=" Urdu Kahaniyan (AreeB): April 2023

Goounga Qatil

انتخاب:۔ نوشاد علی ریاض احمد۔

گونگا قاتل      

شام کا وقت تھا ۔ چودھری نذیر علی اپنے کھیتوں میں کام ختم کر کے گاؤں کی طرف آرہا تھا ۔ وہ جب قبرستان کے قریب پہنچا تو دس بارہ آدمی اچانک قبرستان سے نکلے اور سے دھڑا دھڑ مارنے لگے ۔ چودھری نذیر کو چونکہ پہلے سے پتہ نہیں تھا کہ راستے میں مار پڑے گی اس لیے اس کے پاس کوئی ہتھیار نہ تھا۔ جس کی مدد سے وہ اپنی جان بچاتا بس بے چارہ نیچے گر کر مار کھانے لگا۔ مارنے والوں نے اپنے چہرے کالے رنگ کےکپڑوں میں چھپا رکھے تھے جس کی وجہ سے وہ انہیں پہچان نہ سکا۔ بدمعاشوں نے لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے اُسے خوب مارا ۔ مار کھا کھا کر وہ بے ہوش ہو گیا تو بہت تیز استرے سے انہوں نے اس کی ز بان کاٹ دی اور پھر وہاں سے بھاگ گئے۔

اتنی دیر میں شورسُن کر گاؤں کے بے شمار لوگ اس جگہ آگئے۔ جنھوں نے آتے ہی نذیر کو اٹھا لیا اور جلدی جلدی اسے تانگے میں ڈال کر بڑے ہسپتال میں لے گئے۔ ہسپتال میں جلدی پہنچے جانے کے سبب چو دھری نذیر کی جان تو بچ گئی مگر زبان کٹ جانے کے باعث وہ ہمیشہ کے لیے گونگا ہو گیا ۔ وہ ۴۰ سال کا جوان تھا۔ اس کے دو پیارے پیارے بچے تھے ۔ لیکن گو نگا ہو جانے کی وجہ سے وہ کسی سے بات نہیں کر سکتا تھا ۔ ظالموں نے اُس کی زندگی تباہ کر دی تھی ۔ تندرست ہو کر وہ اُداس رہنے لگا۔ نہ کہیں آتا جاتا نہ کسی سے اشارے میں بھی بات ہی کرتا ۔ وہ بس یہ سوچتا رہتا کہ اسے کن لوگوں نے مارا ہے ۔ کیونکہ پورے گاؤں میں اُس کا کوئی دشمن نہ تھا۔ لوگ اس کی عزت کرتے تھے اور اُسے دیکھ کر خوش ہوتے تھے ۔ وہ بھی ہر بڑے چھوٹے سے پیار کرتا تھا اور ہنس کر ملتا تھا۔ پھر پتہ نہیں اسے کس جرم کی سزا ملی تھی ۔ وہ سوچ سوچ کر تھک جاتا تو اپنے بچوں کو گود میں بٹھا کر ان سے پیار کرنے لگتا۔ بچے اپنے باپ کو آؤں آؤں آؤں واؤں واؤں کرتے دیکھتے تو بڑے حیران ہوتے کہ ہمارے ابا کو کیا ہو گیا ہے ۔ اب یہ ہمارے ساتھ پہلے جیسی باتیں کیوں نہیں کرتا۔

چودھری نذیر علی اپنے بچوں کی پریشانی دیکھ کر اور زیادہ غمگین ہو جاتا۔ ایک رات وہ اپنے مکان کی چھت پرلیٹا ہوا تھا کہ اس کی بیوی گھر کا کام ختم کر کے اس کی چار پائی کے پاس آئی اوربیٹھ کر اس سے باتیں کرنے لگی ۔ کیا سوچ رہے ہیں قدیر کےابّا۔  اس نے چودھری نذیر علی سے پوچھا۔ کچھ نہیں ۔ بس آسمان پرستارے گن رہا تھا ۔ چودھری نذیر علی نےاشاروں میں جواب دیا۔

