چاچا گدھ
انتخاب : نوشاد علی
میں کبھی گِدھوں
کے بارے میں سوچتا بھی نہ تھا گِدھوں کے بارے میں سوچتا بھی کون ہے! وہ نہ تو
خوبصورت ہیں اور نہ ہی ان کی آواز ایسی
سُریلی ہے جسے سنا جائے بلکہ وہ تو شور مچانے والے بد صورت اور بدبودار پرندے ہیں ۔ان
میں کوئی ایسی خاص بات نہیں جو لوگ ان سے محبت کریں۔میرے والد ایک کسان ہیں وہ اپنی
زمینوں پر باجرہ، تل اور پھلیاں اُگاتے ہیں۔ ہمارے پاس ہر طرح کے جانور بھی ہیں۔
اسکول سے آنے کے بعد گھر میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ کام کرنے کو ہوتا لہذا ہمیں کھیلنے
کو مشکل ہی سے وقت ملتا ۔میں اس بارے میں کوئی شکوہ نہیں کر رہا کیونکہ میں نے
اپنا بچپن بہت اچھا گزارا اور ہمارے والدین نے اس بات کا بہت خیال رکھا کہ ہمیں
کوئی کمی نہ ہونے پائے۔ ہمارے علاقے میں موسم زیادہ تر گرم اور خشک رہتا تھا ۔جب یہ
گرمی ناقابل برداشت ہو جاتی تو ہمیں پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا اور ہمارے بہت
سے جانور پیاس سے مر جاتے ۔جب بھی کوئی جانور مرتا تو اس کے مردہ جسم کو کھیت کے
باہر لے جا کر چھوڑ دیا جاتا تاکہ پرندے
اور دوسرے جانور ا ٓکر انہیں کھا لیں۔
ایک سال ہمارے
گاؤں میں خشک سالی ہوئی اس سال ہمارا بہت نقصان ہوا ۔فصلیں خراب ہو گئیں اور جانور
مرنے لگے ہماری دو بکریاں اور ایک گائے مر گئیں۔ میں نے اور میرے بھائی نے مردہ
جانوروں کوکھیت سے باہر لے جا کر چھوڑ دیا تاکہ گد ھ اور دوسرے جانور آ کر انہیں
کھا لیں۔ اگلی صبح اسکول جاتے ہوئے میں نے دیکھا کہ مردہ جسم اب تک وہیں پڑے ہوئے
ہیں۔ جو کوئی ایسی خلاف معمول بات نہیں تھی کیونکہ اکثر گدھوں اور دوسرے جانوروں
کو مردہ جانور خانے میں دو تین دن لگتے تھے مگر آج کسی چیز کی کمی محسوس ہو رہی
تھی۔ ہاں آج گدھ نہیں تھے۔
مجھے یہ بات بہت عجیب لگی ہمیشہ تو گدھ مردہ جانوروں کے
ارد گرد جمع ہوتے اور بوٹی بوٹی کے لیے لڑ رہے ہوتے تھے۔ مگر آج کوئی بھی نہ تھا
میں اسکول پہنچنے تک اس بارے میں سوچتا رہا مگر جب پڑھائی شروع ہوئی تو سب کچھ
بھول کر پڑھائی میں لگ گیا ۔اس دوپہر گھر آ کر جب میں اور بھائی صفائی کر رہے تھے
تب مجھے یاد ایٓا بھائی کیا آپ نے آج کوئی گدھ دیکھا ،میں نے پوچھا ،بھائی تھوڑی دیر سوچنے کے
بعد بولے،‘‘ نہیں ! میں نے آج کوئی گد ھ نہیں دیکھا۔’’
‘‘
کافی عجیب بات معلوم ہوتی ہے کہ باہر دو
موٹے تازے جانور مرے پڑے ہیں اور گدھ ہی
نظر نہیں آرہا ہے !’’
