تین گنجے اور نائی:
پرانے
زمانے کی بات ہے کسی گاؤں میں ایک نائی، ایک پینٹراور ایک گنجا سا تھ ساتھ رہتے
تھے ۔گلی کے موڑ پرنائی کی دکان تھی پینٹر
اور گنجاسارا دن وہیں بیٹھے رہتے۔ پینٹر نے اپنے رنگ اور برش بھی اس کی دکان کے
ایک کونے میں رکھے ہوئے تھے۔
نائی
اپنے کام میں بالکل اناڑی تھا۔ لوگ اس سے حجامت بنو اتے ہوئے ڈرتے تھے۔ اگر کوئی بھولا
بھٹکا حجامت بنوانے آجاتا تھا تو اس کی واقعی حجامت بن جاتی تھی ۔ سر سے جگہ جگہ
سے خون بہہ نکلتا اور گالوں پر بھی ٹِک لگ جاتے۔ یہی وجہ تھی کہ لوگ اس سے دُور
بھاگتے تھے۔
پینٹر
کا حال اس سے بھی بُرا تھا۔ اسے تو رنگ کرنا آتا ہی نہیں تھا۔ کبھی کوئی گاہک
پھنستا تو اس کے بور ڈ یا اشتہار کا ستیاناس مار دیتا۔ اس لئے وہ بھی اکثر بے کار
ہی رہتا تھا ۔
رہ گیا
گنجا۔ تو وہ صرف محنت مزدوری کرتا تھا۔ وہ اپنے گنجے سر پر بڑے بڑے بوجھ اٹھاتا
اور پھیرہ پہنچانے کے بعد پھرنائی کی دکان پر آکربیٹھ جاتا۔ لوگ یہیں سے اسے
مزدوری کے لئے بلاتے تھے۔ وہ بھی اپناٹوکرہ نائی کی دکان میں رکھتا تھا اور سچ پوچھئے
تو، نائی اور پینٹر کی گذر اوقات بھی اسی کی وجہ سے ہو رہی تھی ۔ اگر وہ مزدوری نہ
کر تا تو دہ دونوں اور ان کی بیویاں بھوکوں مر جاتے۔
تینوں کی بیویاں
ان تینوں سے تنگ تھیں۔ نائی اور پینٹر کی بیویاں تو اس لئے تنگ تھیں کہ ان کے شوہر
نکھٹو تھے کچھ کما کر نہیں دیتے تھے اور گنجے کی بیوی اُس سےاِس لئے تنگ تھی کہ وہ
جو کچھ کماتا اس کے تین حصّے کر دیتا تھا۔ ایک خو د ر کھتا اور دو حصے نائی اور پینٹرکو
دے دیتا۔ پڑوسی تو تھے ہی۔ ان کی بیویاں بھی آپس میں مل بیٹھتی تھیں۔ جب بھی وہ اکٹھی
ہو تیں اپنے اپنے میاں کی بُرائی کرتیں۔
ایک دن ایک
فوجی جوان، قسمت کا مارا نائی کی دکان پر حجامت کرانے آ گیا۔ اس وقت گنجا اور پینٹر
بھی وہیں موجود تھے۔ نائی نے ایک زور دار گاہک کو اپنی دکان کی طرف آتے دیکھا تو
اس نے ان دونوں کو خاموش ہو جانے کا اشارہ کیا۔ فوجی شاید اس گاؤں کا نہیں تھا
ورنہ وہ نائی کی دکان کا رُخ کیوں کرتا۔‘‘کیوں میاں۔ یہ نائی کی ہی دکان ہے نا ؟’’
فوجی نے اندر آنے کے بعدحیران ہو کر پوچھا
۔
’’ اورتمہیں کسی کباڑیے کی دکان نظر آتی ہے یہ۔‘‘ نائی نے بُرامان کر کہا۔
’’میرا
مطلب یہ نہیں تھا۔ در اصل یہاں رنگ اور برش وغیرہ بھی تو پڑے ہیں اور ایک طرف ایک
ٹوکرا بھی رکھا ہے ؟‘‘
’’اوہ
