان بنائے ہوئے تھے۔ لیکن بے رحم لیٹرے کی چھوٹی سی بندوق کے سامنے اُن کی کوئی پیش نہیں چلتی تھی ، کیونکہ اُس کی چھوٹی بندوق سے دھڑا دھڑ گولیاں نکلتی تھیں اور جس کو یہ گولی لگتی تھی وہ زمین پر گرتے ہی مر جاتا تھا۔

بستی والوں نے بے رحم لٹیرے کا پیغام سُن کر آپس میں بات چیت کی لیکن وہ بے رحم لٹیرے سےبچنے کا کوئی طریقہ نہ سوچ سکے ، انہیں ہر وقت بے رحم لٹیرے کا خطرہ تھا۔ بستی والوں نے دریا کے کنارے دو نوجوانوں کی ڈیوٹی لگادی کہ جب بے رحم لٹیرا کشتی سے بستی کی طرف آئے تووہ ان کو خبردار کر دیں ۔ بستی والوں نے عورتوں اور بچوں کو کسی گاؤں میں بھیج دیا کیونکہ کسی بھی وقت بے رحم لٹیرا حملہ کر سکتا تھا۔

اس بستی میں ایک ترکھان بھی رہتا تھا ۔ اُس کا ایک بیٹا ماجو تھا۔ اس کی ماں بے رحم لٹیرے کے ہاتھوں مرچکی تھی اور ماجو ہر وقت بے رحم لٹیرے سے انتقام لینے کے بارے میں سوچتا رہتا تھا۔ جب بستی والوں نے سارے انتظامات پکے کر لیے تو ماجو اپنی جھونپڑی سے نکل کر باہر کھیتوں میں آگیا اور سوچنے لگا کہ وہ بے رحم لٹیرے کا مقابلہ کس طرح کرے سوچتے سوچتے وہ دریا کے کنارے پر آگیا اور پانی میں پاؤں لٹکا کر بیٹھ گیا۔

بیٹھتے بیٹھتے اسے نیند آگئی اور خواب میں اُس نے دیکھا کہ بے رحم لیٹرے کی بندوق اُس کے ہاتھ میں آگئی ہے اور اُس نے بے رحم لٹیرے کو موت کے گھاٹ اُتار دیا ہے۔ اچانک اُس کی آنکھ کھل گئی اور اُس نے دیکھا کہ پانی میں ایک بزرگ باہر نکلے اورماجو سے کہنے لگے ۔ بیٹا! فکر نہ کرو بے رحم لیٹرا تیرے ہاتھوں سے ہی اپنے انجام کو پہنچےگا، ماجو نے کہا۔ 

بابا! میں اکیلا ہوں اور بے رحم لٹیرا طاقتورہے  بھلا میں اس کا مقابلہ کیسے کرسکوں گا۔

بزرگ نے جواب دیا۔ فکر کیوں کرتے ہو۔ ظالم کا انجام قریب ہے۔ یہ کہہ کر بزرگ دریا میں غائب ہوگیا۔ ماجو اپنی جگہ سے اُٹھا اور دریا پار کر کنارے ٹہلتا ہوا دور چلا گیا تو اس کے دل میں خیال آیا کیوں نہ میں دریا پار کر کے بے رحم لٹیرے کے ٹھکانے پر جاؤں اور اُس کی بندوق اُٹھا کر لے آؤں۔

ماجو نے اپنے اس خیال پر عمل کرنے کا فیصلہ کیااس نے دریا میں ڈبکی لگائی اور پانی کے اندر ہی اندر تیرتا ہوا دوسرے کنارے پر پہنچ گیا اُس نے دریا سے باہر آکر ادھر اُدھر دیکھا تو اُسے ایک گھنا جنگل نظر آیا ، ماجو نے سوچا۔ بے رحم لٹیرا ضرور اسی جنگل میں رہتا ہوگا۔ 