‘‘بالکل
صحیح !میں بھی یہی سوچ رہا تھا ’’ مگر وہ تو صرف گدھ ہیں ان کی کسی کو کیا فکر ہو؟
عجیب بات تو یہ تھی کہ میں ان کے بارے میں
سوچ رہا تھا اور میں نہیں جانتا کیوں ؟
کچھ دنوں بعد اپنے گھر والوں کے ساتھ ناشتہ کرتے ہوئے میں
نے اپنے والد کے ساتھ والدہ کو باتیں کرتے ہوئے سنا : ‘‘ کیا تم نے سنا ہے کہ خشک
سالی کے بعد سے بہت کم گدھ نظر آرہے ہیں ؟
’’ میرے والد نے کہا ۔ ‘‘ خاص طور پر جانوروں کے مردہ جسم ادھر اُدھر پڑے ہونے کی
وجہ سے سارا علاقہ غلیظ لگ رہا ہے۔ میں نے سنا ہے کہ سائنس دانوں کی ٹیم یہاں یہ
پتہ کرنے کے لیے آ رہی ہے کہ گدھ اچانک کہاں غائب ہو گئے ۔’’
اس
دن میں اسکول جاتے ہوئے اس بارے میں سوچتا رہا آخر سائنسدان ہماری زمینوں پر کیوں
آرہے تھے ۔کیا اس کا مطلب ہے کہ کچھ گڑبڑ ہے ؟ میں اپنے خیالوں میں اتنا مگن تھا
کہ شاید یہ محسوس ہی نہیں کیا ہوتا اگر اونچی ‘‘دھاڑ ’’ کی آواز نہ سنتا۔ دیکھا
تو درخت کے نیچے ایک بڑا کتھئی رنگ کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ میں اس کی طرف بھاگا تاکہ
معلوم کر سکوں کہ کیا ہے وہ ایک گدھ تھا۔ دو ہفتوں میں یہ پہلا گدھ نظر آیا تھا
دوسرے درخت پر دو اور گدھ بیٹھے ہوئے تھے جو بظاہر تو بالکل ٹھیک معلوم ہوتے تھے
سوائے اس کے ان کے سر اُلٹے ڈھلک رہے تھے بالکل ایسے جیسے وہ گردن موڑ کر دیکھ رہے
ہوں۔ جمعہ کا دن تھا اور اگلے دو دن چھٹی تھی لہذا میں جلدی گھر جانا چاہتا تھا کیونکہ
ہمیں کرکٹ کھیلنا تھا اور ہفتے کو دوستوں کو رات کے کھانے پر مدعو کرنا تھا ۔گھر
جلدی جانے کے لیے میں نے فیصلہ کیا کہ چھوٹا راستہ اختیار کروں جو کہ کچراکنڈی کے
قریب سے گزرتا تھا وہاں مردہ جانور پڑے ہوئے تھے اور مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں ہر
طرف بدبو پھیلی ہوئی تھی۔ جب میں اپنی زمینوں میں داخل ہوا تو سکون کا سانس لیا ۔
اس رات کھانے پر بھائی اور میرے ابو کافی
تھکے ہوئے لگ رہے تھے۔ بھائی اسکول نہیں جاتے تھے لہذا سارا دن ابو کے ساتھ کھیت
پر کام کرتے۔ میرا خیال ہے کہ آج مجھے جلدی سونا چاہیے۔ بھائی نے کہا،‘‘ یہ بہترین
خیال ہے۔’’ ابو بولے، ‘‘ میرے جوڑوں میں بھی درد ہے۔ بھائی نے شکایت کی
،‘‘ حیرت ہے تمہارے جوڑوں میں کبھی درد نہیں
ہوتا۔’’
امی پریشان ہو کر بولی۔ اگلی صبح امی کو ڈاکٹر
کو گھر بلانا پڑا کیونکہ ابو اور بھائی دونوں بیمار ہو گئے تھے۔ وہ دونوں کراہ رہے
تھے اور چکر اور جوڑوں میں درد کی شکایت کر رہے تھے ۔ ڈاکٹر صاحب نے امی سے پوچھا ،‘‘
کیا انہوں نے کوئی خراب چیز کھائی تھی یا گندا پانی پیا تھا؟’’ امی نے لاعلمی کا اظہار کیا تو ڈاکٹر نے ان کے