۔ یہ ۔ در اصل بات یہ ہے کہ یہ دکان صرف نائی کی ہی نہیں ہے بلکہ ایک پینٹر اور ایک
مزدور کی بھی ہے ۔ تم کہو تمہیں حجامت بنوا نی ہے یاپینٹری کرائی ہے یا پھر مز دور
چاہئے ۔ ‘‘
’’
بھئی واہ ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ دکان ایک پنتھ تین کاج کاکام دیتی ہے۔‘‘ فوجی بولا۔
آپ ٹھیک سمجھے۔ گنجے نے خوش ہو کر کہا ۔
"اچھا
تو پہلے تو تم میری حجامت بناؤ، پھر میری شیوکرنا تمہارے ہاں نہانے کا انتظام تو
ہو گا نہیں: فوجی بولا "
جی
نہیں ۔ گاؤں کے لوگ کنویں پر نہاتے ہیں ۔ وہ کھلی ہوا میں نہانے کے عادی ہیں “ نائی
نے جواب دیا ۔
" ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔ میں سمجھتا ہوں ۔ ہاں
تو میں کہہ رہا تھا، پہلے بال کا ٹو، پھر شیو بناؤ۔ اس کے بعد میں گنجے کو اپنے
ساتھ لے جاؤں گا ۔
"
کیا! مجھے لے جاؤ گے۔ کہاں۔ اور کس لئے۔
"
در اصل میں ایک فوجی ہوں؟
کیا
کہا۔ فوجی ہو ۔ تینوں تھر تھر کا نپنے لگے۔
" ہاں۔"
تت ..... تو ..... تم مجھے کہاں لے جاؤ گے ، گنجے
نے گھبرا کر کہا۔
"اسٹیشن پر میرا صندوق پڑا ہے وہ اٹھا کر یہاں
لانا ہو گا۔ پھر میں اس صندوق پر رنگ کراؤں گا ۔"
تینوں
خوش ہو گئے۔ اتنازیادہ شاندار گاہک اس دکان میں کبھی نہیں آیا تھا جو بیک وقت تینوں
کو کام دے دیتا لیکن نائی خوش ہونے کے باوجود ڈر رہا تھا کہ کہیں فوجی کے کوئی ٹک
نہ لگ جائے۔ اس نے لرزتے ہاتھوں سے بال کاٹنے شروع کئے۔ فوجی آنکھیں بند کر کے بیٹھ
گیا۔ اچانک قینچی کی نوک فوجی کی کھوپڑی سے ٹکرائی۔ وہ چونک اٹھا۔
"
یہ کیا ہوا تھا ۔" اس نے پوچھا۔
"جی
۔ میرا ہا تھ ہل گیا تھا۔ قینچی لگ گئی تھی"۔
"خون
تو نہیں نکلا "۔ فوجی نے گھبرا کر کہا ۔
" جی ۔ جی نہیں خون نہیں نکلا"۔ نانی
نے کہا۔ حالانکہ میاں فوجی کی کھوپڑی سے خون تیزی سے نکل رہا تھا۔ وہ اب پھر آنکھیں
بند کر کے بیٹھ گیا۔ شاید اسے نیند آرہی تھی۔ پھر شاید اس کی آنکھ ہی لگ گئی کیونکہ
اس کے بعد بھی اس کے سر پر تین زخم لگے مگر اس نے آنکھ نہ کھولی۔ اب شیو کی باری
آئی۔ نائی نے صابن لگایا اور احتیا ط سے استرا چلانے لگا اچانک استراگال کی ہڈی سے
ٹکرایا اور خون جاری ہو گیا۔ اس نے جھٹ وہاں روٹی کا پھا ہا رکھ دیا۔ اس سے پہلے
وہ سر پر بھی تین پھاہے رکھ چکا تھا۔ جب تک شیو مکمل ہوئی چار جگہ زخم اور آچکے
تھے ۔ چوتھا زخم تو کچھ زیادہ ہی بڑا آیا تھا۔ اس سے فوجی کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے
