=" Urdu Kahaniyan (AreeB): January 2023

JABBIR AUR SHER

 جابر اور شیر:

JABBIR AUR SHER

جابر اور شیر

پیارے بچو! ہزاروں برس پرانی بات ہے کہ روم کی سلطنت دنیا کی سب سے بڑی سلطنت تسلیم کی جاتی تھی۔ ان دنوں رومیوں کی حکومت یورپ کے ایک بہت بڑے حصے کے علاوہ ایک وسیع و عریض افریقی علاقے اور ایشیا پر بھی تھی۔ انہی دنوں ایک جوان آدمی بد قسمتی سے رومی سپاہیوں کے ہتھے چڑھ گیا۔ اس کا نام جابر تھا یہ اس وقت اپنے گھر بار اور وطن سے سینکڑوں میل دور تھا۔

جابر کو رومی سپاہیوں نے قید کر کے غلام بنا لیا اور اس کو غلاموں کے بازار میں لے جا کر فروخت کر دیا۔ جابر آزادی کا متوالا تھا اور آزادی کو دل و جان سےپسند کرتا تھا۔ اس نے اپنی غلامی کو دل سے قبول نہیں کیا۔ آزادی کی ترکیبیں سوچتا رہتا۔ آخر کار اس کو قید سے فرار ہونے کا موقع کئی برس کے بعد مل ہی گیا۔ جابر قید غلامی سے فرار ہو کر پہاڑوں میں پہنچ گیا جہاں چند لوگ ہی پہنچ سکتے تھے جابر کی پہلی خواہش یہی تھی کہ وہ کسی طرح اپنے وطن میں پہنچ جائے مگر اس کو یہ بھی خطرہ لاحق تھا کہ کہیں وہ راستے میں ہی دوبارہ گرفتار نہ کر لیا جائے ، یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ اس کو سفر کے دوران رومی سپاہی دیکھ لیتے ۔ کیونکہ ہر جگہ اس کے فرار کی اطلاع پہنچ چکی تھی اگر وہ سڑکوں پر سفر کرتا تو اس کو یقین تھا کہ اس کو مفرور غلام قرار دے کر دوبارہ گرفتار کر لیا جاتا۔ اگر وہ اپنا سفر جنگلوں یا پہاڑوں پر جاری رکھتا تو اس کو یہ خدشہ تھا کہ وہ یقینی طور پر شدید سردی اور بھوک سے مر جاتا۔

بے انتہا سوچ و بچار کے بعد جابر نے یہی منصوبہ بنایا کہ روم کے نزدیک ہی پہاڑوں میں روپوش ہونا زیادہ بہتر ہے۔

یہ موسم خزاں کے دن تھے۔ جابر دن کےوقت سٹرابری درختوں سے توڑ کر کھا لیتا اوررات کو ایک غار میں

سو رہتا۔



 پیارے بچو!دن کے وقت اس کوکھانے کیلئے سٹرابری مل جاتی اور پینے کے  لیے پانی ، اسی طرح کئی دن گذر گئے ۔ ایک دن جنگل میں اسے شیر کے رونے کی اور درد سے کراہناکی آواز سنائی دی۔ جابر ڈرتے ڈرتے شیر تک پہنچا۔ پہلے پہل تو جابر کو بڑا خوف آیا،اور ایک لمحہ کے سوچا کہ یہاں سے بھاگ جائے ۔ مگر جابر انسانیت نواز آدمی تھا۔ اس نے شیر کو بغور مشاہدہ کیا تو پتہ چلا کہ شیر کے پیر میں ایک بڑا سا کانٹا چبھ گیا اور وہ چل نہیں پا رہا ہے۔

 

        شیر کی ملتجانہ نظر جابر پہچان گیا اور اب اُس کا ڈر کافور ہوگیا۔ وہ ہمت سے آگے بڑھا شیر کا پیر اپنے ہاتھ میں لیا اور ایک ہی جھٹکے میں کانٹے کو پیر سے الگ کر دیا۔ شیر زور سے دہاڑا، آواز سن کر جابر کے پسینے چھوٹ گئے ۔ جابر نے ایک کپڑے سے زخم پر پٹی باندھ دی ،شیر وہاں سے چلا گیا۔

