قاتلوں کے قاتل:Qatilon ka Qatil (Urdu Story)
انسپکٹر جلال بے حد محنتی اور دیانت دار پولس افسر تھا۔ کسی سے ایک پیسہ رشوت نہیں لیتا تھا اور ہمیشہ مظلوموں کی حمایت کرتاتھا۔ اس لیے شہری اس کی بڑی عزت کیا کرتے تھے۔ اور اس کا نام احترام سے لیتے تھے۔ اپنے افسروں کی نظر وں میں بھی جلال کا مقام بہت بلند تھا۔ چنانچہ سب سے مشکل کیس ہمیشہ اُسے دئیے جاتے تھے خاص کر قتل کی واردات کی تفتیش اس کے سپرد کی جاتی تھی اور وہ منٹوں سیکنڈوں میں قاتل کو گرفتار کر لیتا تھا۔
اب تک وہ بے شمار قاتل پکڑ چکا تھاجن پر اُس کے افسروں نے اسے درجنوں انعامات دئیے تھے اس کے پکڑے ہوئے قاتلوں میں سے کئی کو پھانسی ملی تھی اور کئی کو عمر قید ہوئی تھی۔ جن قاتلوں کو عمر قید کی سزا ملی تھی اُن میں ایک شرفو بھی تھا۔ شرفو نے ایک ہی وقت میں سات آدمیوں کا قتل کیا تھا۔ لیکن انسپکٹر جلال ایک ماہ کے اندر اندر اسے گرفتار کر لیا تھا۔ اس سے شرفو انسپکٹر جلال کا سخت دشمن بن گیا تھا۔
عدالت سے اُسے جب عمر قید کی سزا ہوئی تو اُس نے سب کے سامنے قسم کھائی کہ وہ اس کا بدلہ انسپکٹر جلال سے ضرور لے گا۔ انسپکٹر جلال کو شرفو کی قسم کا پتہ چلا تو وہ خوفزدہ ہونے کے بجائے ہنس پڑا۔ چونکہ وہ جانتا تھا کہ ہر مجرم اپنے پکڑے جانے پر پولس والوں سے انتقام لینے کا عہد کر تا ہے۔ شرفو سے انسپکٹر جلال کی ذاتی دشمنی نہیں تھی۔ وہ تو شرفو کو جانتا تک نہ تھا۔ اگر شرفو جرم نہ کرتا تو جلال اُسے کبھی گرفتار نہیں کرتا۔ پھر شرفو کا انسپکٹر جلال سے بدلہ لینا زیادتی والی بات تھی۔
شرفو سات سال جیل میں رہاپھر ایک روز موقعہ پا کر جیل سے فرارہوگیا۔ انسپکٹر جلال کو سب اس کے فرارکی اطلاع ملی تو وہ بالکل نہ گھبرایا۔ حالانکہ اُسے علم تھا کہ شرفو اس سے بدلہ لینے کے لیے جیل سے بھاگا ہے۔ ان دنوں وہ شہر سے دور ایک گاؤں کے تھانے میں ڈیوٹی دے رہا تھا۔ اس گاؤں کا نام کندن پُور تھا بیوی بچے بھی ا س کے ساتھ ہی کندن پور میں رہتے تھے ۔ دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی اُس کی ۔۔۔۔۔ بڑے بیٹے کا نام کمال تھا اور چھوٹے کا نام جمال تھا۔ بیٹی کا نام یاسمین تھا ۔ تینوں بہن بھائی بہت نیک اور فرمانبردار تھے ۔ سیدھے اسکول جاتے تھے اور چھٹی ہونے پر گھر آجاتے تھے۔ انسپکٹر جلال نے اُنہیں اسکول لے جانے اور لانے کے لیے ملازم رکھا ہوا تھا اس کا نام کرم الہیٰ تھا اور اس کی عمر ساٹھ سال تھی۔
ایک بوڑھا کرم الہیٰ ان تینوں بہن بھائیوں کو اسکول سے لے کر آرہا تھا کہ ایک لمبے تڑنگے آدمی نے اُن کا راستہ روک لیا۔ وہ آدمی گھوڑے پر سوار تھا اور اُس نے چہرے پر نقاب پہن رکھی تھی او ہاتھ میں بندوق پکڑ رکھی تھی۔ کرم الہیٰ نے اُس سے حیران ہو کر پوچھا، ’’ کیوں میاں! ہمارے راستے میں کیوں کھڑے ہوگئے۔۔۔۔۔۔؟‘‘
