حیرت اور تجسس سے بھر پور
Maqbery ka RAAZ#
مقبرے کا راز
سُلطان
پور کا چھوٹا سا قبرستان گاؤں کے باہر تھا۔ دو ہفتہ پہلے تک لوگ قبرستان میں سے
گزر کر قریبی گاؤں شکار پور جایا کرتے تھے وہاں کسی کو خوف محسوس نہیں ہوتا تھا
مگر پچھلے چند دنوں میں لگاتا ردو تین ایسے خوفناک واقعات پیش آئے تھے کہ پورے
گاؤں پر دہشت طاری ہو گئی اگر کسی کو شکار پر جانا ہوتا تو ایک لمبا چکر کاٹ کر
قبرستان سے ایک میل دور سے گزرتا۔
جمیل،
شکار پور کا رہنے والا تھا بڑا بہادر اور باہمت لڑکا تھا۔ ایک دن سلطان پور سے اُن
کا ایک مہمان آیا۔ اس کا نام خدا بخش تھا۔ اس نےجب سلطان پور کے قبرستان کا ذکر چھیڑا
تو جمیل نے پوچھا آپ کہتے ہیں کہ وہ قبرستان خوفناک ہے ۔ اُس کی کیا وجہ ہے ؟ خدا
بخش کہنے لگا ۔ وہ قبرستان دو ہفتے پہلے تو خوفناک نہیں تھا مگر چند ایسے واقعات پیش
آئے کہ سب خوفزدہ ہو کر ادھر جانے سے پر ہیز کرنے گئے۔ پہلا واقعہ قاسم نامی کسان
کو پیش آیا ۔ ایک دن وہ شکار پور آیا۔ واپسی میں
اُسے رات
ہوگئی۔ راستہ چونکہ قبرستان کے درمیان میں سے گذرتا ہے اِس لیے وہ بیچارہ بھی ادھر
سے گذرا ۔ قبرستان میں ایک اونچا مقبرہ بھی ہے ۔سُناہے کہ وہ جنگ عظیم میں مرنے
والے ایک انگریز افسر کا ہے ۔ جب قاسم اس مقبرے کے قریب سے گزرا تو اسے کسی کے ہنسنے
کی آوازسُنائی دی ۔ اُس نے رُک کر دونوں طرف دیکھا مگر کوئی بھی نظر نہ آیا۔ اچانک
اس کی نظر مقبرے پر پڑی اس نے قبر کو آپ ہی آپ اُٹھتے دیکھا توخوفزدہ ہو کر تیزی
سے گاؤں کی طرف دوڑ پڑا ،گھر تک پہنچتے پہنچتے اس کی عجیب حالت ہو گئی ۔ وہ سالوں
کا بیمار نظر آنے لگا۔ اس نے اپنے گھر والوں کو مقبرے کے متعلق بتایا ۔ اُس رات
اُسےشدید بخار آگیا ۔ اور صبح سویرے وہ مر گیا۔ دوسرا واقعہ کس کے ساتھ رونما ہوا
ہے؟؟ جمیل نے پوچھا ۔
خدا بخش کہنے لگا ۔ گاؤں کے چند لڑ کے چاندنی
رات میں وہاں کھیلنے گئے ۔ ابھی انہیں کھیلتے ہوئے کچھ دیر ہی گزری تھی کہ انہیں ایک
گر جدار آوازسنائی دی ۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک انسانی ڈھانچہ انگریز کے مقبرے کے
پاس کھڑا ہے ۔ اور حرکت کر رہا ہے اُس کو دیکھ کر لڑ کے دہشت زدہ ہو گئے ۔ پھر
انہوں نے ڈھانچے کی آواز سنی ۔ ڈھانچہ کہہ رہا تھا ۔ میں آج تم سب کو کھا جاؤں گا
۔ اب تم میں سے کوئی بچ کہ نہیں جا سکتا ۔ یہ کہا کہ ڈھانچہ قہقہے لگانے لگا۔ لڑکے
اسے دیکھتے ہی تھر تھر کانپ رہے تھے ۔ جب اُنہوں نے ڈھانچے کی بات سنی تو وہ گھروں
کو بھا گئے اُن میں سے تین لڑ کے خوف و دہشت کے مارے دوسرے دن ہی انتقال کر
گئے۔ اس دن سے لوگوں نے قبرستان کی طرف سے آنا بند کر دیا ۔ مگر ایک رات پھر ایسا
ہی واقعہ پیش آیا ۔ کر مو نامی شخص رات کے وقت پیشاب کرنے اپنے مکان سے باہر نکلا۔
قبرستان اُس کے مکان کے سامنے ہی تھا اُس نے قبرستان میں چند مشعلوں کی روشنی دیکھی
