=" Urdu Kahaniyan (AreeB)

Bhoton Ki Shahezadi

انتخاب : انصاری اریب نوشاد علی۔


بھوتوں کی شہزادی

پچھلے زمانے میں ملک شام پر ایک بادشاہ پرویز حکومت کرتا تھا۔ اس بادشاہ کا ایک ہی بیٹا تھا شہزادہ اسد، بادشاہ نے اپنے اکلوتے بیٹے کی تعلیم و تربیت کے لئے پوری دنیا سے ہر فن اور علم کے ماہر بلوا کر رکھے ہوئے تھے۔ بادشاہ چاہتا تھا کہ اس کا بیٹا شہزادہ اسد علم اور بہادری میں پوری دنیا میں مشہور ہو جائے ۔ مگر شہزادہ اسد بڑی لاپر واہ طبیعت کا مالک تھا۔ اس کے استاد اسے جو کچھ سکھاتے وہ جلد ہی بھول جاتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ استادوں   کی پوری کوششوں کے باوجود شہزادہ اسد نہ ہی زیادہ علم حاصل کر سکا اور نہ ہی اسے لڑائی بھڑائی کے فن میں مہارت حاصل ہو سکی۔

بادشاہ ہر ماہ شہزادے کا امتحان لیتا اور شہزادہ اسد ہر بار امتحان میں فیل ہو جاتا جس پر بادشاہ بے حد ناراض ہوتا ۔ وہ شہزادے کو سمجھاتا کہ اسے علم سیکھنے اور لڑائی بھڑائی کا فن سیکھنے پر پوری توجہ کرنی چاہیے ،کیونکہ اس کو ملک شام کا بادشاہ   بنتا ہے۔ مگر شہزادہ ایک کان سے بادشاہ کی باتیں سنتا اور دوسرے کان سے اُڑا دیتا ۔

آخر تھک ہار کر بادشاہ نے بھی شہزادے کو سمجھانا چھوڑ دیا اور شہزادےاسد کو اس کے حال پر چھوڑ دیا ۔شہزادے اسد کو بس ایک ہی شوق تھا کہ اس کے باغ میں دنیا کے بہترین پھول موجود ہوں ۔ اس نے اپنے باغ کے لئے دنیا دینے کے ماہر ترین مالی رکھے ہوئے تھے۔ اور اس نے اپنے سپاہیوں کو پوری دنیا میں بھیج رکھا تھا کہ جہاں بھی وہ نئی قسم کا پھول دیکھیں تو ہر قیمت پر اس پھول کا پودا لے کر اس کے پاس پہنچیں۔ ہر نئے قسم کے پھول لانے والے کو بے پناہ انعام و اکرام دیتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے باغ میں اتنے خوبصورت پھول اکٹھے ہو گئے کہ شاید پرستان میں بھی ایسے پھول نہ پیدا ہوتے ہوں ۔ شہزادہ اسد سارا دن اس باغ میں گھومتا رہتا اور خوبصورت پھولوں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا رہتا۔ آج بھی وہ باغ میں گھومتا پھر رہا تھا کہ اسے ملک عدن سے ایک سپاہی کی آمد کی اطلاع ملی۔

اسے فوراً ہمارے حضور پیش کرو۔ شہزادہ اسد نے حکم دیا۔ اُسے معلوم تھا کہ سپاہی کوئی نیا پھول لے کر آیا ہو گا ۔ اس لئے اس کے چہرےپر خوشی کے آثار ابھر آئے تھے ۔ اس کی نظریں باغ  کے دروازے سے پر جمی ہوئی تھیں مگر جب اس نے ایک سپاہی کو خالی ہاتھ اندر آتے دیکھا تواس کے چہرے پر غصے کے آثار ابھر آئے۔ وہ تیز نظروں سے آتے ہوئےسپاہی کو گھورنے لگا۔سپاہی نے قریب آکر بڑے ادب سے شہزادے کو جھک کر سلام کیا۔ کیا بات ہے تم خالی ہاتھ آئے ہو ؟“، شہزادے نے بڑے سخت لہجےمیں اس سے مخاطب ہو کر پوچھا۔ شہزادہ حضور ! میں نئے پھولوں کی تلاش میں ملک عدن کے شمالی حصے میں گھومتا پھر رہا تھا کہ اچانک بھوتوں کی وادی میں جا نکلا یہ وادی یوں تو بڑی سر سبز اور خوبصورت ہے مگر وہاں ہر طرف بھیانک شکلوں والے بھوت رہتے ہیں جو انسان کو پکڑ کر کھا جاتے ہیں۔ سپاہی نے بڑے مودبانہ لہجے میں  تفصیل بتانی شروع کر دی ۔

مگر تم مجھے یہ کہانی کیوں سنا رہے ہو۔ ہوگی کوئی بھوت وادی مجھے یہ بتاؤ کہ کوئی نیا پھول لائے ہو یا نہیں ۔ شہزادے نے جھنجھلائے  ہوئے لہجے میں کہا ۔حضور ! وہی تو بتانے لگا ہوں۔ اس بھوتوں کی وادی میں ایک انتہائی خوبصورت باغ ہے۔ یہ باغ بھوتوں کی شہزادی کا ہے۔ اس باغ میں اس قدر نایاب اور عجیب و غریب پھول ہیں کہ جن کا آپ نے کبھی خواب میں بھی تصور نہ کیا ہو گا ۔ سپاہی نے سرجھکاتے ہوئے کہا۔

AreeBTLM


کیا کہہ رہے ہو گستاخ ؟ اس وقت دنیا میں ہمارے باغ سےزیادہ خوبصورت باغ نہیں ہو سکتا۔ تم جھوٹ بول رہے ہوا اور تمہیں اس جھوٹ کی عبرتناک سزا ملے گی ی۔ شہزادے نے انتہائی غصیلے لہجے میں کہا۔ حضور ! آپ بے شک مجھے قتل کرا دیں لیکن میں نے اپنی آنکھوں سےوہ باغ دیکھا ہے۔ آپ یقین کریں ، وہاں پر اتنے خوبصورت پھول ہیں کہ آپ بھی دیکھ کر دنگ رہ جائیں گے ۔سپاہی نے بڑے اعتماد بھرےلہجے میں جواب دیتے ہوئے کہا۔یہ بات ہے تو ہم اس باغ کے تمام پھول اپنے باغ میں لے آئیں گے۔ ہرقیمت پر ، شہزادے نے کہا۔ اچھا تم بتاؤ کہ پھر کیا ہوا ۔؟

حضور! جب میں بھوتوں کی وادی میں داخل ہوا تو بھوتوں نے مجھے پکڑ لیا اور پھر وہ مجھے اپنی شہزادی کے پاس لے گئے۔ شہزادی اس وقت اپنے باغ میں گھوم پھر رہی تھی شہزادی نے جب مجھ سے پوچھا کہ میں کون ہوں اور اس وادی میں کیسے آیا ہوں؟ تو میں نے آپ کے اور آپ کے باغ کے متعلق سب کچھ بتا دیا۔ یہ سن کر شہزادی بہت خوش ہوئی۔ چنانچہ اس نے میری جان بخش  دی اور ساتھ کہا کہ میں جا کر اپنے شہزادے کو یہ بتاؤں کہ شہزادی کے باغ کے مقابلے میں شہزا دیے کا باغ کوئی حیثیت نہیں رکھتا ،چنا نچہ میں یہاں آگیا ۔ سپاہی نےساری بات تفصیل سے بتادی۔

اوہ ! تو شہزادی نے ہمیں چیلنج کیا ہے ہم اس شہزادی کو بھی قتل کر دیں گے اور اس کے باغ کے تمام پودے اکھاڑکر یہاں لے آئیں گے ۔ یہ ہمارا فیصلہ ہے ، شہزادے نے غصے سے لال پیلا ہوتے ہوئے کہا۔ مگر حضور ! وہ بھوتوں کی شہزادی ہے اور بھوت انتہائی خطرناک مخلوق ہے اور وہ ہے حد طاقتور اور ظالم ہیں۔ سپاہی نے ڈرتے ڈرتے کہا ۔ کچھ بھی ہو، چاہے ہماری جان ہی کیوں نہ چلی جاتے ہم اپنا فیصلہ نہیں بدلیں گے۔ شہزادے نے کہا اور پھر اس نے دو گھوڑے تیار کرنے کا حکم دیا۔تمہیں ہمارے ساتھ چلنا ہوگا تاکہ تم ہمیں اس وادی تک پہنچا سکو  ۔ شہزادے نے سپاہی سے مخاطب ہو کر کہا اور سپاہی نے سرجھکا دیا۔ ظاہر ہے کہ وہ اور کر بھی کیا سکتا تھا۔ پھر شہزادہ گھوڑے پر سوار ہو کر ملک عدن کی طرف چل پڑا۔ سپاہی بھی دوسرے گھوڑے پر سوار اس کے ساتھ ساتھ تھا۔ منزلوں پر منزلیں مارتے وہ دونوں ملک عدن کی طرف بڑھتے چلے گئے ۔

آخر ایک مہینے تک مسلسل سفر کرنے کے بعد وہ ایک روزملک عدن میں داخل ہو گئے اور یہاں انہوں نے ایک سرائے میں قیام کیا تا کہ کچھ روز یہاں آرام کرنے کے بعد وہ بھوتوں کی وادی کی طرف جا سکیں۔ شہزادہ اسد کھانے سے فارغ ہو کر آرام کرنے کیلئے جیسے ہی اپنے کمرے میں پہنچا اس کا سرا چانک چکرایا اور اس نے کمرے میں موجود الماری کو پکڑ کر اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کی ،مگر بے سود۔ اس کا دماغ کسی لٹو کی طرح گھومتا چلا جا رہاتھا اور پھر وہ دھڑام سے قریبی بستر پر گر گیا ،پھر جیسے ہی وہ بستر پر گرا۔ اسے یوں محسوس ہوا کہ جیسے بستر اپنی جگہ سے اُچھلا اور پھر ہوا میں تیرنے لگا۔ کمرے کی دیواریں غائب ہو گئیں اور شہزادہ بستر سمیت بڑی تیزی سے فضا میں اُڑتا چلا گیا ۔ شہزادہ بے حس و حرکت بستر پر پڑا ہوا تھا اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں مگر وہ حرکت کرنے سے معذور تھا البتہ وہ کھلی آنکھوں کے ساتھ اردگرد کا منتظر بخوبی دیکھ رہا تھا۔

