شاہ جنات کی بیٹی:
Shah -e- Jinnat ki beti
شاہ جنات کی
بیٹی
ملک آسلان
میں ایک تاجرنعیم نامی رہتا تھا۔ اس کی ایک ہی بیٹی تھی جس کا نام نشاط تھا۔ نیم
خشک میووں کی تجارت کرتا تھا اور ملک آسلان میں وہ خشک میوں کا سب سے بڑا تاجر کہلاتا تھا
اس لئے سب لوگ اسے تاجر نعیم کی بجائے تاجرمیوہ کہتے تھے۔ چونکہ وہ تجارت کی وجہ
سے بے حد امیر آدمی تھا اس لئے اس نے اپنی رہائش کے لئے شاہی محل کی طرح کا محل
بنایا ہوا تھا جس میں وہ اپنی بیٹی نشاط اور ملازموں کے ساتھ رہتا تھا۔ تاجر میوہ
کی بیوی کافی عرصہ پہلے فوت ہوگئی تھی لیکن تاجر میوہ نے اپنی بیٹی نشاط کی وجہ سے
دوسری شادی نہ کی تھی۔ وہ اپنی بیٹی سے بے حد محبت کرتا تھا اور اس کے آرام کے لئے
بڑی بڑی رقمیں خرچ کرنے سے بھی نہ کتراتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ نشاط گو ایک تاجر کی
بیٹی تھی لیکن وہ شہزادیوں کی طرح عیش و آرام سے رہتی تھی۔ کام کاج کرنے کیلئے اس
کے پاس نوکروں اور نوکرانیوں کی ایک پوری فوج تھی جو اس کا حکم بجالانے کے لئے ہر
وقت حرکت میں رہتی تھی۔ نشاط کی ایک سہیلی ارم تھی جس کا باپ پہلے تو ایک غریب
مزدور تھالیکن پھردیکھتے ہی دیکھتے اس کے پاس اتنی دولت آگئی کہ اس نے ایک شاندار
محل نما مکان بنوایا۔ اور ارم کے ساتھ اس محل میں عیش وعشرت سے رہنے لگا۔ وہ اب کو
ئی کام نہ کرتا تھا۔ سارا دن محل میں پڑا رہتا لیکن نہ جانے اس کے پاس کہاں
سے اتنی دولت آ گئی تھی کہ بے تحاشہ خرچ کرنیکے باوجود اس کی دولت میں ذرہ برابر
بھی کمی نہ آتی تھی ۔ ارم اور نشاط چونکہ ایک دوسرے کے ہمسایہ میں رہتی تھیں اور
ہم عمر تھیں اس لئے ان دونوں میں بے حد گہری دوستی تھی۔ نشاط کو ارم سے معلوم ہوا
تھا کہ اس کے باپ کو ایک عامل نے ایسا منتر بتایا ہے جس کی مدد سے اس نے خوفناک
قسم کے جنوں اور دیوتوں کو اپنے قبضہ میں کر لیا ہے اور یہی دیو اورجن اُسے دنیا
بھر سے دولت اور ہیرے جواہرات لاکر دیتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ کوئی کام کئے بغیر
عیش وعشرت سے زندگی گزار رہے ہیں۔ ارم سے یہ باتیں سُن کر نشاط کو بھی شوق پیدا
ہوا کہ وہ بھی جنوں اور دیوؤں کو اپنے قبضے میں رکھے۔ گوارم نے اسے اس ارادے سے
باز رہنے پر بے حد اصرار کیا کیونکہ اس کے کہنے کے مطابق یہ انتہائی کٹھن کام ہے
اور اس میں جان جانے کا بھی خطرہ ہے لیکن نشاط فطری طور پر بے حد ضدی لڑکی تھی۔ اس
لئے اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ ہر قیمت پر جنوں اور دیوتوں کو اپنے قبضے میں
رکھے گی اور پھر ساری عمر عیش و عشرت سے گزارے گی۔ ارم کے باپ سے بھی اس نے یہ بات
کی لیکن اس نے اسے سختی سے جھڑک دیا تھا البتہ وہ ارم کے ذریعے یہ معلوم کر لینے میں
کامیاب ہو گئی تھی کہ ارم کے باپ کو جس عامل نے یہ منتر بتایا تھاوہ نزدیک ہی پہاڑیوں
میں رہتا ہے اور بے حد بوڑھا آدمی ہے۔ ایک بار وہ سخت بیمار تھا اور مرنے کے قریب
تھا۔ کہ ارم کا باپ جو قریب ہی مزدوری کر رہا تھا وہاں گیا اور اس نے از راہ ہمدردی اس بوڑھے کو نہ صرف پانی پلایا بلکہ
اس کی مدد کرتے ہوئے اسے اپنے کاندھے پر اٹھا کر اس کی غار تک بھی پہنچا دیا۔ اس
