پُر اسرار حویلی:Purasrar Haweli ( Urdu Story ):
کسی شہر میں ایک بہت اونچا پہاڑ تھا اور اُس پہاڑ کی یہ خوبی تھی کہ انسان شہر کے کسی گوشے میں پہنچ جانے کے بعد بھی اُسے دیکھ سکتا تھا۔ اس پہاڑ پر ایک سیاہ رنگ کی پُرانی سی حویلی تھی اس کے آس پاس کوئی انسان تو کیا زندگی کا کوئی وجود ہی نہ تھا ۔ دُور دُور تک ایک ہوٗ کا عالم تھا۔ اس پہاڑ کے نیچے سے ایک سڑک جاتی تھی ۔ وہاں دن کے وقت لوگ بہت کم نظر آتے تھے ۔ مگر رات کے وقت اس سڑک پر صرف ٹرک گزرتے تھے یا کبھی کبھی کوئی کار بھی گذر جاتی تھی۔ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ خطرناک سٹرک ہے رات کو اکثر ایسی خوفناک چیخیں سُنائی دیتی تھیں جیسے کسی کا قتل کیا جارہا ہو۔
حامد اپنی اسکول بس میں بیٹھا کب سے یہ سوچ رہا تھا آخر اُس کا اسکول آیا تو سوچنے کا یہ سلسلہ ختم ہوا اسکول ٹائم کے بعد جب پھر اسکول بس منزل مقصود کی طرف روانہ ہوئی اور راستہ میں پھر وہی جگہ آئی تو وہ پھر ایک بار سوچوں میں اُلجھ کر رہ گیا۔ گھر آنے کے بعد بھی حامد خاموش کچھ سوچ رہاتھا۔ اُس کی نظروں کے سامنے وہ حویلی گھوم رہی تھی اور ذہن میں لوگوں کی قیاس آرائیاں گونج رہی تھیں۔ حامد کی امیّ نے جب اُسے اس طرح اُداس بیٹھے دیکھا تو کہنے لگیں۔
’’ بیٹے! کیا بات ہے؟ تم اتنے پریشان کیوں ہو؟؟مگر حامد نے اپنی امی کو ٹال دیا ۔ کہنے لگا،’’ میں تو اپنے ٹیسٹ کے بارے میں سوچ رہاتھا آپ خواہ مخواہ پریشان نہ ہوں۔‘‘ اس طرح سار ا دن گذر گیا۔
حامد نویں جماعت کا طالبِ علم تھا اور سائنس پڑھتا تھا۔ تجسس حامد کی عاد ت تھی۔ہر واقعہ کی گہرائی میں پہنچنے کی کوشش کرتا تھا۔ رات کا نصف پہر گزر چکا تھا کہ کیوں کوئی شخص اس پہاڑ پر نہیں چڑھتا ۔ اس حویلی میں ایسی کون سی طاقت نے غلبہ قائم کیا ہوا ہے۔ جو ہر سال چار پانچ لاشیں اس سڑک پر پڑی ہوئی ملتی ہیں۔یہ سوچتے سوچتے حامد کی آنکھ لگ گئی۔ صبح حامد کی جب آنکھ کُھلی تو ذہن بہت بوجھل تھا۔ وہ جلدی جلدی اسکول جانے کے لیے تیار ہوگیا۔ ابھی حامد ناشتہ کرنے کے لیے ٹیبل پر پہنچاہی تھا کہ اس کا دوست طاہر اُسے بلانے آگیا۔
AreeBTLM
حامد، طاہر کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اور جلدی سے ناشتہ کر کے طاہر کے ساتھ اسکول چل دیا۔ راستے میں حامد نے طاہر سے کہا ، ’’ یار آج پیدل اسکول جائیں گے۔‘‘طاہر نے حامد سے پوچھا، ’’ کیوں کیا کرنا ہے؟ پیدل چل کر اسکول کو دیر ہو جائے گی۔‘‘ لیکن حامد نہیں مانا اور کہنے لگا، ’’ آج ہم پیدل چل کر اس پہا ڑکا جائزہ لیں گے۔‘‘اب تو طاہر کا بھی تجسس جوش مارنے لگا ۔ اُس نے کہا ، ’’ ہاں یار! میرا بھی جی چاہتا ہے کہ اس پہاڑ پر چڑھیں اور حویلی کو اندر سے دیکھ کر آئیں۔‘‘
دونوں دوست ایک ہی سوچ رکھتے تھے۔ اب وہ آپس میں منصوبے بناتے ہوئے چلے آرہے تھے جب دونوں اُس سڑک پر پہنچے تو دونوں نے ایک ساتھ حویلی کی طرف دیکھا ۔ چاروں طرف سائیں سائیں کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ اور حویلی کچھ ایسی خوفناک لگ رہی تھی جیسے کالا دیو اُن دونوں کے سر پر کھڑا ہو۔ دُور دُور تک کوئی نظر نہیں آرہا تھا۔
