=" Urdu Kahaniyan (AreeB): February 2023

Teen Shararti Thag

 تین شرارتی ٹھگ

Teen Shararti Thag

تین شرارتی ٹھگ

 

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ تین ٹھگ تھے ٹھگ پورے ملک میں گھومتے پھرتے اور لوگوں سے پیسے بٹورتے رہے۔ یہ ٹھگ کبھی بھی کوئی کام دھندہ نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی خواہش ہوتی کہ یہ لوگوں کو بے وقوف بنا کر دولت کمائیں۔ تینوں ٹھگ لطیفے سنانے میں بھی بڑے ماہر تھے اور کمال کے منصوبہ ساز بھی۔ بعض اوقات تو ان کے حالات بڑے اچھے ہوتے اور بعض اوقات یہ لوگ فاقہ کشی کا شکار ہوتے وجہ یہ تھی کہ مستقل ذریعہ روزگار کوئی نہ تھا۔

 ایک دن تینوں ٹھگ ایک چھوٹے سے قصبے کے باہر جمع تھے اور یقیناً خود سے شرمندہ تھے۔ کیونکہ کئی ہفتوں سے انہوں نے اپنے کرتبوں سے کسی کو بے وقوف بنا کر کچھ بھی حاصل نہیں کیا تھا یا یوں کہہ لیں کہ ان کو موقع ہی نہیں ملا تھا۔ کسی نے بھی ان کے لطیفوں سے خوش ہوکر یا ان کی جگتوں سے خوش ہو کر ان کو کچھ بھی نہیں دیا تھا۔ بلکہ اس دوران تو یہ بھی کمال ہو گیا کہ ان کی جگتوں یا لطیفوں کو سن کر کسی نے بھی ہنستا گوارا نہ کیا۔ چنانچہ یہ لوگ مایوس ہو کر اس چھوٹے سے قصبے کی طرف آنکلے ۔ اب انہوں نے کسی بھی کام کو سنجیدگی سے کرنے کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ مگر ان کے پاس تو کوئی بھی ہنر نہیں تھا۔

 تینوں کافی دنوں تک سوچ بچار کرتے رہے کہ کیا کیا جائے کہ یکا یک ایک ٹھگ اچھل پڑا۔ اس کے دونوں ساتھیوں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ کیا ہوا ہے کیا تمہیں کوئی ترکیب سوجھی ہے؟ "دوستو میں کافی مقدار میں دودھ لاسکتا ہوں دودھ لانے کی ترکیب مجھے ابھی ابھی سوجھی ہے۔" اس نے چہکتے ہوئے پر جوش لہجے میں کہا۔

کچھ دیر کے بعد اس نے دو مٹکے اپنے گھر کے باہر لاکر رکھ دیئے اس نے ان میں سے ایک میں پانی بھرا اور اس میں  تھوڑا سا دودھ بھی ملا دیا۔ مگر دوسرا مٹکاخالی رہنے دیا۔اس کے بعد اس نے  دونوں مٹکوں کو اٹھایااور دودھ  والے کی دکان پر نے دکاندارپر چلا گیا۔وہاں سے اس نے دکان دار سے کہا کہ ان مٹکوں میں دودھ بھر دو۔مجھے بڑی ضرورت ہے۔ دکاندار خوش ہو گیا کہ پہلو ڈھیر سارا دودھ فروخت ہو گیا ۔ دکاندارنے خالی مٹکے میں جلدی جلدی دودھ بھر دیا۔

"تم مجھے اس دودھ کےبیس ریال دے دو تمہاری بڑی مہربانی۔" دکاندار نےبڑے پیار سے کہا۔ "مگر تم نے تو میرے ساتھ دھو کہ کیا ہےٹھگ نے دکاندار سے کہا۔ دکاندار نے حیران ہو کر اس کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ کیا بات ہوگئی۔ ٹھگ نے دودھ میں انگلی ڈال کر نکالتے ہوئے کہا کہ مجھے تم سے یہ امید نہ تھی کہ تم مجھے اس قدر پتلا دودھ دو گے۔ دکاندار کو دودھ پر اعتماد تھا اس نے کہا کہ اگر تمہیں دودھ پسند نہیں ہے تو تم اس کو دوبارہ اس کے دودھ کے ڈرم میں ڈال دو میری دکانداری خراب نہیں کرو۔