        کچھ دنوں بعد سپاہیوں کو جابر کا پتہ چل گیا اور وہ اسے گرفتار کر کے بادشاہ کے سامنے پیش کر دیا گیا۔ بادشاہ نے اسے سزا سنائی کہ اسے جمعہ کے دن سب کے سامنے بھوکے شیر کے سامنے ڈال دیا جائے گا اس سے سب کو سبق ملے گا کہ ہماری حکم عدولیٰ کا انجام موت ہے۔وہ بھی بد ترین موت۔۔۔۔۔

جمعہ کے دن بڑے بڑے سلاخوں والے پنجرے میں جابر کو ڈال دیا گیا۔ سارے درباری اور رعایا اس منظر کو دیکھ رہے تھے، پھر ایک چھوٹے پنجرے میں کئی دن بھوکے  شیر کو لایا گیا اور بڑے پنجرے میں داخل کر دیا گیا۔ سب منتظر تھے کہ شیر اتنا بھوکا ہے کہ ایک دو جھپٹے میں ہی جابر کا کام تمام کردیا اور کھا جائے ، مگر جیسا درباری اور رعایا سوچ رہی تھی ویسا نہیں ہوا، بلکہ وہ سب شیر کی حرکت دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے۔

        شیر نہایت اطمینان سے جابر کے قریب پہنچا اور جابر کے قدموں پر اپنا سر رکھ دیا ، جابر نے جب شیر کی پیر کی طرف دیکھا تو اسے پتہ چلا کہ یہ تو وہی شیر ہے جس کی اس نے مدد کی ۔ بادشاہ اور درباریوں کو یہ منظر دیکھ کر بڑی حیرت اور تعجب ہوا کہ معاملہ کیا ہے ؟؟؟؟ بادشاہ نے جابر کو اپنے پاس بلوایا اور حقیقت دریافت کی ، جابر نے سارا ماجرا سنا دیا۔

بادشاہ کو اس کی رحمدلی پر بہت پیار آیا اور اس نے جابر کو معاف کردیا اور اپنے سپاہیوں میں شامل کر لیا۔

۔۔۔۔۔ختم شُد۔۔۔۔۔

Rahem Dil Boney

 انتخاب:نوشادعلی 

رحم دل بونے : Rahem Dil Boney 

پیارے بچو! صدیوں پرانی بات ہے ایک ملک میں ایک غریب موچی رہتا تھا۔ اس کو اپنی بیوی اور اپنی گزر اوقات کے لئے بڑی سخت محنت کرنا پڑتی تھی۔ ان دونوں کے بچوں نے کچھ عرصہ پہلے ان کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ کیونکہ وہ لوگ اب جوان ہو چکے تھے۔ غریب موچی نے اپنی دونوں بیٹیوں کی تو شادی کر دی تھی اور دونوں بیٹے بھی اس نے بیاہ دیئے تھے۔ مگر اس کے دونوں بیٹے اب اس کے ساتھ رہنے پر آمادہ نہ تھے۔ چنانچہ اب بڑھاپے میں غریب موچی کو بڑی ہی سخت محنت کرنا پڑی تھی۔ کیونکہ اب تو اس کی نظر بھی کمزور ہو گئی تھی۔ پیارے بچو! اس زمانے میں بھلا عینک کا رواج تو تھا نہیں۔ آپ سمجھ گئے ناں۔