جواب میں اس نقاب پوش نے گرج کر کہا، ’’ بکواس بند کر بوڑھے جانتا نہیں میں کون ہوں‘‘۔’’ مجھے کیا پتہ میاں تم کون ہو، تم نے تو اپنا منہ چھپا رکھا ہے‘‘۔ بوڑھا کرم الہیٰ جلدی سے بولا۔’’ میں شرفو ہوں جس نے سات قتل کئے تھے ۔اب پہچانا تم نے۔۔۔‘‘
نقاب پوش نے کرم الہیٰ کو اپنے بارے میں بتایا۔ واقعی وہ شرفو تھا۔ وہی شرفو جسے انسپکٹر جلال نے عمر قید کی سزاد لائی تھی ۔ کرم الہیٰ نے اس کا نام سن رکھا تھا۔ وہ یہ سوچ کر ڈر گیا کہ کہیں یہ بدبخت انسپکٹر جلال کے بچوں کو قتل نہ کردے۔ چنانچہ اس نے تینوں بچوں کو اپنے پیچھے چھپالیا اور شرفو سے پوچھا، ’’ کیا چاہتے ہو ؟ ہمار اراستہ کیوں روک لیا ہے تم نے ۔۔۔۔؟‘‘’’ میں انسپکٹر جلال سے انتقام لینے کے لیے جیل سے بھاگ آیا ہوں ۔ اور اب اُس کے بچوں کو اُٹھا لے جاوں گا۔ تم نے اگر گڑبڑ کی تو میں تمہیں گولی ماردوں گا۔‘‘ شرفو نے قہقہہ لگا کر کہا۔اُس کے کہنے پر تینوں بچوں کے رنگ اُڑ گئے اور وہ سہم کر بابا کرم الہیٰ کی ٹانگوں سے چمٹ گئے۔ یہ دیکھ کر بابا کرم الہیٰ آگ بگولہ ہوگئے گووہ بہت بوڑھا تھا لیکن اس وقت تینوں بچوں کی حالت دیکھ کر اُس کا خون کھولنے لگا۔ لہذا اُس نے تیزی سے آگے جا کر شرفو کے ہاتھ میں پکڑی بندوق چھننے کی کوشش کی اور چیخ کر کہا،
’’ کتے حرامزادے اگر تم نے بچوں کو نقصان پہنچایا تو میں تمہاری ہڈیاں توڑ دوں گا۔‘‘
لیکن شرفو نے اس سے ڈرنے کی بجائے بندوق اُٹھا کر اُس کے سر پر زور سے مار دی جس کے پڑتے ہی بابا کرم الہیٰ بے ہوش ہو کر زمین پرگر گیا۔ اُس کے بعد شرفو نے تینوں بچوں کو گھوڑے پر بٹھایا اور وہاں سے رفو چکر ہوگیا۔ بچے زور زور سے روتے رہے چلاتے رہے مگر شرفوکوکوئی رحم نہیں آیا۔ وہ اُنہیں اپنے اڈے پر لے گیا جس میں اور بھی کئی قاتل اور ڈاکو چھپے ہوئے تھے شرفو اُن کا سردار تھا۔
بابا کرم الہیٰ کو ہوش آیا تو اُس نے دیکھا بچے غائب تھے،وہ سمجھ گیا کہ اُنہیں شرفو اُٹھا کر لے گیا ہے۔ چنانچہ وہ دوڑتا ہو اتھانے چلا گیا جہاں اُس نے انسپکٹر جلال کو پورا واقعہ سُنا دیا۔ انسپکٹر جلال کو شرفو کی اس حرکت پر آگ سی لگ گئی۔ دشمنی شرفو کی اس سے تھی ۔ بھلابچوں کا اس میں کیا قصور تھا۔ اُس نے اسی وقت پولس والوں کو ساتھ اور شرفو کو ڈھونڈنے چل پڑا۔ مگر شرفو اُسے کہیں نہ ملا۔ کیونکہ اس کااڈّا اونچے اونچے پہاڑوں کے درمیان تھا۔ جہان جانا بہت مشکل تھا۔ راہ میں شرفو کے ساتھی چھپ کر بیٹھے ہوتے تھے جو آنے والوں کو گولی مار دیتے تھے۔