AreeBTLM


 ٹھگ نے مصنوعی غصے سے بڑبڑاتے ہوئے دودھ ملے پانی کا مٹکا اس کے ڈرم میں انڈیل دیا اور دونوں مٹکوں کو اٹھا کر اپنے دوستوں کے پاس پہنچ گیا دونوں دوستوں نے دودھ سے بھرا مٹکا دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا۔ کہ چلو اب کافی دنوں تک چائے کی پریشانی ختم ہوئی کچھ دودھ کی انہوں نے کھیر تیار کی اور باقی سنبھال کر رکھ لیا۔

اب دوسرے ٹھگ نے خوشی سے بتلایا کہ اس کے ذہن میں ایک موٹے تازے مرغ کو حاصل کرنے کا شاندار منصوبہ آیا ہے۔" میں دو عدد موٹے موٹے مرغے کھانے کے لئے لے کر آؤں گا۔ تم لوگ بے فکر رہو بس اب تماشا دیکھو۔"

 پیارے بچو! دوسرا ٹھگ اب مارکیٹ میں پہنچا اور سیدھا مرغیوں کی دکان پر جا کر کھڑا ہو گیا۔ اس دکان سے اس نے دو موٹے موٹے مرغ پسند کئے۔ "میرے دوست! یہ دونوں مرغے نکال دو۔ جج صاحب نے منگوائے ہیں۔ تم کچھ دیر کے بعد آنا اور جج صاحب سے ان کی قیمت لے آنا۔ دوسرے ٹھگ نےاس دکاندار سے کہا۔

مگر! وہ دکاندار بھی بڑا سمجھدار تھا اس کو بے وقوف بنانا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اس نے دونوں مرغ ٹھگ سے چھین لئے اور اس سے کہا کہ میں جج صاحب کو نہیں جانتا۔ تم پیسے لے کر آؤ اور یہ مرغ لے جاؤ۔ میں یہاں مرغ فروخت کرتا ہوں مفت نہیں بانٹتا۔ جج صاحب کو ان مرغوں کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ ان کے مہمان بڑی دور سے آئے ہیں۔" ٹھگ نے غصے سے کہا " تم انہیں غصہ دلا رہے ہو۔ ان کو بہت غصہ آئے گا جب ان کو معلوم ہوگا کہ تم نے ان کو مرغے نہیں دیئے۔ اچھا تم ایسا کرو کہ میرے ساتھ ہی چلو اور جج صاحب سے پیسے لے آؤ۔"

بھلا دکاندار کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا اس نے اپنے لڑکے سے دکان کا دھیان رکھنے کو کہا اور خود اس ٹھگ کے ساتھ چل پڑا۔ جب دونوں جج کے گھر پہنچے تو جج صاحب اپنے ملاقاتیوں میں گھرے بیٹھے تھے۔ ٹھگ نے دروازے سے باہر اس دکاندار کو کھڑا کیا اور خود لوگوں کو پھلانگتا ہوا جج صاحب کے پاس چلا گیا اس نے جج صاحب سے جا کر کہا،  حج صاحب! یہ جو آدمی باہر کھڑا ہے یہ اپنے کاروبار کے سلسلے میں بے حد پریشان ہے آپ اس کو آواز دے کر کہیں کہ ابھی تھوڑی دیر بعد تمہارا مسئلہ آسان کردوں گا۔ جج صاحب نے مسکراتے ہوئے اس دکاندار سے کہا کہ، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ تم تھوڑی دیر ٹھہرو میں ابھی تمہارا مسئلہ حل کئے دیتا ہوں ۔ دکاندار نے جب یہ سنا تو اس نے اطمینان کا سانس لیا۔ اب ٹھگ کمرے سے باہر آیا اور اس سے دونوں مرغے پکڑ لئے اور یہ کہتے ہوئے چلا گیا کہ میں ان کو جج صاحب کے حکم سے پکانے کے لئے لے جارہا ہوں۔ دکاندار کمرے کے باہر مرغوں کی قیمت لینے بیٹھ گیا جو کہ اس کو نہ ملنا تھی اور نہ ہی ملی۔