چونک کر آئینے میں دیکھا کچھ دیر تک حیران ہو کر دیکھتا رہا۔
" یہ میرا سر ہے یا کپاس اور
چقندر کا کھیت ہے معلوم ہوتا ہےایک ہی کھیت میں کپاس اور چقند ر بو دیئے گئے ہیں۔ یہ
تم نے حجامت بنائی ہے" ۔ اس نے غصیلے لہجے میں کہا ۔ جی ۔ جی ہاں ۔ حجامت ہی
تو بنائی ہے ، نائی نے بمشکل کیا ۔
" ہاں ! حجامت تو تم نے واقعی
بنادی میری ۔ خیر میں سمجھوں گاتم سے پہلے میں گنجے کو لے کر اپنا صندوق لے آؤں،
خبر دار! یہاں سے بھاگنے کی کوشش نہ کرنا، ورنہ میں تمہارے اس گنجے کی کھوپڑی میں
سوراخ کر دوں گا "۔ اس نے اس قدر خوفناک لہجے میں کہاکر تینوں کانپنے لگے ۔ چلو گے ۔ میرے ساتھ "۔ چچ ..... چچ.... گنجے کے منہ سے نکلا
۔
"
یہ چچ چچ کیا کر رہے ہو۔ کس بات پر افسوس
کر رہے ہو۔ چلو " ۔۔۔۔۔۔
چچ۔۔۔
چلئے۔ اور تم دونوں بھا گنے کی کوشش نہ کرنا ورنہ میں بے موت مر جاؤں گا ۔ گنجالرز
تا کانپتا فوجی کے ساتھ چل پڑا۔ دونوں بُت بنے دکان میں بیٹھے رہ گئے۔
صندوق کا فی
وزنی تھا۔ گنجے نے اسے سر پر اٹھایا تو اسے یوں لگا جیسے سر پلپلا ہو جائے گا اور
بھیجا باہر نکل آتے گا۔ اس کی گر دن ادھر ادھر ہو نے لگی ۔یہ دیکھ کر فوجی بولا ،"تم
عجیب مزدور ہو۔ ذرا سا صندوق بھی نہیں اٹھایا جارہا ہے۔ "
"یہ
ذرا سا ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں اس سے بڑا صندوق آج تک نہیں اٹھایا"۔
"اچھا،
اچھا، باتیں نہ بناؤ سیدھے نائی کی دکان کی طرف چلو ادھر ہی کو جارہا ہوں۔ اس نائی
کے بچے کی وجہ سے ہی تو اس مصیبت میں پھنسا ہوں ۔
"کیا کہا۔ میں مصیبت ہوں"،
فوجی نے چلا کر کہا۔
نن
نہیں .... نہیں۔ میں نے تمہیں نہیں اس صندوق کو کہا ہے۔
کیا
فوجی حلق پھاڑ کر بولا ۔
" تم میرے صندوق کو مصیبت کہہ رہے ہو۔ "
تو
کیا صندوق کو مصیبت کہنے میں بھی کوئی حرج ہے ، گنجاگھبراگیا
"
اب تو ،نائی کے ساتھ میں تمہیں بھی سزا دوں گا وہ بھی ایسی کہ ساری زندگی یاد ہی
کروگے"۔
"مر گئے ۔ ارے بابا مجھ سے غلطی ہوگئی،
تمہارا صندوق مصیبت نہیں ہے۔ یہ تو پھولوں سے زیادہ ہلکا ہے ۔ واہ۔ میں نے اس سے
ہلکا صندوق آج تک نہیں اٹھایا کتنی نرم اور صاف لکڑی کا بنا ہواہےیہ۔"
"
کیا بکتے ہو۔ یہ لکڑی کا صندوق ہے" ، فوجی نے آنکھیں نکالیں
ارے
۔ تو پھر؟ گنجے کی سٹی گم ہو گئی ۔
" احمق ۔ یہ تو لوہے کا ہے "۔
"
اوہ۔ تبھی اتنا ہلکا ہے" ۔ گنجے نے کہا۔
"یہ ہلکا ہے ! " فوجی حیران ہو کر
بولا۔
ہاں
، بالکل، شاید اندر سے خالی ہے !
