انتخاب : انصاری اریب نوشاد علی۔
بھوتوں کی شہزادی
پچھلے زمانے میں ملک شام پر ایک بادشاہ پرویز حکومت کرتا تھا۔ اس بادشاہ کا ایک ہی بیٹا تھا شہزادہ اسد، بادشاہ نے اپنے اکلوتے بیٹے کی تعلیم و تربیت کے لئے پوری دنیا سے ہر فن اور علم کے ماہر بلوا کر رکھے ہوئے تھے۔ بادشاہ چاہتا تھا کہ اس کا بیٹا شہزادہ اسد علم اور بہادری میں پوری دنیا میں مشہور ہو جائے ۔ مگر شہزادہ اسد بڑی لاپر واہ طبیعت کا مالک تھا۔ اس کے استاد اسے جو کچھ سکھاتے وہ جلد ہی بھول جاتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ استادوں کی پوری کوششوں کے باوجود شہزادہ اسد نہ ہی زیادہ علم حاصل کر سکا اور نہ ہی اسے لڑائی بھڑائی کے فن میں مہارت حاصل ہو سکی۔
بادشاہ
ہر ماہ شہزادے کا امتحان لیتا اور شہزادہ اسد ہر بار امتحان میں فیل ہو جاتا جس پر
بادشاہ بے حد ناراض ہوتا ۔ وہ شہزادے کو سمجھاتا کہ اسے علم سیکھنے اور لڑائی
بھڑائی کا فن سیکھنے پر پوری توجہ کرنی چاہیے ،کیونکہ اس کو ملک شام کا بادشاہ بنتا
ہے۔ مگر شہزادہ ایک کان سے بادشاہ کی باتیں سنتا اور دوسرے کان سے اُڑا دیتا ۔
آخر
تھک ہار کر بادشاہ نے بھی شہزادے کو سمجھانا چھوڑ دیا اور شہزادےاسد کو اس کے حال
پر چھوڑ دیا ۔شہزادے اسد کو بس ایک ہی شوق تھا کہ اس کے باغ میں دنیا کے بہترین
پھول موجود ہوں ۔ اس نے اپنے باغ کے لئے دنیا دینے کے ماہر ترین مالی رکھے ہوئے
تھے۔ اور اس نے اپنے سپاہیوں کو پوری دنیا میں بھیج رکھا تھا کہ جہاں بھی وہ نئی
قسم کا پھول دیکھیں تو ہر قیمت پر اس پھول کا پودا لے کر اس کے پاس پہنچیں۔ ہر نئے
قسم کے پھول لانے والے کو بے پناہ انعام و اکرام دیتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس
کے باغ میں اتنے خوبصورت پھول اکٹھے ہو گئے کہ شاید پرستان میں بھی ایسے پھول نہ پیدا
ہوتے ہوں ۔ شہزادہ اسد سارا دن اس باغ میں گھومتا رہتا اور خوبصورت پھولوں کو دیکھ
دیکھ کر خوش ہوتا رہتا۔ آج بھی وہ باغ میں گھومتا پھر رہا تھا کہ اسے ملک عدن سے ایک
سپاہی کی آمد کی اطلاع ملی۔
اسے فوراً ہمارے حضور پیش کرو۔ شہزادہ اسد نے حکم دیا۔ اُسے معلوم تھا کہ سپاہی کوئی نیا پھول لے کر آیا ہو گا ۔ اس لئے اس کے چہرےپر خوشی کے آثار ابھر آئے تھے ۔ اس کی نظریں باغ کے دروازے سے پر جمی ہوئی تھیں مگر جب اس نے ایک سپاہی کو خالی ہاتھ اندر آتے دیکھا تواس کے چہرے پر غصے کے آثار ابھر آئے۔ وہ تیز نظروں سے آتے ہوئےسپاہی کو گھورنے لگا۔سپاہی نے قریب آکر بڑے ادب سے شہزادے کو جھک کر سلام کیا۔ کیا بات ہے تم خالی ہاتھ آئے ہو ؟“، شہزادے نے بڑے سخت لہجےمیں اس سے مخاطب ہو کر پوچھا۔ شہزادہ حضور ! میں نئے پھولوں کی تلاش میں ملک عدن کے شمالی حصے میں گھومتا پھر رہا تھا کہ اچانک بھوتوں کی وادی میں جا نکلا یہ وادی یوں تو بڑی سر سبز اور خوبصورت ہے مگر وہاں ہر طرف بھیانک شکلوں والے بھوت رہتے ہیں جو انسان کو پکڑ کر کھا جاتے ہیں۔ سپاہی نے بڑے مودبانہ لہجے میں تفصیل بتانی شروع کر دی ۔