بستر فضا میں اُڑتا ہوا پہلے تو بہت زیادہ بلندی پر چلا گیا اور پھر انتہائی تیز رفتاری سے شمال کی طرف بڑھتا چلا گیا۔ شہزادہ حیران تھا کہ آخر اسکے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ مگر وہ بے بس تھا۔ تھوڑی دیر بعد بستر ایک جگہ رک گیا اور پھر آہستہ آہستہ نیچے اُترنے لگا۔ یہاں ہر طرف ہلکی ہلکی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ ایسی روشنی جیسے صبح طلوع ہونے والی ہوا ور پھر بستر زمین پر اتر کر ٹھہر گیا اور اسکے ساتھ ہی شہزادے اسد کی تمام بے حسی بھی یکدم دور ہوگئی اور وہ اُچھل کر بستر سے نیچے اُتر آیا۔وہ حیرت سے چاروں طرف دیکھ رہا تھا۔ یہ وادی انتہائی خوبصورت اور سرسبزتھی مگر وہاں نہ ہی کوئی پرندہ نظر آر ہا تھا اور نہ کوئی جانور۔

شہزادہ اسد پہلے تو ادھر اُدھر دیکھتا رہا پھر اُسے دور پانی کی چمک نظر آئی۔ یہ کوئی بہت بڑی جھیل تھی۔ شہزادہ اسد اس جھیل کی طرف بڑھتا چلا گیا۔ کافی دیر تک چلنے کے  بعدشہزادہ آخر کار جھیل کے کنارے پہنچ گیا۔ دوسرے لمحے حیرت اور اشتیاق سے اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اس نے جھیل میں ایک انتہائی خوبصورت کشتی کو تیرتے ہوئے دیکھا ۔ کشتی کے اوپر سونے کا بنا ہوا ایک انتہائی خوبصورت سائبان تھا جس کے نیچے ایک خوبصورت لڑکی بیٹھی پھول سونگھ رہی تھی در کشتی کو ایک سانولےرنگ کی کنیز ایک چپو کی مدد سے چلا رہی تھی ۔کشتی جھیل کی پرسکون سطح پر آہستہ آہستہ ہلکورے لیتی ہوئی آگے کی طرف بڑھتی چلی جا رہی تھی۔

شہزادہ اسد نے اتنی خوبصورت لڑ کی آج تک نہ دیکھی تھی اس لئے وہ حیرت کے مارے بُت بنا اسے مسلسل دیکھتا رہا۔ جھیل کے پیچھے وہی سر سبز وادی پھیلی ہوئی تھی اور گھنے درختوں کے جھنڈ صاف نظر آرہے تھے۔ا بھی شہزادہ اس دکشتی کو دیکھ ہی رہا تھا کہ اچانک ایک زور دار گونج کی آواز سنائی دی اور ساتھ ہی ایک خوفناک قہقہہ بھی سنائی دیا۔ دوسرے لمحے شہزادے کے حلق سے بے اختیار ایک چیخ نکل گئی کیونکہ اس نے جھیل کے پیچھے  درختوں کے گھنے جھنڈ میں ایک بھیانک شکل کو ابھرتے دیکھا۔ یہ خوفناک شکل کسی دیو کی مانند تھی۔ اس کے سر پر دو سینگ بھی تھے۔ اس بھیانک چہرے کے ساتھ ساتھ دو ہاتھ اوپر کو نکلے ہوئے تھے۔۔اس ساتھ ساتھ شہزادے کی چیخ سن کر کشتی میں بیٹھی ہوئی لڑکی یکدم چونک پڑی اور اس نے مڑ کر تیزی سے پیچھے گھنے درختوں کے جھنڈ کی طرف دیکھا اور پھر اس کی نظریں جھیل کے کنارے پر کھڑے ہوئے شہزادہ اس پر پڑیں۔ اس نے تیزی سے کشتی چلانے والی کنیز کو کہا اور کنیز پھرتی سے کشتی میں کھڑی ہوگئی اور اس نے درختوں کے جھنڈ کی طرف رخ کر کے اپنا ایک ہاتھ فضا میں لہرایا اور اسکے ہاتھ لہراتے ہی ایک بار پھر زوردار گونج پیدا ہوئی اور درختوں کے جھنڈ کے سامنے اُبھرنے والی خوفناک شکل اچانک غائب ہو گئی۔ بھیانک شکل کے غائب ہوتے ہی کنیز نے دوبارہ چیو سنبھال لیا اور پھر کشتی کو انتہائی تیزی سے چلانے لگی۔

اب کشتی کا رخ اس کنارے کی طرف تھا جدھر شہزادہ اسد کھڑا ہوا تھا۔ چند ہی لمحوں میں کشتی کنارے پر پہنچ گئی اور کشتی میں موجود لڑ کی اُٹھ کر کنارے پر آگئی ،تم ملک شام کے شہزادے اسد ہو یا لڑکی نے بڑے ترنم کے ساتھ شہزادے اسد سے مخاطب ہو کر کہا۔ ” ہاں خوبصورت لڑکی ! ہم ملک شام کے شہزادہ اسد ہیں ، مگر تم کون ہو اور مجھے کیسے جانتی ہو ؟ ، شہزادےنے حیرت بھرے لہجے میں جواب دیتے ہوئے کہا۔ ہم اس وادی کی شہزادی حسن آرا ہیں۔ ہمیں معلوم ہو گیا تھا کہ تم ملک عدن کی سرائے میں پہنچ گئے ہو۔ اس لئے ہمارے حکم پر تمہیں بستر سمیت یہاں لے آیا گیا ہے یہ شہزادی حسن آرا نے اٹھلاتے ہوئے کہا ۔ یہ کون سی وادی ہے ؟“ شہزادے نے حیرت بھرے لہجے میں خوبصورت وادی کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔ یہ بھوتوں کی وادی کہلاتی ہے ۔ شہزادی نے مسکراتے ہوئے جواب یا۔ ارے باپ رے ، یہ بھوتوں کی وادی ہے اور تم بھوتوں کی شہزادی ہو مگر تم بے حد خوبصورت ہو جبکہ درختوں کے جھنڈ میں جو بھوت نمودار ہوا تھا وہ تو انتہائی خوفناک اور بد شکل تھا یا شہزادے نے خوفزدہ لہجے میں جواب دیا۔

ہاں ! وہ ہمارا پہرے دار بھوت تھا۔ اس نے سمجھا تھا کہ شاید تم ہمیں نقصان پہنچانے کی نیت سے یہاں آئے ہو مگر ہم نے اسے واپس بھیج دیا ہے کیونکہ ہم نے تو تمہیں خود بلوایا ہے ۔ شہزادی نے جواب دیا۔ تو کیا بھوتوں کی عورتیں تم جیسی خو بصورت شکلوں والی ہوتی ہیں۔ شہزادے نے پوچھا۔ارے نہیں بھولے شہزادے ! میں بھوت نہیں ہوں ۔ بھوتوں میں صدیوں سے رواج ہے کہ ان کا بادشاہ اور ملکہ آدم زاد ہوتے ہیں۔ میں آدم زاد ہوں۔ یہ کنیز بھی آدم زاد ہے۔ بھوتوں کی عورتیں تو بھوتوں کی طرح ہی بد شکل ہوتی ہیں شہزادی نے ہنستے ہوئے جواب دیا ۔اوہ !میں سمجھ گیا۔ ہاں شہزادی ! مجھے سپاہی نے بتایا تھا کہ تمہارے باغ میں دنیا کے خوبصورت ترین اور نایاب پھول ہیں جبکہ ہمارا دعویٰ ہے کہ ہمارے باغ سے زیادہ خوبصورت پھول دنیا میں اور کسی کے پاس نہیں ہیں؟ شہزاد ہے اسد نے کہا۔

شہزادے ! اُونٹ جب تک پہاڑ کے نیچے نہیں آتا وہ بھی اپنے آپ کو دنیا میں بلند چیز سمجھتا ہے ۔ آؤ میرے ساتھ ! میں تمہیں اپنا باغ دکھاؤں پھر تمہیں پتہ چلے گا کہ تمہارا باغ کیا حیثیت رکھتا ہے ۔ شہزادی نے بڑےفخریہ لہجے میں کہا۔شہزادی اتم نے ہمارا باغ نہیں دیکھا اس لئے ایسی باتیں کر رہی ہو ،تم ایک عام سپاہیکو باغ دکھا کر مرعوب کر سکتی ہو۔ مگر ہمیں نہیں ، شہزادہ ابھی اکڑا ہوا تھا ۔ا وہ !پہلے باغ تو دیکھ لو یا شہزادی نے ہنستے ہوئے کہا۔ اور پھر شہزادے کا بازو دیکھ کر اسے کشتی میں لے آئی اور پھر اس نے کنیز کو کشتی چلانے کا حکم دیا ۔ اور کنیز نے تیزی سے کشتی چلانی شروع کر دی ۔ تھوڑی تھو دیربعد شہزادی جھیل کے دوسرے کنارے پر پہنچ گئی اور شہزادی ، شہزادے کا ہاتھ پکڑے نیچے اتر آئی اور پھر وادی میں آگے بڑھتی چلی گئی۔

ایک پہاڑی کے قریب پہنچ کر شہزادی نے زور سے تالی بجائی۔ دوسرے لمحے پہاڑی کا ایک حصہ کسی صندوق کے ڈھکن کی طرح اوپر اٹھتا چلا گیا۔ سامنے سونے کا بنا ہواایک خوبصورت دروازہ تھا۔ دروازے کے باہر دو خوبصورت عورتیں کھڑی تھیں شہزادی کے اشارے پر عورتوں نے دروازہ کھول دیا اور پھر شہزادی، شہزادےاسد کو لئے دروازے میں داخل ہو گئی۔ یہ ایک انتہائی خوبصورت باغ تھا۔ جہاں اتنے خوبصورت پھولوں کے تختے موجود تھے کہ شہزادہ اسد کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔ وہ خواب میں بھی نہ سوچ سکتا تھا کہ دنیا میں اس قدر خوبصورت پھول بھی ہو سکتے ہیں ۔ وہ کسی معصوم بچے کی طرح ایک ایک پھول کےقریب جاتا، اُسے آنکھیں پھاڑ کر دیکھتا ، اسے چھو کر دیکھتا۔ اور پھران کی خوشبو سونگھتا۔