 اب دوسرا ٹھگ مرغوں کو لے کر اپنے باقی دوستوں کے پاس پہنچا۔ دونوں نے خوشی خوشی مرغوں کو پکڑا۔ مرغوں کو ذبح کرنے کے بعد انہوں کچھ گوشت پکا لیا اور کچھ گوشت محفوظ کر لیا اس کے بعد ان تینوں نے خوب پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور پھر کھیر اُڑائی۔

 مگرا تیسرا ٹھگ تو کچھ بھی کارنامہ نہیں دکھا سکا تھا۔ دونوں ٹھگ نے تیسرے ٹھگ سے کہا کہ "تم نے کل کھانے پینے میں ہماری کوئی مدد نہیں کی تھی۔ تمہیں چاہئے کہ آج کی خوراک کا بندوبست تم کرو۔

وہ ان دونوں کو لے کر ایک سرائے میں داخل ہوا۔ ان دنوں سرائے کا مالک کہیں گیا ہوا تھا اور اس کی بیوی سرائے کا انتظام سنبھالے ہوئے تھی۔ بڑی تمکنت کے ساتھ تیسرے ٹھگ نے اپنے دونوں ساتھیوں کے لئے کھانے کا آرڈر دیا۔ تینوں نے خوب سیر ہو کر کھانا کھایا مگر جب بل کی رقم دینے کا وقت آیا تو تیرے ٹھگ نے ایک کاکروچ شوربے میں ڈال دیا اس کے بعد اس نے بڑی زور دار آواز میں سرائے کی مالکن کو آواز دے کر بلوایا ۔

"ہم نے تمہیں عمدہ سالن بھیجنے کو کہا تھا مگرتم نے اس قدر گندہ سالن ہمیں کھانے کو دیا۔ اُف توبہ ۔ میرا تو برا حال ہو گیا ہے ارے دیکھو تو سہی اس شور بے میں کاکروچ پڑے ہیں ۔ تم نے ہمیں اس قدر خراب سالن کھلا دیا ہے۔ تیسرے ٹھگ نے چنگھاڑتے ہوئے کہا۔ مالکن نے جب پیالے کی طرف دیکھا تو واقع اس میں کاکروچ پڑا ہوا تھا۔ اس بے چاری نے ان تینوں کی منت سماجت کی اور ان کو تھوڑے بہت پیسے دے کر رخصت کیا۔ کچھ عرصہ ان تینوں نے اپنی سرگرمیاں اس چھوٹے سے قصبے میں جاری رکھیں مگر جب انہوں نے اس قصبے سے چلے جانے کا سوچا تو ان کو کافی دیر ہو چکی تھی۔ قصبے کے لوگ ان کی ٹھگی سے آگاہ ہوچکے تھے۔ چنانچہ انہوں نے ان کو پکڑ کر کوتوال کے حوالے کر دیا اور کوتوال نے ان تینوں کو تفتیش کے بعد قید خانے میں ڈال دیا۔ کچھ عرصہ انہوں نے جیل میں گزارا۔ جیل میں ان تینوں نے بہت ہی برا وقت گزارا پھر جب ان کو آزادی نصیب ہوئی تو انہوں نے مستقل مزاجی سے کوئی کام دھندہ کرنے کا پکا ارادہ کر لیا اور پھر کچھ عرصہ کے بعد یہ لوگ محنت کرنے کےعادی ہو گئے۔

پیارے بچو! آپ نے دیکھا کہ جھوٹ اور دوسروں کو دھوکہ دینے والوں کو ہمیشہ کامیابی نہیں ملتی مگرپکڑے جانے سے ہمیشہ ذلت ضرور مل جاتی ہے۔

