بلخ کا سوداگر:
Balkh ka Soudagar -Urdu Kahani
ایک دفعہ کا ذکر ہے بلخ کا ایک سوداگر اپنے ملک کی چیزیں لے کر دوسرے ملک میں گیا ۔ اس ملک کا نام سقف تھا۔ بڑا ہی با رونق اور خوبصورت ملک تھا اسے بہت بڑی تجارتی منڈی ہونے کا شرف بھی حاصل تھا۔ بلخ کے سوداگر کا نام صالح تھا وہ سقف میں مال فروخت کرنے کے لیے پہلی بار آیا تھا ۔ اس سے قبل اسے سقف آنے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا تھا ۔ البتہ اُس نے ملک کی شہرت ضرور سُن رکھی تھی۔
اس لیے اُس نے اچھے سے اچھا مال لے کر سقف کا سفر اختیار کیا تھا۔اُس نے اپنے سامان میں ہر وہ چیز اکٹھی کر رکھی تھی جس کا سقف میں ملنے کا بہت کم امکان تھا ۔ صالح کو قوی اُمید تھی کہ وہ اپنے مال کے اچھے دام وصول کرلے گا ۔ اُس کے سامان میں ایک ایسی دھوپ گھڑی تھی جو موسمی اثرات کا بھی پتہ دیتی تھی۔ یہ ایک بہت ہی قیمتی اور عجوبہ تحفہ تھا۔ صالح نے سوچا تھا کہ وہ اسے سقف کے بادشاہ کی خدمت میں پیش کر کے اچھا انعام پائے گا۔
وہ سقف میں داخل ہوا تو لوگوں نے اُسے دوسرے معمولی تاجروں کی طرح ایک معمولی تاجر سمجھتے ہوئے کوئی اہمیت نہ دی۔ صالح لوگوں کی اس بے رُخی سے متاثر نہ ہوا وہ خوب اچھی طرح سے جانتا تھا کہ سقف میں امیر لوگوں اور تاجروں کی کوئی کمی نہیں ۔ لوگوں کا اُس کی جانب متوجہ نہ ہونا کوئی بُری بات نہیں۔دو دن تک صالح نے سقف کی خوب سیر کی ۔ وہاں کی تجارتی منڈی کو دیکھا ایک سے بڑھ کر ایک چیز اس منڈی میں موجود تھی ۔ بڑے بڑے تاجر اور سوداگر دُکانیں سجائے بیٹھے تھے ۔ مال خریدنے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں تھی۔
صالح منڈی دیکھ کر بہت خوش ہوا ۔ اس سے بڑھ کر اسے گاہکوں کی ریل پیل نے متاثر کیا ۔ ہر کوئی منہ مانگے داموں پر چیزیں خرید رہا تھا۔ صالح نے سوچا کہ ان امیر گاہکوں کے ہوتے ہوئے کوئی وجہ نہیں کہ اس کا مال زیادہ سے زیادہ قیمت میں فروخت نہ ہو۔وہ یہ سب کچھ دیکھ کر خوش بہت ہوا مگر اُسے ایک بات سے دُکھ بھی ہوا وہ اس بات سے کہ وہاں کے لوگ بڑے رُوکھے اور سخت مغرور تھے۔ ایک دوسرے کی کوئی خبر نہیں لیتا تھا۔
منڈی میں ایک سے بڑھ کر ایک امیرآتا تھا اور مال خرید کر چلتا بنتا تھا۔ وہ ایک اور بات سے بھی حیران تھا وہ یہ کہ ہر کوئی اپنی چیز فروخت کرنے کے بعد روپیہ پیسہ اپنے دوسرے ساتھی کو دے دیتا تھا جو دُکان سے چند قدموں پر بیٹھا رہتا تھا ہر تاجر اور سوداگر کا کوئی نہ کوئی آدمی ایسا بیٹھا ہوا تھا جو گاہکوں کے دام سنبھالتا تھا ۔ صالح حیران تھا کہ یہ لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں ۔ دام اپنے پاس کیوں نہیں رکھتے ۔ مگر صالح کی سمجھ میں کوئی بات نہ آئی۔ اُس نے سوچا کہ کسی سوداگر سے اس بارے میں ضرور پوچھنا چاہیے۔
وہ سب کو دیکھتا بھالتا ایک کے پاس جا کھڑا ہوا۔ سوداگر نے اس کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’ کیا چاہیے۔ اگر کوئی شئے خریدنی ہے تو جلدی سے خرید کر چلتے بنو ، یہاں رُکنے اور دیکھنے کی کوئی بات نہیں ہے۔‘‘
صالح سوداگر کی اس با ت پر اس کے پاس ہی بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔۔ اور اس سے بولا،
