میری مدد کرو
چوں
،چوں ،چوں ، بی چڑیا مستقل کھڑکی
کے اوپر چونچیں مار رہی تھی، کبھی پر مارتی ،جیسے بہت پریشان ہوں بے چین ہو۔ سمیہ
نے کہانی کی کتاب غصے سے تکیے پر رکھی اور
کھڑکی کے پاس جا کر دیکھا کہ آخر اس کی پریشانی کیا ہے ؟ ‘‘اف! کہانی اتنی مزیدار
ہے کہ چھوڑنے کو جی نہیں چاہ رہا ہے مگر ابھی بیچاری چڑیابی بھی تو پریشان ہیں۔’’ سمیہ نے اپنے کمرے کی کھڑکی
کھول کر دیکھا تو کچھ خانہ بدوش عورتیں
اور بچے کلہاڑی مار مار کر درخت کاٹ رہے تھے۔ درخت کی شاخیں کٹ کٹ کر زمین پر گر
رہی تھی۔ سمیہ نے ذرا اور جھک کر دیکھا تو
بیچاری چڑیا کا گھونسلہ بھی نیچے پڑا تھا اور انڈے بھی ٹوٹے پڑے تھے۔
ٍ اف میرے اللہ !تو یہ تھی پریشانی واقعی ایسی پریشانی کی بیان
سے باہر ، چچ چچ ! افسوس کوئی ان کا گھر ایسے توڑ کر پھینک دے تو کتنا غصہ آئے۔
ٹھہرو،بی چڑیا مجھے تمہارے لیے کچھ کرنا پڑے گا ۔ سمیہ نیچے آگئی اور گیٹ پر آ کر چوکیدار کو سب قصہ
سنایا ۔
شبیر بابا ایک نیک آدمی تھے۔ ان کو بھی بڑا دکھ ہو، ا زیادہ یوں بھی کہ سمیہ
بی بی کی بڑی بڑی آنکھوں میں آنسو بھی تھے ۔انہوں نے اپنا ڈنڈا پکڑا خانہ بدوشوں کے پاس پہنچے اور انہیں سمجھایا بھی کہ یہ
ہرے بھرے درخت کاٹنا تو بہت غلط بات ہے ۔یہ زندہ ہیں اور ہماری طرح سانس لیتے ہیں
پھر زمین پر پڑا ہوا چڑیا بھی کا ننھاسا گھر دکھا کر کہا،‘‘بولو یہ معصوم کہاں بسیراکرے
گا؟ یہ کہہ کر بابا نے ڈنڈا زور سے زمین پر مارا وہ سب کے سب خانہ بدوش اپنی گٹھریاں
سنبھال کر بھاگے۔سمیہ خوب ہنسی اور خوش ہو
گئی مگر یہ فکر تھی کہ چڑیا بی کا گھر اب کیسےبنے؟ ان لوگوں نے تین چار درخت کاٹ
ڈالے تھے سب اجڑا اجڑا لگ رہا تھا ۔
سمیہ
کو پھر ایک خیال آیا اس نے شبیر بابا کے ساتھ مل کر چڑیا بی کو گھر کے پیچھے جو پیپل
کا درخت تھا اس کی ایک گھنی شاخ پر بٹھا دیا۔ چوں چوں چوں چڑیا بھی خوب چہکی ۔ اس
کی ننھی ننھی آنکھیں چمک رہی تھی۔سمیہ خوش ہو کر گھر آگئی اور اپنی کہانی بھی
مصروف ہو گئی۔ مگر ذہن ابھی بھی وہیں لگا ہوا تھا کہ کاش سب کو یہ بات معلوم ہو
جائے کہ درخت ہم جانداروں کے لیے کتنے اہم ہیں ۔ سمیہ نے ابو کی لائبریری میں سے
درختوں کے بارے میں کتاب ڈھونڈی وہ چاہتی تھی کہ شبیر بابا کو درختوں کے فائدے
بتائے۔
‘‘ شبیر بابا ؟’’ جی بی بی کچھ منگانا ہے آپ کو؟
نہیں بابا جی آپ کو درختوں کی باتیں بتانی ہیں
۔شبیر بابا بڑے حیران ہوئے درختوں کی باتیں؟؟ ‘‘ بی بی وہ تو درخت ہے سایہ دیتا ہے، پھل دیتا ہے اور بس!
ہاں ہاں آپ کو تو کافی معلومات ہے بالکل صحیح
مزیدار پھل جو ہماری صحت اچھی رکھتے ہیں ہمیں درخت ہی دیتے ہیں ۔ہم جو کپڑے پہنتے
ہیں اس کے لیے بھی ریشم درختوں سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ ریشم کا کیڑا شہتوت کے درخت کے
پتے کھاتا ہے اور اسی طرح ریشمی کپڑے ہم کو ملتے ہیں ۔
‘‘ اچھا اور بتاؤ درخت کس کا کمال
۔’’ شبیر بابا کو مزہ آیا وہ آلتی پالتی مار کر ہری بھری ٹھنڈی گھاس پر بیٹھ
گئے۔
سمیہ کہنے لگی ، ‘‘ شہد کہاں سے آیا ؟وہ بھی درختوں کی مدد سے حاصل ہوتا ہے۔ درختوں
سے ہم کو آکسیجن ملتی ہے جو ہماری زندگی کے لیے بہت ضروری ہے۔ گرمی کے موسم میں
پہاڑوں پر جمی برف پانی بن کر بہتی ہےجب جب یہ پانی پہاڑی جنگلات سے گزرتا ہے تو
اس میں موجود گندگی گھنے درختوں کی شاخوں اور پتوں میں اٹک کر رک جاتی ہے اور
درختوں سے نکلنے والی آکسیجن اس پانی میں شامل ہو جاتی ہے یہ پانی کی صفائی کا
قدرتی طریقہ ہے۔
اور بتاؤ بابا یہ جو ہمارے جنگلات ہیں وہ موسموں
کے بدلنے میں بھی مددگار ہوتے ہیں۔
‘‘ ارے بی بی تم کو اتنا کچھ معلوم ہے۔ واہ بھئی! اب میں روز
آپ سے معلومات حاصل کروں گا۔
بالکل ٹھیک میں آپ کو اور بھی باتیں بتاؤں گی
ٹھیک ہے۔ اللہ حافظ!
#ماخوذ
Wow
ReplyDelete