=" Urdu Kahaniyan (AreeB): April 2022

Purasrar Haweli (Urdu Story)

 پُر اسرار حویلی:Purasrar Haweli ( Urdu Story ):

کسی شہر میں ایک بہت اونچا پہاڑ تھا اور اُس پہاڑ کی یہ خوبی تھی کہ انسان شہر کے کسی گوشے میں پہنچ جانے کے بعد بھی اُسے دیکھ سکتا تھا۔ اس پہاڑ پر ایک سیاہ رنگ کی پُرانی سی حویلی تھی اس کے آس پاس کوئی انسان تو کیا زندگی کا کوئی وجود ہی نہ تھا ۔ دُور دُور تک ایک ہوٗ کا عالم تھا۔ اس پہاڑ کے نیچے سے ایک سڑک جاتی تھی ۔ وہاں دن کے وقت لوگ بہت کم نظر آتے تھے ۔ مگر رات کے وقت اس سڑک پر صرف ٹرک گزرتے تھے یا کبھی کبھی کوئی کار بھی گذر جاتی تھی۔ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ خطرناک سٹرک ہے رات کو اکثر ایسی خوفناک چیخیں سُنائی دیتی تھیں جیسے کسی کا قتل کیا جارہا ہو۔

حامد اپنی اسکول بس میں بیٹھا کب سے یہ سوچ رہا تھا آخر اُس کا اسکول آیا تو سوچنے کا یہ سلسلہ ختم ہوا اسکول ٹائم کے بعد جب پھر اسکول بس منزل مقصود کی طرف روانہ ہوئی اور راستہ میں پھر وہی جگہ آئی تو وہ پھر ایک بار سوچوں میں اُلجھ کر رہ گیا۔ گھر آنے کے بعد بھی حامد خاموش کچھ سوچ رہاتھا۔ اُس کی نظروں کے سامنے وہ حویلی گھوم رہی تھی اور ذہن میں لوگوں کی قیاس آرائیاں گونج رہی تھیں۔ حامد کی امیّ نے جب اُسے اس طرح اُداس بیٹھے دیکھا تو کہنے لگیں۔

’’ بیٹے! کیا بات ہے؟ تم اتنے پریشان کیوں ہو؟؟مگر حامد نے اپنی امی کو ٹال دیا ۔ کہنے لگا،’’ میں تو اپنے ٹیسٹ کے بارے میں سوچ رہاتھا آپ خواہ مخواہ پریشان نہ ہوں۔‘‘ اس طرح سار ا دن گذر گیا۔ 

حامد نویں جماعت کا طالبِ علم تھا اور سائنس پڑھتا تھا۔ تجسس حامد کی عاد ت تھی۔ہر واقعہ کی گہرائی میں پہنچنے کی کوشش کرتا تھا۔ رات کا نصف پہر گزر چکا تھا کہ کیوں کوئی شخص اس پہاڑ پر نہیں چڑھتا ۔ اس حویلی میں ایسی کون سی طاقت نے غلبہ قائم کیا ہوا ہے۔ جو ہر سال چار پانچ لاشیں اس سڑک پر پڑی ہوئی ملتی ہیں۔یہ سوچتے سوچتے حامد کی آنکھ لگ گئی۔ صبح حامد کی جب آنکھ کُھلی تو ذہن بہت بوجھل تھا۔ وہ جلدی جلدی اسکول جانے کے لیے تیار ہوگیا۔ ابھی حامد ناشتہ کرنے کے لیے ٹیبل پر پہنچاہی تھا کہ اس کا دوست طاہر اُسے بلانے آگیا۔

AreeBTLM

حامد، طاہر کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اور جلدی سے ناشتہ کر کے طاہر کے ساتھ اسکول چل دیا۔ راستے میں حامد نے طاہر سے کہا ،      ’’ یار آج پیدل اسکول جائیں گے۔‘‘طاہر نے حامد سے پوچھا، ’’ کیوں کیا کرنا ہے؟ پیدل چل کر اسکول کو دیر ہو جائے گی۔‘‘ لیکن حامد نہیں مانا اور کہنے لگا، ’’ آج ہم پیدل چل کر اس پہا ڑکا جائزہ لیں گے۔‘‘اب تو طاہر کا بھی تجسس جوش مارنے لگا ۔ اُس نے کہا ، ’’ ہاں یار! میرا بھی جی چاہتا ہے کہ اس پہاڑ پر چڑھیں اور حویلی کو اندر سے دیکھ کر آئیں۔‘‘

دونوں دوست ایک ہی سوچ رکھتے تھے۔ اب وہ آپس میں منصوبے بناتے ہوئے چلے آرہے تھے جب دونوں اُس سڑک پر پہنچے تو دونوں نے ایک ساتھ حویلی کی طرف دیکھا ۔ چاروں طرف سائیں سائیں کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ اور حویلی کچھ ایسی خوفناک لگ رہی تھی جیسے کالا دیو اُن دونوں کے سر پر کھڑا ہو۔ دُور دُور تک کوئی نظر نہیں آرہا تھا۔ 

حامد اور طاہر نے پہلے تو پہاڑ پر چڑھنے کا ارادہ کیا ۔ پھر ایک دم ترک کردیا کہ پھر کبھی چڑھیں گے اور دونوں اسکول چلے گئے۔اسی شام حامد کی امی نے گھومنےپھرنے کا پروگرام بنایا اور حامد کے ابّو بھی اس پروگرام میں شامل ہوگئے جو آج کل اپنی جیپ سمیت دوسرے شہر سے یہاں آئے ہوئے تھے ۔ یہ تینوں سیر کی غرض سے نکل گئے۔ 

راستے میں حامد نے اپنے ابّو سے خوب باتیں کیں اپنی پڑھائی کی بہت سی باتیں کی ۔ جب وہ پہاڑ کے قریب سے گزرے تو حامد کے ابّو نے اس سے کہا،’’بیٹے ! کبھی اکیلے اس طرف نہ آنا۔ یہ جگہ خطرناک ہے۔‘‘ حامد نے پوچھا،’’ کیوں؟‘‘  لیکن انہوں نے کوئی جواب نہ دیا۔ اسی طرح ایک ماہ گزر گیا۔ حامد نے حویلی کے خیال کو اپنے ذہن سے کسی حد تک نکال دیا تھا۔ اب وہ زیادہ تر پڑھائی کی طرف دھیان دیتا تھا۔

ایک شام حامد اپنے گھر کے لان میں فٹ بال کھیل رہاتھا کہ طاہر چلا آیا۔ دونوں نے مل کر خوب فٹ بال کھیلی جب تھک گئے و ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر سستانے لگے۔ طاہر نے کہا،

’’ حامد! تمہیں کچھ یاد ہے کہ ہم نے کہیں جانے کا پروگرام بنایا تھا۔‘‘ حامد نے جب اپنے ذہن پر زور دیا تو ایک آہ بھر کر کہنے لگا۔ ’’یار مجھے سب یاد ہے۔ لیکن ابّو نے بڑی سختی سے اُس طرف جانے سے منع کردیا ہے۔ نہیں تو میں ضرور جاتا۔‘‘ طاہر بولا،’’کوئی بات نہیں ۔ ہم ایسے جائیں گے کہ کسی کو پتہ بھی نہ چلے گا۔‘‘ پھر دونوں دوست مل کر آہستہ آہستہ کان میں کھُسر پُھسر کرنے لگے۔



رات کے ساڑھے بارہ بجے حامد کے کمرے کی کھڑکی پر کسی نے ہاتھ مارنے کی آواز آئی۔ حامد کی کچھ دیر پہلے ہی آنکھ لگی تھی۔وہ ایک دم ہڑبڑا کر اُٹھا تو کیا سُنتا ہے کہ اُس کا کتّا بہت زور زور بھونک رہا تھا وہ فوراً اپنے بیڈ سے نیچے اُترا اور کھڑکی کھول کر دیکھا تو حیران رہ گیا کہ طاہر خوف وہراس کا مجسمہ بنا کھڑا تھا اُس کے ہاتھ میں ایک سیاہ بیگ تھا۔ حامد نے کہا، ’’ طاہر تم اتنی رات کو کیا کرنے آئے ہو؟‘‘طاہر نے جواب دیا، ’’ تم جلدی سے تیار ہوجاؤ۔ ہم آج رات ہی اپنے مشن کی تکمیل کے لیے روانہ ہوجائیں گے۔‘‘ 