اِدھر انسپکٹر جلال کی بیوی کو بچوں کی گمشدگی کا پتہ چلا تو اس نے رو رو کا بُرا حال کرلیا اُسے غم سے غش پر غش آتے اور وہ دیواروں سے زور زور سے ٹکریں مارنے لگتی۔ پھر بے ہوش ہو کر گر گئی۔ بابا کرم الہیٰ اُسے لگاتار تسلّی دلاسہ دے رہا تھا۔ لیکن صبر نہیں آرہا تھا۔ وہ سر پیٹ پیٹ کر ایک ہی بات کہتی تھی۔’’ ہائے میرے بچے، میرے بچوں کو میرے پاس لے کر آؤ۔‘‘
بابا کر م الہیٰ کا الگ بُرا حال تھاْ اُسے بھی تو انسپکٹر جلال کے بچوں سے بے حد پیار تھا۔ ویسے بھی وہ اُس کے سامنے اغوا کئے گئے تھے۔ اس لیے اُسے بڑی شرم محسوس ہورہی تھی کہ میں انہیں شرفو سے نہیں بچا سکا۔ بوڑھا تھا بے چارہ ورنہ شرفو کو کبھی بچے اغوا نہ کرنے دیتا۔ آخر جب اُس سے انسپکٹر جلال کی بیوی کا رونا نہ دیکھا گیا تو وہ چپکے سے گھر سے باہر نکل گیا۔
شرفو نے تینوں بچوں کو اپنے ڈیرے پر لے جا کر تہہ خانے میں بند کر دیا اور خود جشن منانے لگا اور قہقہے لگانے لگا۔ ’’ اب انسپکٹر جلال کو پتہ چلے گا مجھے سزا دلا کر اس نے کتنی بڑی بے وقوفی کی تھی۔ میں اس وقت تک اُس کے بچوں کو آزاد نہیں کروں گا جب تک انسپکٹر جلال کو قتل نہ کر ڈالوں۔‘‘اس کے ساتھی بھی اُسے خوش دیکھ کر خوشی سے جھومنے لگے۔ وہ سارے نامی گرامی قاتل اور ڈاکو تھے۔ ’’ سردار ہم تیرے ساتھ ہیں ،انسپکٹر جلال جونہی اپنے بچوں کو چھڑانے آیا ہم اُسے اور اُس کے ساتھی پولس والوں کو گولیوں سے بھون دیں گے۔‘‘
وہ ابھی یہ باتیں کرہی رہے تھے کہ اُنہوں نے غار کے باہر لاوڈاسپیکر کی آواز سُنی ۔ کوئی کہہ رہا تھا ،’’ شرفو ! اپنے ساتھیوں سمیت ہتھیار ڈال دو ۔ دو سو پولس والوں نے تمہیں گھیرے میں لے لیا ہے۔ اگر نہیں مانو گے رو تم سب کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیں گے۔ تمہارے وہ ساتھی جنھیں تم نے راستے میں بٹھایا تھا ہم نے مار دئیے ہیں۔‘‘
شرفو اور اس کے ساتھیوں نے یہ اعلان سُنا تو سمجھ گئے کہ انسپکٹر جلال پولس پارٹی لے کر آگیا ہے۔وہ پہلے تو یہ جان کر گھبرا گئے کہ ان کے ساتھی جو چوکیداری کر رہے تھے مار دئیے گئے مگر پھر وہ اکڑ گئے ، ’’ سردار ہم ہتھیار نہیں پھینکیں گے۔ نہ ہی خود کو پولس کے حوالے کریں گے۔ ہم سب نے درجنوں انسانوں کو قتل کیا ہے۔ اب پولس والوں کو بھی قتل کریں گے۔ سردار تم ہمیں حکم دو پھر دیکھنا کیسے پولس والوں کو یہاں سے بھگاتے ہیں‘‘۔ اُنہوں نے سردار شرفو سے کہا۔
’’ سردار شرفو غصّے سے پیر پٹخ کر بولا۔
’’ تمیں اجازت ہے سب پولس والو ں کو ماردو۔ میں انسپکٹر جلال سے بدلہ لے کر رہوں گا۔‘‘ سردار شرفو نے جونہی اپنے ساتھیوں کو اجازت دی۔ اُنہوں نے اپنی بندوق اور پستولو ں کے منہ غار کے منہ کی طرف کر لیے اور دھڑا دھڑ فائر کرنے لگے۔