مگر
تم مجھے یہ کہانی کیوں سنا رہے ہو۔ ہوگی کوئی بھوت وادی مجھے یہ بتاؤ کہ کوئی نیا
پھول لائے ہو یا نہیں ۔ شہزادے نے جھنجھلائے
ہوئے لہجے میں کہا ۔حضور ! وہی تو بتانے لگا ہوں۔ اس بھوتوں کی وادی میں ایک
انتہائی خوبصورت باغ ہے۔ یہ باغ بھوتوں کی شہزادی کا ہے۔ اس باغ میں اس قدر نایاب
اور عجیب و غریب پھول ہیں کہ جن کا آپ نے کبھی خواب میں بھی تصور نہ کیا ہو گا ۔
سپاہی نے سرجھکاتے ہوئے کہا۔
کیا
کہہ رہے ہو گستاخ ؟ اس وقت دنیا میں ہمارے باغ سےزیادہ خوبصورت باغ نہیں ہو سکتا۔
تم جھوٹ بول رہے ہوا اور تمہیں اس جھوٹ کی عبرتناک سزا ملے گی ی۔ شہزادے نے انتہائی
غصیلے لہجے میں کہا۔ حضور ! آپ بے شک مجھے قتل کرا دیں لیکن میں نے اپنی آنکھوں سےوہ
باغ دیکھا ہے۔ آپ یقین کریں ، وہاں پر اتنے خوبصورت پھول ہیں کہ آپ بھی دیکھ کر
دنگ رہ جائیں گے ۔سپاہی نے بڑے اعتماد بھرےلہجے میں جواب دیتے ہوئے کہا۔یہ بات ہے
تو ہم اس باغ کے تمام پھول اپنے باغ میں لے آئیں گے۔ ہرقیمت پر ، شہزادے نے کہا۔
اچھا تم بتاؤ کہ پھر کیا ہوا ۔؟
حضور!
جب میں بھوتوں کی وادی میں داخل ہوا تو بھوتوں نے مجھے پکڑ لیا اور پھر وہ مجھے
اپنی شہزادی کے پاس لے گئے۔ شہزادی اس وقت اپنے باغ میں گھوم پھر رہی تھی شہزادی
نے جب مجھ سے پوچھا کہ میں کون ہوں اور اس وادی میں کیسے آیا ہوں؟ تو میں نے آپ کے
اور آپ کے باغ کے متعلق سب کچھ بتا دیا۔ یہ سن کر شہزادی بہت خوش ہوئی۔ چنانچہ اس
نے میری جان بخش دی اور ساتھ کہا کہ میں
جا کر اپنے شہزادے کو یہ بتاؤں کہ شہزادی کے باغ کے مقابلے میں شہزا دیے کا باغ
کوئی حیثیت نہیں رکھتا ،چنا نچہ میں یہاں آگیا ۔ سپاہی نےساری بات تفصیل سے بتادی۔
اوہ
! تو شہزادی نے ہمیں چیلنج کیا ہے ہم اس شہزادی کو بھی قتل کر دیں گے اور اس کے
باغ کے تمام پودے اکھاڑکر یہاں لے آئیں گے ۔ یہ ہمارا فیصلہ ہے ، شہزادے نے غصے سے
لال پیلا ہوتے ہوئے کہا۔ مگر حضور ! وہ بھوتوں کی شہزادی ہے اور بھوت انتہائی
خطرناک مخلوق ہے اور وہ ہے حد طاقتور اور ظالم ہیں۔ سپاہی نے ڈرتے ڈرتے کہا ۔ کچھ
بھی ہو، چاہے ہماری جان ہی کیوں نہ چلی جاتے ہم اپنا فیصلہ نہیں بدلیں گے۔ شہزادے
نے کہا اور پھر اس نے دو گھوڑے تیار کرنے کا حکم دیا۔تمہیں ہمارے ساتھ چلنا ہوگا
تاکہ تم ہمیں اس وادی تک پہنچا سکو ۔ شہزادے