حامد ایک بہادر لڑکا تھا۔ مگر ماں کے خیال سے کچھ ہچکچا رہا تھا۔لیکن طاہر کے آگے اُس کی ایک نہ چلی ۔اور وہ اُس کے ساتھ چلا گیا۔ وہ دونوں جب اُس جگہ پہنچے تو ہر طرف گھپ اندھیرا تھا۔ طاہر نے احتیاطً ایک ٹارچ لے لی تھی۔ وہ دونوں اس کی روشنی کی مدد سے آگے بڑھ رہے تھے کہ اچانک حامد کو محسوس ہوا کہ کوئی اُس کے پیچھے آرہا ہے ۔اُس نے مڑ کر دیکھا تو کوئی نہ تھا۔ 

ابھی وہ تھوڑی دور گئے تھے کہ ٹارچ کی روشنی میں کوئی چیز پڑی ہوئی نظر آئی۔ قریب جا کر دیکھا تو ایک مرتبہ دونوں کانپ کر رہ گئے۔ وہ ایک بھیانک لاش تھی۔ طاہر اور حامد دونوں مضبوطی سے ایک دوسرے کے ہاتھ تھام لیے اور آگے بڑھنے لگے۔ اب چڑھائی آگئی تھی ۔دونوں سنبھل سنبھل کر پہاڑ پر چڑھنے لگے۔ جگہ جگہ دشواریاں پیش آرہی تھیں۔ مگر دونوں بڑی ہمّت سے کام لے رہے تھے۔ گرمی اپنے عروج پر تھی۔

کافی دور جا کر حامد کو پیاس ستانے لگی۔ اُس نے طاہر کے کان میں سرگوشی کی کیونکہ آس پاس بہت خطرہ تھا ۔ طاہر نے کہا،’’ہاں میں تو تمہیں بتانا ہی بھول گیا۔ اس بیگ میں پانی کی بوتل اور کچھ کھانے پینے کا سامان موجود ہے۔‘‘ چنانچہ دونوں نے پانی پیا اور اُسی جگہ بیٹھ گئے۔ وہ دونوں کافی تھک گئے تھے۔ آدھی سے زیادہ رات گذر گئی تھی اس لیے صبح کا انتظار کرنے لگے کہ تھوڑا سا اُجالا ہو تو ہم آسانی سے حویلی تک پہنچ سکیں گے۔

جب آسمان سے سیاہ چادر سرکنے لگی اور صبح کی سفید چاندنی کرنیں بکھیرنے لگی تو حامد اور طاہر پھر اوپر چڑھنے لگے ۔ حویلی سے کافی فاصلے پر اُنہیں ڈھول بجنے کی آواز آئی تو وہ بہت حیران ہوئے۔ دونوں کے قدموں میں اور تیزی آگئی۔ جیسے جیسے وہ آگے بڑھ رہے تھے ڈھول کی آواز اور تیز ہوتی جارہی تھی۔ لیکن یہ کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

ایک دلخراش چیخ بلند ہوئی اور ڈھول بجنا بند ہوگیا۔ طاہر کا حلق خشک ہوگیا اور حامد پیسنے سے شرابور تھا۔ مگر حوصلہ کر کے حویلی کی دیوار تک پہنچے۔ مگر کہیں کچھ نظر نہ آیا۔ آخر تھوڑی سی تلاش کے بعد ایک اینٹ جتنا خلا، دیوار میں نظر آیا۔ جیسے دونوں نے اندر جھانکا تو کیا دیکھتے ہیں دس بارہ آدمی جو کافی صحت مند اور لمبے قد وقامت کے بڑی بڑی بندوق کندھوں پر ڈالے چاروں طرف کھڑے تھے اور درمیان میں ایک لاش بڑی بُری حالت میں پڑی تھی۔

ایک نہایت بد شکل انسان ایک بکس کھولے کھڑا تھا جس میں کافی روپیہ اور زیوارت تھے۔ وہ باربار ان چیزوں کو اُٹھا کر دیکھ رہا تھا۔ بس یہ ہیبت ناک منظر دیکھ  کر حامد اور طاہر دونون نے وہاں سے دوڑ لگائی اور مسلسل بھاگتے رہے۔ ایک جگہ رُک کر دونوں نے سانس لیا اور پانی پی کر پھر بھاگنے لگے۔ آخر سڑک پر آکر ہی دم لیا۔ سورج کی روشنی چار سُو پھیل گئی تھی۔ لیکن حامد اور طاہر تھکن سے نڈھال وہیں سڑک کے کنارے بیٹھ گئے۔

اب اُن کی سمجھ میں ساری با ت آگئی تھی ۔ ڈاکوؤں نے خوف وہراس پھیلانے کے لیے ایسا کیا تھا ۔وہ راتوں کو مسافروں کو لوٹ کر اُنہیں پہاڑوں پر لے جا کر قتل کر دیتے تھے اور عوام کے دل میں خوف بٹھانے کے لیے سڑک پر لاش پھینکتے تھے۔ اور لوگ اسے بھوت پریت کا کرشمہ سمجھتے تھے اور اُس پُر اسرار حویلی میں جانے کی کوئی ہمت نہ کرتا تھا۔ سب کا خیال تھا  ہزاروں سال پُرانی اس حویلی میں روحوں ، بلاؤں اور جنگلی جانوروں نے قبضہ جمایا ہوا ہے۔

طاہر اور حامد بھاگم بھاگ اپنے گھر پہنچے جہاں حامد کی امی اور طاہر کی امی ابو پریشان  بیٹھے تھے۔ حامد اور طاہر نے جلدی جلدی اپنے ماں باپ کو حویلی کے را ز سے آگاہ کیا اور ٹیلفیون پر پولس کو اطلاع دی۔ اس طرح حامد اور طاہر کی بہادری نے ڈاکوؤں کے اس گروہ کو گرفتار کروایا۔ اور اُس روڈ کو باحفاظت بنا دیا۔ اب کوئی بھی رات ہو یا دن بغیر خوف کے اس پر سفر کر تاتھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

AreeBTLM



Qatilon ka Qatil (Urdu Story)

 قاتلوں کے قاتل:Qatilon ka Qatil (Urdu Story)

انسپکٹر جلال بے حد محنتی اور دیانت دار پولس افسر تھا۔ کسی سے ایک پیسہ رشوت نہیں لیتا تھا اور ہمیشہ مظلوموں کی حمایت کرتاتھا۔ اس لیے شہری اس کی بڑی عزت کیا کرتے تھے۔ اور اس کا نام احترام سے لیتے تھے۔ اپنے افسروں کی نظر وں میں بھی جلال کا مقام بہت بلند تھا۔ چنانچہ سب سے مشکل کیس ہمیشہ اُسے دئیے جاتے تھے خاص کر قتل کی واردات کی تفتیش اس کے سپرد کی جاتی تھی اور وہ منٹوں سیکنڈوں میں قاتل کو گرفتار کر لیتا تھا۔

اب تک وہ بے شمار قاتل پکڑ چکا تھاجن پر اُس کے افسروں نے اسے درجنوں انعامات دئیے تھے اس کے پکڑے ہوئے قاتلوں میں سے کئی کو پھانسی ملی تھی اور کئی کو عمر قید ہوئی تھی۔ جن قاتلوں کو عمر قید کی سزا ملی تھی اُن میں ایک شرفو بھی تھا۔ شرفو نے ایک ہی وقت میں سات آدمیوں کا قتل کیا تھا۔ لیکن انسپکٹر جلال ایک ماہ کے اندر اندر اسے گرفتار کر لیا تھا۔ اس سے شرفو انسپکٹر جلال کا سخت دشمن بن گیا تھا۔

عدالت سے اُسے جب عمر قید کی سزا ہوئی تو اُس نے سب کے سامنے قسم کھائی کہ وہ اس کا بدلہ انسپکٹر جلال سے ضرور لے گا۔ انسپکٹر جلال کو شرفو کی قسم کا پتہ چلا تو وہ خوفزدہ ہونے کے بجائے ہنس پڑا۔ چونکہ وہ جانتا تھا کہ ہر مجرم اپنے پکڑے جانے پر پولس والوں سے انتقام لینے کا عہد کر تا ہے۔ شرفو سے انسپکٹر جلال کی ذاتی دشمنی نہیں تھی۔ وہ تو شرفو کو جانتا تک نہ تھا۔ اگر شرفو جرم نہ کرتا تو جلال اُسے کبھی گرفتار نہیں کرتا۔ پھر شرفو کا انسپکٹر جلال سے بدلہ لینا زیادتی والی بات تھی۔