#areebtlm #naushadali19881 #urdukahani #teen Shararti Thag

****ختم شد****


Shahzadi aur Dragon

 شہزادی اور ڈریگون

 Shahzadi aur Dragon

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سٹون والز کے قریب ہی ایک شہزادی ایک بہت خوبصورت مگر چھوٹے سے قلعے میں رہتی تھی۔ شہزادی کا نام مارتھا تھا۔ شہزادی کے والدین وفات پا چکے تھے۔ اس کا ایک ہی بھائی تھا جو اس چھوٹی سی ریاست کا حکمران تھا۔ ایک عرصہ سے اس کا بھائی مذہبی جنگوں میں شرکت کرنے کے لئے محاذ پر گیا ہوا تھا۔ مگر شہزادی کے آرام و سکون کا مکمل انتظام کر کے گیا تھا۔ جب اس کا بھائی جنگوں میں شرکت کے لئے گیا تو اس وقت شہزادی بہت کم عمر تھی۔ قلعہ کا انتظام ایک بہت ہی جہاندیدہ کے ذمے تھا یہ شخص شہزادی کا ہر طرح سے خیال رکھتا تھا۔ جبکہ قلعہ میں دیگر ملازمین بھی بہت چاق و چوبند تھے۔ اور قلعہ کا پورا انتظام ہی بہت منظم طریقہ سے چلا رہے تھے۔ جبکہ غذائی اجناس کی پیداوار بھی بڑی اچھی ہورہی تھی۔ غرضیکہ شہزادی اور تمام رعایا اپنے شب و روز شخص بڑے آرام و سکون سے گزار رہے تھے۔ انہی دنوں ایک رات یوں ہوا کہ شہزادی نے کچھ شور کی آواز سنی اور اس کوایسے محسوس ہوا کہ کوئی بہت بڑا پرندہ باغ میں  ُاترا ہے۔ کیونکہ شہزادی کو اس پرندے کے پروں کی آواز بہت تیز سنائی دے رہی تھی۔ اس نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا مگر اسے اندھیرے میں کچھ بھی دکھائی نہیں دیا۔ مگر! اگلی صبح اس نے دیکھا کہ ایک غیر معمولی حجم کا انڈہ باغ میں پڑا ہوا ہے۔ یہ انڈہ صاف ظاہر کر رہا تھا کہ یہ کسی عام پرندے کا نہیں ہے۔ میں اس انڈے کو یہاں بالکل نہیں چھوڑوں گی شہزادی نے دل ہی دل میں ہے سوچا۔"  کوئی نہ کوئی جانور اس کو ضرور توڑ ڈالے گا مجھے اس کی حفاظت کرنی چاہئے۔"

چنانچہ شہزادی مارتھا نے انڈے کو بڑی احتیاط سے اٹھایا اور اس کو کمرے کے اندر لے گئی۔ شہزادی نے اس انڈے کو ایک بہت ہی گرم جگہ پر رکھ دیا۔ چند ہفتوں کے اندر انڈا خود بخود پھوٹ گیا اور اس میں سے ایک ننھا منا سا ڈریگون برآمد ہوا ۔ نوجوان شہزادی نے اس عجیب الخلقت مخلوق کو پالتو جانور کی طرح پالنے کا ارادہ کرلیا۔ چند دنوں میں ہی یہ ڈریگون کافی بڑا مضبوط اور کار آمد دکھائی دینے لگا۔ صرف چند ہفتوں کی پرورش کے بعد اس ننھے ڈریگون نے شہزادی سے کہا،  پیاری شہزادی میرے لئے اب آپ کو میری خوراک کے لئے روٹی اور دودھ یا کسی بھی اور چیز کا انتظام کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں اب اپنے لئے خود ہی خوراک کا بندوبست کر لیا کروں گا ۔ آپ براہ مہربانی میری خوراک کے لئےفکرمند نہ ہوا کریں ۔" چنانچہ اب قلعہ سے ملحقہ کھیتوں اور باغ میں ڈریگون نے جانا شروع کر دیا۔ اپنی پہلی صبح جو ڈریگون نے خوراک کی تلاش میں قلعہ سے باہر گزاری اس میں ڈریگون نے وہاں پر موجود تمام چوہوں چوہیوں اور سنڈیوں کا صفایا کر کے اپنے ناشتے کا اہتمام کیا۔ اسی طرح اپنے دو پہر اور پھر رات کے کھانے کا بھی اہتمام کرلیا۔