جھوٹ نہ بولیں قدیر کے ابّا۔ سچ سچ بتائیں کہ اس وقت آپ کیا سوچ رہے ہیں ۔ اس کی بیوی نے ضد کر کے اس سے پوچھا ۔ سچ تو یہ ہے کہ میں یہ سوچ رہا تھا کہ میری نہ بان کس نے کاٹی ہے اور کیوں کاٹی ہے ۔ ان لوگوں کا مجھے پتہ کیوں نہیں چل رہا ،چودھری نذیر نے ہاتھ ہلا ہلا کر اپنی بیوی کو بتایا۔

اب جو ہونا تھا وہ تو ہوگیا ہے ۔ آپ اپنے لیے نہیں تو ننھے منے بچوں کے لیے ہنسا مسکرایا کریں ۔ بے چارے بیمار رہنے لگے ہیں ۔ پہلے آپ انہیں سیر کرانے باہر لے جاتے تھے اب وہ بھی بند کر دیا ہے ۔ وہ نا سمجھ ہیں ۔ انہیں کیا پتہ کہ ہمارے ابو کے ساتھ کیا ظلم ہوا ہے کسی نے ان کی زبان کاٹ کر انہیں بولنے کے قابل ہی نہیں چھوڑا ۔ میری مانیں تو ان پرانی باتوں کو بھول جائیں ۔ چودھری نذیر کی بیوی اسے سمجھانے لگی ۔

جنھوں نے میرے ساتھ زیادتی کی ہے جب تک ان سے بدلہ نہیں لے لوں گا مجھے چین نہیں آئے گا ۔ اور نہ ہی میں ہنس سکوں گا ۔ تم ضد نہ کرو: چودھری نذیر نے غصے والا چہرہ بنا کر ہا تھوں کے اشارے سے بیوی کو ٹوکا۔

میرا خیال ہے یہ ظلم ساتھ والے گاؤں کے بڑے زمیندار ملک حسن محمد نے کیا ہے کیونکہ وہ آپ سے زمین خریدنا چاہتا تھا لیکن آپ بیچتے نہیں تھے ۔ ضرور اسی نے یہ حرکت کی ہے تاکہ آپ ناکارہ ہو جائیں اور وہ آپ کی زمین تھوڑے سے پیسے دے کر خرید لے، میں نے آگے بھی کئی بار آپ کو اس کے متعلق بتایا ہے مگر آپ مانتے ہی نہیں ۔"

چودھری  نذیر نے بیوی کے جواب میں کوئی بات نہ کی ۔ وہ خاموش رہ کر سوچتے لگا کہ ہو سکتا ہے میری بیوی سچ  کہہ رہی ہو۔ ملک حسن محمد نے ہی اپنے نوکروں کو بھیج کر میری زبان کٹوائی ہو ۔ اِس شک کو دور کرنے میں کیا حرج ہے۔ میں صبح سویرے ہی ملک حسن کی حویلی میں جا کے پتہ کرتا ہوں ۔ یہ ارادہ کر کے وہ سو گیا۔



اگلے روزہ وہ سویرے سویرے ملک حسن سے ملنے کے لیے گھر سے چل دیا۔ ملک حسن جس گاؤں میں رہتا تھاوہ نزدیک ہی تھا اس لیے چودھری نذیر پیدل ہی سفر کر نےلگا ۔ تھوڑی دیر کے بعد ملک حسن کے گاؤں کی حد شروع ہو گئی ۔ چودھری نذیر نے قدم تیز کر دیے تاکہ دھوپ نکلنے سے پہلے پہلے ملک حسن کے پاس پہنچ جائے۔ ابھی وہ اس گاؤں سے ذرا پیچھے ہی تھا کہ اس نے ملک حسن کو اپنے منشی کے ساتھ اپنی طرف آتا دیکھا۔ وہ دونوں شاید ٹیوب ویل کی طرف جا رہے تھے ۔ کیونکہ ملک حسن کا ٹیوب ویل بھی اسی طرف تھا۔