     ایک شام کو یوں ہوا کہ اس موچی کی بیوی نے رات کا کھانا تیار کر کے جب اپنے میاں کو آواز دی تو موچی بدستور کام کرتا رہا۔ اس نے سنی ان سنی کر دی اور اپنے کام میں مشغول رہا۔ موچی کے سامنے والے میز پر چمڑے کے کٹے ہوئے ٹکڑے پڑے ہوئے تھے۔ جن کو اس موچی نے بس اب سینا ہی تھا۔ یعنی چمڑے کی کٹائی ہو چکی تھی اور اب کام تھوڑا ہی باقی تھا۔ جب موچی کی بیوی کا اصرار زیادہ بڑھا تو موچی نے چلاتے ہوئے کہا کہ ” میں ان جوتوں کو ضرور تیار کروں گا۔ جوتوں کو سینے کے بعد بھی میں رات کا کھانا کھاؤں گا۔ نیک بخت! مجھے تنگ نہ کر اور کام کرنے دے" بڑھیا نے اس کے سامنے آتے ہوئے کہا " نہیں، نہیں۔ اب بس کرو تم نے سارا دن بھی بہت سخت کام کیا ہے۔ اب تمہیں ہر صورت آرام کرنا چاہیے۔ آؤ میرے ساتھ اور کچھ کھاکر سو جاؤ تاکہ کل بھی کام کر سکو۔ اس چمڑے کو میز پر ہی پڑا رہنے دو۔ اور صبح تازہ دم ہو کر جوتے تیار کر لینا۔ کھانا ابھی گرم ہے کھا لو ور نہ ٹھنڈا ہو جائے گا اور ہاں جب کھانا ٹھنڈا ہو جائے گا تو پھر تم مجھ سے خوامخواہ ناراض ہو جاؤ گئے۔"

چنانچہ موچی نے کام نہ کرنے میں ہی عافیت جانی۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اس کی بیوی نے اب خاموشی اختیار نہیں کرنی۔ یہ تو اب بولتی ہی چلی جائے گی۔ اس نے سارا کام اسی طرح چھوڑ کر کھانا کھانے کے لئے کمرے کا رخ کیا۔ کھانا کھا کر تھکا ہارا موچی بے سدھ ہو کر سو گیا۔ پیارے بچو! اگلی صبح جب موچی اپنی دکان میں داخل ہوا جو کہ اس کے گھر میں ہی بنی ہوئی تھی تو اس نے دیکھا کہ جوتے تو بالکل تیار تھے۔ جتنے چمڑے کے ٹکڑے اس نے کاٹ کر رکھے تھے ان سب کے جوتے بالکل بہترین حالت میں تیار تھے۔ اس نے بہت زیادہ حیرانی کے ساتھ جب ان جوتوں کا مشاہدہ کیا تو اس نے دیکھا کہ نہایت ہی عمدہ ترین جوتے تیار تھے۔ اس نے اس قدر عمدہ جوتے بہت ہی کم دیکھے تھے۔ یہ تو لگتا تھا کہ جیسے کسی بہت ہی ماہر کاریگر نے تیار کئے تھے۔ بیگم ادھر تو آؤ، دیکھو تو سہی یہ کیا ہے“ موچی نے خوشی سے لرزتی آواز میں     اپنی بیوی کو آواز دی۔ موچی کی بیوی اس وقت گھر کے کام کاج میں مصروف تھی کیونکہ صبح سویرے کا وقت تھا۔ اس کی بیوی نے جو موچی کو بار بار چلاتے سنا تو وہ دکان میں چلی آئی۔ اس نے دیکھا کہ موچی کے ہاتھوں میں بہت ہی خوبصورت اور عمدہ ترین جوتے موجود ہیں۔ موچی نے اس کو بتلایا کہ جب اس نے دکان کا دروازہ کھولا تواس کو یہ جوتے اپنی میز پر بالکل تیار حالت میں ملے تھے۔ " کیا تمہیں یقین ہے کہ تم نے ان کو تیار نہیں کیا موچی کی بیوی نے جوتوں کا جوڑا پکڑتے ہوئے کہا۔ "تم رات کو بہت زیادہ تھکے ہوئے تھے۔ شاید تمہیں یاد نہ ہو کہ تم کیا کام کر چکے تھے۔ تم اچھی طرح یاد کرو۔ میرا تو خیال ہے کہ تم نے ہی یہ جوتے بنائے ہیں۔ بھلا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ جوتے خود بخود ہی سل جائیں۔ ارے دیکھو تو سہی کس قدر عمدہ جوتے ہیں“

نہیں، نہیں۔ مجھے بالکل یقین ہے کہ ان جوتوں کو میں نے نہیں بنایا اور یاد کرو کہ جب میں نے تمہیں بتایا تھا کہ میں یہ جوتے تیار کر کے ہی کھانا کھاؤں گا تو تم نے ہی تو کہا تھا کہ ان چمڑے کے ٹکڑوں کو یہیں پڑا رہنے دو اور صبح تازہ دم ہو کر کام کرنا ۔ “