" ارے! کیا واقعی یہ بالکل ہلکا ہے"۔
" جی ہاں ۔ بہت ہلکا ہے۔ ایک
کا غذ جتنا ، گنجے نے اس ڈر سےکہا کہ اگر صندوق کو بھاری بتا دیا تو شامت آ جائے گی
۔ "
" ارے
نہیں اسٹیشن والوں نے اس میں سے میرا سامان تو نہیں نکال لیا۔ ٹھہرو! ا سے نیچے
رکھ دو۔ میں کھول کر دیکھ لوں گنجے نے بڑی مشکل سے صندوق نیچے رکھ دیا۔ فوجی نے
اسے کھول کر دیکھا، تمام چیز میں جوں کی توں موجود تھیں۔
"
یہ تمہارا باپ خالی ہے۔ "
جی میرا باپ ۔ وہ تو کب کا مر چکا ہے ۔
بکواس
نہ کرو فوجی چلایا ۔
" تمہیں اس جھوٹ پر زیادہ
سخت سزا دوں گا ۔ اسی طرح باتیں کر تے ہوئے وہ نائی کی دکان میں داخل ہوئے۔ نائی
اور پینٹر وہاں ابھی تک تھر تھر کانپ رہے تھے۔
ارے
باپ رے ۔ مرگیا۔
نائی
نے آگے بڑھ کر صندوق نیچے رکھوایا۔ گنجا سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ فوجی نے انہیں گھورتے
ہوئے کہا ۔
" تم دونوں سے میں بعد میں سمجھوں
گا، پہلے اس صندوق پر رنگ کر والوں ۔" ہاں تو میاں پینٹر اس صندوق پر سرخ رنگ
کر دو"
بب
..... بہت اچھا...." پینٹر کا نپتے ہوئے بولا۔ ا ورصندوق پر رنگ کرنے لگا ۔
فوجی
تھوڑی دیر تک تو پینٹر کو گھورتا رہا پھر چلا کر بولا ۔
" یہ تم نے رنگ کیا ہے"
۔
جج .... جی .... ہاں ۔
" یہ کیسا رنگ کیا ہے ؟ میں
نے تو تم سے کہا تھا کہ ایسارنگ کرنا کہ تم نے زندگی میں نہ کیا ہو"۔
" خدا کی قسم۔ میں نے اپنی
زندگی میں کبھی ایسا رنگ نہیں کیا ۔ پینٹر کے منہ سے نکلا۔ اور نائی اور گنجے کی
خوف کے با وجو د ہنسی نکل گئی ۔
کھی
.. کھی ... کھی .. کھی .....
"اچھا ۔ تمہارے بھی دانت نکلنے لگے۔ تم تینوں
ہی بالکل نکمے ثابت ہوئے ہو ۔ یہ کہتے
ہوئے فوجی نے بندوق کندھے سے اُتار کر ان کی طرف تان لی۔
.
مم .... مرگئے ....
بب .... بچاؤ ... . وہ گڑگڑاتے ہوئے کہنے لگے۔
انکا رنگ اُڑ گیا۔
" ہم پر رحم کرو ؟"
تم
پر رحم کیا جا سکتا ہے لیکن ایک شرط پر۔" فوجی نے کہا ۔
یہ
سُن کر تینوں کی جان میں جان آئی۔ "
ایک کیا ، سوشرطیں بتاؤ۔ ہم ماننے کو تیار ہیں۔" گنجا بولا ۔
تم
تینوں کو اسی وقت میرے ساتھ شکار پر چلنا ہو گا ۔ "
ارے
بس ! بھلا یہ کیا مشکل بات ہے ۔ نائی بو لا تینوں فوجی کی بات سن کر خوش ہو گئے۔
" تو کیا تمہیں یہ شرط منظور
ہے۔"
"