چودھری نذیراُ نہیں آتا دیکھ کر کمار کے کھیت میں چھپ گیا تا کہ وہ ٹیوب ویل پر پہنچ جائیں تو پھر وہاں جا کے ملک حسن سے ملے ۔ راستے میں وہ ملک حسن سے اس لیے نہیں ملنا چاہتا تھا کیونکہ ایک تو اس کے ساتھ منشی محمد دین تھا جس کے سامنے بات نہیں کی جا سکتی تھی ۔ دوسرے ملک حسن جلدی میں نظر آرہا تھا جیسے وہ جلد از جلد ٹیوب ویل پر جانا چاہتا ہو۔ چودھری نذیر کمار کے کھیت میں جس جگہ چھپا  ہوا تھا وہ اس پگڈنڈی کے قریب ہی تھی جس پر سے ملک حسن اور منشی محمد دین کو گزرنا تھا ۔ جو نہی وہ اس کے قریب آئے اُس نے منشی محمد دین کی آواز سنی وہ ملک حسن سے کہہ رہا تھا ملک صاحب چو دھری نذیرکو ہم نے کسی کام کاج کے قابل نہیں رہنے دیا ۔ اب وہ اپنی ساری زمین آپ کے آگے ضرور بیچ دے گا ۔ بس آپ چُپ ریں وہ خود آپ کے پاس چل کر آئے گا ۔ اگر ہم اس کے پاس گئے تو اسے فورا شک ہو جائے گا کہ آپ نے اسے مروایا ہے؟ تم ٹھیک کہتے ہو منشی ۔ میں چُپ ہی رہنا چاہیئے ۔ منشی محمد دین کی بات کےجواب میں ملک حسن بولا-

چودھری نذیر نے دونوں کی باتیں سن لیں۔ اس کی بیوی کی بات سچی نکلی تھی کہ ساری شرارت ملک حسن کی ہے ۔ اُس پر چودھری نذیر غصے سے پاگل ہو گیا ۔ اس نے جلدی سے چھلانگ ماری اور کمار کے کھیت سے باہر آکر منشی محمد دین کے ہاتھ میں پکڑی لاٹھی چھین لی اور زور زور سے اُس کے سر پر مارنے لگا۔ محمد دین کے سر پر ٹھکا ٹھک کر کے لاٹھیاں پڑیں تو اس کے منہ سے درد ناک چیخیں نکل گیئیں اور وہ ذرا سی دیر میں دھڑام کر کے نیچے گرا اور مر گیا ۔ کیونکہ لاٹھیاں لگنے سے اُس کا سر جگہ جگہ سے پھٹ گیا تھا ۔ یہاں سے سُرخ سُرخ خون نکل آیا تھا۔ چودھری نذیر اسے قتل کر کے ملک حسن کو مارنے نکلا تو اس نے دیکھا ملک حسن

سر پر پاؤں رکھ کر بھاگا جار ہا تھا۔ منشی محمد دین کو قتل کرنے کے بعد چودھری نذیر اپنے گھر واپس نہ آیا کیونکہ اسے ڈر تھا کہ پولیس والے اسے آکر پکڑ لیں گے جب کہ وہ ابھی اُن سب کو قتل کرنا چاہتا تھا جنھوں نے اس پر ظلم کیا تھا ۔ لہذا وہ بھاگ کر کمار کے کھیت میں چھپ گیا اور وہاں سے اندر ہی اندر چلتاتیسر سے گاؤں کے کھیتوں میں چلا گیا اور وہیں بیٹھ کر رات ہونے کا انتظار کرنے لگا۔

رات ہوئی تو وہ خاموشی سے دوبارہ انہی کھیتوں میں چلتا اسی جگہ آنکلا جہاں اُس نے منشی محمد دین کو قتل کیا تھا ۔ وہاں سے وہ چھپتا چھپا تا کسی نہ کسی طرح ملک حسن کی حویلی میں داخل ہو گیا ۔ رات بہت گزر چکی تھی اس لیے ساری آبادی گہری نیند میں ڈوبی تھی ۔ بس گاؤں کے کتے زور زور سے بھونک رہے تھے۔ چودھری نذیر سب سے پہلے حویلی کے اس حصے میں گیا جس میں ملک حسن کے نوکر سوتے تھے ۔ سارے نوکر ایک ہی قطار میں چارپائیوں پر سورہے تھے۔چودھری نذیر نے جانوروں کا چارہ رکھنے والی کو کوٹھری  میں سے چارہ کاٹنے والا ٹکوا اٹھا لایا ۔ٹکوا بے حد تیز تھا ۔ چودھری نذیر نے اس سے باری باری سارے نوکروں کی گردنیں کاٹ دیں۔