ابھی وہ چند قدم ہی آگے گیا ہوگا کہ اُسے ایک بندر دکھائی دیا جو لنگڑا کر چل رہا تھا اور مڑ کر ماجو کی طرف بھی دیکھ لیتا تھا۔ ماجو نے ہلکی سی سیٹی بجائی ، بندر ڈر گیا ماجو نے اُسے اُٹھایا تو اُسے پتہ چلا کہ ایک کانٹا بندر کے پاؤں میں چبھا ہو اہے۔ ماجو نے بڑے آرام سے کانٹا نکال دیا اور بندر نے ماجو کا ہاتھ چوم کر اُچھل کود شروع کردی۔

بندر نے ایک درخت پر چڑھ کر دو تین پھل توڑ کر ماجو کو دئیے ، ماجو اور بندر ایک گرے ہوئے درخت پر بیٹھے تھے  اور ماجو نے بندر سے کہا،

پیارے ساتھی! میں تو بے رحم لٹیرے سے مقابلہ کرنے کے لیے یہاں آیا ہوں  کیونکہ بے رحم لٹیرے نے میری بستی کو تباہ کرنے کا پیغام بھیجا ہے۔ بندر نے یہ سن کر اپنا سر ہلایا اور ماجو کی انگلی پکڑ کر اسے جنگل کی طرف لے جانےلگا ۔ یہ جنگل بہت گھنا تھا۔ دونوں جھاڑیوں اور پودوں سے گزر کر ایک کھلی جگہ پر آئے۔

بند رنے ماجو کو ایک درخت پر چڑھایا اور اُسے اشارے سے بتایا کہ وہ خاموشی کے ساتھ یہاں بیٹھا رہے۔ بندر چلا گیا اورماجو اُس کی واپسی کا انتظار کرنے لگا ۔ جب دن پوری طرح نکل آیا تو بندر درختوں کے درمیان میں چھپ کر وہاں پہنچا۔ ماجو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ بندر بے رحم لٹیرے کی بندوق اٹھا کر لے آیا تھا۔ 

بندر نے یہ بندوق ماجو کو دی اور اشارے سے بتایا کہ بے رحم لٹیرا اپنے ساتھیوں کے ساتھ دریا کے پار جانے کا پروگرام بنا رہا ہے۔ ماجو نے کہا ، تو پھر ہمیں جلدی سے بستی میں پہنچا چاہیے۔ بندر نے سر ہلا کر اُس کی بات کا جواب دیا اور دونوں بجلی کی طرح جنگل سے نکلے اور دریا کے کنارے پہنچے ۔ اس وقت دریا خاموش تھا ۔ ماجو کو تیرنا آتا تھا ۔ اس نے بندوق بندر کو دی اور اسے اپنے کندھوں پر بیٹھا کر دریا میں تیرنے لگا۔

ماجو اور بندر دریا پا رکر کے بستی کے کنارے پر آئے تو ماجو نے بستی والوں کو یہ بتانا مناسب نہ سمجھا کہ وہ بے رحم لٹیرے کی بندوق اُٹھا کر لے آیا ہے۔ ماجو اور بندر بستی کی طرف جانے والے ایک راستہ میں ایک درخت پر چڑھ کر بیٹھ گئے اور بے رحم لٹیرے کا انتظار کرنے لگے۔ بستی میں ماجو کے گم ہونے سے افراتفری پیدا ہوگئی تھی ۔ سب لوگ ماجو کو تلاش کر رہے تھے ۔ 

بستی والوں کا خیال تھا کہ وہ دریا میں ڈوب گیا ہے ۔ ماجو کا باپ پریشان ہوگیا تھا۔ بستی والے اُس کے گھر آتے اور اُسے تسلی دینے لگتے۔ ماجو کے باپ نے کہا ، میرا ماجو اگر دریا میں ڈوب گیا ہے تو میں بھی دریا میں ڈوب جاؤں گا ۔ بستی کے ایک بزرگ نے اُسے سمجھایا ، دیکھو اگر ماجو دریا میں ڈوبا ہے تو اُس کی لاش ضرور دوسرے کنارے پر چلی گئی ہوگی۔ ہم اُس کی لاش تلاش کرنے کے لیے ضرور جاتے لیکن بے رحم لٹیرے کا خطرہ سر پر کھڑا ہے۔ مگر میرا دل کہتا ہے کہ ماجو ڈوبا نہیں وہ زندہ ہے او ر ضرور ظاہر ہو کر رہے گا۔