بالکل ! لیکن کھانے پینے کا بند وبست تمہیں کر نا ہو گا۔ ہم تو بھوکے ننگے ہیں ،
نائی نے جلدی سے کہا۔
"فکر نہ کر و ۔ میرے تھیلے میں
کھانے پینے کی بہت سی چیز میں ہیں۔ "
"لیکن
ہم اپنی گھر والیوں کو تو اطلاع دے دیں۔ وہ رات بھرہمارا انتظار کرتی رہیں گی ۔
"
"
تم میں سے ایک جاکر انہیں بتا سکتا ہے۔ " میں جانا چاہتا ہوں ۔ نائی نے کہا۔
نہیں۔ میں جاتا ہوں ۔ گنجے نے کہا۔
تم
دونوں یہیں ٹھہرو میں جا کہ انہیں بتا تا ہوں۔ پینٹر بولا ۔
"
تم تو لڑنے لگے چلو میں اس کا فیصلہ کئے دیتا ہوں ۔" گنجا توپہلے ہی تھکا ہوا
ہے۔ پینٹرا بھی ابھی رنگ کر کے ہٹا ہے۔ اس لئے نائی صاحب ہو آئیں، لیکن یادر ہے ۔
پندرہ منٹ سے زیادہ نہیں لگنے چاہیں۔ سمجھے ۔ جج ... جی سمجھ گیا۔ نائی نے کہا اور
گھر کی طرف دوڑنے لگا ٹھیک پندرہ منٹ بعد وہ واپس آ گیا ۔
" بس اب چلو، اور ہاں، تم
اپنے اپنے ہتھیار لے لو۔"
" ہتھیار ۔ کیا مطلب ہمارے
پاس تو کوئی ہتھیار نہیں ہے۔ " تم اپنے استرے قینچیاں لے لو۔ تم رنگ کے ڈبے
اور برش لے لو اور تم اپنا ٹو کرا ۔
مگر
شکار کے لئے ان چیزوں کی کیا ضرورت ہے ؟ نائی نے حیران ہو کہا۔
"
ضرورت ہے۔ شکار کا تجربہ تم تینوں کو نہیں مجھے ہے چلو ان چیزوں کوساتھ لے چلو"
اور اس صندوق کو ۔
" یہ بھی ہمارے ساتھ چلے گا
۔ فوجی بولا ۔ لیکن اسے اٹھائے گا کون ؟ گنجے نے گھبرا کر کہا ۔
"
تم تینوں باری باری اٹھاؤ گے "
مر گئے پھر تو ۔ ہمارا کچومر نکل جائے گا ۔ نائی
بولا ۔
" تو پھر یہیں گولیاں کھا کر
سو جاؤ۔ فوجی نے دھمکی دی ۔"
نہیں
نہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا ۔
" تو پھر چلو۔ صندوق سب سے
پہلے پینٹر اُ ٹھائے گا۔ پینٹر نے۔ صندوق اپنے سر پر اُٹھایا تو اسے یوں لگا جیسے
کسی نے اس کے سر پر پہاڑی ٹکا دیاہو۔
نائی
نے اس کا اور اپنا سامان اُٹھالیا اور
گنجے نے اپنا ٹوکرا۔ دکان سے با ہر نکلتے ہی فوجی نے پوچھا تم نے یہ تو پوچھا ہی نہیں کہ ہم کس چیز کا
شکار کھیلتے جارہے ہیں ؟ " ارے ہاں یہ پوچھنا تو ہم بھول ہی گئے ۔ نائی کے
منہ سے نکلا ؟ خیراب بتا دو۔ پینٹر مشکل سے کہا۔ اس کی گردن ادھر سے اُدھر ہو رہی
تھی ۔" بتا دوں ؟" شکاری فوجی عجیب سے انداز میں پوچھا۔ ہاں ہاں۔ ضرور
بتائیں ۔۔۔ یہ گنجا بولا۔ ہم شیر کا شکار کھیلنے جارہے ہیں ۔
کیا...