خون کے ٹیسٹ کرانے کو کہا اور امی کو باقی گھر والوں کو ابو اور بھائی سے دور رہنے
کے لیے کہا تاکہ بیماری نہ پھیلے۔
اس رات میں نے اپنے دوستوں کو کرکٹ کھیلنے
کے لیے بلایا میرے قریبی دوست شارق اور علی اور میرے اسکول کے باقی دوست آئے ۔کھیل
کے دوران شارق نے بتایا کہ اس کے چھوٹے بھائی کو دو دن سے بخار تھا اور وہ کچھ کھا
پی نہیں رہا تھا۔ دوسرے دوست نے بتایا کہ اس کی والدہ بیمار تھیں اور ان کو پیٹ
اور جسم میں درد کی شکایت تھی شاید یہ اس لیے ہے کہ گرمی زیادہ ہے اور کھانا جلدی
خراب ہو جاتا ہے۔ علی نے اندازہ لگایا اگلے دن ہمارے اسکول میں ڈاکٹروں کی ٹیم آئی۔
سب کھڑے ہو گئے ڈاکٹروں کو سلام کیا اور پھر واپس بیٹھ گئی ۔
صبح بخیر بچوں! ‘‘ ہم سب یہاں آپ سے بات کرنے آئے ہیں۔ یہ بتانے
کے لیے کہ گد ھ ہمارے ماحول کے لیے کتنی اہمیت کے حامل ہیں؟ کیا آپ میں سے کسی نے یہ بات محسوس کی کہ گِدھوں
کے ساتھ کچھ گڑبڑ ہے ۔ڈاکٹر عریب بولے۔
‘‘ بیٹا تمہارا نام کیا ہے؟ انہوں نے میری طرف اشارہ
کرتے ہوئے پوچھا ، ‘‘ عامر’’ میں نے جواب
دیا ۔
‘‘عامر
مجھے بتاؤ، تم نے کیا دیکھا ہے؟ آج کل
بہت زیادہ گدھ نظر نہیں آرہے ہیں اور یہ ایک عجیب بات ہے کیونکہ یہاں ان کے کھانے
کے لیے بہت کچھ موجود ہے مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا
عامر؟ ڈاکٹر نے پوچھا ۔وہ کافی عجیب حرکتیں کر رہے تھے
ایسا لگتا ہے کہ وہ بیمار ہیں کیونکہ ان کے سر ان کے سینے کے ساتھ لگے ہوئے تھے
بہت اچھا شکریہ عامر! اب تم بیٹھ سکتے ہو
ہاں تو ٓ اپ نے دیکھا ہوگا بچوں کے ہندوستان اور پاکستان میں گدھوں نے ایسی عجیب
حرکتیں کرنا شروع کر دی ہیں کوئی نہیں جانتا کیوں مگر ہم سمجھتے ہیں کہ ان کو کوئی
بیماری ہے گِدھ دنیا میں سب سے بڑی تعداد میں پائے جانے والے پرندوں میں سے ہیں۔ یہ
خاص ہوتے ہیں کیونکہ یہ مردہ جانور کھاتے ہیں۔ اس طرح یہ خاکروب کا کام انجام دیتے
ہیں اور سڑتے ہوئے مردہ جانوروں کا جلد از جلد صفایا کرتے ہیں مگر اب یہ جوان کو یہ
بیماری لگ رہی ہے اور جو کہ بہت تیزی سے پھیل رہی ہے تو ہم نے اپنے ایک نیشنل پارک میں ان کا
خاص مشاہدہ کیا اور سندھ میں پائے جانے والے گِدھوں پر بھی تحقیق کی۔ ڈاکٹر روف نے
بتایا۔
‘‘ گِد ھ میں عجیب طرح کی حرکتیں ظاہر ہونے کے بعد ایک مہینے
میں مر جاتے ہیں ایک دن وہ جس درخت پر بیٹھے ہوں اس سے زمین پر دھاڑ کر کے گر جاتے
ہیں۔ ڈاکٹر نوشاد علی نے بتایا ،‘‘ میں نے بھی یہی دیکھا تھا میں نے سوچا اس سے ہم
کو اندازہ ہوتا ہے کہ گِدھ گو کہ بدصورت