نے سپاہی سے مخاطب ہو کر کہا اور سپاہی نے سرجھکا دیا۔ ظاہر ہے کہ وہ اور کر بھی کیا
سکتا تھا۔ پھر شہزادہ گھوڑے پر سوار ہو کر ملک عدن کی طرف چل پڑا۔ سپاہی بھی دوسرے
گھوڑے پر سوار اس کے ساتھ ساتھ تھا۔ منزلوں پر منزلیں مارتے وہ دونوں ملک عدن کی
طرف بڑھتے چلے گئے ۔
آخر
ایک مہینے تک مسلسل سفر کرنے کے بعد وہ ایک روزملک عدن میں داخل ہو گئے اور یہاں
انہوں نے ایک سرائے میں قیام کیا تا کہ کچھ روز یہاں آرام کرنے کے بعد وہ بھوتوں کی
وادی کی طرف جا سکیں۔ شہزادہ اسد کھانے سے فارغ ہو کر آرام کرنے کیلئے جیسے ہی
اپنے کمرے میں پہنچا اس کا سرا چانک چکرایا اور اس نے کمرے میں موجود الماری کو
پکڑ کر اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کی ،مگر بے سود۔ اس کا دماغ کسی لٹو کی طرح
گھومتا چلا جا رہاتھا اور پھر وہ دھڑام سے قریبی بستر پر گر گیا ،پھر جیسے ہی وہ
بستر پر گرا۔ اسے یوں محسوس ہوا کہ جیسے بستر اپنی جگہ سے اُچھلا اور پھر ہوا میں
تیرنے لگا۔ کمرے کی دیواریں غائب ہو گئیں اور شہزادہ بستر سمیت بڑی تیزی سے فضا میں
اُڑتا چلا گیا ۔ شہزادہ بے حس و حرکت بستر پر پڑا ہوا تھا اس کی آنکھیں کھلی ہوئی
تھیں مگر وہ حرکت کرنے سے معذور تھا البتہ وہ کھلی آنکھوں کے ساتھ اردگرد کا منتظر
بخوبی دیکھ رہا تھا۔
بستر
فضا میں اُڑتا ہوا پہلے تو بہت زیادہ بلندی پر چلا گیا اور پھر انتہائی تیز رفتاری
سے شمال کی طرف بڑھتا چلا گیا۔ شہزادہ حیران تھا کہ آخر اسکے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔
مگر وہ بے بس تھا۔ تھوڑی دیر بعد بستر ایک جگہ رک گیا اور پھر آہستہ آہستہ نیچے
اُترنے لگا۔ یہاں ہر طرف ہلکی ہلکی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ ایسی روشنی جیسے صبح
طلوع ہونے والی ہوا ور پھر بستر زمین پر اتر کر ٹھہر گیا اور اسکے ساتھ ہی شہزادے
اسد کی تمام بے حسی بھی یکدم دور ہوگئی اور وہ اُچھل کر بستر سے نیچے اُتر آیا۔وہ
حیرت سے چاروں طرف دیکھ رہا تھا۔ یہ وادی انتہائی خوبصورت اور سرسبزتھی مگر وہاں
نہ ہی کوئی پرندہ نظر آر ہا تھا اور نہ کوئی جانور۔
شہزادہ
اسد پہلے تو ادھر اُدھر دیکھتا رہا پھر اُسے دور پانی کی چمک نظر آئی۔ یہ کوئی بہت
بڑی جھیل تھی۔ شہزادہ اسد اس جھیل کی طرف بڑھتا چلا گیا۔ کافی دیر تک چلنے کے بعدشہزادہ آخر کار جھیل کے کنارے پہنچ گیا۔ دوسرے
لمحے حیرت اور اشتیاق سے اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اس نے جھیل میں ایک
انتہائی خوبصورت کشتی کو تیرتے ہوئے دیکھا ۔ کشتی کے اوپر سونے کا بنا ہوا ایک
انتہائی خوبصورت سائبان تھا جس کے نیچے ایک خوبصورت لڑکی بیٹھی پھول سونگھ رہی تھی