اس کام میں اس نے اتنی تیزی اور پھرتی سے کام لیا کہ کسی بھی نوکر کو پتہ نہ چلا کہ اس کے ساتھی قتل ہو گئے ہیں اور اب اس کی باری ہے ۔ نوکروں کو مار کر  چودھری نذیر جو نہی ملک حسن کی طرف جانے لگا تو حویلی کے کتوں کو پتہ چل گیا اور انہوں نے زور سے بھونکنا شروع کردیا جس سے ملک حسن ہوشیار ہو گیا یہ دیکھ کر چو دھری نذیر وہاں سے بھاگ آیا اور واپس کھیتوں میں آکر چھپ گیا ۔ صبح ہوتے ہی اس سارے علاقے  کو پولیس والوں نے گھیر لیا اور گھر گھرکی تلاشی لینے لگے ۔ گھروں کی تلاشی لینے کے بعد پولیس والے چودھری نذیر کو ڈھونڈ نے کھیتوں میں بھی آئے لیکن تھوڑے سے کھیتوں کی تلاشی لے کر لوٹ گئے اور جا کہ ملک حسن کو تسلی دی کہ فکر نہ کرو ہم نے سارے علاقے کی ناکہ بندی کر دی ہے ۔ گو نگا قاتل ہمارے ہاتھ سے ہر گزنہ نہیں بچے گا ۔ ہم آج ہی اُسے گرفتار کر لیں گے ۔ ملک حسن کی ڈر کے مارے ٹانگیں کانپ رہی تھیں ۔ پولس والوں  کا دعوی سن کر اس کے منہ سے کوئی بات نہ نکلی۔

رات ہوئی تو چو دھری نذیر دوبارہ ملک حسن کی حویلی میں داخل ہو گیا حالاں کہ پولیس والے جگہ جگہ پہرہ دے رہے تھے ۔ مگر چو دھری نذیر چونکہ اس گاؤں کا پُرانا واقف تھا۔ اس لیے وہ بڑی آسانی سے حویلی میں چلا گیا۔ ٹکوا اب بھی اُس کے ہاتھ میں تھا۔ اس نے جا کر ملک حسن کو جگایا اورٹکوے سے اُس کی زبان کاٹ دی ملک حسن نے بہتری معافی مانگی ۔ منت سماجت کی پرچودھری نذیر نے بھی اُسے اپنی طرح کا گونگا بنا کر چھوڑا ۔ اس کے بعد اس نے ملک حسن کو قتل نہ کیا ۔ بلکہ زندہ رہنے دیا اور حویلی سے نکل آیا۔ با ہر آکر وہ بھاگا نہیں بلکہ شور مچا کر اس نے ادھر ادھر پہرہ دیتے ہو ئے  پولیس والوں کو اکٹھا کر لیا اور اپنے آپ کو اُن کے حوالے کر دیا چونکہ اس نے اپنے دشمنوں سے بدلہ لے لیا تھا ۔ پولیس والے اسے ہتھکڑی پہنا کر تھانے میں لے گئے ۔

۔۔۔۔ختم شُد۔۔۔۔

#Goounga Qatil 

 

Maqbery ka RAAZ

 حیرت اور تجسس سے بھر پور

Maqbery ka RAAZ#

مقبرے کا راز

 

سُلطان پور کا چھوٹا سا قبرستان گاؤں کے باہر تھا۔ دو ہفتہ پہلے تک لوگ قبرستان میں سے گزر کر قریبی گاؤں شکار پور جایا کرتے تھے وہاں کسی کو خوف محسوس نہیں ہوتا تھا مگر پچھلے چند دنوں میں لگاتا ردو تین ایسے خوفناک واقعات پیش آئے تھے کہ پورے گاؤں پر دہشت طاری ہو گئی اگر کسی کو شکار پر جانا ہوتا تو ایک لمبا چکر کاٹ کر قبرستان سے ایک میل دور سے گزرتا۔