شہزادی ایک جگہ کھڑی بڑی دلچسپ نظروں سے شہزادے کی حرکتیں دیکھ رہی تھی ۔ شہزادہ بچوں کی طرح دوڑ دوڑ کر ایک ایک پھول کے پاس جاتا اور اسے کافی دیر تک دیکھتا رہتا۔تقریباً ایک گھنٹے بعد شہزادہ اٹھا اور پھر وہ شہزادی کی طرف آیا۔ اور پھر جو اس دوران ایک خوبصورت کرسی پر بیٹھ چکی تھی۔ اس کے قریب ہی ایک اورخوبصورت کرسی موجود تھی ۔ واقعی شہزادی  تمہارا باغ ،دنیا میں سب سے خوبصورت ہے۔ہمارا باغ تو اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ۔ شہزادے نے بڑےشرمندہ سے لہجے میں کہا۔ اور پھر کرسی پر بیٹھ گیا۔ اب معلوم ہوا شہزادے کہ باغ کسے کہتے ہیں؟ شہزادی نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ہاں شہزادی ! ہم اپنے دعویٰ پر شرمندہ ہیں۔

ہم خواہ مخواہ اپنے باغ پر غرور کرتے تھے۔ کاش !یہ باغ ہمارا ہوتا ۔ شہزادے نےحسرت بھری نظروں سے باغ کو دیکھتے ہوئے کہا۔ شہزادے تم نے کبھی غور کیا ہے کہ دنیا میں سب سے خوبصورت پھول کون سا ہے ؟ شہزادی نے مسکراتے ہوئے کہا۔سب سے خوبصورت پھول تمہارے باغ میں موجود ہو گا ۔شہزادی اس سے زیادہ خوبصوت پھولوں کا تو تصوربھی نہیں کیا جا سکتا ۔شہزادے نے جواب دیا ۔اور پھر شہزادی نے زور سے تالی بجائی اور اس کے تالی بجاتے ہی دو بد شکل بھوت وہاں نمودار ہو گئے ۔ "شہزادے اسد کو اس کے بستر پر پہنچا دو"۔ شہزادی نے اُٹھتےہوئے کہا۔اور بد شکل بھوتوں نے شہزادے اسد کو یوں اٹھا لیا جیسےبچے کسی کھلونے کو اٹھا لیتے ہیں۔

ارے ارے !مجھے چھوڑ دو ،شہزادے اسد نے چیختے ہوئے کہا۔ مگر بھوت بھلا کہاں اس کی بات سنتے تھے۔ وہ اسے اٹھا کر باغ سے باہر لے آئے اور پھر تھوڑی دیر بعد انہوں نے اسے زمین پر موجود اس کے بستر پر پھینک دیا۔ اور اس کے ساتھ ہی شہزادے کاجسم بے حس و حرکت ہو گیا اور بستر دوبارہ فضا میں بلند ہوتا چلا گیا ۔ تھوڑی دیر بعد جب بستر واپس نیچے اتر کر زمین پر ٹھہرا توشہزادہ اسداُ چھل کر بستر پر بیٹھ گیا۔

شہزادہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ سرائے کے اسی کمرے میں موجود تھا اور دیواریں اسی طرح صحیح و سالم تھیں ۔ کمرے کا دروازہ بھی اسی طرح اندر سے بند تھا ۔جس طرح اس نے کمرے میں داخل ہوتے وقت اسےبند کیا تھا۔شہزادہ کافی دیر تک اس واقعہ پر غور کرتا رہا کبھی تو اُسے خیال آتا کہ یہ سب کچھ خواب تھا مگر شہزادی کے باغ کا منظر جب اس کی آنکھوں کے سامنے آتا تو اُسے سب کچھ حقیقت معلوم  ہوتا۔آخر کار شہزادہ سمجھ گیا کہ یہ سب کچھ خواب نہ تھا بلکہ بھوتوں  کی شہزادی حُسن آرا کا کارنامہ تھا کہ وہ اپنی پُر اسرار طاقتوں کے ساتھ اُسے بستر سمیت اُٹھا کر لے گی اور پھر باغ دیکھا کر اسے واپس سرائے کے کمرے میں بھیج دیا۔

۔۔۔ختم شد۔۔۔

Dhokeybaaz

دھوکے باز

انتخاب:        عافیہ انصاری

ایک دفعہ ایک چالاک اور دھوکے باز شخص نے، کہیں سے ایک گدھا چوری کیا اور اسے فروخت کرنے کے لیے قریبی بازار لے گیا، بازار جانے سے پہلے اس نے گدھے کے منہ میں اشرفیاں ٹھونس کر کپڑے سے اچھی طرح بند کر دیا۔

بازار کی پر ہجوم جگہ پر کھڑے ہوکر اس نے گدھے کے منہ سے کپڑا ہٹا دیا، جیسے ہی کپڑا ہٹا گدھے کے منہ سے اشرفیاں نکل کر زمین پر گرنے لگیں، سکّوں کی چھنکار سن کر لوگ متوجہ ہوگئے، اور حیران ہوکر پوچھنے لگے کہ گدھے کے منہ سے سکے وہ بھی سونے کے ؟ یہ کیا ماجرا ہے؟

دھوکے باز کہنے لگا، بھائیو یہ ایک عجیب و غریب گدھا ہے اور میں اس سے بہت تنگ ہوں، میں جب بھی پریشان یا اُداس ہوتا ہوں تو دن میں ایک بار اس کے منہ سے سونے کی اشرفیاں گرنے لگتیں ہیں، اب تو میرے گھر میں اشرفیاں رکھنے کی جگہ بھی نہیں بچی، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ اسے کوئی ضرورت مند اور جانوروں سے پیار کرنے والا تاجر خرید لے، لوگوں نے اشرفیاں گرتی ہوئی اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں تھیں اور باقی کا قصہ سُن کر ہر کسی کی خواہش یہی تھی کہ یہ گدھا جتنے میں بھی مل جائے سستا ہے۔

ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر بولیاں لگاتے ہوئے، آخر کار ایک بڑے تاجر نے خطیر رقم کے عوض اسے خرید لیا، فروخت کرنے والے نے، رقم اور زمین پر گرے ہوئے سکے سمیٹے اور گھر چلا گیا۔جس تاجر نے گدھا خریدا تھا، وہ فخر سے گردن اکڑائے ہوئے چل رہا تھا اور اہل قریہ اس کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے اس کے گھر تک پہنچ گئے، سارے لوگ مل کر اُداس اور پریشان شکلیں بنا کر گدھے کے ارد گرد بیٹھ گئے، لوگ گھنٹوں بیٹھ کر انتظار کرتے رہے اور بالآخر وہ سچ مچ پریشان ہوگئے، اس دوران گدھا جو کب سے بھوکا تھا اس نے خوب چاراکھایا مگر ایک سکہ تک نہ گرا۔ آخر وہاں سے کسی دانا کا گزر ہوا۔ اس نے بتایا کہ تمھارے ساتھ دھوکا ہوچکا ہے،  اس سے پہلے کہ فروخت کرنے والا بھاگ جائے، فوراً            اس دھوکے باز کو پکڑو۔وہ تاجر اور اہل قریہ اکٹھے ہو کر جب اس دھوکے باز کے گھر کے باہر پہنچے اور دروازہ کھٹکھٹا کر اس کے متعلق استفسار کیا تو اندر سے اس دھوکے باز کی بیوی نے کہا کہ وہ تو کہیں کام سے دوسرے گاؤں گئے ہوئے ہیں، آپ باہر ہی انتظار کریں میں اپنا پالتو کتا بھیجتی ہوں، یہ جاکر انہیں آپ کے متعلق بتائے گا اور انہیں ہر صورت ساتھ بھی لیکر آئے گا، لوگ دلچسپی سے دیکھنے اور سوچنے لگے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کتا اپنے مالک کو گھر لائے۔

https://teachingadds.blogspot.com


دراصل اس چالاک شخص نے جب دیکھا کہ تمام لوگ اس کے گھر کے باہر جمع ہیں تو اس نے اپنی بیوی کو کتے والی پٹی پڑھائی، گھر میں پہلے سے بندھے ہوئے کتے کو آزاد کیا اور خود گھر کی پچھلی سمت سے چپکے سے نکل گیا، دور جاکر اس نے کتے کو پکڑ لیا اور اس کے ساتھ واپس گھر کی طرف چل دیا۔

تھوڑی دیر گزری تو لوگوں کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ وہی شخص جس نے گدھا فروخت کیا تھا، اسی کتے کے پیچھے پیچھے چلتا ہوا آرہا تھا۔ اب سارے لوگ یہ بات بھول کر کہ وہاں کیوں آئے ہیں،  کتے کے متعلق پوچھنے لگے کہ یہ کتا تو بڑے کام کا ہے، بتاؤ یہ کتنے کا ہے؟ اسے تو ہر صورت خریدنا ہوگا۔

اس دھوکے باز اور چالاک شخص نے پہلے تو انکار کیا لیکن بعد میں اچھے دام ملنے پر وہ کتا اسی ہجوم میں سے ایک دوسرے تاجر کو فروخت کردیا۔اب لوگ ٹولی کی شکل میں صرف یہ دیکھنے کے لیے کہ کتا گھر سے گئے ہوئے شخص کو کیسے واپس لے کر آتا ہے اس تاجر کے ساتھ چلتے گئے۔تاجر نے گھر جاکر غلام کو کہا کہ تم ساتھ والے گاؤں جاؤ تاکہ کتا تمھیں ڈھونڈ کر واپس لے آئے۔

غلام جیسے ہی دوسرے گاؤں پہنچا وہاں سے بھاگ نکلا اور کتا بھی کہیں دور چلا گیا جو واپس نہ آیا. جب غلام اور کتا دونوں واپس نہ آئے تو لوگوں کو پتا چل گیا کہ یہ ایک بار پھر ہمارے ساتھ دھوکا ہوگیا ہے۔وہ دوبارہ اکٹھے ہوکر جب اسی دھوکے باز کے گھر گئے تو وہ ایک بار پھر گھر کے پچھلے خفیہ دروازے سے بھاگ نکلا، اور اس کی بیوی کہنے لگی وہ ساتھ والے گاؤں کسی کام سے گئے ہوئے ہیں، لوگوں نے کہا کہ آج ہم اسکا گھر کے اندر بیٹھ کر انتظار کریں گے، اور یوں دونوں تاجروں سمیت ارد گرد کے تمام لوگ اس کے گھر میں بیٹھ گئے، کافی دیر جب گزر گئی تو وہی دھوکے باز گھر میں داخل ہوا اور وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں کو دیکھ کر چاپلوسی سے کام لیتے ہوئے ان کے سامنے جھک جھک کر آداب بجا لانے لگا،