موچی نے پُریقین انداز میں کہا اس کے لب و لہجے میں کسی قسم کا شک وشبہ شامل نہیں تھا۔ اس کی بیوی نے بھی اس کی بات کو تسلیم کیا کیونکہ واقعی اس نے ہی تو کہا تھا۔ اور اس نے چمڑے کے کٹے ہوئے ٹکڑے میز پر رکھے تھے۔

پیارے بچو! آج موچی نے بہت کام کیا۔ بلکہ ان جوتوں کو اس نے بڑے ہی قیمتی جوتوں کی طرح فروخت کیا۔ شام کو موچی نے ایک جوڑا جوتوں کا اور کاٹا۔ اب نے اسی طرح چمڑے کے کٹے ہوئے ٹکڑوں کو پڑا رہنے دیا اور رات کا کھانا کھا کر سو گیا۔ اس نے سوچا کہ دیکھتے ہیں کہ آج رات کیا ہوتا ہے۔ اگلی صبح موچی بڑے جوش و خروش سے دکان کی طرف بڑھا۔ آج اس نے سویرے سویرے جاگنا پسند کیا اور ناشتہ کئے بغیر ہی اپنی دکان میں چلا آیا۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ رات کو اس نے جو چمڑے کے ٹکڑے میز پر رکھے تھے ان کا کیا بنا۔ اس نے وہاں دیکھا کہ اس نے جو چمڑے کے ٹکڑے کاٹ کر رکھے تھے۔ ان کی جگہ نہایت ہی اعلیٰ قسم اور فیشن کے جوتے تیار پڑے تھے۔ یہ جوتے بھی بہت عمدگی سے تیار کئے گئے تھے اور یوں لگتا تھا کہ انہیں کسی بہت ہی ماہر کاریگر نے بڑی محنت سے تیار کیا ہے۔

اس نے خوشی سے چلاتے ہوئے اپنی بیوی کو آواز دی۔ اس مرتبہ اس کی بیوی اس کی پہلی آواز پر ہی دوڑی چلی آئی۔ موچی نے اپنی بیوی سے کہا۔ اس مرتبہ تو کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ میں نے اپنے ہوش و حواس میں رہتے ہوئے اور جانتے بوجھتے ہوئے ان ٹکڑوں کو اپنے کام کرنے والی میز پر رکھا تھا۔ مگر ان ٹکڑوں کی جگہ پر اس قدر خوبصورت جوتے تیار ہیں۔ تم دیکھ رہی ہو ناں۔ کس قدر خوبصورت جوتے ہیں۔ اب تو تمہیں بھی کوئی شک نہیں ہو گا۔“

ہاں، ہاں۔ لگتا ہے کہ ہماری قسمت بدلنے والی ہے۔“ اس کی بیوی نے مسکراتے ہوئے کہا "لگتا ہے کہ کسی مہربان ان دیکھی مخلوق نے ہمارے برے دنوں کو دور کرنے کے لئے ہماری مدد کرنے کی کوشش کی ہے۔“



چند دنوں کے بعد اس موچی کی دکان میں ایک رئیس خاتون آئی۔ اس نے جوتوں کی اس دکان کو بہت سراہا۔ وہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ جب اس نے بہت ہی عمدہ جوتے تیار دیکھے۔ اس امیر خاتون نے یہ جوڑا مہنگے داموں خرید لیا اور ان کو اپنے رشتے داروں اور ملنے جلنے والوں کو دکھلایا۔ چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے اس موچی کی دکان پر جوتوں کے خریداروں کا رش لگ گیا۔ ہر بندے کی خواہش تھی کہ اس کا جوتا پہلے تیار ہو۔

ارے بھائی! میں دیکھوں گا کہ میں تمہارے لئے کیا کر سکتا ہوں۔ مجھے کچھ وقت تو دو بوڑھا موچی سب سے یہی کہتا۔ سارا دن موچی گاہکوں سے آرڈر لیتا رہا۔ اور سب سے یہی کہتا رہا اس روز موچی نے ایک بھی جوتے کی سلائی نہیں کی۔ بھلا وہ گاہکوں سے باتیں کرتا یا کوئی کام کرتا۔ مگر اس نے جوتوں کی کٹائی کا کام جاری رکھا۔