جمیل، شکار پور کا رہنے والا تھا بڑا بہادر اور باہمت لڑکا تھا۔ ایک دن سلطان پور سے اُن کا ایک مہمان آیا۔ اس کا نام خدا بخش تھا۔ اس نےجب سلطان پور کے قبرستان کا ذکر چھیڑا تو جمیل نے پوچھا آپ کہتے ہیں کہ وہ قبرستان خوفناک ہے ۔ اُس کی کیا وجہ ہے ؟ خدا بخش کہنے لگا ۔ وہ قبرستان دو ہفتے پہلے تو خوفناک نہیں تھا مگر چند ایسے واقعات پیش آئے کہ سب خوفزدہ ہو کر ادھر جانے سے پر ہیز کرنے گئے۔ پہلا واقعہ قاسم نامی کسان کو پیش آیا ۔ ایک دن وہ شکار پور آیا۔ واپسی میں اُسے رات ہوگئی۔ راستہ چونکہ قبرستان کے درمیان میں سے گذرتا ہے اِس لیے وہ بیچارہ بھی ادھر سے گذرا ۔ قبرستان میں ایک اونچا مقبرہ بھی ہے ۔سُناہے کہ وہ جنگ عظیم میں مرنے والے ایک انگریز افسر کا ہے ۔ جب قاسم اس مقبرے کے قریب سے گزرا تو اسے کسی کے ہنسنے کی آوازسُنائی دی ۔ اُس نے رُک کر دونوں طرف دیکھا مگر کوئی بھی نظر نہ آیا۔ اچانک اس کی نظر مقبرے پر پڑی اس نے قبر کو آپ ہی آپ اُٹھتے دیکھا توخوفزدہ ہو کر تیزی سے گاؤں کی طرف دوڑ پڑا ،گھر تک پہنچتے پہنچتے اس کی عجیب حالت ہو گئی ۔ وہ سالوں کا بیمار نظر آنے لگا۔ اس نے اپنے گھر والوں کو مقبرے کے متعلق بتایا ۔ اُس رات اُسےشدید بخار آگیا ۔ اور صبح سویرے وہ مر گیا۔ دوسرا واقعہ کس کے ساتھ رونما ہوا ہے؟؟ جمیل نے پوچھا ۔

 خدا بخش کہنے لگا ۔ گاؤں کے چند لڑ کے چاندنی رات میں وہاں کھیلنے گئے ۔ ابھی انہیں کھیلتے ہوئے کچھ دیر ہی گزری تھی کہ انہیں ایک گر جدار آوازسنائی دی ۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک انسانی ڈھانچہ انگریز کے مقبرے کے پاس کھڑا ہے ۔ اور حرکت کر رہا ہے اُس کو دیکھ کر لڑ کے دہشت زدہ ہو گئے ۔ پھر انہوں نے ڈھانچے کی آواز سنی ۔ ڈھانچہ کہہ رہا تھا ۔ میں آج تم سب کو کھا جاؤں گا ۔ اب تم میں سے کوئی بچ کہ نہیں جا سکتا ۔ یہ کہا کہ ڈھانچہ قہقہے لگانے لگا۔ لڑکے اسے دیکھتے ہی تھر تھر کانپ رہے تھے ۔ جب اُنہوں نے ڈھانچے کی بات سنی تو وہ گھروں کو بھا گئے اُن میں سے تین لڑ کے خوف و دہشت کے مارے دوسرے دن ہی انتقال کر گئے۔ اس دن سے لوگوں نے قبرستان کی طرف سے آنا بند کر دیا ۔ مگر ایک رات پھر ایسا ہی واقعہ پیش آیا ۔ کر مو نامی شخص رات کے وقت پیشاب کرنے اپنے مکان سے باہر نکلا۔ قبرستان اُس کے مکان کے سامنے ہی تھا اُس نے قبرستان میں چند مشعلوں کی روشنی دیکھی ۔ چند سفید کفن میں لپٹی ہوئی روحیں مشعلیں لیے قبروں میں گھوم رہی تھیں ۔ کر مو نے اپنے ہمسائے کو جگا کر یہ منظر دکھایا ۔ ایک گھنٹے تک مشعل بردار روحیں نظر آتی رہیں۔

 

اُس کے بعد وہ غائب ہو گئیں ۔ جمیل نے بڑی دلچسپی کے ساتھ خدا بخش کی باتیں سنیں ۔ اُسے یہ معاملہ بڑا پراسرار معلوم ہوتا تھا۔ اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ وہ قبرستان کے ان واقعات کی حقیقت معلوم کرے۔ جن کی وجہ سے گاؤںوالوں کی راتوں کی نیند حرام ہوگئی تھی ۔