  بیوی سے پوچھنے لگا کہ میرے خاص مہمانوں کی تکریم میں تم نے کیا کیا؟ ان مہمانوں کو کچھ کھانے پینے کو دیا یا بھوکا ہی بٹھایا ہوا ہے؟ وہ لوگ دل ہی دل میں شرمندہ ہونے لگے کہ ہم جسے دھوکے باز سمجھ رہے ہیں وہ تو بڑا سخی اور مہمان نواز بندہ ہے، اس کی بیوی نے انکار میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ ان فضول اور فالتو لوگوں کو کون اپنا مہمان بناتا ہے، میں نے تو انہیں پانی تک نہیں پوچھا، یہ سن کر وہ شخص غصے میں پاگل ہوگیا اور جیب سے ایک خنجر نکال کر بیوی کے پیٹ میں گھونپ دیا، فوراً لہو بہہ نکلا اور اور اس کی بیوی لہرا کر نیچے فرش پر گر پڑی، وہاں بیٹھے ہوئے لوگ اسے برا بھلا کہنے لگے کہ ہمارے پیسوں کو تو رہنے دو لیکن ہمارے لیے اپنی بیوی کو قتل کرنا کہاں کی دانشمندی ہے، وہ چالاک اور دھوکے باز کہنے لگا، آپ لوگ فکر نہ کرو یہ ہمارا روزانہ کا کام ہے، میں اسے غصے میں آکر قتل کردیتا ہوں تو دوبارہ اس سینگ سے زندہ بھی کردیتا ہوں، یہ کہتے ہوئے اس نے دیوار پر ٹنگے ہوئے کسی جانور کے بڑے سے سینگ کی طرف اشارہ کیا، پھر وہ سینگ اتارا اور مری ہوئی بیوی کے پاس بیٹھ کر سینگ کو منہ میں دبا کر سپیروں کی طرح جھوم جھوم کر پھونک مار کر بجانے لگا، تھوڑی دیر بعد وہی مقتولہ جو کچھ دیر پہلے سب کے سامنے خنجر کے وار سے ہلاک ہوچکی تھی، اپنے زخم پر ہاتھ رکھے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی،

 تمام لوگ حیرت زدہ رہ گئے، اور ایک بار پھر وہ سب یہ بات بھول کر کہ یہاں کیوں آئے ہیں، اس سینگ کو خریدنے کے درپے ہوگئے، دھوکے باز نے بولی بڑھانے کی خاطر کہنا شروع کردیا کہ یہ طلسماتی سینگ پوری دنیا میں ایک ہی ہے جو صرف میرے پاس ہے اور میں اسے کسی بھی قیمت پر فروخت نہیں کروں گا، کرتے کرتے ایک بڑے تاجر نے سب سے زیادہ رقم ادا کرکے وہ سینگ خرید لیا، اور سینگ خرید کر وہ  لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔

جس نے سینگ خریدا تھا، کہنے لگا، میں جو اپنی بیوی کی چخ چخ سے تنگ ہوں، آج اگر اس نے لڑائی کی تو مار دوں گا اور رات سکون سے گزار کر صبح سینگ کی مدد سے زندہ کرلوں گا، لیکن درحقیقت اس دھوکے باز نے جب اپنے گھر کے باہر لوگوں کا اکٹھ دوبارہ دیکھا تو فوراً منصوبہ بنا کر اس میں اپنی بیوی کو شامل کرلیا، لال رنگ کو ایک تھیلی میں ڈال کر بیوی کے کپڑوں میں چھپا دیا، پھر ایک خنجر لیا جس کے دستہ میں خفیہ خانہ اور ایک بٹن تھا جس کو دبانے سے خنجر کا پھل اپنے دستے میں غائب ہوجاتا تھا اور ایک پرانا بیکار سینگ لیکر دیوار پر ٹانگ دیا اور خود گھر کے خفیہ رستے سے نکل کر تھوڑی دیر روپوش رہ کر واپس آگیا، اور پھر بیوی کو زندہ کرنے کا ڈرامہ رچا کر بیکار سینگ فروخت کردیا تھا۔

جس نے سینگ خریدا تو جیسے ہی گھر پہنچا تو اس کی بیوی نے حسب معمول لڑائی شروع کردی اس نے بے فکر ہو کر خنجر نکالا اور بیوی کے پیٹ میں گھونپ دیا، خون نکلا، وہ تڑپی اور ٹھنڈی ہوگئی۔ اس نے اٹھا کر کمرے میں لٹا دیا اور پوری رات ایسے ہی رہنے دیا، صبح اٹھ کر اس نے بہتیرا سینگ کو مختلف طریقوں سے بجایا مگر وہ تو مردہ ہوچکی تھی، دھیرے دھیرے اسے اپنی بیوقوفی کا احساس ہونے لگا، وہ پچھتاوے کے احساس کے ساتھ گھر سے نکلا تو باہر تمام لوگ اس کے منتظر تھے کہ پتا کریں رات کیا بیتی اور سینگ نے کیا کمال دکھایا۔ وہ شخص دکھ اور شرمندگی کو چھپانا چاہ رہا رہا تھا مگر کچھ لوگوں نے جب اصرار کیا تو اصل بات اگلوا ہی لی۔ اب کی بار انہوں نے پکا ارادہ کر لیا کہ اس نوسرباز کی کسی بات میں نہیں آنا، اور اس کو دیکھتے ہی قابو کرکے ایک بوری میں بند کرکے سمندر برد کر دینا ہے۔

سب نے اس پر اتفاق کیا، ایک بار پھر وہ لوگ اکٹھے ہوکر اس دھوکہ باز کے گھر پہنچے اور اندر جاکر اسے قابو کرلیا، بڑی سی بوری میں ڈال کر سمندر کی طرف چل دیئے۔سمندر وہاں سے کافی دور تھا، بوری میں بند دھوکہ باز شخص کو باری باری اٹھاتے ہوئے وہ سب لوگ تھک گئے تھے، سمندر سے نصف فاصلے پر پہنچ کر انہوں نے کہا کہ تھوڑی دیر سُستا لیتے ہیں، اس کے بعد آرام سے اسے پانی میں پھینک دیں گے۔ وہ لوگ تھکے ہوئے تھے، اس لیے جیسے ہی آرام کرنے کے لیے رُکے تو انہیں نیند نے آلیا اور وہ بے فکر ہو کر سو گئے۔

بوری میں بند شخص نے بھوک اور پیاس سے بے حال ہوکر چیخنا چلانا شروع کردیا، مگر وہ تمام لوگ تو خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے، اسی اثناء میں وہاں سے ایک چرواہے کا گزر ہوا اس نے دیکھا کہ لوگوں کا جم غفیر آڑھا ترچھا ہوکر سو رہا ہے، اور ایک طرف پڑی بوری سے چیخنے چلانے کی آوازیں آرہی ہیں۔

اس نے بھیڑ بکریوں کو ایک طرف کھڑا کیا اور آگے بڑھ کر جب بوری کھولی تو اس نے دیکھا کہ اس کے اندر تو کوئی شخص بند ہے، چرواہے نے پوچھا کہ اے شخص !تو کون ہے؟ یہ ارد گرد سوئے ہوئے لوگ کون ہیں؟ اور تجھے بوری میں کیوں بند کیا ہوا ہے، یہ ماجرا کیا ہے؟دھوکے باز نے کہا سنو یہ تمام لوگ میرے خاندان کے ہیں، یہ میری شادی سمندر پار ایک شہزادی سے زبردستی کرانا چاہتے ہیں، مگر مجھے مال و دولت کی ذرا بھی ہوس نہیں ہے، میں تو اپنی چچا زاد لڑکی سے محبت کرتا ہوں۔ چرواہا اسکی باتیں سن کر بڑا متاثر ہوا، اور کہنے لگا بتاؤ کیا میں تمھارے کسی کام آسکتا ہوں؟ دھوکے باز کہنے لگا ہاں ہاں کیوں نہیں، تم میری جگہ اس بوری میں آجاؤ، اور جب شہزادی کے سامنے بند بوری کھلے گی تو پھر اس کا تم سے شادی کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔چرواہا یہ سن کر خوش ہوگیا اور ہنسی خوشی اس دھوکے باز کی جگہ بوری میں بند ہوکر بیٹھ گیا۔ دھوکے باز نے وہاں سے چرواہے کی بھیڑ بکریوں کو ساتھ لیا اور واپس اپنے گھر آگیا۔

وہ لوگ جب نیند سے بیدار ہوئے تو انہوں نے بوری کو اٹھایا اور چلتے چلتے آخر کار سمندر میں پھینک دیا، اور مطمئن ہوکر اپنے اپنے گھروں کو لوٹ آئے۔اگلے دن انہوں نے دیکھا کہ دھوکے باز شخص کے گھر کے باہر تین چار سو کی تعداد میں بھیڑ بکریاں بندھی ہوئی ہیں۔ وہ بڑے حیران ہوکر جب وہاں گئے تو دیکھا کہ جس کو سمندر میں پھینک کر آئے تھے وہ تو گھر میں بیٹھا اپنی بیوی سے گپیں لڑا رہا ہے۔انہوں نے تعجب سے پوچھا کہ، ہم نے تو تمھیں کل سمندر میں پھینکا تھا، اور آج تم صحیح سلامت اپنے گھر میں ہو اور باہر بھیڑ بکریوں کا ریوڑ بھی ہے؟

وہ دھوکے باز شخص کہنے لگا، جب تم لوگوں نے مجھے سمندر میں پھینکا تو وہاں سے ایک جل پری نمودار ہوئی اور وہ مجھے اپنے ساتھ زیر سمندر بنے گھر میں لے گئی، وہاں ہیرے جواہرات اور موتیوں سے بنے ہوئے بے شمار محل اور ہزاروں کی تعداد میں مال مویشی تھے۔