شرفو سات سال جیل میں رہاپھر ایک روز موقعہ پا کر جیل سے فرارہوگیا۔ انسپکٹر جلال کو سب اس کے فرارکی اطلاع ملی تو وہ بالکل نہ گھبرایا۔ حالانکہ اُسے علم تھا کہ شرفو اس سے بدلہ لینے کے لیے جیل سے بھاگا ہے۔ ان دنوں وہ شہر سے دور ایک گاؤں کے تھانے میں ڈیوٹی دے رہا تھا۔ اس گاؤں کا نام کندن پُور تھا بیوی بچے بھی ا س کے ساتھ ہی کندن پور میں رہتے تھے ۔ دو بیٹے  اور ایک بیٹی تھی اُس کی ۔۔۔۔۔ بڑے بیٹے کا نام کمال تھا اور چھوٹے کا نام جمال تھا۔ بیٹی کا نام یاسمین تھا ۔ تینوں بہن بھائی بہت نیک اور فرمانبردار تھے ۔ سیدھے اسکول جاتے تھے اور چھٹی ہونے پر گھر آجاتے تھے۔ انسپکٹر جلال نے اُنہیں اسکول لے جانے اور لانے کے لیے ملازم رکھا ہوا تھا اس کا نام کرم الہیٰ تھا اور اس کی عمر ساٹھ سال تھی۔

ایک بوڑھا کرم الہیٰ ان تینوں بہن بھائیوں کو اسکول سے لے کر آرہا تھا کہ ایک لمبے تڑنگے آدمی نے اُن کا راستہ روک لیا۔ وہ آدمی گھوڑے پر سوار تھا اور اُس نے چہرے پر نقاب پہن رکھی تھی او ہاتھ میں بندوق پکڑ رکھی تھی۔ کرم الہیٰ نے اُس سے حیران ہو کر پوچھا، ’’ کیوں میاں! ہمارے راستے میں کیوں کھڑے ہوگئے۔۔۔۔۔۔؟‘‘

جواب میں اس نقاب پوش نے گرج کر کہا، ’’ بکواس بند کر بوڑھے جانتا نہیں میں کون ہوں‘‘۔’’ مجھے کیا پتہ میاں تم کون ہو، تم نے تو اپنا منہ چھپا رکھا ہے‘‘۔ بوڑھا کرم الہیٰ جلدی سے بولا۔’’ میں شرفو ہوں جس نے سات قتل کئے تھے ۔اب پہچانا تم نے۔۔۔‘‘

نقاب پوش نے کرم الہیٰ کو اپنے بارے میں بتایا۔ واقعی وہ شرفو تھا۔ وہی شرفو جسے انسپکٹر جلال نے عمر قید کی سزاد لائی تھی ۔ کرم الہیٰ نے اس کا نام سن رکھا تھا۔ وہ یہ سوچ کر ڈر گیا کہ کہیں یہ بدبخت انسپکٹر جلال کے بچوں کو قتل نہ کردے۔ چنانچہ اس نے تینوں بچوں کو اپنے پیچھے چھپالیا اور شرفو سے پوچھا، ’’ کیا چاہتے ہو ؟ ہمار اراستہ کیوں روک لیا ہے تم نے ۔۔۔۔؟‘‘’’ میں انسپکٹر جلال سے انتقام لینے کے لیے جیل سے بھاگ آیا ہوں ۔ اور اب اُس کے بچوں کو اُٹھا لے جاوں گا۔ تم نے اگر گڑبڑ کی تو میں تمہیں گولی ماردوں گا۔‘‘ شرفو نے قہقہہ لگا کر کہا۔اُس کے کہنے پر تینوں بچوں کے رنگ اُڑ گئے اور وہ سہم کر بابا کرم الہیٰ کی ٹانگوں سے چمٹ گئے۔ یہ دیکھ کر بابا کرم الہیٰ آگ بگولہ ہوگئے گووہ بہت بوڑھا تھا لیکن اس وقت تینوں بچوں کی حالت دیکھ کر اُس کا خون کھولنے لگا۔ لہذا اُس نے تیزی سے آگے جا کر شرفو کے ہاتھ میں پکڑی بندوق چھننے کی کوشش کی اور چیخ کر کہا،

’’ کتے حرامزادے اگر تم نے بچوں کو نقصان پہنچایا تو میں تمہاری ہڈیاں توڑ دوں گا۔‘‘ 

لیکن شرفو نے اس سے ڈرنے کی بجائے بندوق اُٹھا کر اُس کے سر پر زور سے مار دی جس کے پڑتے ہی بابا کرم الہیٰ بے ہوش ہو کر زمین پرگر گیا۔ اُس کے بعد شرفو نے تینوں بچوں کو گھوڑے پر بٹھایا اور وہاں سے رفو چکر ہوگیا۔ بچے زور زور سے روتے رہے چلاتے رہے مگر شرفوکوکوئی رحم نہیں آیا۔ وہ اُنہیں اپنے اڈے پر لے گیا جس میں اور بھی کئی قاتل اور ڈاکو چھپے ہوئے تھے شرفو اُن کا سردار تھا۔

بابا کرم الہیٰ کو ہوش آیا تو اُس نے دیکھا بچے غائب تھے،وہ سمجھ گیا کہ اُنہیں شرفو اُٹھا کر لے گیا ہے۔ چنانچہ وہ دوڑتا ہو اتھانے چلا گیا جہاں اُس نے انسپکٹر جلال کو پورا واقعہ سُنا دیا۔ انسپکٹر جلال کو شرفو کی اس حرکت پر آگ سی لگ گئی۔ دشمنی شرفو کی اس سے تھی ۔ بھلابچوں کا اس میں کیا قصور تھا۔ اُس نے اسی وقت پولس والوں کو ساتھ اور شرفو کو ڈھونڈنے چل پڑا۔ مگر شرفو اُسے کہیں نہ ملا۔ کیونکہ اس کااڈّا اونچے اونچے پہاڑوں کے درمیان تھا۔ جہان جانا بہت مشکل تھا۔ راہ میں شرفو کے ساتھی چھپ کر بیٹھے ہوتے تھے جو آنے والوں کو گولی مار دیتے تھے۔

اِدھر انسپکٹر جلال کی بیوی کو بچوں کی گمشدگی کا پتہ چلا تو اس نے رو رو کا بُرا حال کرلیا اُسے غم سے غش پر غش آتے اور وہ دیواروں سے زور زور سے ٹکریں مارنے لگتی۔ پھر بے ہوش ہو کر گر گئی۔ بابا کرم الہیٰ اُسے لگاتار تسلّی دلاسہ دے رہا تھا۔ لیکن صبر نہیں آرہا تھا۔ وہ سر پیٹ پیٹ کر ایک ہی بات کہتی تھی۔’’ ہائے میرے بچے، میرے بچوں کو میرے پاس لے کر آؤ۔‘‘

بابا کر م الہیٰ کا الگ بُرا حال تھاْ اُسے بھی تو انسپکٹر جلال کے بچوں سے بے حد پیار تھا۔ ویسے بھی وہ اُس کے سامنے اغوا کئے گئے تھے۔ اس لیے اُسے بڑی شرم محسوس ہورہی تھی کہ میں انہیں شرفو سے نہیں بچا سکا۔ بوڑھا تھا بے چارہ ورنہ شرفو کو کبھی بچے اغوا نہ کرنے دیتا۔ آخر جب اُس سے انسپکٹر جلال کی بیوی کا رونا نہ دیکھا گیا تو وہ چپکے سے گھر سے باہر نکل گیا۔

شرفو نے تینوں بچوں کو اپنے ڈیرے پر لے جا کر تہہ خانے میں بند کر دیا اور خود جشن منانے لگا اور قہقہے لگانے لگا۔ ’’ اب انسپکٹر جلال کو پتہ چلے گا مجھے سزا دلا کر اس نے کتنی بڑی بے وقوفی کی تھی۔ میں اس وقت تک اُس کے بچوں کو آزاد نہیں کروں گا جب تک انسپکٹر جلال کو قتل نہ کر ڈالوں۔‘‘اس کے ساتھی بھی اُسے خوش دیکھ کر خوشی سے جھومنے لگے۔ وہ سارے نامی گرامی قاتل اور ڈاکو تھے۔ ’’ سردار ہم تیرے ساتھ ہیں ،انسپکٹر جلال جونہی اپنے بچوں کو چھڑانے آیا ہم اُسے اور اُس کے ساتھی پولس والوں کو گولیوں سے بھون دیں گے۔‘‘