تینوں بری طرح چیخے اور پینٹر کے سر سے صندوق زمین پر گر گیا۔ اسی طرح گرتے پڑتے،
صندوق بدلتے، فوجی کو دل ہی دل میں گالیاں دیتے وہ شیروں کے جنگل کے پاس پہنچ گئے۔
اس وقت سورج غروب ہو نیوالا تھا۔اسلئے انہوں نے فیصلہ کیا کہ رات کو آرام کیا جائے
اور صبح ہونے پر شیروں کے جنگل میں جائے تاکہ کوئی شیر سوتے میں ان پر حملہ نہ
کر دے ۔ دوسرے جانوروں کے ڈر سے انہوں نے باری باری جاگنے کا پروگرام بنایا ۔ سب
سے پہلے فوجی کے جاگنے کی باری طے ہوئی اور وہ تینوں اطمینان کی سانس لے کر لیٹ
گئے۔ انہوں نے گھاس پھوس کے بستر تیار کر لئے تھے۔ ایک چو تھائی رات گزرنے پر فوجی
نے نائی کو جگایا اور خودسوگیا۔ نائی کو بندوق تو چلائی آتی نہیں تھی۔ وہ ہاتھ میں
استرالیکر بیٹھ گیا۔ پھر اٹھ کر ٹہلنے لگا۔ اس طرح بھی وقت نہ گزرا تو اسے وقت
گزارنے کی ایک انوکھی ترکیب سوجھی۔ اس نے اسرا کھولا اور پینٹر کے سر پر پھیرناشروع
کردیا۔ پینٹر تھکا ماندہ تھا، گہری نیند سو رہا تھا اس لئے اس کی آنکھ نہ کھلی یہاں
تک کہ نائی نے اس کا سارا سرمونڈ ڈالا ۔ اس کو بھی نیند آنے لگی تھی ۔ اس لیے نیند
کی جھونک میں پینٹر کا سرمونڈ تے مونڈتے اس کا ہاتھ فوجی کے سر تک جا پہنچا وہ سمجھا
ابھی پینٹر کا سر پوری طرح نہیں منڈا ہے، اس لئے اس نے فوجی کا بھی سارا سرمونڈ دیا
۔ اب چونکہ باری بھی پینٹر کی تھی اس لئے نائی فوجی کا کندھا پکڑ کر ہلانے لگا ۔ کیونکہ
وہ ابھی ابھی اس کا سرمونڈ کر ہٹا تھا اور اس کے خیال میں وہ پینٹر تھا ۔ فوجی کی
آنکھ کھل گئی ،اس نے طیش میں آکر کہا کیا بات ہے تم نے مجھے کیوں جگا دیا۔ کیوں کیا
اب تمہاری باری نہیں ہے ؟ "ابے میں فوجی ہوں ، پینٹرنہیں ہوں ۔ ارے۔
ہائیں ۔ وہ بوکھلا گیا۔ اس کی نظر یں فوجی کے منڈےہوئے سر پر جمی تھیں اور اسے
معلوم ہو گیا تھا کہ اس نے پینٹر کے ساتھ ساتھ فوجی کی بھی حجامت بنا دی ہے۔ وہ
خوف سے لرز نے لگا لیکن اتنی دیر میں فوجی دوباره سو چکا تھا یہ دیکھ کر اس کی جان
میں جان آئی اور اس نے پینٹر کو جگایا۔ پینٹر نے ایک زور دا رانگڑائی لی۔ اس کا
ہاتھ اپنے سرسے ٹکرایا تو بول اٹھا: ارے تم نے تو گنجے کو جگا دیا ہے ۔ تمہارا
دماغ خراب ہے، گنجا تو وہ سورہا ہے ۔ نائی نے گھبراکر کہا۔ ہائیں۔ تو یہ میرے سرکو
کیا ہوا۔ شاید یہ فوجی کی شرارت ہے۔ تم یوں کرو کہ اس کا سرمونڈ دو ۔ معاملہ برا
بر ہو جائے گا۔ نائی نے اسے مشورہ دیا کیسے مونڈ دوں میں نائی تھوڑا ہی ہوں۔ بھائی
میں پینٹر ہوں پینٹر ،اچھا خیر تم سو جا ؤمیں خود ہی دیکھ لوں گا۔ نائی نے خدا کا
شکرادا کیا اور پڑ کر سو گیا۔ اب جاگتے رہنے کی باری پینٹر کی تھی اسکو اپنے بالوں
کا بہت افسوس تھا اور غصہ بھی بہت آرہا تھا۔ اس لئے اسے انتقام لینے کی نئی تد بیر
سوجھی ۔
اس نے اپنا برش نکالا۔ رنگوں کے ڈبے کھولے اور