اس شام موچی نے تمام جوتوں کی کٹائی کر کے اپنے کام کرنے والی میز پر رکھے اور کھانا کھا کر بڑے مزے سے سو رہا۔ آج کی رات اس کو یقین تھا کہ پہلے کی طرح آج بھی تمام جوتے تیار ہو جائیں گے۔ صبح اس کے لئے خوشیوں کا پیغام لائی تھی۔ وہ بڑا ہی خوش ہوا جب اس نے دیکھا کہ پہلے کی مانند آج بھی جوتے تیار تھے۔ تمام جوڑے بہت شاندار حالت میں تھے اور دور سے ہی بڑے خوبصورت دکھائی دے رہے تھے۔ موچی نے تمام جوتوں کو باری باری باریک بینی سے دیکھا۔ مگر ان جوتوں میں اس کو کسی قسم کا کوئی بھی نقص دکھائی نہ دیا۔

پیارے بچو! اگلے چند مہینوں میں موچی شہر کا مشہور و معروف موچی بن گیا۔ موچی اور اس کی بیوی بڑی آرام دہ زندگی گزارنے لگے۔ اب ان کے پاس چند مشہور کاریگر بھی تھے اور ان کو کام تلاش کرنے کی بھی کوئی پریشانی نہیں تھی۔ لوگ دور دور سے ان کے پاس جوتوں کے لئے آتے۔ اب موچی غریب موچی نہ تھا۔ بلکہ موچی کے حالات کافی بدل چکے تھے۔ آخر ایک روز موچی کی بیوی نے اپنے شوہر سے کہا۔ میرے سرتاج! ہمیں آج کی رات جاگنا چاہئے اور یہ دیکھنا چاہئے کہ آخر کون مہربان ہمارے اوپر احسان کر رہا ہے۔ ہمیں آخر پتہ بھی تو چلے"

چنانچہ اس رات موچی نے تمام کٹے  ہوئے چمڑے کے ٹکڑوں کو حسب معمول میز پر رکھا مگر سونے کےلئے اپنے کمرے میں نہیں گیا۔موچی اور بیوی دونوں جاگتے رہے۔دونوں نے گھر میں کھلنے والےدروازے کی اوٹ سےدیکھنے کا فیصلہ کیا۔

دکان میں انہوں نے دیکھا کہ آدھی رات کے وقت نہایت دبے قدموں کی آواز سے دو بونے دکان میں آرہےتھے۔ انہوں نے آکر پہلے تو میز کےپاس موم بتی کو روشن کیا اور پھردونوں بو نے میز کے اطراف میں بیٹھ گئے۔ انہوں نے سنا کہ دونوں بو نے آپس میں خوب مذاق رہے تھے اور ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے مگر وہ بہت تیزی کے ساتھ کام بھی کر رہے تھے اور اس قدر تیزی کے ساتھ کہ کوئی انسان نہیں کر سکتا تھا۔