’’بھائی! میں نے کوئی شئے نہیں خریدنی ، میں خود ایک سوداگر ہوں اور بلخ میرا ملک ہے۔ میں تم سے اس افراتفری اور لوگوں کی بے رُخی کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں ۔ ایسے فارغ البال لوگوں میں ایسی بات کیوں ہے؟‘‘
سوداگر نے صالح کی جانب غور سے دیکھا اس کے بعد بولا،جس ملک میں فارغ البالی ہوگی وہاں کے لوگ بے حس اور مغرور ضرور ہوں گے۔ ان تمام لوگوں کے ہاں دولت کی فراوانی ہے سستی سے سستی شئے کو بھی مہنگے داموں سے خرید لیتے ہیں۔ سوداگر کوڑیوں کا مال لاکھوں میں فروخت کر تے ہیں یہی وجہ ہے بار بار لُٹنے کے باوجود ہر سوداگر سقف آنا ہی پسند کرتا ہے۔
صالح نے حیران ہو کر پوچھا، ’’ یہ بار بار لُٹنے کی بات کیا ہے۔‘‘
’’تم نئے ہو۔۔۔۔۔۔ اس لیے تمہیں حقیقت حال کا کچھ پتہ نہیں ۔ شام کو میں سرائے میں ہوتا ہوں تم وہاں چلے آنا۔ تمہیں ساری حقیقت سےآگاہ کردوں گا۔‘‘
میں تمہارا بہت بہت شکریہ ادا کرونگا۔ صالح یہ کہتے ہوئے وہاں سے اُٹھ گیا۔ جب وہ واپس ایک کھیت کے پاس سے گزرا تو اُس نے کسان کو سلام کیا مگر اس نے منہ دوسری طرف پھیرلیا ۔ صالح حیران حیران سا اور آگے بڑھ گیا۔ پھر اچانک اس پیاس کا احساس ہوا تو اُس نے ایک کسان کو پانی کے لیے کہا۔
کسان نے اُس کی طرف غصّہ کی نظروں سے دیکھا اور بولا، ’’ مسافروں کو پانی اور خوراک صرف سرائے ملتی ہے ہم کسی کو نہ پانی کو پوچھتے ہیں نہ کھانے کا!‘‘
’’کسی مسافر کو پانی پلانا ثواب ہے اس سے برتن پلید نہیں ہوتے بلکہ پاک ہوتے ہیں ۔‘‘ اس پر کسان بولا، ’’ جاؤ جاؤ اپنا راستہ لو ۔ لوگوں کو سقف آنے کی اجازت کیا مل جاتی ہے سر پر سوار ہوجاتے ہو۔ہم ثواب وواب کسی کو نہیں جانتے ہمارے ہاں بہت کچھ ہے۔‘‘
اس پر صالح نے کسی سے کچھ بات نہ کی اور شہر کا رُخ اختیار کرتے ہوئے اپنے دل میں بولا، غرور خدا کو پسند نہیں یقیناً ایسے لوگوں کو کڑی سزا ملے گی۔‘‘صالح سرائے پہنچا ۔ پانی پیا اور بستر پر لیٹ گیا اور سوداگر منہ لٹکائے اس کے پاس آپہنچا ۔
’’ خیر تو ہے بھائی ! اتنے اُداس اور غمگین کیوں ہو ۔‘‘ سوداگر نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے جواب دیا۔اب تو بھائی پوری طرح سے لُٹ گئے ہیں بادشاہ نے کسی کے پاس کچھ شئے نہیں چھوڑی بلکہ ہمارے دوسرے آدمیوں کو غلام بنا کر بھی اپنے ساتھ لے گیا ہے۔‘‘
’’ یہ تم کیا کہہ رہے ہو۔ میں نہیں سمجھا۔‘‘ صالح کی اس بات پر سوداگر نےجواب دیا۔ بھائی سنو ! ہم برسوں سے مال لا کر سقف میں فروخت کر رہے ہیں۔ ہمار ا تھوڑا مال چند دنوں میں ہی پوری رقم اور منافع دے جاتا ہے ہم بے فکر ہو جاتے ہیں ۔ اس کے بعد اچان ک کسی دن بادشاہ آتا ہے اور اس کے سپاہی بادشاہ کے حکم پر سارا مال لوٹ کر لے جاتے ہیں ۔ مگر ہمیں کوئی دُکھ نہیں ہوتا تھا کیونکہ ہم نے بہت زیادہ کما لیا ہوتا تھا۔ہمارے پاس کافی سرمایہ ہوتا تھا ۔ اس لیے ہم خوشی خوشی لٹیرے بادشاہ کا استقبال کرتے ہیں ۔ مال لُٹنے کے باوجود ہم دوسری مرتبہ پھر مال لے کر سقف میں ہی آتے تھے۔ اس طرح ہم برسوں مال فروخت کرتے ہیں اور لُٹاتے رہے۔