جل پری نے مجھے مہمانوں کی طرح رکھا اور میری خوب خاطر مدارات کی، وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتی تھی اور وہاں کا حاکم بنانا چاہتی تھی ، مگر جب میں نے کہا کہ میری پہلے سے ایک بیوی ہے اور میں اپنے گھر جانا چاہتا ہوں تو اس نے کہا کوئی بات نہیں اور اپنی طرف سے بھیڑ بکریوں کا تحفہ دیکر کہنے لگی کہ اگر تمھارے علاقے میں کوئی ایسا ہوا جو یہاں کی جل پریوں سے شادی کرکے یہاں عیش و عشرت کی زندگی گزارنا چاہتا ہو تو اسے یہاں لے آنا، یہ بات سننے کی دیر تھی کہ وہاں آئے ہوئے تمام بوڑھے اور جوان کہنے لگے ہم وہاں جانا چاہتے ہیں اور وہاں جاکر حاکم بننا چاہتے ہیں۔

اس دھوکے باز شخص نے کہا کہ تم تو صرف چند افراد ہو اگر اس قصبے کے تمام لوگ بھی وہاں چلے جائیں تو پھر بھی کم ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم قصبے کے ہر شخص کو اپنے ساتھ جانے کے لیے راضی کرلیں گے، دھوکے باز نے کہا ٹھیک ہے کل صبح کے وقت سمندر کے کنارے ہر شخص اپنے لیے ایک بوری اور ایک رسی لیکر پہنچ جائے، اور وہاں پہنچ کر ہر شخص ایک دوسرے کو بوری میں بند کرنے میں مدد کرے گا۔

اگلے روز صبح کے وقت دھوکے باز شخص نے سب کو بوری میں بند  کیا اور اپنی بیوی کی مدد سے تمام بوریوں کو سمندر میں پھینک دیا۔ اس کے بعد وہ بیوقوفوں کے قصبے کا تن تنہا مالک بن گیا۔۔۔۔۔

۔۔۔ختم شُد۔۔۔۔

Shahezadi Ka Enam

 انتخاب: 

شہزادی کا انعام

 

ملک شمان کے بادشاہ اشلو کی بیٹی شہزادی نونا بہت ذہین اور حسین تھی ، چنانچہ آس پاس کی ریاستوں کے سارے شہزادے اُس سے شادی کرنا چاہتے تھے۔ جس کی وجہ سے اشلو بادشاہ بے حد پریشان تھا ۔ اُس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس مصیبت سے کیسے جان چھڑائے۔ کیونکہ جن شہزادوں سے وہ انکار کرتا وہ اُس کے دشمن ہو جاتے اور غصے میں آکر اُس کے ملک پر چڑھائی کر دیتے ۔ آخر سوچ سوچ کر جب وہ تھک گیا تو اُس نے اپنے بڑے وزیر کو کل کو طلب کر لیا اور اُس سے اس مسئلے کا حل پوچھا ۔ کو کل وزیر بہت سیانا اور عقلمند تھا۔ اُس نے اشلو بادشاہ کی پریشانی سن کر کہا : " جہاں پناہ اگر جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں ؟ "

اشلو بادشاہ نے فوراً  اُسے جان کی امان دےدی ۔ " تمہیں امان دی جاتی ہے ۔ کہو کیا کہنا چاہتے ہو" ؟

جواب میں کو کل وزیر ہاتھ باندھ کر بولا :" جہاں پناہ اس مسئلے کا حل اس ناچیز کے ذہن میں یہ آیا ہے کہ آپ شہزادی صاحبہ کی شادی اس طرح نہ کریں ، بلکہ تمام شہزادوں کا مقابلہ کرایا جائے، اس میں جو شہزادہ جیت جائے شہزادی کی شادی اُس سے کر دیجئے گا۔ اس طرح باقی شہزادوں کو کوئی گلہ نہیں رہے گا ۔"

اشلو بادشاہ کو کو کل وزیر کی یہ تجو یز بہت پسند آئی، چنانچہ شہزادی نونا کو بلا کر اس ترکیب سے آگاہ  کردیا اور بولا :"نونا بیٹی ! ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ تمہاری شادی کے لئے تمام شہزادوں میں مقابلہ کرایا جائے اور اس میں جو شہزادہ جیتے گا، اُس سے تمہاری شادی کردی جائے ۔ اس بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟"

 " ابا حضور ! میں اس معاملے میں بھلا کیا رائے دے سکتی ہو ہوں ؟  آپ جو فیصلہ کریں گے وہ میرےلئے بہتر ہی ہوگا۔ "

شہزادی نونا نے جواب دیا ۔ بادشاہ اشلو اپنی بیٹی کی فرمانبرداری سے بہت خوش ہوا ، اور اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیر کر بولا: شاباش بیٹی ! تم نے یہ کہہ کہ ہمارا دل خوش کر دیاہے۔ پھر بھی ہم تم سے پوچھ رہے ہیں کہ شادی کرنےکے لئے ہمیں یہ طریقہ منظور ہے ؟ " شہزادی نونا اپنے باپ کی پریشانی سمجھ گئی تھی اس لئے گردن جھکالی بولی :مجھے منظور ہے ابا حضور ! " تو ٹھیک ہے ان شرطوں کو تیار کرو جنہیں شہزادوں کے آگے رکھا جائے گا ۔ جو شہزادہ ان شرطوں کو پورا کر دے گا وہی تمہارا دو لہا ہو گا۔ اشلوبادشاہ نے جلدی سے کہا ۔ " میں اکیلی شرطیں تیار نہیں کر سکوں گی ابا حضورمجھے اجازت دیجئے کہ میں اپنی مدد کے لئے کو کل وزیر کی صاحبزادی شومی کو بلالوں ۔ شہزادی نونا باپ کی گردن میں بانہیں ڈال کر بولی۔ضرور بلالو بیٹی ، ایک اور ایک گیارہ ہوتے ہیں۔ لیکن ذرا جلدی شرطیں تیار کرنا ، تاکہ اس کے بعد میں مقابلے کی تاریخ کا سارے ملکوں میں اعلان کردوں ۔



 آپ فکر نہ کریں ابا حضور ! میں زیادہ سے زیادہ  آٹھ گھنٹے لگاؤں گی ۔شہزادی نونا نے انتہائی سعادت مندی سے کہا۔ اس کے بعد اشلو بادشاہ نے اسے جانے کی اجازت دے دی اور وہ سیدھی کو کل وزیر کے گھر چلی گئی ، وہاں جونہی اس کی گہری سہیلی شومی نے اُسے دیکھا تو دوڑ کر اس کے گلے سے لگ گئی اور ہنس کر بولی : آج پیاری نونا کیسے راہ بھول کر ہمارے گھر آگئی ہے ! نونا مسکرا کر بولی :" آج کوئی پہلی بار آئی ہوں ۔ روز ہی تو آتی ہوں ،کیوں جھوٹ بولتی ہو " کیوں ؟

شہزادی نونا نے شرارت سے اس کے بال کھینچے ۔ پھر دونوں سہیلیاں ایک  کمرے میں جا بیٹھیں اور شہزادوں کے آگے رکھنے کے لئے شرطیں سوچنے لگیں ۔کافی دیر غور

کر نے پر بھی جب اُنہیں کوئی شرط نہ سوجھی تو وہ اُداس ہو گئیں اور غمناک آنکھوں سے ایک  دوسرے کو دیکھنے لگیں۔ اسی وقت کو کل وزیر ادھر آگیا اور اُنہیں اداس دیکھ کر حیران رہ گیا۔" ارے کیا ہوا میری بیٹیوں کو ، کیوں چہرے لٹکا کے بیٹھی ہو۔"

اُس نے باری باری دونوں کو دیکھا اور پیار سے پوچھا۔ جواب میں شومی نے جھٹ اپنے باپ کواصل بات بتادی۔

" تو اس میں فکر کرنے کی کون سی بات ہے ۔"

کو کل وزیر نے ہنس کر کہا۔ " میں تمہیں شرطیں بتا دیتا ہوں۔ یہ شرطیں ایسی ہیں جنہیں صرف ذہین اور بہادر شہزادہ ہی حل کر سکے گا۔ یہ کہہ کر کو کل وزیر اُن کے کان میں کھسر پھسر کرنے لگا جس پر دونوں سہیلیوں کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں۔اور وہ دوڑتی ہوئی بادشاہ کے پاس آگئیں ۔ اشلو بادشاہ کو جب اُنہوں نے ان شرطوں سےآگاہ کیا تو وہ بہت خوش ہوا ۔ "بھئی بہت اچھی شرطیں ہیں۔ میں تمہیں اتنی اچھی شرطیں سوچنے پر مبارک باد دیتا ہوں اور ایک ایک سچے ہیروں کا ہار بطور تحفہ دیتا ہوں" اس کے ساتھ ہی اشلو بادشاہ نے اپنے گلے میں سے بے شمار قیمت قیمتی ہاروں میں سے دو ہار نکال کر انہیں بخش دیئے ۔جنہیں پا کر دونوں سہیلیاں پھول کر کپا ہو گئیں۔ اگلے روز اشلو بادشاہ نے تمام ملکوں میں ڈھنڈورچی بھیج کر اعلان کر دیا کہ میں عنقریب اپنی اکلوتی بیٹی شہزادی نونا کی شادی کر رہا ہوں۔ شادی اُس شہزادے سے کروں گا جو ان شرطوں کو پورا کرے گا ۔ شرطیں یہ ہیں کہ کوہ قاف کی چوٹی پر رہنے والے جن کمبل کی ناک کاٹ کر لانا ہے ۔ اشلو کی جنگل سے ہرنوں کی ملکہ تانتی کوپکڑ کر لانا ہے، اور شہزادی نونا کو اسکی سہیلیوں کے جھرمٹ میں سے پہچاننا ہے۔