فوجی کے سر کے پاس بیٹھ کراسکے سر پر رنگوں سے نقش و نگار بنانےلگا پھر ایک اور خیال
آنے پر اس نے فوجی کے سر پر سفیدرنگ پھیر دیا اور اس کالے رنگ سے ایک دیو کی شکل
بنانے لگا۔ ابھی وہ کام مکمل ہی کر پایا تھا کہ چاند با دلو ںمیں چھپ گیا اور اندھیرے
میں اسکا برش گنجے کے سر پر جا پہنچا۔ چاند بادلوں سے نکلا تو اس نے گنجے کے سر کو
دیکھا اور حیران رہ گیا ۔ ارےدیو کی شکل کہاں گئی ۔ غائب ہو گئی ہاں بھی دیو ہی
ٹھہرا، اچھا خیرمیں دوسری شکل بنا دیتا ہوں۔ وہ بڑبڑایا اور پھر گنجے کے سر پر بھی
دیو کی خوفناک شکل بنانے لگا۔ جب تصویر مکمل ہو گئی تو اس کے جاگنے کا وقت ختم ہو
گیا اور فوجی کو گنجا خیال کرتے ہوئے جگا دیا۔ کیا بات ہے تم نے بھی مجھے ہی جگا دیا
ہے ، فوجی نے چلا کر کہا۔ تمہیں نہیں جگاؤں گا تو پھر کسے جگاؤں گا ۔ تمہاری باری
ہے۔ آج کی رات بھی عجیب ہے پہلے نائی نے بجائے تمہارے مجھے جگا دیا اور اب پھر تم
نے گنجے کی بجائے مجھے جگا دیا۔ کیا اندھے ہو میں فوجی ہوں ۔ کیا۔ تم فوجی ہو۔ پینٹر
چلایا۔ ساتھ ہی اسکی نظر اسکے سر پر پڑی وہاں دیو کی شکل موجود تھی۔ اس نے جھٹ مڑ
کر گنجے کے سرکو دیکھا وہاں کبھی ایک دیو کی شکل موجودتھی۔ ساری بات اسکی سمجھ میں
آ گئی۔ اوہ! مجھے افسوس ہے تم سو جاؤ " اس نے فوجی سے کہا ، اور گنجے کو جگا
دیا گنجے نے آنکھیں کھولیں تو اس کی نظر فوجی کے گنجے سر پر پڑی۔ اسنے غصے میں آ
کر کہا: باری تو گنجے کی تھی اور تم نے جگا دیا مجھے۔"
تم گنجے ہی تو ہو۔ بیوقوف ہوتم ،گنجا تو وہ
تمہارے سامنے پڑاہے۔ بے وقوف میں نہیں تم ہو۔ وہ تو فوجی ہے ۔ ارے ! اس کے منہ سے
نکلا۔ دوسرے ہی لمحے پینٹر لیٹ کر سو چکا تھا۔ اب جو گنجے نے ادھر ادھر ٹہل کر
پہرہ دیناشروع کیا تو اس کی حیرت کا کوئی ٹھکانا نہ رہا۔ وہاں تو دوگنجے اور پڑے
سورہے تھے۔ اس نے جلدی سے اپنے سر پر ہاتھ پھیراور بڑبڑایا۔
ہوں تومیں
گنجا ہی مگر یہ دونوں گنجے کیسے بن گئے اور یہ فوجی کے سر کی خوفناک تصویربنی ہے۔"
نیند کے عالم میں وہ کچھ سمجھ نہ سکا اور ٹہلتا رہا یہاں تک کہ صبح کی روشنی
نمودار ہونے لگی۔ اسوقت اسے بھی نیند آگئی اور وہ پڑ کر سو گیا۔ اچانک شیر کی
خوفناک دھاڑ نے ان چاروں کو جگا دیا، انکی آنکھیں کھلیں تو شیر کے بالکل پاس پہنچ
چکا تھا ان کے ہوش اڑ گئے۔ گھبراہٹ میں فوجی اپنی بندوق نہ سنبھال سکا وہ زمین پر سجدے کی شکل میں گر گیا۔
اس کی دیکھا دیکھی گنجے نے بھی یہی کیا۔ نائی کونئی ترکیب سوجھی اسنے پیٹی میں لگا
ہوا اپنا استرا نکال لیا۔ پینٹرنے اسے استرالہراتے دیکھا تو وہ بھی جوش میں آگیا اوراپنابرش
اٹھا کر اسے تلوار کی طرح گھمانے لگا شیر آگے بڑھا پینٹر بھی سجدے کی حالت میں زمین
پر گر گیا اب شیر کی نظران کے سروں پر جو پڑی ہے تو بوکھلاکر پیچھے ہٹ گیا۔ اسنے