موچی اور اس کی بیوی نے دیکھا کہ دونوں بونے بڑی تیزی کے ساتھ جوتے تیار کر رہے تھے سلائی اور جڑائی اس قدر تیزی سے کر رہے تھے کہ ان کو دیکھنا بھی محال ہو گیا۔ تھوڑی ہی دیر میں انہوں نے دیکھا کہ دونوں بو نے اپنا کام ختم کر چکے تھے۔ اچھا تو یہ وہ انجان مہربان تھے جنہوں نے ہماری غربت کو ہم سے دور کیا اور ہماری اس وقت مدد کی جب کوئی بھی مدد کرنے کے واسطے تیار نہ تھا۔ یہاں تک کہ ہمارے بچے بھی ہمیں چھوڑ کر جا چکے تھے۔ دونوں میاں بیوی چپکے سے یہ بہت کچھ دیکھ کر اپنے گھر میں لوٹ آئے۔ انہوں نے سوچا کہ ان لوگوں سے بات کرنے کا فائدہ نہیں ہے اور معلوم نہیں کہ یہ بات کرنے سے ناراض ہی ہو جائیں۔ " تم نے دیکھا کہ کس قدربو سیدہ لباس ان بونوں نے پہن رکھا تھا۔ “ موچی کی بیوی نے موچی سے بطور یاد دہانی کہا انہوں نے چونکہ ہماری بہت زیادہ مدد کی ہے۔ چنانچہ ہمیں بھی چاہئے کہ ان کا شکریہ ادا کریں۔ میں نے تو فیصلہ کر لیا ہے کہ ان دونوں کو ایک ایک کپڑوں کا جوڑا خود تیار کر کے دوں گی۔ آخر وہ ہمارے محسن ہیں۔ ان کا احسان تو ہم ساری زندگی بھی نہیں اتار سکتے۔ موچی نے اپنی بیوی کے فیصلے کا خیر مقدم کیا اور اس کی بیوی نے چند دن مسلسل سلائی کر کے ان دونوں کے لئے بہت ہی عمدہ گرم کپڑوں کے جوڑے تیار کئے۔ اس کے خیال میں یہ کپڑے دونوں بو نے بہت پسند کریں گے۔ موچی کی بیوی نے ان کے قد کاٹھ کا خوب اندازہ کر لیا تھا۔ جب کپڑے تیار ہو گئے تو موچی کی بیوی نے ان کو اچھی طرح چیک کرنا مناسب سمجھا اور اپنے شوہر کو بھی دکھلایا۔ اس کے شوہر نے بھی ان کپڑوں کو بہت پسند کیا۔ چنانچہ موچی نے چمڑنے کے کٹے ہوئے ٹکڑوں کے ساتھ ہی یہ کپڑے بھی رکھ دئیے ۔ اس رات موچی اور اس کی بیوی نے یہ دیکھنے کا ارادہ کیا کہ ان کپڑوں کو دیکھ کر ان بونوں کا رد عمل کیا ہو گا۔ چنانچہ دروازے کی اوٹ میں دونوں کھڑے ہو گئے کہ دیکھیں تو بھلا ان کے محسنوں کا رد عمل کیا ہوتا ہے۔ اس مرتبہ بھی آدھی رات کو دونوں بو نے آئے اور موم بتی کو روشن کیا۔ دونوں نے کپڑوں کے جوڑوں کو بڑی دلچسپی کے ساتھ دیکھا۔ موچی اور اس کی بیوی نے دیکھا کہ دونوں بو نے کپڑوں کو بڑے شوق سے پکڑ کر دیکھ رہے ہیں۔ دونوں نے کپڑوں کو پہن کر دیکھا اور خوش ہوئے کہ یہ تو بہت ہیں آرام دہ اور گرم ہیں۔ ان میں ایک نے دکان کے دروازے کی طرف جاتے ہوئے اپنے ساتھی سے مسکراتے ہوئے کہا۔

ارے بھائی! مجھے تو میری اجرت مل گئی ہے۔ میں تو چلا۔ “ اس کے دوسرے ساتھی نے بھی خوش دلی سے کہا کہ ”ہاں! میرے خیال میں تم ٹھیک ہی کہتے ہو۔ اب ہمیں یہاں مزید کام کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اب یہ لوگ خاصے خوشحال ہو چکے ہیں۔ ہمیں اب دوسرے ضرورت مند لوگوں کی فکر کرنی چاہئے۔ مجھے یقین ہے کہ ان کو اب ہماری ضرورت نہیں ہے۔" اس رات کے بعد دونوں بو نے موچی کے گھر دوبارہ کبھی نہیں آئے۔ مگر موچی اور اس کی بیوی کو ان کی ضرورت بھی نہیں تھی کیونکہ ان دونوں بونوں کی بدولت اب موچی اور اس کی بیوی خاصے خوشحال ہو چکے تھے۔ اکثر وہ باتوں باتوں میں اپنے مہربان بونوں کو ضرور یاد کرتے اور دعائیں دیتے۔ جنہوں نے ان کی تکلیف دہ زندگی کو آرام دہ زندگی میں بدل ڈالا تھا۔

#Rahem Dil Boney #naushadali19881 #AreeBTLM #https://teachingadds.blogspot.com 

Bhoton Ki Shahezadi

انتخاب : انصاری اریب نوشاد علی۔ بھوتوں کی شہزادی پچھلے زمانے میں ملک شام پر ایک بادشاہ پرویز حکومت کرتا تھا۔ اس بادشاہ کا ایک ہی بیٹا تھا ش...