وہ ابھی یہ باتیں کرہی رہے تھے کہ اُنہوں نے غار کے باہر لاوڈاسپیکر کی آواز سُنی ۔ کوئی کہہ رہا تھا ،’’ شرفو ! اپنے ساتھیوں سمیت ہتھیار ڈال دو ۔ دو سو پولس والوں نے تمہیں گھیرے میں لے لیا ہے۔ اگر نہیں مانو گے رو تم سب کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیں گے۔ تمہارے وہ ساتھی جنھیں تم نے راستے میں بٹھایا تھا ہم نے مار دئیے ہیں۔‘‘

شرفو اور اس کے ساتھیوں نے یہ اعلان سُنا تو سمجھ گئے کہ انسپکٹر جلال پولس پارٹی لے کر آگیا ہے۔وہ پہلے تو یہ جان کر گھبرا گئے کہ ان کے ساتھی جو چوکیداری کر رہے تھے مار دئیے گئے مگر پھر وہ اکڑ گئے ، ’’ سردار ہم ہتھیار نہیں پھینکیں گے۔ نہ ہی خود کو پولس کے حوالے کریں گے۔ ہم سب نے درجنوں انسانوں کو قتل کیا ہے۔ اب پولس والوں کو بھی قتل کریں گے۔ سردار تم ہمیں حکم دو پھر دیکھنا کیسے پولس والوں کو یہاں سے بھگاتے ہیں‘‘۔ اُنہوں نے سردار شرفو سے کہا۔

’’ سردار شرفو غصّے سے پیر پٹخ کر بولا۔

’’ تمیں اجازت ہے سب پولس والو ں کو ماردو۔ میں انسپکٹر جلال سے بدلہ لے کر رہوں گا۔‘‘ سردار شرفو نے جونہی اپنے ساتھیوں کو اجازت دی۔ اُنہوں نے اپنی بندوق اور پستولو ں کے منہ غار کے منہ کی طرف کر لیے اور دھڑا دھڑ فائر کرنے لگے۔ 

اسی وقت اُن کے سامنے بے ہوش کرنے والی گیس کا گولا آکر گرا جس کے پھٹتے ہی اُن کو کھانسی شروع ہوگئی۔ ساتھ ہی اُن کی آنکھوں سے پانی بہنے لگا۔ پھر وہ سارے بے ہوش ہوگئے۔تبھی ایک سایہ غار کے اندر داخل ہوا  ۔ اور بڑی احتیاط سے قدم اُٹھاتا ہوا اُن کی طرف بڑھنے لگا۔ وہ بابا کرم الہیٰ تھا ۔ اُس نے ایک ہاتھ میں لاوڈاسپیکر پکڑا ہوا تھا اور دوسرے ہاتھ میں تھیلا تھا ۔ جس میں اُس نے بم رکھے ہوئے تھے۔

وہ آکر بے ہوش قاتلوں کے سر پر کھڑا ہوگیا اور ان کی جیبیں ٹٹول ٹٹول کر دیکھنے لگا۔ ذرا سی دیر میں ایک ڈاکو سے اُسے تہہ خانے کی چابیا ں مل گئیں۔ جنھیں لے کروہ تہہ خانے کی طرف چلا گیا۔ جس میں سے اس نے انسپکٹر جلال کے بچوں کو جلدی جلدی نکالا اور غار سے باہر آگیااور گھوڑے پر بٹھا کر گھر لے گیا۔ غار سے نکلتے وقت کرم الہیٰ نے ایک رقعہ لکھ کر وہاں چھوڑ آیا۔

تینوں بچے بھوک ، پیاس اور خوف سے بہت کمزور ہوگئے تھے ۔ انسپکٹر جلال اور اُس کی بیوی نے انہیں دیکھا تو سینے سے لگا لیا اور ان سے جی بھر کے پیار کرنے لگے۔ بابا کرم الہیٰ نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر نمک حلال کردیا تھا۔ اس نے دو دن اور دو راتیں چھپ کر شرفو کا اڈا تلاش کیا تھا اور پولس کا رُعب دے کر اپنا مطلب نکال لیا تھا۔

انسپکٹر جلال اور اس کی بیوی بابا کرم الہیٰ کی اس قربانی پر عش عش کر اُٹھے۔ دوسری طرف جب شرفو اور اس کے ساتھیوں کو ہوش آیا تو اُنھوں نے بابا کرم الہیٰ کا چھوڑا ہوا رقعہ پڑھا ۔ اس میں لکھا تھا۔ 

’’ کم بختو!  

میں چاہتا تو تم سب کو بے ہوشی کی حالت میں قتل کر سکتا تھا۔ لیکن میرا مقصد چونکہ صرف انسپکٹر کے بچے واپس لانا تھا اس لیے تمہیں زندہ چھوڑ کر جا رہاہوں۔ اب اگر تم انھیں ہاتھ لگایا توبالکل معاف نہیں کروں گا بلکہ تم سب کو قتل کردوں گا۔ یاد رکھنا میرا نام ’’ قاتلوں کاقاتل‘‘ ہے۔ میں اب تک دو سو تیس آدمی قتل کر چکا ہوں۔‘‘

شرفو اور اس کے ساتھیو ں نے یہ رقعہ پڑھا تو ڈر سے کانپنے لگے۔ سردار ہمیں یہاں سے اب بھاگ نکلنا چاہیئے ورنہ قاتلوں کا قاتل ہمیں مار دے گا۔ اس اکیلے نے ہمیں شکست دے دی ہے۔ شرفو نے سب کو بھاگنے کا حکم دیا۔ لیکن جونہی وہ غار سے باہر آئے انسپکٹر جلال نے گھیرا ڈال کے اُن کو گرفتار کر لیا ۔ کیونکہ بابا کر م الہیٰ نے اُسے ان کے اڈے کے متعلق بتادیا تھا۔ یوں بابا کرم الہیٰ کی عزت انسپکٹر جلال کی نظروں میں اور بڑھ گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

#urdustories #AreeBTLM

Ek Gair Mamooli Ladki

 ماونٹ ایورسٹMount Everest

 دنیا کی سب سے اونچی چوٹی ہے۔ وہ نیپال اور چین کی سرحد پر ہمالیہ کی پہاڑیوں میں واقع ہے۔ یہ پہاڑ کی چوٹی سطح سمندر سے 29 ہزار فٹ (تقریباً 8400 میٹر) بلندی پر واقع ہے ۔ اس اونچائی کا مطلب یہ ہے کہ تقریباً 29 منزلہ عمارت کی اونچائی۔

1852 میں ماونٹ ایورسٹ دنیا کی سب اونچی چوٹی ہونے کا اندراج کیا گیا ۔ اس کے بعد بہت ساروں نے اس چوٹی کو سر کرنے کا خواب دیکھا ہے۔لیکن اس چوٹی تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ سال 1953 میں نیپال کے تینزنگ نارگے اور نیوزی لینڈ کے ایڈمنڈ ہلری نے سب سے پہلے اس چوٹی کو سر کیا۔ تب سے آج تک دنیا بھر کے مختلف ممالک کے 4000 سے زیادہ لوگوں نے اس چوٹی کو سر کیا۔ اس دوران تقریباً 200 لوگوں نے اپنی جان بھی گنوائیں۔

سال 1965 میں اوتار سنگھ چیما کی قیادت میں فوج کی ایک جماعت نے ایورسٹ کو سر کیا۔ اس جماعت کے افراد ایورسٹ کو سر کرنے والے پہلے بھارتی تھے۔ 1984 میں بچیندری پال نامی پہلی بھارتی خاتون نے اسے سر کیا جبکہ 1993 میں سنتوش یادو ایک سال میں اس چوٹی کو دومرتبہ کرنے والی پہلی بھارتی خاتون تھی۔

ماونٹ ایورسٹ پر چڑھنا مالاؤتھ پورنا( تصویر میں بتائی ہوئی لڑکی )