حامد اور طاہر نے پہلے تو پہاڑ پر چڑھنے کا ارادہ کیا ۔ پھر ایک دم ترک کردیا کہ پھر کبھی چڑھیں گے اور دونوں اسکول چلے گئے۔اسی شام حامد کی امی نے گھومنےپھرنے کا پروگرام بنایا اور حامد کے ابّو بھی اس پروگرام میں شامل ہوگئے جو آج کل اپنی جیپ سمیت دوسرے شہر سے یہاں آئے ہوئے تھے ۔ یہ تینوں سیر کی غرض سے نکل گئے۔
راستے میں حامد نے اپنے ابّو سے خوب باتیں کیں اپنی پڑھائی کی بہت سی باتیں کی ۔ جب وہ پہاڑ کے قریب سے گزرے تو حامد کے ابّو نے اس سے کہا،’’بیٹے ! کبھی اکیلے اس طرف نہ آنا۔ یہ جگہ خطرناک ہے۔‘‘ حامد نے پوچھا،’’ کیوں؟‘‘ لیکن انہوں نے کوئی جواب نہ دیا۔ اسی طرح ایک ماہ گزر گیا۔ حامد نے حویلی کے خیال کو اپنے ذہن سے کسی حد تک نکال دیا تھا۔ اب وہ زیادہ تر پڑھائی کی طرف دھیان دیتا تھا۔
ایک شام حامد اپنے گھر کے لان میں فٹ بال کھیل رہاتھا کہ طاہر چلا آیا۔ دونوں نے مل کر خوب فٹ بال کھیلی جب تھک گئے و ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر سستانے لگے۔ طاہر نے کہا،
’’ حامد! تمہیں کچھ یاد ہے کہ ہم نے کہیں جانے کا پروگرام بنایا تھا۔‘‘ حامد نے جب اپنے ذہن پر زور دیا تو ایک آہ بھر کر کہنے لگا۔ ’’یار مجھے سب یاد ہے۔ لیکن ابّو نے بڑی سختی سے اُس طرف جانے سے منع کردیا ہے۔ نہیں تو میں ضرور جاتا۔‘‘ طاہر بولا،’’کوئی بات نہیں ۔ ہم ایسے جائیں گے کہ کسی کو پتہ بھی نہ چلے گا۔‘‘ پھر دونوں دوست مل کر آہستہ آہستہ کان میں کھُسر پُھسر کرنے لگے۔
رات کے ساڑھے بارہ بجے حامد کے کمرے کی کھڑکی پر کسی نے ہاتھ مارنے کی آواز آئی۔ حامد کی کچھ دیر پہلے ہی آنکھ لگی تھی۔وہ ایک دم ہڑبڑا کر اُٹھا تو کیا سُنتا ہے کہ اُس کا کتّا بہت زور زور بھونک رہا تھا وہ فوراً اپنے بیڈ سے نیچے اُترا اور کھڑکی کھول کر دیکھا تو حیران رہ گیا کہ طاہر خوف وہراس کا مجسمہ بنا کھڑا تھا اُس کے ہاتھ میں ایک سیاہ بیگ تھا۔ حامد نے کہا، ’’ طاہر تم اتنی رات کو کیا کرنے آئے ہو؟‘‘طاہر نے جواب دیا، ’’ تم جلدی سے تیار ہوجاؤ۔ ہم آج رات ہی اپنے مشن کی تکمیل کے لیے روانہ ہوجائیں گے۔‘‘
حامد ایک بہادر لڑکا تھا۔ مگر ماں کے خیال سے کچھ ہچکچا رہا تھا۔لیکن طاہر کے آگے اُس کی ایک نہ چلی ۔اور وہ اُس کے ساتھ چلا گیا۔ وہ دونوں جب اُس جگہ پہنچے تو ہر طرف گھپ اندھیرا تھا۔ طاہر نے احتیاطً ایک ٹارچ لے لی تھی۔ وہ دونوں اس کی روشنی کی مدد سے آگے بڑھ رہے تھے کہ اچانک حامد کو محسوس ہوا کہ کوئی اُس کے پیچھے آرہا ہے ۔اُس نے مڑ کر دیکھا تو کوئی نہ تھا۔
ابھی وہ تھوڑی دور گئے تھے کہ ٹارچ کی روشنی میں کوئی چیز پڑی ہوئی نظر آئی۔ قریب جا کر دیکھا تو ایک مرتبہ دونوں کانپ کر رہ گئے۔ وہ ایک بھیانک لاش تھی۔ طاہر اور حامد دونوں مضبوطی سے ایک دوسرے کے ہاتھ تھام لیے اور آگے بڑھنے لگے۔ اب چڑھائی آگئی تھی ۔دونوں سنبھل سنبھل کر پہاڑ پر چڑھنے لگے۔ جگہ جگہ دشواریاں پیش آرہی تھیں۔ مگر دونوں بڑی ہمّت سے کام لے رہے تھے۔ گرمی اپنے عروج پر تھی۔