ماجو کے باپ نے جواب دیا ۔ ’’ میرا دل بھی یہی کہتا ہے کہ ماجو ڈوبا نہیں وہ زندہ ہے ، لیکن اُس کی جدائی مجھ سے برداشت نہیں ہوتی ۔ ‘‘ بستی والوں نے اُسے تسلی دی اور کہا، ’’ بے رحم لٹیرے کا خطرہ دور ہوتے ہی ہم سب ماجو کو تلاش کریں گے ، ماجو تمہارا ہی نہیں پوری بستی کا بیٹا ہے۔‘‘بستی والوں بے بستی میں پہرہ بٹھا دیا اور ساری رات وہ جاگتے رہے۔ دوسری صبح ہوئی تو بندر درختوں کے پھل توڑ کر لایا جسے ماجو نے درخت پر بیٹھے بیٹھے کھایا اور دل میں کئی بار اس نے سوچا کہ اس کا باپ کتنا پریشان ہوگا۔

ماجو نے بندوق کوالٹ پلٹ کر دیکھا ، وہ گولیوں سے بھری ہوئی تھی اور ماجو سمجھ گیا کہ بندوق کس طرح چلائی جاتی ہے۔ سورج پوری طرح سے نکل آیا تھا ۔ بندر درخت کی سب سے اونچی شاخ پر چڑھ گیا اور جب اُس نے دیکھا کہ بے رحم لٹیرا اور اس کے ساتھی کشتیوں میں بیٹھ کر دریا پار کررہے ہیں تو اس نے فوراً اس بات کی ماجو کو اطلاع دی ۔ ماجو سنبھل کر بیٹھ گیا۔

بے رحم لٹیرا اور اُس کے ساتھی بستی والے کنارے پر پہنچے تو ماجو یہ دیکھ کر حیران ہو کہ بے رحم لٹیرے کے ہاتھ میں ننھی بندوق تھی۔ بے رحم لٹیرا اپنے ساتھیوں کو لے کر بستی کی طرف بڑھا اور للکار للکار کر کہنے لگا۔ جس نے میرا مقابلہ کرنے کی کوشش کی وہ زندہ نہیں بچ سکتا۔ اس لیے اپنا سونا چاندی میرے حوالے کر دو۔ ورنہ میں بستی چلا کر راکھ کردوں گا۔ 

بستی والے اُس کے ہاتھ میں آگ برسانے والی بندوق دیکھ کر ڈر گئے۔ اچانک بے رحم لٹیرے پر گولیوں کی بارش ہونے لگی۔ بے رحم لٹیرا گولی کھا کر گرا اور اس کے ساتھی ادھر اُدھر بھاگنے لگے تو بستی والو ں نے نیزوں اور بھالوں سے اُن پر حملہ کردیا۔ بے رحم لٹیرا پہلی ہی گولی سے ٹھنڈا ہوگیا تھا۔ اور اس کے ساتھی جان بچانے کے لیے دریا کی طرف بھاگے تو ماجو نے بندوق کا رخ ان کی طرف کردیا۔ ایک ایک کر کے بے رحم لٹیرے کے سارے ساتھی گر گئے اور باقی جو بچے وہ دریا میں کود گئے۔ 

بستی والے اس غیبی امداد پر بے حد خوش ہوئے اور جب درخت سے ماجو بندوق لیے اُترا تو اُن کی خوشی اور بڑھ گئی۔ماجو کی بہادری نے اُن کے دل جیت لیے تھے جس نے اُنہیں بےرحم لٹیرے سے چھٹکارا دلادیا تھا۔ بستی والے ماجو کے باپ کو مبارک باد دے رہے تھے کہ اُس کے بہادر لڑکے بے بستی والوں کی عزّت رکھ لی تھی ۔ ماجو بے بستی والوں کو بندر کی کہانی سنائی تو وہ بھی بندر کی عزّت کرنے لگے،