در کشتی کو ایک سانولےرنگ کی کنیز ایک چپو کی مدد سے چلا رہی تھی ۔کشتی جھیل کی
پرسکون سطح پر آہستہ آہستہ ہلکورے لیتی ہوئی آگے کی طرف بڑھتی چلی جا رہی تھی۔
شہزادہ اسد نے اتنی خوبصورت لڑ کی آج تک نہ دیکھی تھی اس لئے وہ حیرت کے مارے بُت بنا اسے
مسلسل دیکھتا رہا۔ جھیل کے پیچھے وہی سر سبز وادی پھیلی ہوئی تھی اور گھنے درختوں
کے جھنڈ صاف نظر آرہے تھے۔ا بھی شہزادہ اس دکشتی کو دیکھ ہی رہا تھا کہ اچانک ایک
زور دار گونج کی آواز سنائی دی اور ساتھ ہی ایک خوفناک قہقہہ بھی سنائی دیا۔ دوسرے
لمحے شہزادے کے حلق سے بے اختیار ایک چیخ نکل گئی کیونکہ اس نے جھیل کے پیچھے درختوں کے گھنے جھنڈ میں ایک بھیانک شکل کو
ابھرتے دیکھا۔ یہ خوفناک شکل کسی دیو کی مانند تھی۔ اس کے سر پر دو سینگ بھی تھے۔
اس بھیانک چہرے کے ساتھ ساتھ دو ہاتھ اوپر کو نکلے ہوئے تھے۔۔اس ساتھ ساتھ شہزادے
کی چیخ سن کر کشتی میں بیٹھی ہوئی لڑکی یکدم چونک پڑی اور اس نے مڑ کر تیزی سے پیچھے
گھنے درختوں کے جھنڈ کی طرف دیکھا اور پھر اس کی نظریں جھیل کے کنارے پر کھڑے ہوئے
شہزادہ اس پر پڑیں۔ اس نے تیزی سے کشتی چلانے والی کنیز کو کہا اور کنیز پھرتی سے
کشتی میں کھڑی ہوگئی اور اس نے درختوں کے جھنڈ کی طرف رخ کر کے اپنا ایک ہاتھ فضا
میں لہرایا اور اسکے ہاتھ لہراتے ہی ایک بار پھر زوردار گونج پیدا ہوئی اور درختوں
کے جھنڈ کے سامنے اُبھرنے والی خوفناک شکل اچانک غائب ہو گئی۔ بھیانک شکل کے غائب
ہوتے ہی کنیز نے دوبارہ چیو سنبھال لیا اور پھر کشتی کو انتہائی تیزی سے چلانے لگی۔
اب
کشتی کا رخ اس کنارے کی طرف تھا جدھر شہزادہ اسد کھڑا ہوا تھا۔ چند ہی لمحوں میں
کشتی کنارے پر پہنچ گئی اور کشتی میں موجود لڑ کی اُٹھ کر کنارے پر آگئی ،تم ملک
شام کے شہزادے اسد ہو یا لڑکی نے بڑے ترنم کے ساتھ شہزادے اسد سے مخاطب ہو کر کہا۔
” ہاں خوبصورت لڑکی ! ہم ملک شام کے شہزادہ اسد ہیں ، مگر تم کون ہو اور مجھے کیسے
جانتی ہو ؟ ، شہزادےنے حیرت بھرے لہجے میں جواب دیتے ہوئے کہا۔ ہم اس وادی کی
شہزادی حسن آرا ہیں۔ ہمیں معلوم ہو گیا تھا کہ تم ملک عدن کی سرائے میں پہنچ گئے
ہو۔ اس لئے ہمارے حکم پر تمہیں بستر سمیت یہاں لے آیا گیا ہے یہ شہزادی حسن آرا نے
اٹھلاتے ہوئے کہا ۔ یہ کون سی وادی ہے ؟“ شہزادے نے حیرت بھرے لہجے میں خوبصورت وادی
کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔ یہ بھوتوں کی وادی کہلاتی ہے ۔ شہزادی نے مسکراتے ہوئے جواب
یا۔ ارے باپ رے ، یہ بھوتوں کی وادی ہے اور تم بھوتوں کی شہزادی ہو مگر تم بے حد
خوبصورت ہو جبکہ درختوں کے جھنڈ میں جو بھوت نمودار ہوا تھا وہ تو انتہائی خوفناک