پروہ بوڑھا عامل بے حد خوش ہوا اور اس نے اس خوشی میں ارم کے باپ کو وہ منتر بتا دیا
تھا جس کی وجہ سے آج ارم اور اس کا باپ دونوں عیش و عشرت سے زندگی بسر کر رہے تھے۔
نشاط کا باپ تاجر میوہ کسی قافلے کے ساتھ تجارت کی غرض سے دوسرے ملک گیا ہوا تھا
اس لئے نشاط آزاد تھی ۔اسے معلوم تھا کہ اس کا باپ کم از کم دو تین ماہ بعد واپس
آئے گا اور اس دوران وہ اطمینان سے جنوں اور دیوؤں کو قابو کرنے کا منتر بھی سیکھ
لے گی اورا نہیں قابو میں بھی کر لے گی ۔ آج اس نے اس بوڑھے عامل سے ملاقات کا فیصلہ
کیا ہوا تھا اس لئے صبح ناشتہ کرنے کے بعد اس نے اپنا گھوڑا اصطبل سے نکالا اور اکیلی
ہی ان پہاڑیوں کی طرف چل پڑی جہاں وہ بوڑھا عامل رہتا تھا۔ ایک گھنٹے تک گھوڑا
بھگانے کے بعد وہ ان پہاڑیوں کے دامن میں پہنچ گئی۔ پہاڑیاں بالکل ویران اور بنجر
تھیں یہاں ایک درخت اور پودا تک نہ تھا۔ دھوپ بھی بے حد سخت تھی اس لئے یہاں تک
پہنچتے پہنچتے نشاط پسینے میں ڈوب سی گئی اور اسے اپنا لباس بے حد بھاری بھاری
سالگنے لگا۔ لیکن وہ چونکہ اپنی دھن کی پکی تھی اس لئےا س نے گرمی کی پرواہ کئے بغیر
گھوڑا وہیں پہاڑیوں کے دامن میں چھوڑا کر پیدل چلتی ہوئی پہاڑیوں پر چڑھنے لگی لیکن
تھوڑا اوپر چڑھنے کے بعد بُری طرح ہانپنے لگی۔ یہاں کوئی سایہ بھی نہ تھا جس کے نیچے
بیٹھ کر وہ آرام کرتی۔اس لئے ہانپنے اور تھک جانے کے باوجود وہ ہونٹ بھینچے اور
بڑھتی گئی اور پھر کچھ دیر بعد اسے دور ایک غار میں سے دھواں سا نکلتا دکھائی دیا
تو وہ سمجھ گئی کہ اس غار میں وہ بوڑھا عامل رہتا ہے۔ غار کا پتہ چل جانے سے اس کی
ساری تھکاوٹ دُور ہوگئی اور وہ زیادہ جوش سے اس غار کی طرف بڑھتی چلی گئی۔ غار کے
سامنے پہنچ کر وہ رُک گئی غار بہت کھلا اور اندر تک چلا گیا تھا غار کا دہانہ کھلا
تھا اور اندر آگ جلنے کی وجہ سے روشنی تھی۔ نشاط اس غار کے اندر داخل ہوگئی لیکن
ابھی اس نے دو تین قدم ہی اٹھائے ہوں گے کہ یکلخت ایک طرف سے سیاہ رنگ کا ایک سانپ
پھنکارتا ہوا نکلا اور نشاط پر حملہ آور ہو گیا۔ نشاط کے منہ سے ڈر کے مارے چیخ
نکل گئی۔ وہ پیچھے ہٹنے کی وجہ سے غار کے دہانے پر ہی ایک دھماکے سے گرگئی اور وہ
سیاہ سانپ پھنکارتا ہوا اس کے سینے پر چڑھ گیا لیکن اس سے پہلے کہ وہ اسے کاٹتا
اچانک غار کے اندر سے ایک بوڑھا آدمی نمودار ہوا اور اس نے ایک ہاتھ سے اس خوفناک
سانپ کو گردن سے پکڑ کر غار سے باہراچھال دیا۔ اٹھو ۔ اٹھو۔ کون ہو تم ۔ڈرو نہیں۔
میں نے سانپ کو بھگا دیا ہے۔ اس بوڑھے نے زمین پر خون کے مارے نیم بے ہوش پڑی نشاط
سے مخاطب ہو کر کہا۔ ”بب بب بہت شکریہ جناب، نشاط نے خوفزدہ لہجے میں غار سے باہر
اس جگہ کو دیکھتے ہوئے کہا جہاں وہ خوفناک سانپ جاکر گرا تھالیکن جب وہاں اسے سانپ
نظرنہ آیا تو اس کی قدرے تسلی ہوگئی اور وہ اٹھ بیٹھی۔ بوڑھا اُسے تسلی
دیتا ہوا غار کے اندر لے گیا۔ وہاں ایک طرف آگ جل رہی تھی جس پر ایک ہنڈیا چڑھی
ہوئی تھی۔ دوسری طرف ایک میلا کچیلا اور پُرا نا سابستر پڑا ہوا تھا باقی غار خالی
تھا۔ ایک طرف پانی کا بھرا ہوا گھڑا اور گلاس بھی موجود تھا۔ بوڑھے نے پانی کا