ایک بار بادشاہ نے ہماری نقدی چھین لینے کا بھی حکم دیا تھا اس پر سپاہیوں نے غیرملکی سوداگروں کے پاس سے جو کچھ نقد کمایا ہوا تھا وہ سب کچھ چھین لیا ، ہمیں بادشاہ کے اس نئے اقدام سے سخت حیرت ہوئی ۔ ہم سب سوداگروں نے اکھٹے ہو کر بادشاہ سے فریاد کی ۔ مگر اس مغرور ظالم بادشاہ نے ہماری ایک نہ سُنی اور ہم دل برداشتہ ہو کر رہ گئے۔ پھر ہم اپنے ساتھ غلام لانے شروع کردیے جو کچھ ہم فروخت کرتے تھے اس کی نقدی اپنے اپنے غلاموں کو دے کر اسے مال سے دور کھڑا ہونے کو کہہ دیتے تھے۔ بادشاہ حسب معمول آیا اور ہمیں لوُٹنے کا حکم دیا ۔ مال تو لوٹ لیا مگر کسی کے پاس کوئی نقدی نہیں ملی۔ اس پر بادشاہ حیران تو بہت ہوا مگر یہ سوچ کر واپس لوٹ گیا کہ شاید اب کی بار سوداگروں کی دُکانداری نہیں ہوئی۔بادشاہ ایک بار لوُٹنے کے بعد دوبارہ نہیں آتا تھا۔ سوداگر بھی مال لٹُنے کے بعد نقدی سنبھالتے اور گھروں کو چل دیتے تھے۔
اب ہم غلاموں کےذریعہ نقدی بچانا شروع کردی آخر بادشاہ کو بھی اس بات کی اطلاع مل گئی کہ سوداگر اپنا مال فروخت کر کے نقدی کیسے بچاتے ہیں چنانچہ اب کی بار بادشاہ لوٹنے آیا تو ہمارے سامان کے ساتھ ہمارے غلاموں کو بھی لیتا گیا۔ اب سقف میں تجارت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ دوبارہ سقف میں نہیں آئیں گے‘‘
’’ شکر ہے اللہ تعالیٰ کا کہ میں نے مال نہیں لگایا۔ ورنہ میں بھی لُٹ جاتا،‘‘ صالح کی اس بات پر سوداگر بو لا ، ’’ تم نے اچھا کیا ۔ بہت ہی اچھا کیا۔ تمہاری عزت بھی بچ گئی اور مال بھی۔‘‘
’’ اس ملک کے باشندے بھی بہت مغرور ہیں ۔‘‘
’’ ہاں چونکہ اس ملک کی پیداوار دوسرے تمام ملکوں سے زیادہ ہے اس لیے یہاں کے باشندے مغرور ہیں کسی کو خاطر میں نہیں لاتے۔‘‘تکبر کا یہ عالم ہے کہ کوئی غیر ملکی تاجر اگر بیمار پڑ جائے تو یہ اُس کی خبر تک نہیں لیتے۔ مال خریدتے وقت بھی اچھی زبان استعمال نہیں کرتے۔’’ ایسے مغرور لوگوں کا ملک خدا کے قہر سے محفوظ تو نہیں رہ سکتا۔‘‘صالح بولا۔
کسی نے سچ کہا ہے جیسا ظالم اور مغرور بادشاہ ہوگا ویسی ہی اس کی رعایا ہوگی۔اس بے بعد صالح دوسرے سوداگروں کے ہمراہ سقف سے چل پڑا۔ کچھ دور پہنچ کر انہوں نے پڑاو ڈالا ۔ صالح نے اپنی گھڑی نکال کر سوداگروں کو دکھائی سوداگر ایسی عجیب و غریب گھڑی دیکھ کر بہت خو ش ہوئے ۔ اتنے میں گھڑی کے شیشے پر سیاہ بادل دکھائی دئیے پھر وہ بادل سُرخ ہوگئے۔ صالح ان سُرخ بادلوں کو دیکھ کر چلایا۔
سقف تباہ ہو رہا ہے ۔ وہاں کے باشندوں کو ان کے تکبّر کی سزا مل رہی ہے۔ سب ہی صالح کی اس بات پر بہت حیران ہوئے۔وہ بولا ،’’ میری یہ گھڑی جھوٹ نہ بول سکتی اس پر چھائے ہوئے سُرخ بادل بتا رہے ہیں کہ سقف پر سُرخ آندھی اور تیز بادل چھائے ہوئے ہیں اور پورا سقف اس وقت تباہی کی لپیٹ میں ہے۔‘‘ سوداگر حیران تھے مگر صالح کا کہنا سچ تھا۔
چند دنوں کے بعد سوداگروں نے سُنا کہ پورا سقف آسمانی آگ اور آندھی سے تباہ ہوگیاہے وہاں کی کوئی شئے نہیں بچی۔ سب ہی غرور کرنے والوں نے سخت ترین سزا پائی ہے۔ دیکھا بچو! آپ نے غرور کا انجام جس نے پورے سقف کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا ۔ انسان کو غرور کبھی نہیں کرنا چاہیے۔ اس سے اللہ تعالی ناراض ہوتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔ختم شُد۔۔۔۔۔
#areebtlm #naushadali19881 #Urdustory
https://teachingadds.blogspot.com
No comments:
Post a Comment