اور بد شکل تھا یا شہزادے نے خوفزدہ لہجے میں جواب دیا۔
ہاں
! وہ ہمارا پہرے دار بھوت تھا۔ اس نے سمجھا تھا کہ شاید تم ہمیں نقصان پہنچانے کی
نیت سے یہاں آئے ہو مگر ہم نے اسے واپس بھیج دیا ہے کیونکہ ہم نے تو تمہیں خود
بلوایا ہے ۔ شہزادی نے جواب دیا۔ تو کیا بھوتوں کی عورتیں تم جیسی خو بصورت شکلوں
والی ہوتی ہیں۔ شہزادے نے پوچھا۔ارے نہیں بھولے شہزادے ! میں بھوت نہیں ہوں ۔
بھوتوں میں صدیوں سے رواج ہے کہ ان کا بادشاہ اور ملکہ آدم زاد ہوتے ہیں۔ میں آدم
زاد ہوں۔ یہ کنیز بھی آدم زاد ہے۔ بھوتوں کی عورتیں تو بھوتوں کی طرح ہی بد شکل
ہوتی ہیں شہزادی نے ہنستے ہوئے جواب دیا ۔اوہ !میں سمجھ گیا۔ ہاں شہزادی ! مجھے
سپاہی نے بتایا تھا کہ تمہارے باغ میں دنیا کے خوبصورت ترین اور نایاب پھول ہیں
جبکہ ہمارا دعویٰ ہے کہ ہمارے باغ سے زیادہ خوبصورت پھول دنیا میں اور کسی کے پاس
نہیں ہیں؟ شہزاد ہے اسد نے کہا۔
شہزادے
! اُونٹ جب تک پہاڑ کے نیچے نہیں آتا وہ بھی اپنے آپ کو دنیا میں بلند چیز سمجھتا
ہے ۔ آؤ میرے ساتھ ! میں تمہیں اپنا باغ دکھاؤں پھر تمہیں پتہ چلے گا کہ تمہارا
باغ کیا حیثیت رکھتا ہے ۔ شہزادی نے بڑےفخریہ لہجے میں کہا۔شہزادی اتم نے ہمارا
باغ نہیں دیکھا اس لئے ایسی باتیں کر رہی ہو ،تم ایک عام سپاہیکو باغ دکھا کر
مرعوب کر سکتی ہو۔ مگر ہمیں نہیں ، شہزادہ ابھی اکڑا ہوا تھا ۔ا وہ !پہلے باغ تو دیکھ
لو یا شہزادی نے ہنستے ہوئے کہا۔ اور پھر شہزادے کا بازو دیکھ کر اسے کشتی میں لے
آئی اور پھر اس نے کنیز کو کشتی چلانے کا حکم دیا ۔ اور کنیز نے تیزی سے کشتی چلانی
شروع کر دی ۔ تھوڑی تھو دیربعد شہزادی جھیل کے دوسرے کنارے پر پہنچ گئی اور شہزادی
، شہزادے کا ہاتھ پکڑے نیچے اتر آئی اور پھر وادی میں آگے بڑھتی چلی گئی۔
ایک
پہاڑی کے قریب پہنچ کر شہزادی نے زور سے تالی بجائی۔ دوسرے لمحے پہاڑی کا ایک حصہ
کسی صندوق کے ڈھکن کی طرح اوپر اٹھتا چلا گیا۔ سامنے سونے کا بنا ہواایک خوبصورت
دروازہ تھا۔ دروازے کے باہر دو خوبصورت عورتیں کھڑی تھیں شہزادی کے اشارے پر
عورتوں نے دروازہ کھول دیا اور پھر شہزادی، شہزادےاسد کو لئے دروازے میں داخل ہو
گئی۔ یہ ایک انتہائی خوبصورت باغ تھا۔ جہاں اتنے خوبصورت پھولوں کے تختے موجود تھے
کہ شہزادہ اسد کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔ وہ خواب میں بھی نہ سوچ
سکتا تھا کہ دنیا میں اس قدر خوبصورت پھول بھی ہو سکتے ہیں ۔ وہ کسی معصوم بچے کی
طرح ایک ایک پھول کےقریب جاتا، اُسے آنکھیں پھاڑ کر دیکھتا ، اسے چھو کر دیکھتا۔
اور پھران کی خوشبو سونگھتا۔
شہزادی
ایک جگہ کھڑی بڑی دلچسپ نظروں سے شہزادے کی حرکتیں دیکھ رہی تھی ۔ شہزادہ بچوں کی