گلاس بھر کر نشاط کو دیا جو نشاط غٹاغٹ پی گئی ۔ پانی پینے سے اس کا تیزی سے دھڑکتا
ہوا دل اپنی جگہ پر آیا تو اس کے ہوش پوری طرح ٹھکانے آگئے۔
بیٹھو بیٹی اور یہ بتاؤ کہ اس قدر دھوپ اور گرمی
میں تم اکیلی ان پہاڑیوں میں کیا کرتی پھر رہی ہوں، بوڑھے نے غور سے نشاط کو دیکھتے
ہوئے کہا۔ نشاط و ہیں فرش پر اطمینان سے بیٹھ گئی ” میں آپ سے ملنے آئی ہوں بزرگ
با با نشاط نے جواب دیا تو بوڑھا عامل چونک پڑا ” مجھ سے ملنے ، کیوں ، بوڑھے نے
اس کےسامنے زمین پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ ” میں وہ منتر جاننا چاہتی ہوں میں جس سے دیوؤں
اور جینوں کو قابو میں کیا جاسکتا ہے۔ نشاط نے جواب دیا۔ ” کیا کہہ رہی ہو تم۔ دیوؤں
درجنوں کو قابو کرنے کا منتر میں تو نہیں جانتا ایسا منتر یہ بوڑھے نے منہ بناتے
ہوئے کہا۔ آپ مجھ سے نہیں چھپا سکتے بزرگ بابا مجھے معلوم ہے کہ آپ نے میری سہیلی
ارم کے باپ ناصرکو یہ منتر بتایا ہے۔ اور اب وہ دیوؤں اور جنوں کو قابو کر کے عیش
کر رہا ہے ۔ نشاط نے مسکراتے ہوئے کہا ” اوہ !تو کیا ناصر نے تمہیں میرا پتہ بتایا
ہے“ بوڑھے کے لہجے میں اس بار ہلکا ساغصہ شامل تھا۔”ارے نہیں بابا میں نے ان سے
بات کی تو انہوں نے مجھے بےحد سختی سے جھڑک دیا تھا۔ میں نے اپنی سہیلی ارم کے ذریعے
کسی طرح معلوم کر لیا ہے کہ ارم کے باپ ناصر کو پتہ بھی نہیں چل سکا ۔نشاط نے جواب دیا اور بوڑھے کے
چہرے پر چھا جانے والا غصہ دُور ہوگیا۔ ہو ں۔۔۔ تو یہ بات ہے ۔ بوڑھے نے کہا اور
پھر اس نے آنکھیں بندکرلیں اور منہ ہی منہ میں کچھ پڑھنے لگا۔ نشاط خاموش بیٹھی
اسے دیکھتی رہی۔ تھوڑی دیر بعد بوڑھے بابا نے آنکھیں کھولیں اور نشاط سے مخاطب
ہوا۔ " تو تم تاجر میوہ کی بیٹی نشاط ہو۔ میں نے معلوم کر لیا ہے کہ تم ضد کی
بہت پکی ہو اس لئے آسانی سے باز نہ آؤگی لیکن بات یہ ہے کہ دیووں اور جینوں کو
قابو کرنا تو ایک طرف ایک دیویا ایک جن کو پکڑنے کے لئے بہت محنت کرنی پڑتی ہے اور
پھر تمہاری جان کو بھی شدید خطرہ ہوگا کیونکہ تم ایک سانپ سے اس قدر ڈرگئی تھیں اس
لئے بہتر یہی ہے کہ تم یہ خیال دل سے نکال دو تمہارے پاس دولت اور عیش وعشرت کی
کوئی کمی نہیں ہے تمہیں آخر کیا ضرورت ہے؟ کسی دیو یا جن کو قابو کرنے کی ۔ بوڑھے
عامل نے انتہائی سنجیدہ لہجے میں کہا۔ ” آپ ایک جن یا دیو کی بات نہ کریں، بزرگ
بابا میں تو پوری دنیا کے جینوں اور دیوؤں کی ملکہ بننا چاہتی ہوں۔ نشاط نے کہا
اور بوڑھا عامل اس کی بات سن کر بے اختیار قہقہہ مار کر ہنس پڑا۔ پھر تو تمہیں شاہ
جنات کو قابو کر نا پڑے گا۔ وہ اگر قابو آ گیا تو پوری دنیا کے جن اور دیو خود
بخود قابو میں آجائیں گے۔ بوڑھے عامل نے ہنستے ہوئے کہا۔ " اوہ واقعی مجھے تو
اس کا خیال ہی نہ آیا تھا ، ٹھیک ہے آپ مجھے شاہ جنات کو قابوکر نے کا منتر بتادیں
تاکہ وہ فوراً میرے قابو میں آجائے ، نشاط نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔ تو تمہارا کیا خیال
ہے کہ ادھر تم منتر پڑھو گی ادھر شاہ جنات تمہارے سامنے ہاتھ باندھ کر آکر کھڑا ہو
جائے گا ۔بوڑھے