ہر طرف ماجو کا ہی چرچا تھا جس نے بے رحم لٹیرے کا مقابلہ کر کے بستی والوں کو ظلم سے نجات دلا دی تھی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



Areebtlm
Areebtlm

#areebtlm #urdukahani#blog #naushadali19881

Shaheen aur Behdiya (Urdu Kahani)

شاہین اور بھیڑیا:۔

پیارے بچّو!

بہت  پُرانا ذکر ہے کسی گاؤں میں ایک کسان رہتا تھا۔ بچارے کی شادی کو کئی سال ہوچکے تھے۔ لیکن اُس کی کوئی اولاد نہ تھی۔کسان ہر روز گڑ گڑا کر خدا سے دعامانگا کرتا کہ یا اللہ تو جانتا ہے کہ میں نے کبھی کسی کو دکھ نہیں دیا۔ ہر کسی کی غمی خوشی میں شریک ہوا تو پھر تو مجھے اولاد کی نعمت سے کیوں محروم رکھ رہا ہے اس دن بھی کسان رو رو کر خدا سے دعا مانگ رہاتھا کہ ایک بزرگ اس سے مخاطب ہے اور کہہ رہا ہے کہ ’’ الےخدا کے بندے خدا نے تیری دعا قبول کر لی۔یہ سیب آدھا خود کھا اور آدھا اپنی بیوی کو کھلا دے تیری حاجت پوری ہوجائے گی اور سن تیرا بیٹا دنیا کا طاقت ور انسان ہوگا۔‘‘

یہ کہہ کر وہ بزرگ غائب ہوگیا اور کسان کی آنکھ کھل گئی تو اس نے دیکھا کہ اس کے پاس ایک سنہری رنگ کا سیب پڑا ہوا ہے۔ کسان سمجھ گیا کہ وہ بزرگ فرشتہ تھا جس کو اللہ تعالی نے بھیجا تھا۔ اب تو کسان جس کا نام خالد تھا کی خوشی کاکوئی ٹھکانہ نہیں رہا اُس نے سیب اُٹھایا اور فوراً گھر چل پڑا۔ گھر جاکر اُس نے ساری بات اپنی بیوی شاکرہ کو بتادی۔ اُس کی بیوی بھی بہت خو ش ہوئی خالد کسان نے سیب کے دو ٹکڑے کئے۔ ایک خود کھا لیا اور ایک شاکرہ کو کھلایا۔

خدا کی قدرت کہ ایک سال بعد خالد کے گھر ایک نہایت خوبصورت بچہ پیدا ہوا۔ بیٹے کے پیدا ہونے سے خالد کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ اُس نے سارے گاؤں کی دعوت کی اور اپنے بیٹے کا نام شاہین رکھا۔ اب شاہین کی پرورش نہایت ذمہ داری سے ہونے لگی کیونکہ خالد کو بزرگ کے یہ الفاظ یاد تھے کہ تمہارا بیٹا دنیا کا طاقت ور انسان ہوگا اس لیے کسان چاہتا تھا کہ اُس کا بیٹا واقعی دنیا کا طاقت ور انسان بنے ۔ آہستہ آہستہ وقت گذرتا گیا اور اب شاہین دس سال کا ہوچکا تھا اور دس سال کی عمر میں ہی اس کا کافی قد کاٹھ نکل آیا تھا لیکن چہرہ معصومیت سے پُر تھا۔ اس وقت شاہین اپنے گھر سے باہر گلی میں کھیل رہا تھا کہ اچانک اس کو شور کی آواز آئی۔ اُس نے چونک کر سر اُٹھایا تو ایک بھیڑیا تیزی سے اس کے سامنے سے گذرا۔ اُس کے منہ میں ایک بچہ دبا ہوا تھا اور گاؤں کے لوگ شور کرتے بھاگے آرہے تھے۔ شاہین فوراً سمجھ گیا کہ بچہ گاؤں کے کسی شخص کا ہے جسے بھیڑیا اُٹھا کر لے گیا ہے اتنے میں بھیڑیا بہت دور جا چکا تھا اتنی دور کہ بھیڑیا گاؤں والوں کے ہاتھ نہیں آئے گا۔ شاہین کو ایسا لگا جیسے اُسے کوئی کہہ رہا ہے کہ اگر وہ بھیڑیے کے پیچھے جائے تو وہ اس سے بچہ لانے میں کامیاب ہوجائے گا۔ اتنے میں گاؤں والوں کی نظر بھی اس پر پڑچکی تھی اور پھر گاؤں والوں نے حیرت ناک منظر دیکھا کہ دس سالہ شاہین نے بھیڑیے کے پیچھے دوڑ لگا دی شاہین کے دوڑنے کی رفتار گھوڑے سے بھی زیادہ تیز تھی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے بھیڑیا اور شاہین گاؤں والوں کی نظروں سے اوجھل ہوگئے۔