اسی وقت اُن کے سامنے بے ہوش کرنے والی گیس کا گولا آکر گرا جس کے پھٹتے ہی اُن کو کھانسی شروع ہوگئی۔ ساتھ ہی اُن کی آنکھوں سے پانی بہنے لگا۔ پھر وہ سارے بے ہوش ہوگئے۔تبھی ایک سایہ غار کے اندر داخل ہوا ۔ اور بڑی احتیاط سے قدم اُٹھاتا ہوا اُن کی طرف بڑھنے لگا۔ وہ بابا کرم الہیٰ تھا ۔ اُس نے ایک ہاتھ میں لاوڈاسپیکر پکڑا ہوا تھا اور دوسرے ہاتھ میں تھیلا تھا ۔ جس میں اُس نے بم رکھے ہوئے تھے۔
وہ آکر بے ہوش قاتلوں کے سر پر کھڑا ہوگیا اور ان کی جیبیں ٹٹول ٹٹول کر دیکھنے لگا۔ ذرا سی دیر میں ایک ڈاکو سے اُسے تہہ خانے کی چابیا ں مل گئیں۔ جنھیں لے کروہ تہہ خانے کی طرف چلا گیا۔ جس میں سے اس نے انسپکٹر جلال کے بچوں کو جلدی جلدی نکالا اور غار سے باہر آگیااور گھوڑے پر بٹھا کر گھر لے گیا۔ غار سے نکلتے وقت کرم الہیٰ نے ایک رقعہ لکھ کر وہاں چھوڑ آیا۔
تینوں بچے بھوک ، پیاس اور خوف سے بہت کمزور ہوگئے تھے ۔ انسپکٹر جلال اور اُس کی بیوی نے انہیں دیکھا تو سینے سے لگا لیا اور ان سے جی بھر کے پیار کرنے لگے۔ بابا کرم الہیٰ نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر نمک حلال کردیا تھا۔ اس نے دو دن اور دو راتیں چھپ کر شرفو کا اڈا تلاش کیا تھا اور پولس کا رُعب دے کر اپنا مطلب نکال لیا تھا۔
انسپکٹر جلال اور اس کی بیوی بابا کرم الہیٰ کی اس قربانی پر عش عش کر اُٹھے۔ دوسری طرف جب شرفو اور اس کے ساتھیوں کو ہوش آیا تو اُنھوں نے بابا کرم الہیٰ کا چھوڑا ہوا رقعہ پڑھا ۔ اس میں لکھا تھا۔
’’ کم بختو!
میں چاہتا تو تم سب کو بے ہوشی کی حالت میں قتل کر سکتا تھا۔ لیکن میرا مقصد چونکہ صرف انسپکٹر کے بچے واپس لانا تھا اس لیے تمہیں زندہ چھوڑ کر جا رہاہوں۔ اب اگر تم انھیں ہاتھ لگایا توبالکل معاف نہیں کروں گا بلکہ تم سب کو قتل کردوں گا۔ یاد رکھنا میرا نام ’’ قاتلوں کاقاتل‘‘ ہے۔ میں اب تک دو سو تیس آدمی قتل کر چکا ہوں۔‘‘
شرفو اور اس کے ساتھیو ں نے یہ رقعہ پڑھا تو ڈر سے کانپنے لگے۔ سردار ہمیں یہاں سے اب بھاگ نکلنا چاہیئے ورنہ قاتلوں کا قاتل ہمیں مار دے گا۔ اس اکیلے نے ہمیں شکست دے دی ہے۔ شرفو نے سب کو بھاگنے کا حکم دیا۔ لیکن جونہی وہ غار سے باہر آئے انسپکٹر جلال نے گھیرا ڈال کے اُن کو گرفتار کر لیا ۔ کیونکہ بابا کر م الہیٰ نے اُسے ان کے اڈے کے متعلق بتادیا تھا۔ یوں بابا کرم الہیٰ کی عزت انسپکٹر جلال کی نظروں میں اور بڑھ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔#urdustories #AreeBTLM
No comments:
Post a Comment