نے حیران ہوتے ہوئے کہا۔ ”تو مجھے اور کیا کرنا پڑے گا ۔ نشاط اسطرح حیران ہو کر
بولی جیسے واقعی اس کا خیال یہی ہو کہ بس اسے منتر کا پتہ چل جائے تو پھر جینوں ،
دیوؤں کو قابوکرنا تو کوئی مشکل ہی نہ ہوگا۔ سنو میں نے دیکھ لیا ہے کہ اب تم کسی
صورت میں باز نہ آؤ گی اس لئے میں تمہیں شاہ جنات کو قابو کرنے کا عمل ہی بتا دیتا
ہوں۔ شاہ جنات بڑا رحم دل ہے۔ ہو سکتا ہے اگر تم اس پر قابو نہ پا سکو تو وہ تم پر
رحم کھاتے ہوئے تمہیں معاف کردے ور نہ دوسرے جن اور دیوتو اس قدر ظالم ہوتے ہیں کہ
تم سے ذرا سی غلطی ہوئی تو وہ ایک لمحے میں تمہاری بوٹیاں اڑا دیں گے ، بوڑھے عامل
نے ایسے لہجے میں کہا جیسے وہ اب نشاط سے جان چھڑانا چاہتا ہو ” میں کوئی غلطی نہ
کروں گی آپ بس مجھے منتر بتا دیں ۔ نشاط نے بڑے با اعتماد لہجے میں کہا۔ اچھا سنو
تم لڑکی ہو اس لئے میں تمہیں آسان منتربتادیا ہوں ورنہ ناصر نے تو اندھے کنویں میں
دس روز تک بغیر کچھ کھائے پیئے الٹا لٹک کر منتر پڑھا تھا تب جاکر وہ اپنے مقصد میں
کامیاب ہوا تھا۔ تم ایسا کرو کہ اپنے مکان
کے ایسے کمرے کا انتخاب کرو جس کے ایک طرف کھلا بر آمدہ سا ہوجس میں سے آسمان صاف
دکھائی دے ۔ ایک زردرنگ کا بڑا سا صندوق تم اس کمرے میں رکھوا دو ا ور باقی سارا
سامانکلوا لینا۔ البتہ بر آمدہ کے سامنے اگر کوئی پردہ ہو تو اسے اچھی طرح باندھ دینا
پھرتم سبز رنگ کا ایسا چست لباس پہننا ہے کہ جس پر سرخ رنگے کے پھول بنے ہوئے ہوں ۔کمر پر سنہرے رنگ کا
کمربند باندھ لینا۔ اپنے بال کھلے چھوڑ دینا بائیں ہاتھ میں خالص سونے کی چوڑیاں،
کانوں میں خالص سونے کے بُندے، گلے میں خالص سونے کا لاکٹ اور سر پر مانگ کے درمیان
خالص سونے کا بناہوا جھومر ساپہن لینا۔کیونکہ شاہ جنات کو خالص سونے اور سبز رنگ
اور سرخ پھولوں والا لباس بے حد پسند ہے۔ پھر آدھی رات کے وقت جبکہ آسمان پر سیاہ
بادل چھائے ہوئے ہوں اور کوئی تارہ نظر نہ آرہا ہو اس صندوق پر بیٹھ کر برآمدے کی
طرف منہ کر کے تم کومنتر پڑھتے رہنا ہے بغیرکسی تعداد کے مسلسل پڑھتے رہتا ہے کسی
بھی وقت شاہ جنات آسمان سے اتر کر تمہارے پاس آجائے گا۔ اس کی نشانی یہ ہے کہ اس
کے جسم ،چہرے ،سرا ور بالوں کا رنگ سُرخ ہوگا آنکھیں زرد رنگ کی ہوں گی اور اس کے
سر کے دونوں طرف ہلکے زرد رنگ کے باہر کی طرف نکلے ہوئے سینگ ہوں گے اور اس کی خاص
نشانی یہ ہے کہ اسکے سامنے کے دو چھوٹے دانتوں کے درمیان ایک لمبا خنجر نما دانت
ہوگا۔ اس کے ناخن بڑے بڑے ہوں گے ۔ وہ نمودار ہوتے ہی انتہائی خوفناک آوازیں نکال
کر تمہیں ڈرائے گا اگر تم نے ڈر کریہ منتر پڑھنا چھوڑ دیا تو پھر شاہ جنات بھی
تمہارے قابو سے باہرہوگا اور چاہے تو تمہیں مار ڈالے اور چاہے تو تمہیں معاف کردے
لیکن اگر تم خوفزدہ نہ ہوئیں اور مسلسل منتر پڑھتی رہیں تو پھرشاہ جنات تمہاری منتیں
شروع کر دے گا کہ تم اسے قابو میں نہ کرو لیکن تم کو اس وقت تک منتر پڑھتے رہنا ہے
جب تک شاہ جنات خود اقرار نہ کرے کہ وہ اب تمہارے قابو میں آچکا ہے جب وہ اقرارکرلے
تو تم صندوق کا ڈھکنا کھول دینا شاہ جنات اس صندوق میں گھُس جائے گا۔ تم اس کا