.تو پیارے بچو! دس سالہ شاہین بھیڑیے کے پیچھے دوڑتا رہا ۔ جب بھیڑیے نے دیکھا کہ اُس کا پیچھا کیا جارہا ہے تو اُس نے بھی اپنی رفتار تیز کردی ۔ مگر نہ جانے شاہین میں اتنی طاقت کہاں سے آگئی تھی کہ وہ لمحہ لمحہ خونی بھیڑیے کے قریب ہوتا گیا۔ جب شاہین نے دیکھا کہ وہ بھیڑیے کے بہت قریب آگیا ہے تو اُس نے اللہ کا نام لیا اور بھیڑیے پر چھلانگ لگادی۔ شاہین سیدھا بھیڑیے کی کمر پر جا پڑا جس کی وجہ سے بچہ بھیڑیے کے منہ سے چھوٹ کر نرم نرم گھاس پر گر گیا اور رونے لگا۔ بھیڑیے نے جب شکار ہاتھ سے جاتے دیکھا تو غضب ناک ہو کر شاہین کی طرف مڑا۔ شاہین نے بھی ہوشیار ہوکر بھیڑیے کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھیں شعلے برسا رہی ہیں۔ اچانک بھیڑیے نے غراتے ہوئے شاہین پر چھلانگ لگادی۔ شاہین نے بھیڑیے کے حملے سے بچنا چاہا مگر بھیڑیے کا ایک پنجہ اُس کے بازو پر لگ گیا اورخون بہنے لگا ۔ لیکن دس سالہ شاہین کی ہمت کہ اس نے پرواہ نہ کی اور جلدی سے ہوشیار ہوکر بھیڑیے کی طرف دیکھا جو کہ اب زیادہ غضب ناک ہوچکا تھا اور دوبارہ حملے کے لیے پر تول رہاتھا جب کہ ننھا شاہین اپنی جگہ پُر سکون کھڑا تھا۔ اچانک بھیڑیا خوفناک آواز نکال کر غراّیا اور شاہین پر دو بارہ چھلانگ لگادی۔ شاہین پھرتی سے ایک طرف ہٹ گیا۔

شاہین کے ہٹنے سے بھیڑیے کا وار خالی گیا اور وہ اپنی ہی جھونک میں آگے جا پڑا۔ اس سے پہلے کہ بھیڑیا اُٹھ کر پھر حملہ کرتا شاہین نے قریب پڑا ہوا ایک پتھر اُٹھایا اور بھیڑیے پر دے مارا ۔ پتھر لگنے سے بھیڑیا جو کہ اُٹھ رہا تھا دوبارہ زمین پر گر پڑا۔