 تینوں شرطوں کو چودہویں رات کےچاند کے آنے سے پہلے پہلے پورا کرنا ہے۔ شہزادوں نے ان شرطوں کو سنا تو وہ انہیں پورا کرنے کیلئے فوراً روانہ ہو گئے کیونکہ شہزادی بہت خوبصورت تھی اور وہ ضرور اس سے شادی کرنا چاہتے تھے لیکن شرطیں اتنی مشکل تھیں کہ کسی سے پوری نہ ہوئیں ۔کسی شہزادے کو کوہ قاف کا جن کمبل کھا گیا اور کسی شہزادے کو اشلو کی جنگل میں رہنے والے ہرنوں نے مار دیا ۔البتہ ملک زلوم کے شہزادے تلام نے پہلی دونوں شرطیں پوری کر دیں کیونکہ وہ بہت بہادر شہزادہ تھا ۔عقلمند بھی بہت تھا۔ وہ کوہ قاف اس وقت پہنچا  جب جن کمبل نہا رہا تھا۔ شہزادہ تلام ایک بڑے پتھر کے پیچھے چھپ کر اسے نہاتے دیکھتا رہا اور جونہی اُس نے منہ پر صابن لگایا شہزادے نے جلدی سے جا کہ اُسترے سے اُس کی ناک کاٹ لی۔ کمبل جن نے زور سے چیخ مار کر آنکھیں کھول دیں اور شہزادے کو پکڑنے لگا مگر اُسکی آنکھوں میں صابن چلا گیا جس سے شہزادے کو بھاگ آنے کا موقع مل گیا۔ ہرنوں کی ملکہ تانتی کو بھی شہزادے نے عقل سے کام لے کر پکڑ لیا ۔

وہ ہری ہری گھاس کھا کر لیٹی ہوئی تھی۔ باقی ہرنیاں کے گروہ  پہرہ دے رہی تھیں کہ شہزادے نے ایک بڑے سے درخت پر چڑھ کر اور پتوں میں چھپ کرزور زور سے ہاؤ ہاؤ کرنا شروع کر دیا ۔ اُس کے اس طرح کرنے سے ملکہ تانتی کی نیند خراب ہو گئی۔

اس نے سب ہر نیوں کو حکم دیا :" جس کسی نے بھی یہ حرکت کی ہے مار مارکہ اس کی ہڈی پسلی ایک کر دو۔ یہ حکم ملتے ہی ساری ہرنیاں فوراً جنگل میں پھیل گئیں

اور شہزادے تلام کو تلاش کرنے لگیں۔

تب شہزادہ میدان صاف دیکھ کر درخت سے اتر آیا اور آہستہ آہستہ ملکہ تانتی کی طرف بڑھنے لگا ملکہ کا منہ دوسری طرف تھا ۔ لہٰذا شہزادے نےاس کے پاس پہنچ کر جھٹ اُس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا ، تاکہ ملکہ تانتی آواز نہ نکال سکے اور اُسے اُٹھا کر پھر اسی درخت پر چڑھ کے چھپ گیا۔ ملکہ تانتی نے جان چھڑانے کے لئے بہت زور لگایا مگرشہزادے نے اُسے مضبوطی سے پکڑے رکھا۔ ہرنیاں سارا جنگل گھوم کر واپس آئیں تو اپنی ملکہ کو غائب پاکر زور زور سے رونے لگیں اور پھر ڈر کر ندی کی طرف بھاگ گئیں ۔ تب شہزادہ تلام ہرنوں کی ملکہ تانتی کولے کر جنگل سے نکل آیا ۔ یوں اُس نے اشلو کی بادشاہ کی دو شرطیں پوری کر دیں ۔ اور سیدھا اُس کے دربار میں چلا گیا ۔ اشلو بادشاہ کو جب پتہ چلا کہ شہزادہ تلام نے دو شرطیں پوری کر دی ہیں تو وہ بہت خوش ہوا، کیونکہ وہ بھی یہی چاہتا تھا شادی شہزادے تلام سے ہو تا کہ اُس کی بیٹی کو  بہادر اور عقل مند نوجوان ملے۔ شہزادی نونا کو بھی بہت خوشی ہوئی۔ وہ بھی دل ہی دل میں شہزادے تلام کو پسند کرتی تھی اور اُس سے شادی کرنا چاہتی تھی ۔ جب بادشاہ نے شہزادے تلام کے آگے تیسری شرط رکھی کہ آج رات جب چودہویں رات کا چاند ہر طرف چاندنی بکھیر رہا ہوگا ۔ شہزادی نونا اپنی سہیلیوں کے ساتھ باغ کی سیر کو جائے گی، تم کو اُسے پہچانتا ہے۔

شہزادے تلام نے کہا : "ٹھیک ہے، میں اس شرط کو بھی پورا کروں گا"۔اور رات ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ رات ہوئی تو شہزادی نونا نے کنیزوں جیسا لباس پہنا جس میں اُس کی شناخت کرنا بہت مشکل ہو گیا تھا۔ سہیلیوں کو اُس نے سختی سے منع کر دیا تھا کہ وہ اُسے شہزادی صاحبہ بالکل نہ کہیں ۔ اس کی بجائے ، اُس کا نام کن کن کنیز

پکا ریں   ۔ تا کہ شہزادہ تلام اُسے پہچان نہ لے۔ وہ سہیلیاں سیر کرتی ہوئی جو نہی باغ کے فواروں پر پہنچی اور سہیلیوں کے ہمراہ شاہی باغ میں چلی گئی ۔ اب وہ با لکل شہزادی نہیں لگ رہی تھی، بلکہ اتنی سہیلیوں کے پاس پہنچیں تو وہاں اُنہوں نے ایک سفید داڑھی والے بوڑھے کو بیٹھے ہوئے دیکھا ۔

دہ بوڑھا زور زور سے کہہ رہا تھا ۔ جس کو جو بات  پوچھنی ہے پوچھ لے ۔ شہزادی نونا  اور اس کی سہیلیاں بوڑھے کا اعلان سن کر کھل اُٹھیں اور سیدھی اُس کے پاس چلی گئیں اور باری باری اُس سے اپنے دل کی بات پوچھنے میں سب سے پہلے شہزادی نونا جو کن کن کنیز بنی ہوئی تھی نے بوڑھے سے پوچھا :

"میری شادی کس سے ہوگی ؟ " شہزادے تلام سے ۔ بوڑھے نے اُس کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

شہزادی یہ سن کر شرم سے لال ہو گئی۔پھر فوراً بولی :" مگر میں ایک کنیز ہوں میری شادی شہزادے تلام سے کیسے ہوگی ؟ "

بس ہو جائے گی میں نے جو کہہ دیا ہے، بوڑھے نے کہا۔ شہزادی نے خوش ہو کر اپنے سر کا ایک بال توڑ کر انعام میں اسے دیا اور پیچھے ہٹ گئی ، اس کے بعد کو کل وزیر کی بیٹی شومی کی باری آئی اور اس نے بھی بوڑھے سے پوچھا. "میری شادی کس سے ہوئی ؟ " بوڑھے نے اُسے بھی کہا کہ شہزادے تلام سے شومی یہ سن کر ہنس پڑی ۔ پھر اُس نے اپنی انگوٹھی اُتار کر انعام میں دے دی۔ اسی طرح ساری لڑکیوں نے بوڑھے سے یہی پوچھا ۔ بوڑھے نے سب کو یہی جواب دیا ۔ وہ کوئی نہ کوئی قیمتی شے انعام میں دے دیتیں۔ جب ساری لڑکیوں نے سوال پوچھ لئے ، تو اُس بوڑھے نے اپنی داڑھی اور کپڑے اُتار پھینکے۔

لڑکیاں یہ دیکھ کر دنگ رہ گئیں ، وہ تو شہزادہ تلام تھا۔ اگلے روز شہزادہ تلام نے بادشاہ کو بتایا کہ جس لڑکی نے مجھے بال انعام میں دیا تھا وہ شہزادی نونا ہے

تو بادشاہ نے اُن دونوں کی شادی کر دی ہے ۔

ختم شد .

مصنف ضیا ساجد

Shahezadi Ka Enam

Do Dost

 انتخاب: نوشادعلی ریاض احمد

دو دوست

گنگا رام اور موتی رام دونوں وظیفہ یاب ضعیف حضرات ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے رہتے تھے۔ ان دونوں کی اولادیں بیرون ملک میں رہتی تھیں۔ وہ دونوں اکیلے رہتے تھے۔اس لیے دونوں میں خوب جمتی تھی۔صبح اٹھ کر دونوں ایک ساتھ سیر کو جاتے اور آتے وقت سبزی تر کاری لاتے۔ آتے وقت کسی ایک مقام پر بیٹھ کر گپ شپ کرتے۔

گنگا رام ، موتی رام کے لیے اکثر دو پہر کا کھانا بناتا تو کبھی موتی رام، گنگا رام کے لیے رات کا کھانا بنا لیتا۔ ان دونوں کو بہت اچھا پکوان نہیں آتا لیکن وہ ایک دوسرے کے دوست تھے اس لیے کبھی بھی کھانے سے متعلق تکرار نہ کرتے تھے۔

ایک دن گنگا رام نے دل ہی دل میں سوچا کہ ” کیوں نہ میں ایک پنجرہ خریدوں اور اس میں ایک طوطا پالوں اور اسے بات کرنا سکھاؤں گا تا کہ مجھے ایک ساتھی مل جائے ۔“

گنگا رام بازار گیا اور طوطے کے ساتھ پنجرہ خرید لایا۔ وہ طوطے کو باتیں کرنا سکھانے لگا۔ بہت دن گزر گئے لیکن اس طوطے نے کوئی بات کرنا نہیں سیکھا۔ اس کے بجائے وہ زور زور سے چلانے لگا۔

اس آواز کو سن کر موتی رام اس سے خفا ہونے لگا۔ ایک تو  گنگارام اس طوطے کو باتیں سکھانے میں گھنٹوں صرف کرنے لگا اور موتی رام سے ملنے جلنے میں کمی واقع ہوگی۔ طوطے کے بار بار چلانے سے موتی رام کا غصہ آسمان پر چڑھ گیا۔

اب اس نے خود سے کہا کہ یہ بہت ہو چکا۔ گنگا رام نے طوطا خرید کر اپنے آپ کو بڑا ہو شیار سمجھنے لگا ہے۔ میں بھی بازار سے دو طوطے خریدتا ہوں جو اس سے زیادہ آوازیں کریں۔ پھر دیکھتے ہیں کیا ہوتاہے؟“

موتی رام جلدی جلدی بازار گیا اور بڑی آواز والا طوطا تلاش کرنے لگا۔ اسے اس طرح کا کوئی پرندہ نہیں ملا۔ بالآخر وہ غصے کی حالت میں گھر کی طرف روانہ ہوا۔