ڈھکنا بند کردینا۔ یہ اس بات کی علامت ہوگی کہ وہ اب ہمیشہ کے لئے تمہارے قبضے میں
آ گیا ہے ۔ چند لمحوں بعد صندوق کا ڈھکن کھول دینا اور شاہ جنات باہر آکر تمہارے
سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو جائے گا۔ اس طرح تم کامیاب ہو جاؤ گی اور شاہ جنات
تمہارا غلام بن جائے گا اور چونکہ وہ جنات کا بادشاہ ہے اس لئے دنیا
کے تمام جن ، دیو اور پریاں سب پر تمہارا حکم چلے گا۔ بوڑھے عامل نے کہا اور
ساتھ ہی اس نے اسے ایک منتر بھی نہ صرف بتایا بلکہ بار بار پڑھوا کر اسے اچھی طرح یاد
کرا دیا" بہت بہت شکریہ بزرگ بابا! آپ کا یہ احسان میں ساری زندگی نہ بھولوں
گی۔ نشاط نے انتہائی جوش بھرے لہجے میں کہا بس ڈر نامت ،چاہے وہ شاہ جنات تمہیں
کتنا ہی کیوں نہ ڈرائے ۔بوڑھے عامل نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
وہ کسی شیر چیتے کے روپ میں تو نہ بدل جائے گا۔
نشاط نے ایک خیال کے آتے ہی پوچھا۔
”ارے نہیں وہ شاہ جنات ہے عام جن نہیں ہے اور شاہ جنات کو حکم نہیں
ہے کہ وہ اپنے آپ کو بدل سکیں وہ خالی تمہیں ڈرائے گا روپ نہ بدل سکے گا۔ بوڑھے
عامل نے کہا۔ اور نشاط کو اب پوری تسلی ہوگئی چنانچہ وہ اٹھی اور بوڑھے عامل کا ایک
بار پھر شکریہ ادا کر کے خوش خوش غار سے نکلی اور دوڑتی ہوئی پہاڑی سے نیچے اتر آئی
اس کا گھوڑا کا کافی دُور ایک درخت کے سائے میں کھڑا تھا۔ نشاط کو دیکھتے ہی وہ
زور سے ہنہنایا اور دوڑتا ہوا اس کے قریب آگیا ۔ نشاط نے اسکی گردن پر پیار سے
تھپکی دی اور پھرگھوڑے پر سوار ہوکر واپس اپنے مکان میں پہنچ گئی مکان میں پہنچ کر
اس نے سارے کمروں کا بغور جائزہ لیا اور پھر ایک کمرہ اسے بالکل اسی طرح کا مل گیا
جیسا اسے بوڑھے عامل نے بتایا تھا اس کے سامنے کھلا برآمدہ تھا اور آسمان صاف نظر
آرہا تھا۔ ایک بہت بڑ اصندوق بھی اسے نظر آ گیا جس میں سردیوں کے لحاف رکھے جاتے
تھے اس نے ملازموں کو بلوا کر اس کمرے کا سارا سامان اٹھوا دیا اور صندوق خالی
کراکر اس نے وہیں کمرے میں رکھوا دیا پھر ایک ملازم سے کہہ کر اس نے صندوق پر
زردرنگ کرالیا۔ اس کے ساتھ ہی کمرے میں موجو د نیلے رنگ کےپردے کو اس نے بندھوا دیا۔
اس کے بعد وہ اپنے اس کمرے میں گئی جہاں اس کے لباس موجود تھے اسے یاد تھا کہ اس
کے پاس سبنر رنگ کا ایسا لباس موجود ہے جس میں سرخ رنگ کے پھول بنے ہوئے ہیں۔ کچھ
عرصہ پہلے اس نے بڑے شوق سے یہ لباس بنوایا تھالیکن یہ قدرے تنگ سلا تھا اس لئے
اسے اس قدر تنگ لباس پہن کر الجھن ہوتی تھی اس لئے اس نے اسے پہنے بغیر ہی رکھوا دیا۔
اب چونکہ بوڑھے عامل نے کہا تھا کہ لباس چست ہونا چاہئے اس لئے اب وہ اسے پہن سکتی
تھی تھوڑی سی تلاش کے بعد اسے لباس مل گیا سنہرے رنگ کا کمربند تو پہلے ہی سے اس
کے پاس موجود تھا۔ زیورات کی بھی اس کے پاس کمی نہ تھی اس لئے اب وہ شاہ جنات
کامنتر پڑھنے کے لئے پوری طرح تیار ہو چکی تھی لیکن ایک شرط ایسی تھی جس پر اس کا
زور نہ چل سکتا تھا کہ آسمان پر سیاہ رنگ کے بادل چھائے ہوئے ہوں اور کوئی تارا آسمان پر نظر نہ آئے لیکن
آسمان پر گہرے بادل تو ایک طرف بادل کا ایک ٹکڑا نہ تھا اس لئے اب نشاط کو انتظار