طرح دوڑ دوڑ کر ایک ایک پھول کے پاس جاتا اور اسے کافی دیر تک دیکھتا رہتا۔تقریباً
ایک گھنٹے بعد شہزادہ اٹھا اور پھر وہ شہزادی کی طرف آیا۔ اور پھر جو اس دوران ایک
خوبصورت کرسی پر بیٹھ چکی تھی۔ اس کے قریب ہی ایک اورخوبصورت کرسی موجود تھی ۔
واقعی شہزادی تمہارا باغ ،دنیا میں سب سے
خوبصورت ہے۔ہمارا باغ تو اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ۔ شہزادے نے بڑےشرمندہ سے
لہجے میں کہا۔ اور پھر کرسی پر بیٹھ گیا۔ اب معلوم ہوا شہزادے کہ باغ کسے کہتے ہیں؟
شہزادی نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ہاں شہزادی ! ہم اپنے دعویٰ پر شرمندہ ہیں۔
ہم
خواہ مخواہ اپنے باغ پر غرور کرتے تھے۔ کاش !یہ باغ ہمارا ہوتا ۔ شہزادے نےحسرت
بھری نظروں سے باغ کو دیکھتے ہوئے کہا۔ شہزادے تم نے کبھی غور کیا ہے کہ دنیا میں
سب سے خوبصورت پھول کون سا ہے ؟ شہزادی نے مسکراتے ہوئے کہا۔سب سے خوبصورت پھول
تمہارے باغ میں موجود ہو گا ۔شہزادی اس سے زیادہ خوبصوت پھولوں کا تو تصوربھی نہیں
کیا جا سکتا ۔شہزادے نے جواب دیا ۔اور پھر شہزادی نے زور سے تالی بجائی اور اس کے
تالی بجاتے ہی دو بد شکل بھوت وہاں نمودار ہو گئے ۔ "شہزادے اسد کو اس کے
بستر پر پہنچا دو"۔ شہزادی نے اُٹھتےہوئے کہا۔اور بد شکل بھوتوں نے شہزادے
اسد کو یوں اٹھا لیا جیسےبچے کسی کھلونے کو اٹھا لیتے ہیں۔
ارے
ارے !مجھے چھوڑ دو ،شہزادے اسد نے چیختے ہوئے کہا۔ مگر بھوت بھلا کہاں اس کی بات
سنتے تھے۔ وہ اسے اٹھا کر باغ سے باہر لے آئے اور پھر تھوڑی دیر بعد انہوں نے اسے
زمین پر موجود اس کے بستر پر پھینک دیا۔ اور اس کے ساتھ ہی شہزادے کاجسم بے حس و
حرکت ہو گیا اور بستر دوبارہ فضا میں بلند ہوتا چلا گیا ۔ تھوڑی دیر بعد جب بستر
واپس نیچے اتر کر زمین پر ٹھہرا توشہزادہ اسداُ چھل کر بستر پر بیٹھ گیا۔
شہزادہ
یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ سرائے کے اسی کمرے میں موجود تھا اور دیواریں اسی
طرح صحیح و سالم تھیں ۔ کمرے کا دروازہ بھی اسی طرح اندر سے بند تھا ۔جس طرح اس نے
کمرے میں داخل ہوتے وقت اسےبند کیا تھا۔شہزادہ کافی دیر تک اس واقعہ پر غور کرتا
رہا کبھی تو اُسے خیال آتا کہ یہ سب کچھ خواب تھا مگر شہزادی کے باغ کا منظر جب اس
کی آنکھوں کے سامنے آتا تو اُسے سب کچھ حقیقت معلوم ہوتا۔آخر کار شہزادہ سمجھ گیا کہ یہ سب کچھ خواب
نہ تھا بلکہ بھوتوں کی شہزادی حُسن آرا
کا کارنامہ تھا کہ وہ اپنی پُر اسرار طاقتوں کے ساتھ اُسے بستر سمیت اُٹھا کر لے
گی اور پھر باغ دیکھا کر اسے واپس سرائے کے کمرے میں بھیج دیا۔
۔۔۔ختم شد۔۔۔
No comments:
Post a Comment