اس وقت ایک کسان وہاں سے گزر رہا تھا اس نے موتی رام کی بڑ بڑ سنی تو کہنے لگا ‘‘ کیا تمھیں اونچی آواز والا پرندہ چاہیے یا صرف طوطا ؟



مجھے صرف اونچی آواز والا پرندہ چاہیے ۔ موتی رام نے کہا۔

کسان نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ میرے پاس ایک مرغا ہے جس کی کرخت آواز سے میں بھی پریشان ہوں۔ آپ میرے ساتھ چلو اور مرغا لے جاؤ۔ تم مجھے اس کی کوئی قیمت بھی نہ دیں تو کوئی بات نہیں ۔

اس طرح اونچی آواز والا مرغا موتی رام کو مل گیا۔ گھر آنے کے بعد اس نے طوطے کے سامنے والی کھڑکی میں مرغے کو رکھ دیا۔

موتی رام مرغے سے مخاطب ہوا اب چلاؤ۔ اتنی زور سے آواز کرو کہ اسے سن کر طوطے کی آواز اس میں مدغم ہو جائے ۔

مرغے کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں تھی وہ تو صرف کسی مقام پر سکون سے بیٹھ کر آوازیں کرنا چاہتا تھا۔ کھڑکی میں بیٹھ کر وہ مرغا زور زور سے آواز میں کرنے لگا۔

مرغے کی آواز سن کر گنگا رام اس کے گھر کی طرف دیکھنے لگا اور سوچنے لگا کہ میرے طوطے کی حرص میں موتی رام نے یہ مرغا لے آیا؟ اور یہ بے وقوفی کر بیٹھا۔

اب دن بھر طوطے اور مرغے کی آواز سن کر گنگا رام کا سر چکرانے لگا۔ شام کو گنگا رام، موتی رام کے پاس گیا اور اس سے کہنے لگا " میرے پاس طوطے ہونے کی وجہ سے تم نے یہ مرغا لایا؟ یہ کیا بے وقوفی کر بیٹھے ۔ جلد ہی اس کا بندو بست کرو اور اس آواز سے چھٹکارا پاؤ۔"

غصے میں موتی رام نے کہا یعنی میں بے وقوف ہوں ؟ تم اپنے الفاظ واپس لو۔ اصل میں بے وقوف تو تم ہو جو طوطے کو لے آئے ۔“

یہ سن کر گنگا رام آگ بگولہ ہو گیا اور کہنے لگا میں اور بے وقوف ؟ اپنی زبان کو لگام دوور نہ زبان کاٹ ڈالوں گا۔

اب دونوں زور زور سے جھگڑنے لگے۔ ان کا جھگڑا دیکھنے لوگ جمع ہو گئے ۔ بعض لوگ جھگڑا مٹانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن وہ بے سود ہوا جا رہا تھا۔

اس دوران ایک اندھی عورت اپنی نواسی کے ساتھ وہاں سے گزر رہی تھی اس نے اپنی نواسی سے پوچھا ”کس بات پر ؟ کس بات پر جھگڑا ہو رہا ہے؟ جاؤ اور دیکھ کر آؤ۔ لڑکی نے وہاں موجود لوگوں سے جھگڑے کے بارے میں دریافت کیا لیکن اسے کوئی خاص وجہ معلوم نہیں ہو سکی۔

لڑکی نے نانی سے جا کر کہا کہ بات تو سمجھ میں نہیں آئی لیکن طوطے اور مرغے پر سے جھگڑا ہو رہا ہے۔ بوڑھی نے کہا طوطا ! ہاں ٹھیک ہے اس کی آواز مجھے سنائی دے رہی ہے۔ اس کی آواز سے سردرد ہوتا ہے۔ دوسرا پرندہ کون سا ہے؟

 

لڑکی نے کہا ” مرغا، مجھے اس کی آواز سنائی دے رہی ہے۔“ ۔ بوڑھی نے کہا ” مجھے بھی اس مرغے کی آواز سنائی دے رہی ہے۔ اب میری سمجھ میں آ گیا کہ جھگڑے کی کیا وجہ ہے۔ بوڑھی نے لڑکی سے کہا کہ تم میرے قریب آؤ مجھے تم سے ایک راز کی بات کرنی ہے۔

تھوڑی دیر میں موتی رام اور گنگا رام جھگڑا کر کے تھک گئے۔ پسینے میں شرابور ہو کر وہ نیچے بیٹھ گئے ۔ تماشائی بھی ادھر ادھر ہو گئے ۔

بہت دیر تک وہ ایک دوسرے سے کچھ بات نہ کر سکے۔ اس کے بعد انھوں نے محسوس کیا کہ انھیں نہ تو طوطے کی آواز آ رہی ہے اور نہ ہی مرغے کی۔

وہ آہستہ آہستہ اٹھ کر اپنی اپنی کھڑکیوں میں جھانکنے لگے۔ دونوں کھڑکیاں خالی تھیں وہ نہ تو طوطا تھا اور نہ ہی مرغا۔

اس واقعہ کے بعد انھیں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے سے بھی شرم محسوس ہونے لگی۔ لیکن چند دنوں بعد ترکاری خریدتے ہوئے ایک دوسرے سے ملاقات ہوگی۔ انھوں نے ایک دوسرے کا حال چال دریافت کیا۔ لیکن انھوں نے نہ تو طوطے اور نہ ہی مرغے کے بارے میں کچھ کہا ہوگا۔

کسی نے نہ تو دوبارہ طوطا دیکھا اور نہ ہی مرغا ۔ اندھی عورت اوراس کی نواسی نے کیا کیا کسی کو پتہ نہیں۔

۔۔۔ختم شد۔۔۔

ماخوذ

Chalak Uont

 چالاک اونٹ

Chalak Uont

 ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بدو اپنے اونٹ پر سوار سفر کر رہا تھا ۔راستے میں رات ہو گئی تو بدو نے خیمہ تان لیا اور اونٹ کو خیمے کی کیل کے ساتھ باندھ دیا۔ کھانے سے فارغ ہو کر بدو سونے کے لیے لیٹا ہی تھا کہ اتنے میں اونٹ نے آواز دی،’’ میرے اچھے مالک! باہر ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے اور میری ناک سردی سے ٹھٹھر کر رہ گئی ہے۔اجازت دو تو میں اپنی ناک ذرا خیمے کے اندر کر لوں۔‘‘

 ’’ہاں تم ناک خیمے کے اندر کر سکتے ہو۔‘‘ بدو نے جواب دیا۔

 بدو ابھی اونگھ بھی نہ پایا تھا کہ اونٹ کی آواز پھر آئی،

’’ اچھے مالک سردی زیادہ ہے اگر اجازت دو تو میں اپنی گردن خیمے کے اندر کر لوں۔‘‘

’’ اچھا کر لو ‘‘۔بدو پھر سونے کی کوشش کرنے لگا۔ اونٹ نے پھر آواز دی۔

’’ اچھے مالک! مہربانی فرماؤ میں سردی سے اکڑنے لگا ۔ہوں بس ذرا اگلی ٹانگیں خیمے کے اندر کرنے دو پھر میں آپ کو تکلیف نہ دوں گا۔‘‘

 ہاں ہاں کر لو تمہیں اجازت ہے۔ بدو اتنا کہہ کر پھر سونے لگا

تھوڑی دیر گزری ہوگی کہ گھبرا کر اٹھ کھڑا ہوا ۔

AreeBTLM


اونٹ اپنے سارے جسم کو خیمے کے اندر داخل کرنے کی کوشش میں تھا اس نے اب اجازت لینا بھی ضروری نہیں سمجھا تھا۔ بدو سخت تلملایا ۔مگر اونٹ نےاس کے غصے کی ذرا پرواہ نہ کی اور بڑے ٹھاٹ سے خیمے کے اندر گھس گیا ۔بدو کے لیے اب سونے کو تو کیا بیٹھنے کی جگہ بھی نہیں تھی ۔اس نے اونٹ کو ڈانٹ ڈپٹ کر باہر نکالنا چاہا لیکن اونٹ اس کی کب سننے والا تھا ۔وہ مزے سے خیمے میں براجمان ہو گیا ۔

ناچار بدو کو خیمے سے باہر نکل کر رات بھر سردی میں ٹھٹرنا پڑا ۔

۔۔۔ختم شد۔۔۔

ماخوذ

Sahera Ka Jagugar

 صحرا کا جادوگر

Sahera Ka Jagugar

مدتیں گزری جب کٹنگا افریقہ کے ایک مشہور ملک کے سب سے بڑے صحرا میں وہاں کا بادشاہ نینی پوں شکار کھیلنے گیا۔ یہ بادشاہ بے حد لالچی اور خودغرض انسان تھا ۔اس نے زندگی بھر دوسروں کی دولت سے اپنا خزانہ بھرا تھا اور جس نے کبھی رعایا کی فلاح و بہبود پر کچھ خرچ نہ کیا تھا ۔ہر چند نینی پوں ظالم نہ تھا مگر دوسروں کی حق تلفی بذات خود ایک ظلم ہوا کرتی ہے اور نینی پوں میں یہ خرابی موجود تھی۔ شکار کھیلتے ہوئے نینی پوں اچانک راستہ بھول بیٹھا اس کے ہمراہ اس کے چار وزیر بھی تھے ۔وہ اپنے سپاہیوں سے بچھڑ گیا اور جنگل میں دور جا نکلا۔

          اچانک انہیں اس صحرا کے جنگل میں جہاں کہیں کہیں کھجور کے درخت تھے ایک نخلستان دکھائی دیا ۔وہاں ایک بوڑھا مکار شخص موجود تھا۔ اس کا سیاہ اور مکروہ چہرہ بتا رہا تھا کہ یہ شخص بوڑھا ضرور ہے مگر مہمان نواز اور درست آدمی نہیں ہے ۔وہ شخص اس صحرا کا ایک جادوگر تھا جو مدتوں سے اس نخلستان میں تنہا رہتا تھا۔ وہ ادھر سے گزرنے والے  ہر قافلے کو لوٹ لیتا تھا اور انہیں اپنے جادو کے زور سے جانور بنا دیتا تھا ۔اور پھر وہ لوٹی ہوئی ساری دولت اسی صحرا کے قلعے کے نیچے دفن کر دیا کرتا تھا ۔گو یہ دولت اس کے کسی کام نہ ا ٓسکتی تھی مگر لالچ انسان کو خودغرض بنا دیا کرتا ہے اور یہ جادوگر بھی بادشاہ سے زیادہ لالچی اور خودغرض واقع ہوا تھا۔ بادشاہ کو دیکھتے ہی وہ تاڑ گیا کہ ہو نہ ہو یہ بادشاہ ہی  ہے اور اسے معلوم تھا کہ یہ بادشاہ نینی پوں اس دور میں دنیا کا دولت مند  اور لالچی شخص ہے۔ چنانچہ اس نے بادشاہ کو لوٹنے کا پروگرام بنا لیا ۔وہ جانتا تھا کہ بادشاہ کے پاس اس وقت کچھ بھی نہیں ہے مگر بادشاہ کے خزانے سے دولت وہاں منگوائی جا سکتی تھی۔ یہ اس کا کام تھا اور وہ کبھی اپنے کام میں ناکام نہ ہوا تھا چنانچہ وہ بادشاہ کے قریب گیا اور جھک کر بولا ،’’علی جناب! بندے کے یہ نصیب کہ آپ یہاں تشریف لائے ۔میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟‘‘