کرنا تھا اور یہ انتظار سے بے حد گراں لگ رہا تھا لیکن رات ہونے سے پہلے ہی وہ یہ
دیکھ کر خوشی سے اُچھل پڑی کہ آسمان پر سیاہ رنگ کے بادل اکٹھے ہونے شروع ہو گئے۔
اب نشاط کو اپنی کامیابی کا اوربھی یقین ہوگیا کہ قدرت بھی اس کی مدد کر رہی ہے ۔
آدھی رات تک واقعی آسمان پراس قدر گہرے سیاہ بادل چھا گئے کہ پورا آسمان سیاہ چادر
کی طرح نظر آنے لگا جس میں ایک تارہ بھی موجود نہ تھا۔ آدھی رات سے پہلے ہی نشاط
نے غسل کیا اور اپنے لیے بھورے بالوں کو اس نے باندھنے کی بجائے پشت پر کھلا چھوڑ
دیا سبز رنگ کا لباس پہنا جودا قعی اس کے جسم پر بیحد تنگ سا تھا گوا سے ایسا لباس
پہنتے ہوئے الجھن محسوس ہورہی تھی لیکن
شاہ جنات کو قابو کرنے کے شوق میں اس نے اس لباس کو گوارا کر لیا کمر بند باندھ کر
اور بوڑھے عامل کے کہنے کے مطابق زیورات پہن کر وہ پوری طرح تیار ہو کر آدھی رات
کو اس کمرے میں پہنچ گئی صندوق پر ٹانگیں لٹکا کر اور کھلے آسمان کی طرف منہ کر کے
وہ بیٹھ گئی اور اس کے بعد اس نے جلدی جلدی وہ منتر پڑھنا شروع کر دیا جو بوڑھے عامل نے اسے
بتایا تھا منتر چونکہ اسے پوری طرح یاد تھا اس لئے وہ مسلسل اسے پڑھے جارہی تھی لیکن
کافی دیر تک مسلسل پڑھنے کے باوجود نہ ہی شاہ جنات آیا اور نہ ہی کوئی اور چیز اسے
نظر آئی بس سامنے سیاہ چادر کی طرح آسمان ہی نظر آرہا تھا لیکن اس نے ہمت نہ ہاری
اور مسلسل منتر پڑھتی رہی کافی دیر بعد اچانک ہلکا سادھماکہ ساہوااور نشاط نے چونک
کر دیکھا تو بائیں ہاتھ پرا سے برآمدے کی دوسری طرف ایک عجیب غریب سی چیز نظر آئی یہ
ایک بھورے رنگ کا کھمباسا تھا جو نیچے سے چوڑا اور اوپر سے پتلا تھا اور اوپر سرے
پر جا کر وہ اس طرح بن گیا تھا جیسے کسی انسان کی تھوڑی آگے کو بڑھی ہوئی ہو اور
چہرے والا حصہ پیچھے کو ہٹا ہوا ہو۔ اس کے آخری سرے پر باریک کو ناسا تھا جس کے
اوپر دونوں طرف چھتری کی طرح کالے اور سرخ رنگ کے ملے جلے بال سے بکھرے ہوئے تھے لیکن
یہ بالوں والا عجیب ساکھمبا بے حس وحرکت اپنی جگہ پر کھڑا تھا۔ نشاط اسے دیکھ کر ذرا
بھی خوفزدہ نہ ہوئی اور
ا
سے دیکھتی بھی رہی اور مسلسل منتر پڑھتی بھی رہی۔ اسے منتر پڑھتے پڑھتے کچھ دیر اورگزری
تھی کہ یکلخت آسمان پر سرخ رنگ کی تیز روشنی ہوئی اور اس کے ساتھ ہی آسمان پر
خوفناک گڑگڑاہٹ کی آواز ابھری اور پھریہ روشنی تیزی سے اس برآمدے کی طرف آنے لگی
جہاں صندوق پر بیٹھی نشاط منتر پڑھنے میں مصروف تھی یہ روشنی نشاط کے بالکل سامنے
کی طرف سے آرہی تھی روشنی کچھ فاصلے پر آکر
رک گئی اس کے ساتھ ہی ایسی آواز یں سنائی دیں جیسے ہزاروں شیرمل کر دھاڑے ہوں اور
پھر پلک جھپکنے میں سرخ روشنی کی جگہ شاہ جنات نمودار ہو گیا وہ بالکل اسی طرح کا
تھا جیسا کہ بوڑھے عامل نے بتایا تھا سُرخ رنگ کازردآنکھوں والا اور اسکے کھلے منہ
میں دو چھوٹے دانتوں کے درمیان ایک لمبا خنجرنما دانت اور اسکے ہلکے زردرنگ کے
باہرکو نکلے ہوئے خوفناک سینگ بھی نظر آرہے تھے نمو دار ہوتے ہی شاہ جنات نے
خوفناک انداز میں چیخ ماری۔ بڑے بڑے ناخنوں والے دونوں ہاتھ موڑ کر وہ تیزی سے