جیسے ہی بھیڑیا دوبارہ زمین پر گرا شاہین نے بھیڑیےکے اوپر چھلانگ لگادی اور اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھ بھیڑیے کے منہ میں داخل کر کے اس کے جبڑے پکڑ لیے اور ان کو چیرنے کی کوشش کرنے لگا۔ بھیڑیے نے بہت کوشش کی کہ وہ شاہین کی گرفت سے نکل جائے مگر شاہین پھر شاہین تھا۔

نہ جانے اُس میں اتنی طاقت کہاں سے آگئی تھی کہ اُس نے بھیڑیے کے جبڑے نہ چھوڑے اور برابر زور لگاتا رہا  جب کہ بھیڑیا تکلیف کی شدت سے تڑپ رہا تھا ۔ اب بھیڑیے کے منہ سے خوفناک غراہٹیں نکلنے لگیں کیونکہ اس کا جبڑا ٹوٹ چکا تھا۔ شاہین نے بھیڑیے کو چھوڑ دیا اور آگے بڑھ کر بچہ کو اُٹھا لیا۔

ادھر بھیڑیا بُری طرح تڑپ رہاتھا۔ آاہستہ آہستہ بھیڑیے کی غراہٹیں کم ہونے لگیں وہ آخری بار زور سے تڑپا اور دم توڑدیا۔ اتنے میں گاؤں کے لوگ بھی وہاں پہنچ گئے وہ حیرانی سے کبھی مرے ہوئے بھیڑیے کو دیکھتے اور کبھی شاہین کو !

یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ اس دس سال کے لڑکے نے جس کی ابھی داڑھی مونچھ بھی نہیں نکلی ، نے بھیڑیے کو ہلاک کیا ہے۔ لیکن حقیقت اُن کے سامنے تھی۔ بچے کی ماں دیوانہ وار آگے بڑھی اور اُس نے بچہ شاہین کے ہاتھوں سے لے لیا اور اُسے دیوانہ وار پیار کرنے لگی ۔ ساتھ ہی تشکر آمیز نظروں سے شاہین کی طرف دیکھ رہی تھی۔ 

دوسرے لوگ شاہین کو شاباشی دینے لگے ۔ اچانک اُن کی نظر شاہین کے بازو پر پڑی جو کہ زخمی تھا اور بچے کو بھی دوچار معمولی زخم آئے تھے۔ سب گاؤں واپس آئے اور گاؤں کے حکیم نے شاہین اور بچے کے زخموں پر دوا لگائی ۔ اتنے میں شاہین کا باپ بھی وہاں آگیا۔ سب لوگوں نے اسے شاہین کے کارنامے سے آگاہ کیا تو خالد نے شاہین کو اپنے سینے سے لگا لیا اور اُس کے کانوں میں بزرگ کے کہے ہوئے یہ الفاظ گونجنے لگے کہ ،

’’ تمہارا بیٹا دنیا کا طاقت ور ترین انسان ہوگا‘‘۔

اب سب لوگوں نے مل جُل کر یہ فیصلہ کیا کہ اب شاہین کی تعلیم و تربیت وہ مل کر کریں گے۔ کیونکہ وہ جان گئے تھے کہ جو بچہ دس سال کی عمر میں ایسا کارنامہ انجام دے سکتا ہے جو بڑے بڑے سورما نہیں دے سکتے تو وہ بڑا ہو کر نہ جانے کیا کیا کارنامے دکھائے گا۔ جن سے اُن کے گاؤں کا نام روشن ہوگا۔ چنانچہ شاہین کے باپ کو گاؤں والوں نے اپنے فیصلے سے آگاہ کر دیا۔

خالد کو بھلا کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ اس نے خوشی سے اجازت دے دی او ر شاہین کی تعلیم و تربیت زور شور سے شروع کر دی گئی۔ اکھاڑا بنایا گیا جس میں گاؤں کے بڑے بوڑھے اور پہلوان شاہین کو دینی و دنیا وی تعلیم دیتے اور زور کراتے۔