 دوسرے دن خدا بخش اپنے گاؤں واپس جانے لگا تو جمیل بھی ساتھ چل دیا۔ سلطان پور پہنچ کر خدا بخش نے جمیل کی بڑی خاطر مدارات کی ۔ خدا بخش کا لڑکا رمضان جمیل کا ہم عمر تھا ۔ رمضان کئی بار جمیل کے گھر رہ کر آیا تھا ۔ اس لیے دونوں ایک دوسرے کے لیے اجنبی نہ تھے۔جمیل نے رمضان سے کہا، میں چاہتا ہوں کہ آج رات قبرستان کی سیر کر لیں ۔ نا بھئی نا ۔۔۔۔۔ رمضان نے کانوں کو ہاتھ لگا کر کہا : کیا تمہیں ابا جان نے اس قبرستان کے متعلق کچھ نہیں بتایا ؟ بتایا تھا،جمیل بولا ۔ اور میں صرف اس مقصد کے لیے آیا ہوں کہ روحوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھوں ۔ مجھے شک ہے کہ وہ روحیں نقلی ہیں ۔ رمضان جو خوفزدہ تھا ۔ کہنے لگا ۔ اگر وہاں کوئی حادثہ پیش آ گیا تو تم ذمہ دار ہو گئے ۔ میں تو بھاگ آؤں گا ۔ ٹھیک ہے ۔ جمیل نے مسکرا کر کہا۔ کیا تمہارے پاس کوئی ہتھیاروغیرہ بھی ہے ؟ ایک چھوٹی سی کلہاڑی کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ رمضان نے جواب دیا ۔ ایک بات کا خیال رکھنا۔ ہمارے قبرستان کی طرف جانے کا کسی کو علم نہ ہونے پائے جتنی کہ تمہارے والدین کو بھی نہیں ۔ ورنہ وہ ہمیں ادھر جانے سے روکیں گے : دونوں احتیاط اور خاموشی سے قبرستان میں داخل ہو گئے۔