نشاط پر جھپٹا اسکی چیخ اور انداز اس قدر خوفناک تھا کہ نشاط منتر وغیرہ بھول
کرانتہائی خوفزدہ ہوگئی اور اس نے بے اختیار دونوں ہاتھ اس طرح شاہ جنات کی طرف
بڑھائے جیسے اسے ہاتھوں سے روکنا چاہتی ہو اسی لمحے شاہ جنات نے ایک اور چیخ ماری
اور نشاط اس قدر خوفزدہ ہوگئی کہ بے ہوش ہوکر اس صندوق پر گرگئی جب اس کی آنکھیں
کھلیں تو اس نے دیکھا کہ وہ اپنے مکان کے کمرے کی بجائے ایک ایسے بڑے کمرے میں
بستر پر پڑی ہوتی ہے جس کی دیواروں کے ساتھ ہر طرف انسانی کھوپڑیاں لٹکی ہوئی تھیں۔
بستر کے ساتھ دو انتہائی بدصورت انسان کھڑے ہوتے تھے ان کے جسموں پر سفید لباس تھا
اور وہ دونوں ہاتھ باندھے اور سر جھکائے خاموش کھڑے تھے لیکن وہ اتنے بدصورت تھے
کہ جیسے ہی نشاط کی نظریں ان پر پڑیں وہ دہشت سے بری طرح چیختی ہوئی اٹھ کر بیٹھ
گئی لیکن اس کے چیختے ہی وہ دونوں بدصورت آدمی یکانت غائب ہو گئے اور نشاط کو قدرےتسلی
ہوگئی لیکن دیواروں سے لٹکی ہوئی انسانی کھوپڑیوں نے اسے اور زیادہ دہشت زدہ کر دیا۔
اوہ کاش میں اس چکر میں نہ پڑتی۔ کاش میں ایسی حماقت نہ کرتی ۔ نشاط نے بری طرح
روتے ہوئے کہا۔ اسے یقین ہوگیا تھا کہ اب شاہ جنات اسے مارڈالے گا اور اسکی کھوپڑی
کو بھی اسی طرح کسی دیوار کے ساتھ لٹکا دی
جائے گی۔ وہ اس قدر خوفزدہ ہوگئی کہ بے اختیار ہچکیاں لے لے کر رونے لگی۔ اسی لمحے
اس کمرے کا بڑ اسا دروازہ کھلا اور شاہ جنات اندر داخل ہوا۔ وہ عام دیوؤں سے بھی بڑے
قد کا تھا۔ ہا ہا ہا ۔ تم نادان لڑکی ہمیں قابو میں کرنا چاہتی تھی، ہمیں شاہ جنات
کو ، اب ہم تمہیں اس کی عبرتناک سزا دیں گے ۔ شاہ جنات نے اندر داخل ہوتے ہی
انتہائی غصیلے اور کڑک دار لہجے میں کہا۔ نشاط کوا ور تو کچھ نہ سوجھا وہ جلدی سے
بستر سے اتری اور شاہ جنات کے بڑے بڑے پیروں سے چمٹ گئی۔ شاہ جنات اتنابڑا تھا کہ
نشاط کا پورا جسم اس کے پیر کے ایک انگوٹھے کے برابر تھا مجھے معاف کر دو ، شاہ
بنات مجھے معاف کر دو میں نادان اور احمق لڑکی ہوں تم شاہ جنات ہومجھ پر رحم کھاؤ
اور مجھے معاف کر دو نشاط نے بری طرح ہچکیاں لے لے کر روتے ہوئے کہا۔ شاہ جنات نے
ہاتھ بڑھا کر اسے گردن سے پکڑا اور واپس بستر پر اس طرح اُچھال دیا جیسے کوئی بچہ
کسی چھوٹے سے تنکے کو اٹھا کر پھینکتا ہے " تم واقعی نادان اور احمق لڑ کی ہو،ہمیں
تم پر رحم آگیا ہے ورنہ تمہیں انتہائی عبرتناک سزا دینے کیلئے یہاں لے آئے تھے۔
بہر حال ہم نے تمہیں معاف کر دیا ہے لیکن خبردار آئندہ اس قسم کا خیال بھی کبھی دل
میں نہ لانا شاہ جنات نے اس بار نرم لہجے میں کہا اور بُری طرح روتی ہوئی نشاط کو
ایسے محسوس ہوا جیسے وہ مرکر دوبارہ زندہ ہوئی ہو۔ اس نے شاہ جنات کے سامنے ہاتھ
باندھ دیئے اور رو رو کر اس کا شکریہ اداکرنے لگی ۔ تمہارا نام نشاط ہے ۔ شاہ جنات
نے مسکراتے ہوئے کہا اور نشاط نے ہاں میں سرہلادیا۔ تم مجھے یہ بتاو کہ آخر تم
مجھے کیوں قابومیں کرنا چاہتی تھیں ۔ آج تک بڑے سے بڑے
عامل نے یہ
جرات نہیں کی کہ وہ شاہ جنات کو قابو میں کر سکے اور تم ایک کمزور اور احمق لڑکی
ہو کر ایسا کر بیٹھی، اس کی کیا وجہ ہے، چھوٹے اور حقیر جنوں کو تو یہ عامل تسخیر