AreeB Kahani


قلعہ کا بڑا محافظ اور تمام مالی ڈریگون کی اس کارروائی سے بے حد خوش تھے کیونکہ خاص طور پر مالی حضرات اور کاشتکار تو چوہوں اور سنڈیوں سے بہت زیادہ عاجز آچکے تھے۔ مگر اب کوئی بھی اس قسم کی آفت موجود نہیں رہی تھی جو ان کے کھیتوں یا خوراک کے گوداموں میں تباہی لاسکتی اور یہ صرف اور صرف ڈریگون ہی کی وجہ سے ممکن ہوا تھا۔

پیارے بچو! اس کے بعد کئی سال بڑے سکون سے گزر گئے ۔ ڈریگون کی وجہ سے باغات اور کھیتوں سے ان جانوروں کا خاتمہ ہو گیا مگر اسی دوران ڈریگون بہت ہی بڑا ہو گیا۔ شہزادی نے اس کے ساتھ باتیں کرنے کے لئے خاص طور پر ایک چبوترا بنوایا تھا۔جہاں پر کھڑی ہوکرڈریگون باتیں کیا کرتی تھی۔ وہ ڈریگون کا یہ رویہ سب  کے ساتھ بہت ہی دوستانہ تھا۔ اس کے رویے کے متعلق یہ بات صرف قلعے میں رہنے والے ہی جانتے ہیں۔ ارد گرد کے دیہات کے رہنے ولے اس سے ابھی تک بہت خوفزدہ رہتے اور اس کے قریب جانے سے گھبراتے بلکہ اس کو دیکھتے ہی سرپٹ دوڑنا شروع کر دیتے۔

اس صورتحال کے پیش نظر لوگوں نے قلعے میں آنا جانا کم کر دیا کسی کو بہت ہی ضروری کام ہوتا تو وہ قلعہ کا رخ کرتا وگرنہ کوئی بھی ادھر آنا پسند نہیں کرتا تھا۔ شہزادی نے سوچا اب یہ تو ممکن نہیں کہ ہم سب لوگوں سے کنارہ کش ہو کر رہ جائیں ہمیں چاہئے کہ کسی اور جگہ ڈریگون کو رکھیں تا کہ ہمارے پاس لوگ آنے سے کترا ئیں نہیں۔"

تب اچانک ایک روز نواب قلعہ میں داخل ہوا کسی کو بھی معلوم نہ تھا کہ یہی نواب اصل میں قلعہ اور علاقے کا مالک ہے۔ اس کا حلیہ جنگوں میں شرکت کی وجہ سے کافی بدل چکا تھا۔ قلعہ کا محافظ بھی موجود نہ تھا۔ چنانچہ اس نے مطالبہ کیا کہ اس کی ملاقات شہزادی مارتھا سے کروائی جائے ۔ شہزادی مارتھا اب بچی نہ تھی بلکہ بھر پور جوان ہو چکی تھی۔ جب شہزادی آئی تو نواب نے اٹھتے ہوئے اس سے کہا کہ میں تمہارا بھائی ہوں اور مذہبی جنگوں سے واپس آیا ہوں ارے واہ تم تو کس قدر بدل چکی ہو میں جب یہاں سے گیا تھا تو تم اتنی سی گڑیا کی طرح تھیں۔" دونوں بہن بھائی کئی برسوں کے بعد ملے تھے۔ دونوں نے ایک دوسرے کو گلے لگایا۔ اور دیر تک باتیں کرتے رہے۔ نواب نے کچھ دیر کے بعد شہزادی سے کہا۔ میں تمہارے ڈریگون کو ہلاک کرنا چاہتا ہوں۔ جس نے تمہارا اور تمام لوگوں کا حقیقت میں جینا حرام کر رکھا ہے۔ مجھے قلعہ سے باہر لوگوں نے بتایا ہے وہ بہت ہی ہے کہ آپ صحیح خوفناک اور خطرناک جانور ہے میں اس سے تم لوگوں کی جان چھڑاؤں گا۔ تم بالکل فکر نہیں کرتا۔ میں اب آ گیا ہوں۔ پھر بھلا تمہیں فکر مند ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ "میرے پیارے بھائی! میں آپ کو دیکھ کر کس قدر خوش ہوں۔ خدا کا شکر سلامت واپس ہمارے درمیان آئے ہیں۔  شہزادی نے مسکراتے ہوئے نواب سے کہا۔"