AreeBTLM
جمیل نے رمضان کو پہلے ہی طریقہ کار سمجھا دیا تھا۔ جمیل قبروں کی اوٹ لیتے ہوئے انگریز افسر کے مقبرے کی طرف بڑھنے لگا وہ دونوں ایک گھنے برگد کے درخت کے تنے کے پاس پہنچ کر رک گئے۔ دونوں دم سا دھے مقبرے کی طرف دیکھنے لگے ۔ ایک گھنٹہ گذر گیا۔ پھر اچانک انہوں نے مقبر کا تعویذ خود بخود اٹھتے دیکھا اور اس میں سے کفن پوش روح نکلی ۔ اُس کا چہرہ دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔ با ہر آکر روح نے ادھر ادھر دیکھا پھر قبر کی طرف منہ کر کے کہا ، آجاؤ جلدی کرو اس کے خاموش ہوتے ہی قبر سے مزید روحیں نکلنے لگیں ساتویں روحیں نے باہر نکل کر قبر کا تعویز برابر کر دیا ۔ پھر وہ ساتوں روحیں گاؤں کی طرف چل پڑیں ۔ انہیں گاؤں کی طرف جاتے دیکھ کر جمیل اور رمضان دونوں کوحیرت ہوئی ۔ جمیل نے چند لمحے سوچنے کے بعد کہا۔ اور ہم ذرا انگریزکی قبر دیکھ لیں کہ سات روحیں اُس میں سے کیسے نکلیں جب کہ اس میں صرف ایک آدمی کی لاش ہے ۔ رمضان روحیں دیکھ کر خوفزدہ ہو چکا تھا ۔ مگر جمیل کی بات نے اُسے حوصلہ دیا ۔ مقبرے میں پہنچ کر جمیل نے بڑی احتیاط سے قبرکر تعویذ کو اٹھایا تو یہ دیکھ کر حیرت میں پڑ گیا کہ اس میں زینے بنے ہوئے تھے اور نیچے کسی طرف سے ہلکی ہلکی روشنی آرہی تھی۔ جمیل نے اس کے کان میں آہستہ سے کہا۔ تم نہیں" ٹہرو! میں نیچے اتر تا ہوں اگر روحیں واپس آتی دکھائی دیں تو مجھے آواز دے دینا " یہ کہہ کر میں نے خدا کا نام لیا اور قبرمیں داخل ہو کر زمینوں پر چلنے لگا اس کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا ۔ ہاتھ میں کلہاڑی لرز  رہی تھی ۔ نیچے پہنچتے ہی اُس کی نظر دائیں طرف کھڑے ایک ڈھانچے پر پڑی ۔ مگر وہ توبے جان تھا۔ جمیل نے بغور وہاں کا جائزہ لیا ۔ یہ ایک تہہ خانہ ساتھا ۔ دائیں  طرف ایک مشعل جل رہی تھی اور زمین پر ایک دری بچھی تھی جس پر ایک ریڈیو بھی رکھا تھا ۔ دیوار کے ساتھ کھانے پینے کے برتن اور تیل سے جلنے والا چولہا رکھا تھا ۔ جبکہ بائیں طرف دس بارہ لکڑی کے صندوق رکھے تھے ۔جمیل کچھ سوچ کر صندوقوں کی طرف بڑھا ۔ اس نے ایک صندوق کا ڈھکنا اٹھایا تو اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں ۔ اُس میں سونے چاندی کے زیورات اور نوٹوں کی گڈیاں پڑی تھیں ۔ دوسرے صندوقوں میں بھی ایسا ہی مال تھا۔ اُس نے سوچا۔ روحوں کے پاس ان چیزوں کا کیا کام ۔ مگر یہاں تو کھانے پکانے کا بھی پورا انتظام تھا ۔ اور سگریٹوں کے ٹکڑے بھی زمین پرپڑے تھے ۔ قریب ہی ایک بندوق پربھی اس کی نظر پڑی۔ جن کے ساتھ  گولیوں کی پیٹی بھی پڑی تھی ۔ اب سب کچھ جمیل کی سمجھ میں آچکا تھا۔ روحوں کی حقیقت معلوم کرکےاُسے بڑی خوشی محسوس ہو رہی تھی ۔ اسی لمحہ اسے رمضان بلا رہا تھا۔ جمیل تیزی سے اوپر پہنچا اور باہر آ گیا ۔ اُسی لمحے اس کی نظر دُور سے آتی ہوئی سفید پوش روحوں پر پڑی۔ چار روحوں نے کچھ اٹھا رکھا تھا ۔ پھر وہ سب مقبرے میں داخل ہو گئیں جمیل نے رمضان کا ہاتھ پکڑا اور قبرستان سے نکل کر گاؤں کی طرف چل پڑا۔

گاؤں میں ایک جگہ دس بارہ آدمی اکٹھے تھے ۔ وہ دونوں بھی اُن کے پاس جاکھڑے ہوئے ۔ ان لوگوں کی باتوں سے پتہ چلا کہ چار مکانوں میں چوری ہو گئی ہے ۔ یہ سن کہ جمیل اور رمضان سمجھ گئے کہ یہ کام صرف اُن روحوں کا ہی ہے ۔ جمیل نے اُن لوگوں سے کہا کہ ہم چوروں کو جانتے ہیں لیکن آپ لوگ ہماری بات پر اعتبار نہیں کریں گے ۔کیوں نہیں؟ ایک بوڑھے آدمی نے کہا کہ تم بتاؤ تو سہی

پھر جمیل نے انہیں تفصیلی حالات بتا دیے ۔ یہ سن کر گاؤں کے پندرہ بیس آدمیوں نے کلہاڑیاں پکڑیں ۔ اور انگریز کے مقبرے کی طرف چل دیے ۔ اور خاموشی سے مقبرے کے تہہ خانے میں اتر کر  انہیں پکڑلیا۔ اور پولس کے حوالے کر دیا۔

جمیل کو اس ہمت اور بہادری کے کارنامے پر بھاری انعام ملا۔

 ختم شُد


Bhoton Ki Shahezadi

انتخاب : انصاری اریب نوشاد علی۔ بھوتوں کی شہزادی پچھلے زمانے میں ملک شام پر ایک بادشاہ پرویز حکومت کرتا تھا۔ اس بادشاہ کا ایک ہی بیٹا تھا ش...