 بادشاہ نے حیرانی سے پوچھا ،’’یہ تم نے کیسے جان لیا کہ میں بادشاہ ہوں؟‘‘

 جادوگر بوڑھے نے کہا ،’’رات خواب میں میرے استاد مرحوم نے مجھے بتا دیا تھا اور آپ کو ایک مشورہ دینے کا حکم بھی دیا تھا۔‘‘

 بادشاہ بے حد خوش ہوا اور اس نے پوچھا کہ بتاؤ،’’تمہیں کیا مشورہ دینے کے لیے کہا گیا تھا؟‘‘



 مگر جادوگر نے کہا،’’آپ کی خاطر و مدارت میرا فرض ہے آپ بادشاہ ہیں اور میں رعایا۔‘‘

 پہلے مجھے فارغ ہونے دیجیے پھر سب بتاؤں گا۔ چنانچہ وہ اپنے چھوٹے سے مکان میں جو وہاں بنایا گیا تھا چلا گیا اور جادوگر نے جادو کے زور سے بے شمار کھانے  اور مشروبات وہاں جمع کر کے بادشاہ کے حضور پیش کر دیے۔ بادشاہ نے جب یہ سب کھایا تو اسے بہت لطف آیا۔ وہ حیران تھا کہ یہ شخص اس نخلستان میں یہ سب کچھ کیسے اور کہاں سے لے آیا ؟ مگر اسے اس سے کیا سروکار وہ تو اس اُلجھن میں تھا کہ بوڑھا شخص اسے کیا مشورہ دینے والا تھا ۔کھانے کے بعد بادشاہ نے مشورے کے بارے میں پوچھا، تو بوڑھے شخص نے بتایا کہ وہ تنہائی میں ساری بات کرے گا۔ بادشاہ نے وزیروں کو وہاں سے جانے کا حکم دیا۔ جادوگر نے بادشاہ سے کہا ،’’علی جناب ! میں عرصہ90 سال سے یہاں آپ کے لیے ہوں اور میرے مرشد نے کہا ہے کہ جب میں پورے 90 سال کا ہو جاؤں گا تو میرے90 سال پورے ہونے والے دن مجھے اس مکان میں دولت میں دبا دیا جائے گا اور وہ دولت جس میں مجھے دبایا جائے گا وہ سو گنا بڑھ جائے گی ۔پرسوں وہ دن آنے والا ہے اور اس سے پہلے خدا نے آپ کو یہاں بھیج دیا ہے ۔میں مشورہ دوں گا کہ آپ اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھائیں۔ بادشاہ کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا۔ اس نے کہا میں پرسوں ضرور اپنی ساری دولت لے کر یہاں ا ٓجاؤں گا۔ بوڑھے نے کہا مگر یہ کام سورج ڈھلنے سے پہلے ہو سکے گا بعد میں وقت گزر جانے کے بعد کچھ نہ ہو سکے گا ۔بادشاہ شکریہ ادا کر کے چلا گیا اور کسی سے اس نے کوئی بات نہ کی ۔تیسرے دن وہ اپنی ساری دولت 100 اونٹ پر لاد کر انہی چار وزیروں کے ہمراہ وہاں آگیا ۔کسی بھی سپاہی یا ساتھی کو اس نے نہ کچھ بتایا اور نہ ساتھ لانا مناسب سمجھا ۔سورج نکلنے سے پہلے وہ بوڑھے کے پاس صحرا میں پہنچ چکا تھا۔ بوڑھے نے جب تیر نشانے پر بیٹھا پایا تو اس نے وزیروں کو مشورہ دیا کہ وہ زمین میں گڑھا کھود کر ساری دولت دبا دیں۔ اور اس کے ساتھ پھر اس بھی اسے بھی دبا دیا جائے۔ وزیر اس ساری کاروائی پر حیران تھے مگر وہ بادشاہ کے سامنے کیا بول سکتے تھے ۔دوپہر تک جب وہ ایسا کر کے فارغ ہو چکے تو بوڑھے کے چہرے پر مکاری زیادہ دکھائی دے رہی تھی ۔اچانک وہ گھر میں گیا اور اس نے ایک بڑا سا ربڑ کا تھیلا نکالا اور کچھ پڑھنے لگا ۔بادشاہ نے دیکھا کہ اس کے چاروں وزیر مرغ بن گئے تھے اور بوڑھے کے تھیلے میں گُھس رہے تھے بوڑھے نے تھیلے کا منہ بند کر دیا اور اسے بھی زمین میں دبا دیا ۔پھر وہ بادشاہ سے بولا، علی جناب ! مجھے مدت سے آپ کی اور آپ کی اس دولت کی تلاش تھی ۔جو آپ نے رعایا سے لوٹ کر جمع کی ہے اور میں اب وہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکا ہوں میں چاہوں تو آپ کو ہلاک کر سکتا ہوں مگر میں ایسا نہیں کروں گا۔ میں تمہیں مرغ بھی نہیں بناؤں گا البتہ شتر مرغ بنا کر اس صحرا میں آوارہ  گھومنے کے لیے چھوڑ دوں گا۔ تم عمر بھر یہاں بھٹک بھٹک کر مر جاؤ گے اور اپنا مدعا بیان نہ کر سکو گے ۔بادشاہ نے بہت منت سماجت کی مگر وہ بھلا بادشاہ کو کیسے چھوڑ دیتا ۔اس نے ایسا ہی کیا جادو کے زور سے بادشاہ کو شتر مرغ بنا دیا اور صحرا میں چھوڑ دیا ۔مدتوں بادشاہ آوارہ گھومتا رہا وہ جانتا تھا کہ اگر وہ اپنی سلطنت میں واپس گیا تو رعایا اس کا شکار کرے گی اور خود اس کا بیٹا بھی جو اب ضرور بادشاہ بن چکا ہوگا ۔اسے نہیں پہچانے گا وہ کس قدر مجبور اور بے بس تھا وہ یوہی گھومتا اور زندگی گزارتا رہا ۔ایک دن اس نے اپنے ایک حبشی غلام کو اکیلے میں صحرا میں پیدل سفر سے نڈھال دیکھا تو اس کے پاس گیا اور اس نے اپنے پنجے سے زمین پر لکھ کر اسے بتایا کہ وہ شتر مرغ نہیں انسان ہے اور اس ملک کا بادشاہ بھی ہے۔ اور یہ بھی بتا دیا کہ اس کے ساتھ کیا بیتی ہے ؟ حبشی غلام غصے میں آ کر بولا،’’  مجھے بتا دو وہ شخص کون ہے؟  میں اُسے ہلاک کر دوں گا۔‘‘  چنانچہ شتر مرغ بادشاہ نے اسے مشورہ دیا کہ وہ اس پر سوار ہو جائے تو وہ اس سے جادوگر کے پاس لے جائے گا۔ جب وہ وہاں پہنچے گا تو قریب چھپ جائے گا اور جادوگر کے سونے کا انتظار کرے گا ۔اور اس طرح جب جادوگر سو رہا ہوگا وہ اسے تلوار سے قتل کر کے دولت بھی وہاں سے نکال لے گا اور جادوگر کا جادو ختم ہونے سے وہ پھر پہلے جیسا بادشاہ بن جائے گا ۔چنانچہ شتر مرغ پر سوار حبشی غلام وہاں پہنچا اور کھجور کے درختوں کے پیچھے چھپ گیا بوڑھے کو شتر مرغ سے کیا ہمدردی تھی؟  اس نے شتر مرغ کو دیکھا اورسوکھی روٹی کھانے کو دی شتر مرغ اسے کھا کر زمین پر لیٹ گیا جیسے سو گیا ہو ۔بوڑھا بھی ایک کھجور کے درخت کے نیچے چٹائی بچھا کر سو گیا ۔اچانک شتر مرغ اٹھا اور اس نے اپنی ملازم کو اطلاع دی کہ بوڑھا سو چکا ہے۔ چنانچہ اس حبشی غلام نے بڑی احتیاط سے قریب جا کر جادوگر پر اتنا بھرپور وار کیا کہ وہ ہلاک ہو گیا اور جو ہی وہ ہلاک ہوا بادشاہ پھر سے بادشاہ بن گیا اور اس کے چاروں وزیر بھی جو زمین میں دبا دیے گئے تھے۔ پھر زمین سے زندہ نکل آئے۔ اس طرح بادشاہ نے زمین سے اپنی ساری دولت ملی اور واپس آ کر اپنی سلطنت میں لوٹا دیا اور بادشاہ کا بیٹا جو اسے مردہ خیال کر کے چپ ہو رہے تھے اسے دیکھ کر حیران رہ گئے۔ بادشاہ نے رعایا سے حاصل کردہ ساری دولت رعایا میں تقسیم کر دی۔ اور اس حبشی غلام کو اپنا وزیراعظم بنا لیا اور رعایا سے دولت لوٹنے اور بے جا تنگ کرنے سے ہمیشہ ہمیش کے لیے توبہ کر لی ۔

 

۔۔۔۔ختم شد۔۔۔

ماخوذ۔۔

Bhoton Ki Shahezadi

انتخاب : انصاری اریب نوشاد علی۔ بھوتوں کی شہزادی پچھلے زمانے میں ملک شام پر ایک بادشاہ پرویز حکومت کرتا تھا۔ اس بادشاہ کا ایک ہی بیٹا تھا ش...