کاایک ناممکن سا خواب تھا۔ اس کی پیدائش 2000 میں ہوئی۔ اس کا خاندان تلنگانہ ریاست کے نظام آباد ضلع کے جنگلوں میں رہنے والے ادی واسی قبائل سے ہے۔ اس کے ماں باپ غریب اور کھیت مزدوری کرنے والے تھے۔ وہ ہر ماہ کسی طرح 3000 روپے کمالیتے تھے۔ وہ پکالا نامی اپنے گاؤں کے مدرسے میں تعلیم حاصل کرتی رہی۔
    جب وہ پانچویں جماعت میں تھی تب اس نے ایک امتحان دیا۔ یہ امتحان کامیاب ہونے کے بعد ادی واسی اور دلت بچوں کے اسکول میں داخلہ مل گیا۔اس اسکول میں رہائش کا بھی انتظام تھا۔ سری آرایس پروین کمار اس مدرسے کے نگران تھے۔ وہ ایک  پولیس آفیسر تھے ۔ وہ خود اسی اسکول سے تعلیم حاصل کر چکے تھے۔ اس لیے وہ بچوں کو ذہنی اور جسمانی ترقی کے لیے ہر وقت مواقع فراہم کرتے تھے۔
کوہ پیمائی جیسے مشکل کھیل میں بچوں کو شامل کرنے کی شری پروین کمار ترغیت دیا کرتے۔ شری پروین کمار کے علم میں یہ بات آچکی تھی کہ مالاوتھ کبڈی اور والی بال بہت اچھا کھیلتی ہے۔ انھوں نے اُسے اونچے ٹیلوں پر چڑھنے کی تربیت دینا شروع کی۔ اسکول کی جانب سے منعقد کوہ پیمائی سیر کے لیے مالاوتھ نے اپنے سرپرستوں سے اجازت لی اور روانہ ہوئی۔وہاں بچوں کو بھونگیر نام بیضوی شکل کی اونچی چٹان جو زمین سے تقریباً 700 فٹ اونچی تھی، پر چڑھنا تھا۔ جب مالاوتھ نے یہ منظر دیکھا تواس کے پیروں میں کپکپاہٹ شروع ہوئی لیکن جب وہ سب سے اوپری حصے پر پہنچی تو اس کا خوف جاتا رہا۔
دراجلنگ میں کوہ پیمائی کی تربیت میں جانے والے 20 بچوں کی  جماعت میں پروین کمار نے مالاوتھ کو بھی شامل کیا۔ دارجلنگ پہنچنے کے بعد اس نے زندگی میں پہلی مرتبہ برف سے ڈھکے پہاڑ دیکھے۔ یہ تربیت انتہائی خطرناک تھی۔ برف پر چلنے اور چڑھنے کا تجربہ پہارپر چڑھنے سے بالکل الگ تھا۔ مالاوتھ نے ان تمام چیلنجز کو مات دی۔ سمندر سے 17000 ؍ فٹ اونچے پہاڑ ’رےناک‘ کو مالاوتھ اورچند طلبہ نے سرکیا۔
پروین کمار نے اب طے کیا کہ مالاوتھ اور چند منتخب طلبہ اس سے زیادہ مشکل کام انجام دے سکتے ہیں یا نہیں اس کی جانچ کریں۔ اس کے لیے مالاوتھ اور دیگر چار طلبہ کو ریاست جموں و کشمیر کے لداخ علاقے میں روانہ کیا گیا۔ یہ2013-2014 کے موسم سرما کی بات ہے۔ مالاوتھ اور اس کے چار ساتھی طلبہ کو انتہائی سخت سردی کا موسم لداخ میں گزارنا پڑا۔ یہاں کا درجہ حرارت صفر درجہ سے بھی کم ہوتا ہے۔ اس وقت پانی بھی برف میں تبدیل ہوجاتا ہے ۔ روزمرہ زندگی بھی کافی مشکل ہوجاتی ہے۔ مالاوتھ اور اس کے ساتھیوں نے اس ماحول میں اپنے آپ کو ڈھال لیا ۔ اب پروین کمار کو معلوم ہو اکہ مالاوتھ اور اس سے عمر میں دو سال بڑا آنند نامی لڑکا دنیا کے سب سے بڑے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اب ماؤنٹ ایورسٹ  سر کرنے کی باری تھی۔
اس وقت مالاوتھ صرف 13؍ سال کی تھی۔ نیپال حکومت اتنے چھوٹے بچوں کو ایورسٹ چڑھنے کی اجازت نہیں دے رہی تھی۔ اس لیے ان کو پیماؤں نے ایک اور مشکل راستے کا انتخاب کیا ۔ ہمالیہ پہاڑ کا وہ حصہ جو چین سے متصل ہے وہاں سے چڑھائی کرنا طے پایا۔ سمندر سے 19000 ؍ فٹ بلندی پر چڑھنا شروع کیا گیا۔ اس اونچائی پر صرف برف ہی برف ہوتی ہے۔ درخت یا انسانی بستی کا نام و نشان بھی نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ سمندر سے 5000 ؍ فٹ کی بلندی پر انسان کو سانس لینے میں دشواری پیش آتی ہے۔ ہوا میں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے اکثر لوگوں کو سر درد شروع ہوجاتا ہے۔ سانس پھولنے لگتی ہے اور یہاں بھوک کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے مالاوتھ اور اس کے ساتھی کوہ پیماؤں نے تین ماہ قبل ہی دوڑنے ، مراقبہ کرنے اور یوگا کی سخت مشق کر لی تھی۔
اب ان کے آگے جسمانی چیلنج کے علاوہ ذہنی چیلنج بھی تھا۔ چڑھائی کا آغاز کرنے سے قبل بھی انھیں ایک حادثے کی اطلاع ملی۔ ایورسٹ کی دوسری جانب تیز برف باری کی وجہ سے 16 ؍ چرواہے اپنی جان گنوا بیٹھے ۔ مالاوتھ اور آنند نے جب ہمالیہ چڑھنا شروع کیا تب انھیں چھ چرواہوں کی لاشیں نظر آئیں۔
اس خوف و ڈر کے ماحول کے باوجود مالا وتھ اور اس کے ساتھیوں نے چڑھائی جاری رکھی۔ مسلسل 52 دنوں کی انتھک کوشش کے بعد مالاوتھ اور آنند 24 مئی 2014؍ کو ایورسٹ پر پہنچ گئے۔ مالاوتھ کی چودھویں سالگرہ کے لیے ابھی ایک مہینہ باقی تھا۔ ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والی وہ نہ صرف بھارت بلکہ ساری دنیا کی پہلی کم عمر لڑکی ثابت ہوئی۔


اس کی اس غیر معمولی کوشش کو دنیا بھر میں سراہا گیا۔ لیکن مالاوتھ اسی پر مطمئن نہیں ہے بلکہ اسے اور بھی پہاڑوں کو سر کرنا ہے۔ اسے شری پروین کمار کی طرح پولیس آفیسر بننا ہے۔ اُسے امید ہے کہ اس کی مثال بھارت کے لاکھوں بچوں کو ترغیب دلائے گی۔ ایک صحافی نے جب ایورسٹ سر کرنے کے مضبوط ارادے کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے کہا ،
’’ مجھے یہ ثابت کرنا تھا کہ اگر لڑکیاں کسی بات کا ارادہ کر لیں تو اسے پورا کر کے ہی دم لیتی ہیں۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمنٹس کر کے بتائیے یہ مضمون آپ کو کیسا لگا؟؟؟؟


Aadam Khor Sher

🌲 آدم خور شیر⚠

اریب کے والد ملک کے سب سے بڑے اور ماہر شکاری تھے۔ اریب کو بھی بچپن سے ہی شکار کا شوق تھا۔ جب وہ چودہ برس کا ہوا تو اس کے والد بنگلہ دیش کے جنگلوں میں شکار کھیلتے ہوئے ہلاک ہوگئے ، اُن کی ہلاکت کا سبب وہ آدم خور شیر تھا ۔ جس نے پورے علاقے میں دہشت پھیلارکھی تھی۔ اریب کی والدہ بچپن میں ہی فوت ہوچکی تھی۔ اب وہ اس دنیا میں اکیلا رہ گیا تھا۔ 