اور بدبودار پرندے ہیں مگر ہمارے ماحولیاتی نظام کے لیے کتنے اہم ہیں۔ ان پرندوں
کے بغیر مردہ جانور پڑے رہتے ہیں اور سڑنا شروع ہو جاتے ہیں جس سے بیماریاں پھیلتی
ہیں۔’’ جب وہ چلے گئے تو ہم نے اپنے معمول
کے حساب سے پڑھائی شروع کی مگر میں پڑھائی پر دھیان نہیں دے رہا تھا ۔میرے ذہن میں
وہ دھاڑ گونج رہی تھی جب گدھ درخت سے نیچے گرا تھا ۔گاؤں کے ڈاکٹر اس مہینے کافی
مصروف تھے کیونکہ لوگوں کو مختلف بیماریاں اور پیٹ کے انفیکشنز ،بخار ،فلو وغیرہ
ہوئے ۔شارق کی بہن کو قریبی شہر کے ہسپتال لے جانا پڑا ۔جہاں اس نے کچھ دن گزارے۔ میری چھوٹی بہن
سونیا کو بھی پیٹ میں درد کی شکایت تھی مگر کوئی ایسی پریشانی کی بات نہیں تھی۔ امی
اور میں تو ٹھیک رہے۔ ابو ایک ہفتہ آرام کرنے کے بعد ٹھیک ہو گئے ابو نے بتایا کہ
ابو اور بھائی کو ہیپاٹیٹس ہو گیا تھا۔ بھائی کبھی پوری طرح تندرست نہ ہو سکا ۔ڈاکٹر
نے بتایا کہ بیماری کے دوران اس کا کلیجہ متاثر ہوا تھا ۔ جب پروفیسر اور ڈاکٹر
ہمارے گھر کے دورے پر آئے تو انہوں نے ابو اور بھائی کی بیماری کی وجوہات کا
اندازہ لگاتے ہوئے بتایا کہ چونکہ گِدھوں نے مردہ جانور نہیں کھائے تو قدرت نے
دوسرا انتظام کر دیا ۔مردہ جسم کو سڑانے میں بیکٹیریا نے اہم کردار ادا کیا۔ بیکٹیریا
بے ضرر اور نقصان دار دونوں طرح کے ہوتے ہیں ان میں سے کچھ بیماریاں بھی پیدا کرتے
ہیں۔ یہ جب زیر زمین پانی میں چلے گئے تو سب لوگ بیمار ہونے لگے ابو اور بھائی شاید
کنویں کا پانی پینے سے بیمار ہوئے ہوں۔ کیونکہ کنواں کچرا کنڈی کے قریب تھا جہاں
مردہ جانوروں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے ۔جانوروں کے مردہ جسموں کو دوسری جگہ منتقل
کرنا پڑا تاکہ وہ انسان کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔ کچرا کنڈی پر جڑی بوٹیوں سے تیار
شدہ دواؤں کا چھڑکاؤ کیا گیا تاکہ اس کو مضر اثرات سے پاک کیا جا سکے۔ آہستہ آہستہ
لوگ بہت بہتر ہونے لگے مگر پھر بھی بیماریاں ختم نہیں ہوئی جب بھی کوئی مردہ جانور
پڑا رہنے دیا جاتا تو پھر بیماریاں پھوٹ پڑتیں ۔
جب بھی میں گِدھ کو دیکھتا ہوں تو اداس ہو جاتا ہوں اس
لیے کہ کوئی بھی یہ نہیں جانتا کہ ان کی مدد کیسے کی جائے؟ سائنس دان اب بھی یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ کیا چیز
ہے جو ان طاقتور پرندوں کو ہلکے ہلکے مار رہی ہے ۔میں سوچتا ہوں کہ کب وہ اسے دریافت
کر پائیں گے؟ اور یہ بھی سوچتا ہوں کہ آپ اور مجھ جیسے لوگ ان کی مدد کے لیے کیا
کر سکتے ہیں؟؟؟؟
۔۔۔ختم شد۔۔۔
No comments:
Post a Comment