=" Urdu Kahaniyan (AreeB): Teen Shararti Thag

Teen Shararti Thag

 تین شرارتی ٹھگ

Teen Shararti Thag

تین شرارتی ٹھگ

 

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ تین ٹھگ تھے ٹھگ پورے ملک میں گھومتے پھرتے اور لوگوں سے پیسے بٹورتے رہے۔ یہ ٹھگ کبھی بھی کوئی کام دھندہ نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی خواہش ہوتی کہ یہ لوگوں کو بے وقوف بنا کر دولت کمائیں۔ تینوں ٹھگ لطیفے سنانے میں بھی بڑے ماہر تھے اور کمال کے منصوبہ ساز بھی۔ بعض اوقات تو ان کے حالات بڑے اچھے ہوتے اور بعض اوقات یہ لوگ فاقہ کشی کا شکار ہوتے وجہ یہ تھی کہ مستقل ذریعہ روزگار کوئی نہ تھا۔

 ایک دن تینوں ٹھگ ایک چھوٹے سے قصبے کے باہر جمع تھے اور یقیناً خود سے شرمندہ تھے۔ کیونکہ کئی ہفتوں سے انہوں نے اپنے کرتبوں سے کسی کو بے وقوف بنا کر کچھ بھی حاصل نہیں کیا تھا یا یوں کہہ لیں کہ ان کو موقع ہی نہیں ملا تھا۔ کسی نے بھی ان کے لطیفوں سے خوش ہوکر یا ان کی جگتوں سے خوش ہو کر ان کو کچھ بھی نہیں دیا تھا۔ بلکہ اس دوران تو یہ بھی کمال ہو گیا کہ ان کی جگتوں یا لطیفوں کو سن کر کسی نے بھی ہنستا گوارا نہ کیا۔ چنانچہ یہ لوگ مایوس ہو کر اس چھوٹے سے قصبے کی طرف آنکلے ۔ اب انہوں نے کسی بھی کام کو سنجیدگی سے کرنے کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ مگر ان کے پاس تو کوئی بھی ہنر نہیں تھا۔

 تینوں کافی دنوں تک سوچ بچار کرتے رہے کہ کیا کیا جائے کہ یکا یک ایک ٹھگ اچھل پڑا۔ اس کے دونوں ساتھیوں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ کیا ہوا ہے کیا تمہیں کوئی ترکیب سوجھی ہے؟ "دوستو میں کافی مقدار میں دودھ لاسکتا ہوں دودھ لانے کی ترکیب مجھے ابھی ابھی سوجھی ہے۔" اس نے چہکتے ہوئے پر جوش لہجے میں کہا۔

کچھ دیر کے بعد اس نے دو مٹکے اپنے گھر کے باہر لاکر رکھ دیئے اس نے ان میں سے ایک میں پانی بھرا اور اس میں  تھوڑا سا دودھ بھی ملا دیا۔ مگر دوسرا مٹکاخالی رہنے دیا۔اس کے بعد اس نے  دونوں مٹکوں کو اٹھایااور دودھ  والے کی دکان پر نے دکاندارپر چلا گیا۔وہاں سے اس نے دکان دار سے کہا کہ ان مٹکوں میں دودھ بھر دو۔مجھے بڑی ضرورت ہے۔ دکاندار خوش ہو گیا کہ پہلو ڈھیر سارا دودھ فروخت ہو گیا ۔ دکاندارنے خالی مٹکے میں جلدی جلدی دودھ بھر دیا۔

"تم مجھے اس دودھ کےبیس ریال دے دو تمہاری بڑی مہربانی۔" دکاندار نےبڑے پیار سے کہا۔ "مگر تم نے تو میرے ساتھ دھو کہ کیا ہےٹھگ نے دکاندار سے کہا۔ دکاندار نے حیران ہو کر اس کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ کیا بات ہوگئی۔ ٹھگ نے دودھ میں انگلی ڈال کر نکالتے ہوئے کہا کہ مجھے تم سے یہ امید نہ تھی کہ تم مجھے اس قدر پتلا دودھ دو گے۔ دکاندار کو دودھ پر اعتماد تھا اس نے کہا کہ اگر تمہیں دودھ پسند نہیں ہے تو تم اس کو دوبارہ اس کے دودھ کے ڈرم میں ڈال دو میری دکانداری خراب نہیں کرو۔