شاہین کے کارنامے کی شہرت دور دور تک پھیل گئی ۔ دُور دُور سے لوگ آتے اور اُسے دیکھ کر حیران ہوتے کہ اس لڑکے کی اتنی سی عمر اور اتنا بڑا کارنامہ دکھادیا۔وقت گزرتا گیا اور اب شاہین جوان ہوچکا تھااور اس وقت اکھاڑے میں اکیلا بیٹھا ہوا تھا کہ ایک بزرگ آئے اور شاہین سے پوچھا کہ،’’ کیا وہ شاہین ہے؟‘‘ شاہین نے حیران ہوکر کہا کہ’’ ہاں ! میں شاہین ہوں ۔‘‘

اور سوچنے لگا کہ یہ بزرگ کون ہیں اور کس لیے اُس کے پاس آئے ہیں ۔ کیونکہ اس کے لیے اجنبی تھے اور انہوں نے سبز چغہ پہنا ہوا تھا۔ بزرگ کہنے لگے،’’ میں جانتا ہوں کہ تم کیا سوچ رہے ہو؟‘‘شاہین حیران ہو کر کہا، 

’’ بتائیے کہ میں کیا سوچ رہا ہوں ؟‘‘’’ یہی کہ میں کون ہوں اور کس لیے آیا ہوں ‘‘؟اب تو شاہین بہت حیران ہوا اور بولا۔ ’’ تو پھر کیا آپ بتائیں گے کہ آپ کون ہیں؟‘‘ بزرگ مسکرائے۔

    ہاں کیوں نہیں ! تو سنو ! یہاں سے آٹھ دس کوس دُور ایک جنگل ہے۔ میں وہیں رہتا ہوں ۔ایک رات میں سو رہا تھا کہ میں خواب دیکھا کہ آسمان سے ایک فرشتہ اُتر کر میرے پاس آیا اور کہنے لگا یہاں سے شمال کی جانب آٹھ کوس دُور ایک گاؤں ہے وہاں ایک بہاد ر نوجوان شاہین رہتا ہے جو کہ بہت نیک اور رحم دل ہے۔ اللہ تعالی نے اُس کے لیے ایک تحفہ بھیجا ہے۔اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ دُکھی لوگوں کے کام آئے ظالموں کو سزا دے ، اِسی لیے میں تمہارے پاس آیا ہوں ۔‘‘’’ لیکن آپ نے مجھے کیسے پہچانا؟‘‘ شاہین نے پوچھا،’’ اس طرح کہ جو حُلیہ مجھے فرشتے نے بتایا تھا وہ پورپرا تم اُترا ہے  اور جب میری آنکھ کھلی تو وہ تحفہ میرے پاس پڑا تھا۔‘‘ بزرگ نے جواب دیا۔’’ اور وہ تحفہ کیا تھا؟‘‘ شاہین نے پوچھا، بزرگ نے اپنے چغے میں ہاتھ ڈالا اور جب ہاتھ باہر آیا تھا ایک نہایت شاندار خنجر چمک رہا تھا اور اس کی چمک اتنی تیز تھی کہ نگاہ نہ ٹھہرتی تھی اور خنجر کے سنہری دستے پر عقاب کی تصویر بنی ہوئی تھی۔

’’یہ آسمانی خنجر ہے اور تمہارے لیے ہے اور ہاں دیکھو کسی بے گناہ کو نہ ستانا اور مظلوموں کی ہر ممکن مدد کرنا۔‘‘ یہ کہا اور بزرگ نے وہ خنجر شاہین کو دیا اور خود جانے کی اجازت مانگی۔

شاہین نے روکنا چاہا مگر بزرگ نہ مانے اور خدا حافظ کہہ کر چل دئیے اور شاہین حیران کھڑا خنجر دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔!!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Areebtlm




#Areebtlm#Urdu Kahani

Bhoton Ki Shahezadi

انتخاب : انصاری اریب نوشاد علی۔ بھوتوں کی شہزادی پچھلے زمانے میں ملک شام پر ایک بادشاہ پرویز حکومت کرتا تھا۔ اس بادشاہ کا ایک ہی بیٹا تھا ش...