اس نے فیصلہ کیا کہ اُس آدم خور سے انتقام لے گا جس نے اُس کے والد کو ہلاک کر کے اُن کی لاش کو کھایا۔ جنگل کے قریبی گاؤں کے لوگوں نے اریب کے وہاں پہنچنے سے پہلے اُس کے باپ کی آدھی کھائی لاش دفنا دی تھی۔ جب اریب وہاں پہنچا تو اپنے باپ کی قبر سے لپٹ کر خوب رویا۔ 

بستی کا سردار ،اریب کو اپنے گھر لے گیاوہاں اُسے کھانا کھلایا اور پھر اُس کے باپ کی رائفل اریب کے حوالے کرتے ہوئے بولا ،’’ یہ رائفل اُس مقام پر پڑی ہوئی ملی جہاں سے آدم خور تمہارے باپ کی لاش  کو گھسیٹتاہوا اپنی کچھار میں لے گیا تھا۔‘‘

رائفل دیکھ کر اریب ایک بار پھر رو پڑا ۔ اُس نے رائفل چوم کر ایک قسم کھائی کہ جب تک وہ اپنے باپ کا انتقام نہیں لے گا اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے گا۔ اس نے سردار سے کہا،’’ آپ مجھے آدم خور کے متعلق کچھ بتائیں تاکہ اُسے ڈھونڈ نے میں مجھے دشواری نہ ہو۔‘‘

سردار نے کہا ،’’ اریب بیٹے ، ابھی تم بچّے ہو جس آدم خور کو تمہار اباپ شکار نہ کرسکا اُسے تم کیسے ہلاک کر سکو گے‘‘

’’جناب! یہ آپ کی غلط فہمی ہے کہ میں آدم خور کو ہلاک نہ کرسکوں گا۔‘‘ اریب نے کہا ، میں شکاری کا بیٹا ہوں اور اچھی طرح جانتا ہوں شکار کس طرح کیا جاتا ہے۔ آپ مجھے صرف اتنا بتادیں کہ وہ آدم خور  کب سے اس جنگل میں رہ رہا ہے۔ اس کی پہچان کیا ہے اور وہ جنگل کے کس حصّے میں رہتا ہے،پھر وہ آدم خور جانے اور میں۔‘‘اریب کی ضد دیکھ کر سردار کو وہ سب بتانا پڑاجو اریب معلوم کرنا چاہتا تھا۔اُس نے کہا ،

’’ آدم خور شیر ایک ماہ پہلے آدم خور بنا تھا۔ جب ایک شکاری نے اُس کی مادہ کو ہلاک کیا تو شیر نے اُس شکاری کو ما ر ڈالا او راُس کے خون سے اپنی پیاس بجھائی ، بس انسانی خون اور گوشت کا مزہ چکھتے ہی اُس نے جنگلی جانوروں کو غذا بنانا چھوڑ دیا اور انسانوں پر حملے کرنے لگا۔ جنگل کے ارد گرد بستیو ںمیں اُس کی دہشت پھیل گئی اور لوگوں نے رات کے وقت گھروں سے نکلنابند کردیا، کیونکہ آدم خور رات کے اندھیرے میں ہی بستی کا رُخ کرتا تھا۔‘‘

پھر کئی شکاری اُسے ہلاک کرنے کے لیے آئے مگر آد م خور ان کے ہاتھ نہ آیا۔ دس بارہ شکاری اُس کی غذا بن چکے تھے۔ جب تمہارے والد صاحب یہاں آئے ۔ ایک ہفتے کی مسلسل کوشش کے بعد تمہارے باپ نے اُس کی ٹانگ زخمی کی تھی۔ زخم بھرنے کے بعد آدم خور نے دوبارہ بستوں پر حملہ شروع کر دیے۔ آخر کار تمہارا باپ بھی اُس کا شکار ہوگیا۔ میرا مشورہ ہے کہ اب بھی اپنا ارادہ بدل دو اور اپنے گھر واپس چلے جاؤ۔ ابھی تمہارے کھیلنے کودنے کے دن ہیں۔

سردار نے آخر میں کہا ،

مگر اریب جو فیصلہ کر چکا تھا وہ اٹل تھا اُس کے مرحوم والد کا کافی سارا سامان سردار کے پاس رکھا تھاجس میں کارتوسوں کے علاوہ ایک ٹارچ، ایک لمبا خنجر نما شکاری چاقو  اور ایک دوربین تھی۔ دور بین جنگل میں کام نہیں دے سکتی تھی ،البتہ باقی چیزیں اریب نے ساتھ لے لیں اور صبح سویرے اُٹھ کر جنگل کی طرف چل پڑا۔

اریب جنگل کے قریب پہنچ گیا ۔ وہ رائفل ہاتھ میں تھامے بلا خوف وخطر آگے بڑھتا رہا۔ یہاں چند ہڈیاں بکھری ہوئی تھیں۔ جن کے ساتھ کپڑے کی دھجیاں اُلجھی ہوئی تھیں۔

زمین پر خون کو دیکھ کر معلوم ہوتا تھا آدم خور نے آج ہی حملہ کیا ہے ۔ وہ قریب بھی ہوسکتا تھا اور دُور بھی۔ 

اس لیے اریب نے اُس کے پاؤں کے نشانات تلاش کرنے کی کوشش کی۔ ایک جگہ اُسے پنجوں کے نشان مل ہی گئے۔ وہ اُن نشانات کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ 

اچانک جنگل خوفناک دھاڑ سے گونج اُٹھا ۔ وہ دھاڑ آدم خور شیر کے سوا کس کی نہیں ہو سکتی تھی۔ اس لیے اریب پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا تھا۔ اچانک ایک جھاڑی میں سرسراہٹ ہوئی اور اریب ایک دم رُک گیا۔ اُس نے رائفل کا رُخ جھاڑی کی طرف کر دیا۔ چند منٹ اسی طرح گزر گئے ۔ پھر دوبارہ جھاڑی میں حرکت ہوئی اور ایک خرگوش اُس جھاڑی سے نکل کر دوسری جھاڑی میں جا گُھسا۔اریب بے اختیار ہنس پڑا اور دوبارہ آگے بڑھنےلگا۔کچھ دور جانے کے بعد وہ رُک گیا۔ دفعتاً اُس کی نگاہ زمین پر پڑی اور وہ چوکنّا ہوگیا۔

زمین پر شیر کے پنجوں کے نشانات بنے ہوئے تھے۔ اچانک ایک جھاڑی میں حرکت محسوس ہوئی ۔ اریب نے رائفل کی نالی اُسی طرف کرکے لبلبی پر اُنگلی رکھ دی ۔ جھاڑی میں یقیناً شیر ہی تھا ۔ چند لمحے اسی طرح گزر گئے۔ اور اچانک شیر نے جھاڑی سے اریب پر چھلانگ لگادی۔ اُس نے فوراً فائر کر دیا۔ مگر گولی شیر کو نہ لگ سکی۔ شیر اریب کی ٹانگ پر اپنا پنجہ مارتا ہوا آگے نکل گیا۔اریب نے تکلیف کے باوجود مڑ کر شیر پر دوسرا فائر کردیا۔ وہ بچ کر جھاڑیوں میں گھس کر نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ 

اُس نے جھاڑیوں کو کھنگال ڈالا۔ مگر شیر وہاں ہوتا تو ملتا۔ وہ تو نہ جانے کہاں غائب ہوگیا تھا۔ اریب کے گوشت کا ایک ٹکڑا اُتر چکا تھا اور زخم سے فوارہ کے مانند خو ن نکل رہا تھا ۔ اُس نے جیب سے رومال نکال کر زخم پر باندھا۔ زخمی حالت میں اُس کا پیچھا کرنا فضول تھا۔ اس لیے اریب لنگڑاتا ہوا جنگل سے نکلا اور بستی کی طرف چل پڑا۔

بستی کے سردار غلام علی نے ایک بار پھر اُسے سمجھانے کی کوشش کی مگر اریب تو آدم خور کو ہلاک کرنے کا تہہ کئے ہوئے تھا۔ اریب کو افسوس تھا کہ اُس کے صحت یاب ہونے تک آدم خور دو ؍۲ بے گناہ انسانوں کو چٹ کر گیا تھا۔ زخمی ہونے کے چوتھے دن اُس نے رائفل اور کارتوس کی پیٹی سنبھالی اور جنگل کی طرف چل دیا۔ دوپہر تک اس نے سارا جنگل کھنگال ڈالا۔ مگر آدم خور کا کہیں نشان نہ ملا ۔ آخر کار ہار کر اریب ایک درخت کے تنے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ ساتھ لایا ہوا کھانا نکال کر کھایا ۔ چند منٹ آرام کیا اور پھر دوبارہ شیر کو تلاش کر نے لگا۔ 

