جابر اور شیر:
JABBIR AUR SHER
جابر
اور شیر
پیارے
بچو! ہزاروں برس پرانی بات ہے کہ روم کی سلطنت دنیا کی سب سے بڑی سلطنت تسلیم کی
جاتی تھی۔ ان دنوں رومیوں کی حکومت یورپ کے ایک بہت بڑے حصے کے علاوہ ایک وسیع و
عریض افریقی علاقے اور ایشیا پر بھی تھی۔ انہی دنوں ایک جوان آدمی بد قسمتی سے رومی
سپاہیوں کے ہتھے چڑھ گیا۔ اس کا نام جابر تھا یہ اس وقت اپنے گھر بار اور وطن سے سینکڑوں
میل دور تھا۔
جابر
کو رومی سپاہیوں نے قید کر کے غلام بنا لیا اور اس کو غلاموں کے بازار میں لے جا
کر فروخت کر دیا۔ جابر آزادی کا متوالا تھا اور آزادی کو دل و جان سےپسند کرتا
تھا۔ اس نے اپنی غلامی کو دل سے قبول نہیں کیا۔ آزادی کی ترکیبیں سوچتا رہتا۔ آخر
کار اس کو قید سے فرار ہونے کا موقع کئی برس کے بعد مل ہی گیا۔ جابر قید غلامی سے
فرار ہو کر پہاڑوں میں پہنچ گیا جہاں چند لوگ ہی پہنچ سکتے تھے جابر کی پہلی خواہش
یہی تھی کہ وہ کسی طرح اپنے وطن میں پہنچ جائے مگر اس کو یہ بھی خطرہ لاحق تھا کہ
کہیں وہ راستے میں ہی دوبارہ گرفتار نہ کر لیا جائے ، یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ اس
کو سفر کے دوران رومی سپاہی دیکھ لیتے ۔ کیونکہ ہر جگہ اس کے فرار کی اطلاع پہنچ چکی
تھی اگر وہ سڑکوں پر سفر کرتا تو اس کو یقین تھا کہ اس کو مفرور غلام قرار دے کر
دوبارہ گرفتار کر لیا جاتا۔ اگر وہ اپنا سفر جنگلوں یا پہاڑوں پر جاری رکھتا تو اس
کو یہ خدشہ تھا کہ وہ یقینی طور پر شدید سردی اور بھوک سے مر جاتا۔
بے
انتہا سوچ و بچار کے بعد جابر نے یہی منصوبہ بنایا کہ روم کے نزدیک ہی پہاڑوں
میں روپوش ہونا زیادہ بہتر ہے۔
یہ
موسم خزاں کے دن تھے۔ جابر دن کےوقت
سٹرابری درختوں سے توڑ کر کھا لیتا اوررات
کو ایک غار میں
سو
رہتا۔
پیارے بچو!دن کے وقت اس کوکھانے کیلئے سٹرابری مل
جاتی اور پینے کے لیے پانی ،
اسی طرح کئی دن گذر گئے ۔ ایک دن جنگل میں اسے شیر کے رونے کی اور درد سے کراہناکی
آواز سنائی دی۔ جابر ڈرتے ڈرتے شیر تک پہنچا۔ پہلے پہل تو جابر کو بڑا خوف آیا،اور
ایک لمحہ کے سوچا کہ یہاں سے بھاگ جائے ۔ مگر جابر انسانیت نواز آدمی تھا۔ اس نے
شیر کو بغور مشاہدہ کیا تو پتہ چلا کہ شیر کے پیر میں ایک بڑا سا کانٹا چبھ گیا
اور وہ چل نہیں پا رہا ہے۔
شیر کی
ملتجانہ نظر جابر پہچان گیا اور اب اُس کا ڈر کافور ہوگیا۔ وہ ہمت سے آگے بڑھا
شیر کا پیر اپنے ہاتھ میں لیا اور ایک ہی جھٹکے میں کانٹے کو پیر سے الگ کر دیا۔
شیر زور سے دہاڑا، آواز سن کر جابر کے پسینے چھوٹ گئے ۔ جابر نے ایک کپڑے سے زخم
پر پٹی باندھ دی ،شیر وہاں سے چلا گیا۔
کچھ دنوں بعد
سپاہیوں کو جابر کا پتہ چل گیا اور وہ اسے گرفتار کر کے بادشاہ کے سامنے پیش کر
دیا گیا۔ بادشاہ نے اسے سزا سنائی کہ اسے جمعہ کے دن سب کے سامنے بھوکے شیر کے
سامنے ڈال دیا جائے گا اس سے سب کو سبق ملے گا کہ ہماری حکم عدولیٰ کا انجام موت
ہے۔وہ بھی بد ترین موت۔۔۔۔۔
جمعہ کے دن بڑے بڑے سلاخوں والے پنجرے میں جابر کو ڈال دیا
گیا۔ سارے درباری اور رعایا اس منظر کو دیکھ رہے تھے، پھر ایک چھوٹے پنجرے میں کئی
دن بھوکے شیر کو لایا گیا اور بڑے پنجرے
میں داخل کر دیا گیا۔ سب منتظر تھے کہ شیر اتنا بھوکا ہے کہ ایک دو جھپٹے میں ہی
جابر کا کام تمام کردیا اور کھا جائے ، مگر جیسا درباری اور رعایا سوچ رہی تھی
ویسا نہیں ہوا، بلکہ وہ سب شیر کی حرکت دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے۔
شیر نہایت
اطمینان سے جابر کے قریب پہنچا اور جابر کے قدموں پر اپنا سر رکھ دیا ، جابر نے جب
شیر کی پیر کی طرف دیکھا تو اسے پتہ چلا کہ یہ تو وہی شیر ہے جس کی اس نے مدد کی ۔
بادشاہ اور درباریوں کو یہ منظر دیکھ کر بڑی حیرت اور تعجب ہوا کہ معاملہ کیا ہے
؟؟؟؟ بادشاہ نے جابر کو اپنے پاس بلوایا اور حقیقت دریافت کی ، جابر نے سارا ماجرا
سنا دیا۔
بادشاہ کو اس کی رحمدلی پر بہت پیار آیا اور اس نے جابر کو
معاف کردیا اور اپنے سپاہیوں میں شامل کر لیا۔
۔۔۔۔۔ختم شُد۔۔۔۔۔
بچپن کبھی پڑھی تھی... یادیں تازہ ہو گئی..
ReplyDeleteواقعی یاد تازہ ہوگئی. 🎉🎉
ReplyDelete