اتنی عجیب غریب کھوپڑیاں آج تک نہیں دیکھی تھیں وہ ڈر گیا۔ وہ سمجھا یہ ضرور جن
بھوت ہیں۔ اسی وقت نائی نے شیرکو پیچھے ہٹتے دیکھا تو ہمت کر کے استرالہراتا ہوا
آگے بڑھا اور کہنے لگا آ،جاتا کہاں ہے بچوٗ! ہم جیسے شکاریوں سے بھی تمہیں زندگی میں
پہلی بار واسطہ پڑا ہو گا۔ بھاگ نہیں۔ ابھی تو مجھے تمہاری شیو بنانی ہے نائی کی
آواز سن کر انکے ہوش قدرے ٹھکانے آئے پینٹر اٹھا اور اپنا برش شیر کی طرف کر کے
آگے بڑھنے لگا شیر ایک ایک قدم پیچھے ہٹ
رہا تھا۔ اسنے اتنے عجیب ہتھیار بھلاکہاں دیکھے تھے۔ وہ سمجھا یہ ضرور بہت خطرناک
ہتھیار ہیں۔ اسی وقت گنجے کو اپنے ٹوکرے کا خیال آیا۔ اسنے ٹوکرے کو ڈھال کی مانند
پڑ لیا اور شیر کی طرف بڑھنے لگا شیرٹو کرے کو دیکھ کر اور بھی گھبرایا یہ اسےسب
سے زیادہ خطرناک ہتھیار لگا۔ فوجی ابھی تک تھرتھر کانپ رہا تھا۔ اس نے جو شیرکو پیچھے
ہٹتے دیکھا تو جھٹ بندوق سیدھی کر لی اسی وقت شیر مڑا اور اسنے بھا گنے کیلئے پہلی چھلانگ لگا ئی تھی کہ فوجی نے بندوق
چلادی، بندوق چلنے کی آواز سارے جنگل میں گونج اٹھی ۔گولی شیر کے پیٹ میں لگی اور
وہ وہیں گرکر دھاڑنے لگا شکاری نے احتیاطا ایک گولی اور چلادی جنگل کے سب جانور بیدار
ہوگئے اور لگے چیخنے چلانے ۔۔۔
اور ادھر
سے اُدھر بھاگنے لگے ۔ دوسری گولی شیر کی دم پر لگی اوراسکی دُم جسم سے الگ ہوکر
زمین پر آرہی۔ اسی وقت شیر نے دم توڑ دیا۔ ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ رہا ۔لگے
اچھلنے کودنے اور شور مچانے ۔ پھر انہوں نے شیر کو گنجے کے ٹوکرے میں ڈالا۔ ایسے میں
فوجی کا ہاتھ اپنے سرسے ٹکرا گیا وہ چونک اٹھا اور ہا تھ سر پر پھیرتا ہوانائی کو
دیکھ کر ہنسنے لگا پھر اسکی نظر پینٹر کے سر پر پڑی وہ اور بھی بُری طرح ہنسنے
لگا۔ پینٹر نے اپنے سر پر ہاتھ پھیرا اور وہ بھی ہنسنے لگا۔بسں پھر کیا تھا ہنس
ہنس کر ان کا بُرا حال ہو گیا۔ انہوں نے مشکل سے ٹوکرا اٹھایا اور گاؤں کی طرف
روانہ ہوگئے۔ تیسرے پہر کے قریب وہ گاؤں پہنچے تو دھوم مچ گئی۔ سارے کا سارا گاؤں
شیر کو دیکھنے کیلئے امڈ آیا۔ لوگ شیر سے زیادہ نائی، گنجے اور پینٹر کو دیکھ کر
خوش ہو رہے تھے انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ فوجی بہت دنوں تک انکے
پاس رہا۔ اب وہ انکا دوست بن گیا تھا۔ اور اب تو لوگ نائی کے ہاں بال کٹوانے بھی
آنے لگے تھے پینٹر سے رنگ بھی کرانے لگے تھے اور کہنے کو تو پہلے ہی مزدوری مل جایا
کرتی تھی اسے اور بھی زیادہ مزدوری ملنے لگی۔ لوگ اس بہانے اسے شیر کے شکار کی ساری
کہانی سنتے اور ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو جاتے ۔ اب ان کی بیویاں بھی ان سے خوش رہنے
لگیں تھیں اور پھر ایک دن فوجی نے رخصت ہوتے وقت ان سے کہا تھا؟ میں جب بھی شکار
کے لئے آیا کروں گا تم تینوں میرے ساتھ چلا کروگے۔
ختم شد