AreeBTLM


 ٹھگ نے مصنوعی غصے سے بڑبڑاتے ہوئے دودھ ملے پانی کا مٹکا اس کے ڈرم میں انڈیل دیا اور دونوں مٹکوں کو اٹھا کر اپنے دوستوں کے پاس پہنچ گیا دونوں دوستوں نے دودھ سے بھرا مٹکا دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا۔ کہ چلو اب کافی دنوں تک چائے کی پریشانی ختم ہوئی کچھ دودھ کی انہوں نے کھیر تیار کی اور باقی سنبھال کر رکھ لیا۔

اب دوسرے ٹھگ نے خوشی سے بتلایا کہ اس کے ذہن میں ایک موٹے تازے مرغ کو حاصل کرنے کا شاندار منصوبہ آیا ہے۔" میں دو عدد موٹے موٹے مرغے کھانے کے لئے لے کر آؤں گا۔ تم لوگ بے فکر رہو بس اب تماشا دیکھو۔"

 پیارے بچو! دوسرا ٹھگ اب مارکیٹ میں پہنچا اور سیدھا مرغیوں کی دکان پر جا کر کھڑا ہو گیا۔ اس دکان سے اس نے دو موٹے موٹے مرغ پسند کئے۔ "میرے دوست! یہ دونوں مرغے نکال دو۔ جج صاحب نے منگوائے ہیں۔ تم کچھ دیر کے بعد آنا اور جج صاحب سے ان کی قیمت لے آنا۔ دوسرے ٹھگ نےاس دکاندار سے کہا۔

مگر! وہ دکاندار بھی بڑا سمجھدار تھا اس کو بے وقوف بنانا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اس نے دونوں مرغ ٹھگ سے چھین لئے اور اس سے کہا کہ میں جج صاحب کو نہیں جانتا۔ تم پیسے لے کر آؤ اور یہ مرغ لے جاؤ۔ میں یہاں مرغ فروخت کرتا ہوں مفت نہیں بانٹتا۔ جج صاحب کو ان مرغوں کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ ان کے مہمان بڑی دور سے آئے ہیں۔" ٹھگ نے غصے سے کہا " تم انہیں غصہ دلا رہے ہو۔ ان کو بہت غصہ آئے گا جب ان کو معلوم ہوگا کہ تم نے ان کو مرغے نہیں دیئے۔ اچھا تم ایسا کرو کہ میرے ساتھ ہی چلو اور جج صاحب سے پیسے لے آؤ۔"

بھلا دکاندار کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا اس نے اپنے لڑکے سے دکان کا دھیان رکھنے کو کہا اور خود اس ٹھگ کے ساتھ چل پڑا۔ جب دونوں جج کے گھر پہنچے تو جج صاحب اپنے ملاقاتیوں میں گھرے بیٹھے تھے۔ ٹھگ نے دروازے سے باہر اس دکاندار کو کھڑا کیا اور خود لوگوں کو پھلانگتا ہوا جج صاحب کے پاس چلا گیا اس نے جج صاحب سے جا کر کہا،  حج صاحب! یہ جو آدمی باہر کھڑا ہے یہ اپنے کاروبار کے سلسلے میں بے حد پریشان ہے آپ اس کو آواز دے کر کہیں کہ ابھی تھوڑی دیر بعد تمہارا مسئلہ آسان کردوں گا۔ جج صاحب نے مسکراتے ہوئے اس دکاندار سے کہا کہ، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ تم تھوڑی دیر ٹھہرو میں ابھی تمہارا مسئلہ حل کئے دیتا ہوں ۔ دکاندار نے جب یہ سنا تو اس نے اطمینان کا سانس لیا۔ اب ٹھگ کمرے سے باہر آیا اور اس سے دونوں مرغے پکڑ لئے اور یہ کہتے ہوئے چلا گیا کہ میں ان کو جج صاحب کے حکم سے پکانے کے لئے لے جارہا ہوں۔ دکاندار کمرے کے باہر مرغوں کی قیمت لینے بیٹھ گیا جو کہ اس کو نہ ملنا تھی اور نہ ہی ملی۔