۔ چند سفید کفن میں لپٹی ہوئی روحیں مشعلیں لیے قبروں میں گھوم رہی تھیں ۔ کر مو
نے اپنے ہمسائے کو جگا کر یہ منظر دکھایا ۔ ایک گھنٹے تک مشعل بردار روحیں نظر آتی
رہیں۔
اُس
کے بعد وہ غائب ہو گئیں ۔ جمیل نے بڑی دلچسپی کے ساتھ خدا بخش کی باتیں سنیں ۔
اُسے یہ معاملہ بڑا پراسرار معلوم ہوتا تھا۔ اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ وہ
قبرستان کے ان واقعات کی حقیقت معلوم کرے۔ جن کی وجہ سے گاؤںوالوں کی راتوں کی نیند
حرام ہوگئی تھی ۔
دوسرے دن خدا بخش اپنے گاؤں واپس جانے لگا تو جمیل
بھی ساتھ چل دیا۔ سلطان پور پہنچ کر خدا بخش نے جمیل کی بڑی خاطر مدارات کی ۔ خدا
بخش کا لڑکا رمضان جمیل کا ہم عمر تھا ۔ رمضان کئی بار جمیل کے گھر رہ کر آیا تھا
۔ اس لیے دونوں ایک دوسرے کے لیے اجنبی نہ تھے۔جمیل نے رمضان سے کہا، میں چاہتا
ہوں کہ آج رات قبرستان کی سیر کر لیں ۔ نا بھئی نا ۔۔۔۔۔ رمضان نے کانوں کو ہاتھ
لگا کر کہا : کیا تمہیں ابا جان نے اس قبرستان کے متعلق کچھ نہیں بتایا ؟ بتایا
تھا،جمیل بولا ۔ اور میں صرف اس مقصد کے لیے آیا ہوں کہ روحوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھوں
۔ مجھے شک ہے کہ وہ روحیں نقلی ہیں ۔ رمضان جو خوفزدہ تھا ۔ کہنے لگا ۔ اگر وہاں
کوئی حادثہ پیش آ گیا تو تم ذمہ دار ہو گئے ۔ میں تو بھاگ آؤں گا ۔ ٹھیک ہے ۔ جمیل
نے مسکرا کر کہا۔ کیا تمہارے پاس کوئی ہتھیاروغیرہ بھی ہے ؟ ایک چھوٹی سی کلہاڑی
کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ رمضان نے جواب دیا ۔ ایک بات کا خیال رکھنا۔ ہمارے قبرستان کی
طرف جانے کا کسی کو علم نہ ہونے پائے جتنی کہ تمہارے والدین کو بھی نہیں ۔ ورنہ وہ
ہمیں ادھر جانے سے روکیں گے : دونوں احتیاط اور خاموشی سے قبرستان میں داخل ہو گئے۔
جمیل نے رمضان کو پہلے ہی طریقہ کار سمجھا دیا تھا۔ جمیل قبروں کی اوٹ لیتے ہوئے انگریز افسر کے مقبرے کی طرف بڑھنے لگا وہ دونوں ایک گھنے برگد کے درخت کے تنے کے پاس پہنچ کر رک گئے۔ دونوں دم سا دھے مقبرے کی طرف دیکھنے لگے ۔ ایک گھنٹہ گذر گیا۔ پھر اچانک انہوں نے مقبر کا تعویذ خود بخود اٹھتے دیکھا اور اس میں سے کفن پوش روح نکلی ۔ اُس کا چہرہ دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔ با ہر آکر روح نے ادھر ادھر دیکھا پھر قبر کی طرف منہ کر کے کہا ، آجاؤ جلدی کرو اس کے خاموش ہوتے ہی قبر سے مزید روحیں نکلنے لگیں ساتویں روحیں نے باہر نکل کر قبر کا تعویز برابر کر دیا ۔ پھر وہ ساتوں روحیں گاؤں کی طرف چل پڑیں ۔ انہیں گاؤں کی طرف جاتے دیکھ کر جمیل اور رمضان دونوں کوحیرت ہوئی ۔ جمیل نے چند لمحے سوچنے کے بعد کہا۔ اور ہم ذرا انگریزکی قبر دیکھ لیں کہ سات روحیں اُس میں سے کیسے نکلیں جب کہ اس میں صرف ایک آدمی کی لاش ہے ۔ رمضان روحیں دیکھ کر خوفزدہ ہو چکا تھا ۔ مگر جمیل کی بات نے اُسے حوصلہ دیا ۔ مقبرے میں پہنچ کر جمیل نے بڑی احتیاط سے قبرکر تعویذ کو اٹھایا تو یہ دیکھ کر حیرت میں پڑ گیا کہ اس میں زینے بنے ہوئے تھے اور نیچے کسی طرف سے ہلکی ہلکی روشنی آرہی تھی۔ جمیل نے اس کے کان میں آہستہ سے کہا۔ تم نہیں" ٹہرو! میں نیچے اتر تا ہوں اگر روحیں واپس آتی دکھائی دیں تو مجھے آواز دے دینا " یہ کہہ کر میں نے خدا کا نام لیا اور قبرمیں داخل ہو کر زمینوں پر چلنے لگا اس کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا ۔ ہاتھ میں کلہاڑی لرز رہی تھی ۔ نیچے پہنچتے ہی اُس کی نظر دائیں طرف کھڑے ایک ڈھانچے پر پڑی ۔ مگر وہ توبے جان تھا۔ جمیل نے بغور وہاں کا جائزہ لیا ۔ یہ ایک تہہ خانہ ساتھا ۔ دائیں طرف ایک مشعل جل رہی تھی اور زمین پر ایک دری بچھی تھی جس پر ایک ریڈیو بھی رکھا تھا ۔ دیوار کے ساتھ کھانے پینے کے برتن اور تیل سے جلنے والا چولہا رکھا تھا ۔ جبکہ بائیں طرف دس بارہ لکڑی کے صندوق رکھے تھے ۔جمیل کچھ سوچ کر صندوقوں کی طرف بڑھا ۔ اس نے ایک صندوق کا ڈھکنا اٹھایا تو اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں ۔ اُس میں سونے چاندی کے زیورات اور نوٹوں کی گڈیاں پڑی تھیں ۔ دوسرے صندوقوں میں بھی ایسا ہی مال تھا۔ اُس نے سوچا۔ روحوں کے پاس ان چیزوں کا کیا کام ۔ مگر یہاں تو کھانے پکانے کا بھی پورا انتظام تھا ۔ اور سگریٹوں کے ٹکڑے بھی زمین پرپڑے تھے ۔ قریب ہی ایک بندوق پربھی اس کی نظر پڑی۔ جن کے ساتھ گولیوں کی پیٹی بھی پڑی تھی ۔ اب سب کچھ جمیل کی سمجھ میں آچکا تھا۔ روحوں کی حقیقت معلوم کرکےاُسے بڑی خوشی محسوس ہو رہی تھی ۔ اسی لمحہ اسے رمضان بلا رہا تھا۔ جمیل تیزی سے اوپر پہنچا اور باہر آ گیا ۔ اُسی لمحے اس کی نظر دُور سے آتی ہوئی سفید پوش روحوں پر پڑی۔ چار روحوں نے کچھ اٹھا رکھا تھا ۔ پھر وہ سب مقبرے میں داخل ہو گئیں جمیل نے رمضان کا ہاتھ پکڑا اور قبرستان سے نکل کر گاؤں کی طرف چل پڑا۔
گاؤں
میں ایک جگہ دس بارہ آدمی اکٹھے تھے ۔ وہ دونوں بھی اُن کے پاس جاکھڑے ہوئے ۔ ان
لوگوں کی باتوں سے پتہ چلا کہ چار مکانوں میں چوری ہو گئی ہے ۔ یہ سن کہ جمیل اور
رمضان سمجھ گئے کہ یہ کام صرف اُن روحوں کا ہی ہے ۔ جمیل
نے اُن لوگوں سے کہا کہ ہم چوروں کو جانتے ہیں لیکن آپ لوگ ہماری بات پر اعتبار نہیں
کریں گے ۔کیوں نہیں؟ ایک بوڑھے آدمی نے کہا کہ تم بتاؤ تو سہی
پھر
جمیل نے انہیں تفصیلی حالات بتا دیے ۔ یہ سن کر گاؤں کے پندرہ بیس آدمیوں نے کلہاڑیاں
پکڑیں ۔ اور انگریز کے مقبرے کی طرف چل دیے ۔ اور خاموشی سے مقبرے کے تہہ خانے میں
اتر کر انہیں پکڑلیا۔ اور پولس کے حوالے
کر دیا۔
جمیل
کو اس ہمت اور بہادری کے کارنامے پر بھاری انعام ملا۔
ختم شُد
Good
ReplyDelete