گھومتے گھومتے وہ تالاب پر پہنچ گیا اُس وقت وہاں دو بندر ، ایک ہرن اور تین لومڑیاں پانی پی رہی تھیں۔ اریب کو دیکھتے ہی وہ سب بھاگ کر درختوں میں روپوش ہوگئے۔اریب نے تالاب سے پانی پیا ۔ پانی بے حد میلا تھا۔ مگر مجبوری تھی ۔ وہ صبح سے پیاسا تھا۔ پانی پینے کے بعد اُس نے ادھر اُدھر دیکھا فوراً ہی اُس کے ذہن میں ایک خیال آیا کہ شاید آدم خور پانی پینے اِدھر آنکلے۔

تالاب ایک ایسی جگہ تھی جہاں جنگل کا ہر جانور بلا ناغہ پانی پینے آتا تھا۔ جنگل میں یہ واحد تالاب تھا۔وہ کچھ سوچ کر تالاب کے کنارے ایک اونچے درخت پر چڑھ گیا اور خود کو گھنی شاخوں میں چھپا کر آدم خور کے آنے کا انتظار کرنے لگا۔شا م ہوئی تو کئی جانور وہا ں پانی پینے آئے۔ مگر یہ سب بے ضرر جانور تھے۔ اریب کو تو آدم خور شیر کا انتظار تھا۔ جو ابھی تک نہیں آیا تھا۔

اب ہر طرف اندھیرا پھیل چکا تھا ۔ درختوں سے چھن کر آتی ہوئی چاند کی روشنی تالاب میں پڑ رہی تھی اور اس کے عکس سے وہاں ہلکی ہلکی روشنی پھیل رہی تھی۔ رات آہستہ آہستہ گزرنے لگی اور اس طرف اریب کو نیند نے تنگ کیا مگر وہ ہمّت کر کے شیر کاانتظار کرنے لگا اور نیند کی بالکل پرواہ نہ کی۔

مگر ٹھیک آدھی رات کو شیر کی زبردست دھاڑ بلند ہوئی اور اریب ہوشیار ہو کر بیٹھ گیا۔ رائفل کارُخ اُس نے تالاب کی طرف کر دیا۔ تھوڑی دیر بعد دوبارہ شیر دھاڑا۔ اس بار آواز قریب سے ہی آئی تھی۔ چند لمحے بعد آدم خور شیر بڑے وقار سے چلتا ہوا تالاب کے کنارے پہنچا ۔ مگر وہ منہ اُٹھا کر ادھر اُدھر دیکھ رہاتھا۔ شاید اُس نے کسی انسان کی بو محسوس کر لی تھی۔ اریب دم سادھے اس پر نظریں جمائے بے حس و حرکت بیٹھا تھا۔ شیر نے اطمینان سے پانی پیا ۔ پھر جونہی وہ مڑا۔ اریب نے فائر کردیا۔ اس بار گولی سیدھے آدم خور شیر کی کھوپڑی میں لگی اور اُس کا بھیجا پھاڑتی ہوئی نکل گئی۔ 

آدم خور کے منہ سے کربناک دھاڑبلند ہوئی اور وہ تالاب کے کنارے گر کر تڑپنے لگا۔ اریب نے احتیاط کے طور پر ایک گولی اُس کے سینے میں ماری اور خود درخت سے اُتر آیا۔ جب وہ شیر کے قریب پہنچا تو وہ دم توڑ چکا تھا ۔ اریب نے اپنے باپ کا انتقام لے چکا تھا۔ اور بستی والوں کو آدم خور سے نجات مل چکی تھی۔

اریب خوشی خوشی اپنے شکاری چاقو سے اُس کی قیمتی کھال اُتاری اور پھر بستی کی طرف چل دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


Magroor Shahzadi

❤❤ مغرور شہزادی❤❤

پیارے بچّو!

    بہت پُرانے زمانے کی بات ہے ملک فارس پر ایک راجہ حکومت کرتا تھا۔ اس راجہ کی ایک بہت ہی خوبصورت بیٹی تھی۔ لمبے سنہرے بال ، نیلی آنکھیں اور رنگ ایسا گورا تھا کہ پورے ملک میں اُس سےزیادہ خوبصورت لڑکی موجود نہ تھی۔ شہزادی ہونے کے علاوہ وہ بڑی عقل مند تھی۔ راجہ رانی اُس سے بہت پیار کرتے اور اُس کی ہر خواہش پوری کرتے ۔

        چاہیے تو یہ تھا کہ شہزادی اللہ کا شکر بجا لاتی ، مگر وہ مغرور ہوگئی۔ کئی ملکوں کے شہزادے اس سے شادی کی خواہش لے کر آئے مگر شہزادی نے سب کو ٹھکرا دیا۔

    اب تو راجہ رانی بھی پریشان ہوگئے اُنھوں نے پوری کوشش کی کہ کسی طرح شہزادی شادی کے لیے رضا مند ہوجائے مگر ہر شہزادے میں کوئی نہ کوئی عیب نکال دیتی۔ خاصی مدّت تک یہی چکر چلتا رہا۔ آخر کار راجہ رانی کے اصرار سے مجبور ہوکر شہزادی شادی کے لیے رضامند ہوگئی۔ مگر اُس نے ایک شرط رکھی کہ جو شخص میرے پانچ سوالوں کا جواب دے گا میں اُس سے شادی کروں گی اور جو میرے سوالوں کا درست جواب نہ دے سکے گا اُسے پھانسی دے دی جائے گی۔

    اعلان کرا دیا گیا بہت سے شہزادے آئے لیکن اُنہیں پھانسی کا پھندہ ہی گلے میں ڈالنا پڑا۔ کوئی سوالوں کے صحیح جواب نہ دے سکا ۔ ملک فارس میں ایک نوجوان لکڑہارا بھی رہتا تھا۔ وہ بڑا ایمان دار اور سچا انسان تھا۔ ایک دن وہ گاؤں سے لکڑیاں بیچنے شہر آیا تو شہر کے دروازے پر ایک اشتہار لگا دیکھا ۔ جس میں شہزادی کی شرط کا حال لکھا ہوا تھا۔ لکڑہارے نے شہزادی کی شرط غور سے پڑھی اور محل پہنچ گیا۔

       دربان نے جب ایک غریب نوجوان کو دیکھا تو کڑک کر بولا ،

 ’’ ابے کہاں چلا جا رہا ہے ، یہ شاہی محل ہے کوئی سرائے نہیں ہے ۔‘‘

لکڑہارے نے کہا ، ’’ مجھے معلوم ہے بھائی میں تو شہزادی کے سوالوں کے جواب دینے آیا ہوں ۔‘‘  کیا۔۔۔۔! دربان چلایا۔ بڑے بڑے عقل مند شہزادے جو کام نہ کر سکے تم کس طرح کرلو گے۔ جاؤ میاں اپنا راستہ ناپو۔ کیوں مُفت میں اپنی جان گنواتے ہو۔ 

لکڑہارے نے اصرار کیا تو دربان نے اندر جانے کی اجازت دے دی۔ دربار سجا ہوا تھا ۔ راجہ تخت پر بیٹھا تھا اس کے ساتھ رانی اور شہزادی بھی تھیں ۔ لکڑہارے نے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا تو شہزادی کھِلکھلا کر ہنس پڑی اور بولی،

’’ تم میرے سوالوں کے جواب دو گے؟‘‘ 

’’ہاں‘‘  لکڑہارے نے بڑے تحمل سے جواب دیا۔ ’’ اگر میں جوا ب نہ دے سکا تو آپ مجھے پھانسی پر لٹکا دیجیے گا۔‘‘

’’اچھا‘‘! شہزادی بولی۔

’’ تو سنو! میرا پہلا سوال یہ ہے کہ شاہی ہاتھی کا وزن کتنا ہے؟‘‘

بچّو! اُس زمانے میں بڑے بڑے ترازو تو ہوتے نہیں تھے اس لیے ہاتھی کا وزن کیسے ہوتا ۔؟؟