تھوڑی دیر کے بعد شہزادی نے نواب سے کہا "مگر یقینا آپ کو پالتو جانور کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہے۔ وگرنہ آپ ایسی باتیں نہ کرتے۔ وہ تو ایک چھوٹا سا ڈریگون ہے۔ جس کو میں نے اپنے ہاتھوں سے دودھ پلا کر بڑا کیا ہے مگر ابھی تو وہ ایک چھوٹا سا جانور ہے اس کا قد ہی بڑا ہے وگرنہ آپ کو اس کے سر پر کوئی ایک بال بھی تو نظر نہیں آئے گا۔ اس طرح شہزادی نے نواب کے دل سے تمام شکوک و شبہات دور کر دئیے جو لوگوں نے ڈریگون کے بارے میں نواب کو بتلائے تھے۔ جب نواب کو یقین ہو گیا کہ ڈریگون کس قدر کارآمد اور اچھا جانور ہے تو شہزادی اور نواب دونوں نے ڈریگون کو اپنے ساتھ لیا اور آبادی میں چلے گئے۔ انہوں نے لوگوں کو بتایا کہ ڈریگون کس قدر معصوم اور بے ضرر جانور ہے لوگ یونہی اس سے خوفزدہ رہتے ہیں۔

اس کے بعد آبادی کے لوگوں کا ڈر خوف اس ڈریگون سے دور ہو گیا اوروہ ڈریگون سے پیار کرنے لگے۔  ڈریگون بڑی آسانی سے جہاں چاہتا چلا جاتا اب ڈریگون کسی کو بھی تنگ نہیں کرتا تھا لوگ اس سے مذاق کرتے اور وہ بڑا خوش ہوتا۔ پیارے بچو! اس طرح مزید کئی برس گئے اس عرصہ میں ڈریگون پوری طرح جوان ہو گیا۔ اس کے مکمل طور پر دونوں پر نکل آئے۔ اب اس نے اڑنا بھی شروع کر دیا تھا۔ پھر ایک روز شہزادی نے دیکھا کہ ڈریگون ہوا میں بڑی بلند پرواز کرتا ہوا اپنے ماں باپ کے پاس جارہا تھا۔ قلعے کے لوگ اور آبادی کے لوگ بھی دیکھ رہے تھے مگر اب تو ڈریگون ان کی پہنچ سے بہت دور ہو چکا تھا۔ اس کے بعد ڈریگون کبھی وہاں دکھائی نہ دیا۔ لوگ اس کو کچھ عرصہ کے بعد فراموش کر گئے مگر شہزادی اس کو یاد کو کو کرتی رہی۔

۔۔۔۔۔ختم شُد۔۔۔۔

#naushadali19881 #AreeBTLM #areebstory

Bhoton Ki Shahezadi

انتخاب : انصاری اریب نوشاد علی۔ بھوتوں کی شہزادی پچھلے زمانے میں ملک شام پر ایک بادشاہ پرویز حکومت کرتا تھا۔ اس بادشاہ کا ایک ہی بیٹا تھا ش...