کافی دور جا کر حامد کو پیاس ستانے لگی۔ اُس نے طاہر کے کان میں سرگوشی کی کیونکہ آس پاس بہت خطرہ تھا ۔ طاہر نے کہا،’’ہاں میں تو تمہیں بتانا ہی بھول گیا۔ اس بیگ میں پانی کی بوتل اور کچھ کھانے پینے کا سامان موجود ہے۔‘‘ چنانچہ دونوں نے پانی پیا اور اُسی جگہ بیٹھ گئے۔ وہ دونوں کافی تھک گئے تھے۔ آدھی سے زیادہ رات گذر گئی تھی اس لیے صبح کا انتظار کرنے لگے کہ تھوڑا سا اُجالا ہو تو ہم آسانی سے حویلی تک پہنچ سکیں گے۔
جب آسمان سے سیاہ چادر سرکنے لگی اور صبح کی سفید چاندنی کرنیں بکھیرنے لگی تو حامد اور طاہر پھر اوپر چڑھنے لگے ۔ حویلی سے کافی فاصلے پر اُنہیں ڈھول بجنے کی آواز آئی تو وہ بہت حیران ہوئے۔ دونوں کے قدموں میں اور تیزی آگئی۔ جیسے جیسے وہ آگے بڑھ رہے تھے ڈھول کی آواز اور تیز ہوتی جارہی تھی۔ لیکن یہ کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
ایک دلخراش چیخ بلند ہوئی اور ڈھول بجنا بند ہوگیا۔ طاہر کا حلق خشک ہوگیا اور حامد پیسنے سے شرابور تھا۔ مگر حوصلہ کر کے حویلی کی دیوار تک پہنچے۔ مگر کہیں کچھ نظر نہ آیا۔ آخر تھوڑی سی تلاش کے بعد ایک اینٹ جتنا خلا، دیوار میں نظر آیا۔ جیسے دونوں نے اندر جھانکا تو کیا دیکھتے ہیں دس بارہ آدمی جو کافی صحت مند اور لمبے قد وقامت کے بڑی بڑی بندوق کندھوں پر ڈالے چاروں طرف کھڑے تھے اور درمیان میں ایک لاش بڑی بُری حالت میں پڑی تھی۔
ایک نہایت بد شکل انسان ایک بکس کھولے کھڑا تھا جس میں کافی روپیہ اور زیوارت تھے۔ وہ باربار ان چیزوں کو اُٹھا کر دیکھ رہا تھا۔ بس یہ ہیبت ناک منظر دیکھ کر حامد اور طاہر دونون نے وہاں سے دوڑ لگائی اور مسلسل بھاگتے رہے۔ ایک جگہ رُک کر دونوں نے سانس لیا اور پانی پی کر پھر بھاگنے لگے۔ آخر سڑک پر آکر ہی دم لیا۔ سورج کی روشنی چار سُو پھیل گئی تھی۔ لیکن حامد اور طاہر تھکن سے نڈھال وہیں سڑک کے کنارے بیٹھ گئے۔
اب اُن کی سمجھ میں ساری با ت آگئی تھی ۔ ڈاکوؤں نے خوف وہراس پھیلانے کے لیے ایسا کیا تھا ۔وہ راتوں کو مسافروں کو لوٹ کر اُنہیں پہاڑوں پر لے جا کر قتل کر دیتے تھے اور عوام کے دل میں خوف بٹھانے کے لیے سڑک پر لاش پھینکتے تھے۔ اور لوگ اسے بھوت پریت کا کرشمہ سمجھتے تھے اور اُس پُر اسرار حویلی میں جانے کی کوئی ہمت نہ کرتا تھا۔ سب کا خیال تھا ہزاروں سال پُرانی اس حویلی میں روحوں ، بلاؤں اور جنگلی جانوروں نے قبضہ جمایا ہوا ہے۔
طاہر اور حامد بھاگم بھاگ اپنے گھر پہنچے جہاں حامد کی امی اور طاہر کی امی ابو پریشان بیٹھے تھے۔ حامد اور طاہر نے جلدی جلدی اپنے ماں باپ کو حویلی کے را ز سے آگاہ کیا اور ٹیلفیون پر پولس کو اطلاع دی۔ اس طرح حامد اور طاہر کی بہادری نے ڈاکوؤں کے اس گروہ کو گرفتار کروایا۔ اور اُس روڈ کو باحفاظت بنا دیا۔ اب کوئی بھی رات ہو یا دن بغیر خوف کے اس پر سفر کر تاتھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