 اب دوسرا ٹھگ مرغوں کو لے کر اپنے باقی دوستوں کے پاس پہنچا۔ دونوں نے خوشی خوشی مرغوں کو پکڑا۔ مرغوں کو ذبح کرنے کے بعد انہوں کچھ گوشت پکا لیا اور کچھ گوشت محفوظ کر لیا اس کے بعد ان تینوں نے خوب پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور پھر کھیر اُڑائی۔

 مگرا تیسرا ٹھگ تو کچھ بھی کارنامہ نہیں دکھا سکا تھا۔ دونوں ٹھگ نے تیسرے ٹھگ سے کہا کہ "تم نے کل کھانے پینے میں ہماری کوئی مدد نہیں کی تھی۔ تمہیں چاہئے کہ آج کی خوراک کا بندوبست تم کرو۔

وہ ان دونوں کو لے کر ایک سرائے میں داخل ہوا۔ ان دنوں سرائے کا مالک کہیں گیا ہوا تھا اور اس کی بیوی سرائے کا انتظام سنبھالے ہوئے تھی۔ بڑی تمکنت کے ساتھ تیسرے ٹھگ نے اپنے دونوں ساتھیوں کے لئے کھانے کا آرڈر دیا۔ تینوں نے خوب سیر ہو کر کھانا کھایا مگر جب بل کی رقم دینے کا وقت آیا تو تیرے ٹھگ نے ایک کاکروچ شوربے میں ڈال دیا اس کے بعد اس نے بڑی زور دار آواز میں سرائے کی مالکن کو آواز دے کر بلوایا ۔

"ہم نے تمہیں عمدہ سالن بھیجنے کو کہا تھا مگرتم نے اس قدر گندہ سالن ہمیں کھانے کو دیا۔ اُف توبہ ۔ میرا تو برا حال ہو گیا ہے ارے دیکھو تو سہی اس شور بے میں کاکروچ پڑے ہیں ۔ تم نے ہمیں اس قدر خراب سالن کھلا دیا ہے۔ تیسرے ٹھگ نے چنگھاڑتے ہوئے کہا۔ مالکن نے جب پیالے کی طرف دیکھا تو واقع اس میں کاکروچ پڑا ہوا تھا۔ اس بے چاری نے ان تینوں کی منت سماجت کی اور ان کو تھوڑے بہت پیسے دے کر رخصت کیا۔ کچھ عرصہ ان تینوں نے اپنی سرگرمیاں اس چھوٹے سے قصبے میں جاری رکھیں مگر جب انہوں نے اس قصبے سے چلے جانے کا سوچا تو ان کو کافی دیر ہو چکی تھی۔ قصبے کے لوگ ان کی ٹھگی سے آگاہ ہوچکے تھے۔ چنانچہ انہوں نے ان کو پکڑ کر کوتوال کے حوالے کر دیا اور کوتوال نے ان تینوں کو تفتیش کے بعد قید خانے میں ڈال دیا۔ کچھ عرصہ انہوں نے جیل میں گزارا۔ جیل میں ان تینوں نے بہت ہی برا وقت گزارا پھر جب ان کو آزادی نصیب ہوئی تو انہوں نے مستقل مزاجی سے کوئی کام دھندہ کرنے کا پکا ارادہ کر لیا اور پھر کچھ عرصہ کے بعد یہ لوگ محنت کرنے کےعادی ہو گئے۔

پیارے بچو! آپ نے دیکھا کہ جھوٹ اور دوسروں کو دھوکہ دینے والوں کو ہمیشہ کامیابی نہیں ملتی مگرپکڑے جانے سے ہمیشہ ذلت ضرور مل جاتی ہے۔

#areebtlm #naushadali19881 #urdukahani #teen Shararti Thag

****ختم شد****


7 comments:

Bhoton Ki Shahezadi

انتخاب : انصاری اریب نوشاد علی۔ بھوتوں کی شہزادی پچھلے زمانے میں ملک شام پر ایک بادشاہ پرویز حکومت کرتا تھا۔ اس بادشاہ کا ایک ہی بیٹا تھا ش...