بہرحال لکڑہارا یک دن کی مہلت لے کر آگیا دن بھر وہ سوچتا رہا۔ 

        آخر ایک ترکیب اس کے ذہن میں آگئی۔ اُس نے شاہی محل سے ہاتھی کو لیا اور دریا پر پہنچ گیا۔ ہاتھی کو ایک بڑی کشتی میں سوار کیا۔ اُس کے وزن سے کشتی کا کچھ حصّہ پانی میں ڈوب گیاتو لکڑہارے نے ڈوبتے ہوئے حصّہ پر نشان لگا کر ہاتھی کو کشتی سے اُتار دیا۔ اب لکڑہارے نے کشتی میں ریت بھرنی شروع کی اور جب کشتی ریت کے وزن سے اس نشان تک پانی میں ڈوب گئی جتنی ہاتھی کے وزن سے ڈوبی تھی تو لکڑہارے نے ریت کا وزن کرنا شروع کر دیا۔ اس طرح ہاتھی کا وزن معلوم کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ 

اگلے دن لکڑہار اشاہی دربار میں حاضر ہوا اور شہزادی سے کہا ، ’’ آپ کے ہاتھی کا وزن چالیس من ہے ۔‘‘  شہزادی نے پوچھا،

’’ تم نے وزن کیسے معلوم کیا ؟؟؟‘‘ لکڑہارے نے ساری بات بتا دی ۔ درباری اور راجہ لکڑہارے کی ذہانت دیکھ کر عش عش کر اُٹھے۔

شہزادی نے کہا ، تم نے پہلا سوال حل کرلیا ۔ اب دوسرا سوال یہ ہے کہ ایک من وزنی پتھر کو پھُونکوں سے اُڑا دو۔

یہ سوال سُن کر لکڑہارے کا دماغ گھوم گیا ۔ بھلا ایک من وزنی پتھر پُھونکیں مار کر کس طرح اُڑایا جا سکتا ہے۔؟بہر حال ایک دن کی مہلت لے کر چلا آیا اور سوچنے لگا کہ کیا کیا جائے؟لکڑہارا بڑا با ہمت تھا، وہ مایو س نہ ہوا ۔ انسان کو چاہیے وہ کبھی مایوس نہ ہو۔ مایوسی گُناہ ہے ہمیشہ انسان کو ہر مسئلے پر غور کرنا چاہیے کوئی نہ کوئی حل نکل آتا ہے۔لکڑہارے نے جب ٹھنڈے دل سے سوچاتو جواب ڈھونڈ لیا۔ اگلے روز وہ ایک ہتھوڑا لے کر شاہی محل پہنچ گیا اور بولا

شہزادی صاحبہ ! ایک من وزنی پتھر کہاں ہے ۔؟فوراً پتھر منگوایا گیا ۔ لکڑہارے نے ہتھوڑے سے پتھر کے ٹکڑے ٹکڑے کیے پھر ان ٹکڑوں کو پیس کر سُفوف سا بنا لیا اور اُسے پُھونکوں سے اُڑا دیا۔یوں تو شہزادی کا دوسرا سوال بھی حل ہوگیا۔ اب شہزادی نے تیسرا سوال پوچھا۔ ’’ بتاؤ، دنیا میں سب سے قیمتی اور مال دار چیز کیا ہے؟‘‘

لکڑہارے نے کہا ، ’’ اس کا جواب تو بہت آسان ہے سب سے مال دار شئے زمین ہے کیونکہ وہ ہمیں ضرورت کی ہر چیز فراہم کرتی ہے۔ زمین سے ہم اناج حاصل کرتے ہیں ۔ اُ س میں درخت اُگاتے ہیں اور زمین کھود کر ہی پانی حاصل کرتے ہیں ۔‘‘

سارے درباری واہ واہ کر اُٹھے ، شہزادی نے تیسرے سوال کا درست جواب پا کر کچھ پریشان ہوگئی۔ پھر اپنا چوتھا سوال پوچھا،   بتاؤ وہ کون سا جرم ہے جسے کرتے وقت انسان پکڑا جائے تو اُسے سزا ملتی ہے لیکن اگر وہ جرم کر لے تو پھر کوئی اُسے سزا نہیں دے سکتا۔‘‘ 

بڑا مشکل سوال تھا، لکڑہارا ایک دن کی مہلت لے کر واپس آگیا ۔ اُسے نیند بھی نہیں ۔ وہ سوچتا رہا آخراُس کے ذہن نے اس سوال کا جواب بھی ڈھونڈ ہی لیا۔ اگلے دن جب لکڑہارا شاہی دربار پہنچا تو شہزادی نے مسکرا کر کہا، ’’ ذرا بتاؤ تو ہمارے چوتھے سوال کا جواب کیا ہے؟‘‘ شہزادی کا خیال تھا کہ لکڑہارا اتنے مشکل سوال کا جواب نہ دے پائے گا۔ وہ خود کو بہت عقل مند سمجھ رہی تھی ۔ لیکن یہ بات بھول گئی تھی کہ غرور کا سر نیچا ہوتا ہے۔لکڑہارے نے کہا ، 

’’شہزادی صاحبہ! میں نے ڈھونڈ لیا ہے اور وہ جرم  "خودکُشی"  ہے ۔ اگر کوئی انسان خود کشی کرتا پکڑا جائے تو اُسے سزا دی جاتی ہے ۔کیونکہ اسلا م میں خود کشی حرام ہے لیکن اگر انسان خود کشی کر کے مرجائے تو مردے کوکون سزا دے سکتا ہے۔‘‘

دربار تو واہ واہ کی آواز سے گونج اُٹھا ۔ رانی نے بھی خوشی سے تالیاں بجائیں۔ راجہ نے لکڑہارے کی پیٹھ ٹھونکی۔ شہزادی کے چار سوالوں کا جواب مل چکا تھا ۔ اب صرف ایک سوال باقی تھا  اگر لکڑہارا اُس کا جواب بھی دے دیتا تو اس نے شرط جیت جانا تھی۔ شہزادی نے اپنا پانچواں اور آخری سوال کیا ۔ اُس نے ایک ہی لباس میں دس آدمی بلوائے اور کہا ،’’ بتاؤ ان میں سے کون کون غلام ہے اور کون وزیر زادے ہیں۔‘‘

لکڑہارے نے سب کے چہروں کو غور سے دیکھا ۔ ان کے لباس دیکھے مگر کچھ معلوم نہ کرسکا  وہ سب ایک جیسے لگتے تھے ۔ لکڑہارے نے کچھ سوچ کر پانی لانے کو کہا ، پانی آگیا تو لکڑہارے نے آٹھوں آدمیوں کو ہاتھ دھو نے کا حکم دیا ۔ ویسا ہی کیا گیا جونہی وہ ہاتھ دھو کر فارغ ہوئے لکڑہارے نے تین آدمیوں کو پکڑ کر ایک طرف کردیا اور کہا ۔’’ یہ تین وزیر زادے ہیں اور باقی غلام ہیں۔‘‘

بالکل صحیح جواب تھا ۔ شہزادی نے پوچھا ،’’ تم نے یہ کس طرح معلوم کیا ؟‘‘

لکڑہارا ہنس کر بولا ، ’’ جو وزیرزادے تھے اُنہوں نے امیرانہ طریقے سے ہاتھ دھوئے جب کہ غلاموں نے غلاموں نے صرف انگلیاں ہی گیلی کی تھیں۔‘‘ شہزادی نے اپنی شکست تسلیم کر لی لکڑہارے نے اپنی ذہانت سے اُس کا غرو ر توڑ دیا تھا ۔ اِسی لیے تو کہا گیا ہے کہ کبھی غرور نہ کریں  اللہ تعالیٰ مغرور انسان کو پسند نہیں کرتا ۔ اور ہاں ایک بات اور یاد رکھیں کبھی مایوس نہ ہوں کتنے ہی بُرے حالات ہوں اُمید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور خدا پر بھروسہ رکھیں۔ 

۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔۔۔

#UrduStory #Free#AreeBTLM



Bhoton Ki Shahezadi

انتخاب : انصاری اریب نوشاد علی۔ بھوتوں کی شہزادی پچھلے زمانے میں ملک شام پر ایک بادشاہ پرویز حکومت کرتا تھا۔ اس بادشاہ کا ایک ہی بیٹا تھا ش...