کرتے رہتے ہیں لیکن شاہ جنات کو قابو میں کرنا ایسا تو کبھی کسی نے سوچا بھی نہ
تھا۔
شاہ جنات کے لہجے میں حیرت تھی اور نشاط نے اسےسچ
سچ ساری بات بتادی کہ کس طرح اسے ارم کے
باپ ناصر کے متعلق سُن کر جنات کی تسخیر کا شوق پیدا ہوا اور وہ اس بوڑھے عامل کے
پاس گئی اور اس نے تمہاری تسخیر کا منتر اُسے بتایا ۔ " ہوں تو اس بوڑھے عامل
نے واقعی تم پر رحم کھایا ہے اسے معلوم ہے کہ ہم رحمدل ہیں ورنہ جس طرح تم نے ضد کی
تھی اگر وہ کسی اور جن کو قابوکرنے کا منتر بتادیتا تو دہ جن لازما ًتمہاری گردن
مروڑ دیتا۔ بہرحال ٹھیک ہے تم میری بیٹی جیسی ہو۔ وہ بھی تمہاری طرح معصوم اور
احمق تھا اس لئے میں نے تمہیں معاف بھی کر دیا ہے اور نہ صرف معاف کر دیا ہے بلکہ
اپنی بیٹی بھی بنا لیا ہے آج سے تم شاہ جنات کی بیٹی ہو اور تمہارا مقصد بھی حل ہو
گیا ہے دنیا کے تمام جن اور دیوشاہ جنات کی بیٹی کے غلام ہیں تم جو کہوگی پورا ہو
جائے گا۔ لیکن دیکھنا کسی کو تنگ کرنے کے لئے کبھی جنوں کو حکم نہ دینا یہ بات شاہ
جنات کی بیٹی کے وقار کے خلاف ہے کہ وہ کسی کو تنگ کرے ، شاہ جنات نے اپنا بڑا سا
ہاتھ آہستہ سے نشاط کے سر پر رکھتے ہوئے کہا اور نشاط اس بار خوشی سے چیختی ہوئی
بستر سے اتری اور دوبارہ شاہ جنات کے پیر کے انگوٹھے سے لپٹ گئی اور شکر یہ ادا
کرنے لگی ۔ ” میری بیٹی تمہاری عمر میں اچانک مرگئی تھی اسے جینوں کی ایک خاص بیماری
ہوگئی تھی اس لئے میں نے تمہیں اپنی بیٹی بنالیا ہے لیکن چونکہ آدم زاد ہو اس لئے
تم یہاں میرے محل میں نہ آسکتی ہو، البتہ میں تم سے ملنے ضرور آیا کروں گا اب آنکھیں
بند کرلو۔ شاہ جنات نے پیار بھرے لہجے میں کہا اور نشاط نے آنکھیں بند کر لیں پھر
شاہ جنات کی آواز سنائی دی وہ اُ سے آنکھیں کھولنے کے لئے کہہ رہا تھا۔ نشاط نے آنکھیں
کھولیں تو وہ اپنے مکان میں اپنے کمرے کے بستر پر بیٹھی ہوئی تھی۔ پھر تو واقعی ایسا
ہونے لگا کہ وہ جو خواہش بھی کرتی پلک جھپکنے میں پوری ہو جاتی اور اب نشاط پہلے سے
زیادہ خوش تھی وہ واقعی شاہ جنات کی بیٹی بن گئی تھی اور پوری دنیا کے جن اور دیو
اس کے غلام بن گئے تھے ۔ بوڑھا عامل بھی ایک روز اس سے ملنے آیا اور اسے شاہ جنات
کی بیٹی بن جانے پر مبارکباد دی۔ نشاط نے بوڑھے عامل کی خوب آؤ بھگت کی اور اس کا
شکریہ ادا کیا۔اب وہ خوش تھی بے حد خوش کیونکہ اس کے دل کی مراد پوری ہوگئی تھی ۔
اور وہ شاہ جنات کی بیٹی بن کر ایک لحاظ سے پوری دنیا کے جنوں اور دیوں کی ملکہ بن
گئی تھی لیکن اس نے ہمیشہ اپنے وعدے کا خیال رکھا کسی انسان کو تنگ کرنے کے بارے میں
کبھی سوچا بھی نہ بلکہ ہمیشہ اس نے انسانوں کی مدد ہی کی۔ اس لئے شاہ جنات بھی اس
سے خوش تھا اور کبھی کبھار وہ اس سے ملنے آجاتا تھا۔
ختم شد
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ آپ کی بے لوث خدمت کو سلام
ReplyDeleteوعلیکم اسلام ۔۔۔۔ جزاک اللہ خیرا
Deleteبہت خوب. مزہ آیا پڑھ کر کہانی
ReplyDeleteبہت خوب سر.. کافی دنوں بعد دوبارہ جنوں اور پریوں کی کہانی پڑھنے کو ملی..
ReplyDeleteشکریہ 🎉🎉🎉
g ..kabhi kabhi ye bhi zaruri hai.
Delete