=" Urdu Kahaniyan (AreeB): Sahera Ka Jagugar

Sahera Ka Jagugar

 صحرا کا جادوگر

Sahera Ka Jagugar

مدتیں گزری جب کٹنگا افریقہ کے ایک مشہور ملک کے سب سے بڑے صحرا میں وہاں کا بادشاہ نینی پوں شکار کھیلنے گیا۔ یہ بادشاہ بے حد لالچی اور خودغرض انسان تھا ۔اس نے زندگی بھر دوسروں کی دولت سے اپنا خزانہ بھرا تھا اور جس نے کبھی رعایا کی فلاح و بہبود پر کچھ خرچ نہ کیا تھا ۔ہر چند نینی پوں ظالم نہ تھا مگر دوسروں کی حق تلفی بذات خود ایک ظلم ہوا کرتی ہے اور نینی پوں میں یہ خرابی موجود تھی۔ شکار کھیلتے ہوئے نینی پوں اچانک راستہ بھول بیٹھا اس کے ہمراہ اس کے چار وزیر بھی تھے ۔وہ اپنے سپاہیوں سے بچھڑ گیا اور جنگل میں دور جا نکلا۔

          اچانک انہیں اس صحرا کے جنگل میں جہاں کہیں کہیں کھجور کے درخت تھے ایک نخلستان دکھائی دیا ۔وہاں ایک بوڑھا مکار شخص موجود تھا۔ اس کا سیاہ اور مکروہ چہرہ بتا رہا تھا کہ یہ شخص بوڑھا ضرور ہے مگر مہمان نواز اور درست آدمی نہیں ہے ۔وہ شخص اس صحرا کا ایک جادوگر تھا جو مدتوں سے اس نخلستان میں تنہا رہتا تھا۔ وہ ادھر سے گزرنے والے  ہر قافلے کو لوٹ لیتا تھا اور انہیں اپنے جادو کے زور سے جانور بنا دیتا تھا ۔اور پھر وہ لوٹی ہوئی ساری دولت اسی صحرا کے قلعے کے نیچے دفن کر دیا کرتا تھا ۔گو یہ دولت اس کے کسی کام نہ ا ٓسکتی تھی مگر لالچ انسان کو خودغرض بنا دیا کرتا ہے اور یہ جادوگر بھی بادشاہ سے زیادہ لالچی اور خودغرض واقع ہوا تھا۔ بادشاہ کو دیکھتے ہی وہ تاڑ گیا کہ ہو نہ ہو یہ بادشاہ ہی  ہے اور اسے معلوم تھا کہ یہ بادشاہ نینی پوں اس دور میں دنیا کا دولت مند  اور لالچی شخص ہے۔ چنانچہ اس نے بادشاہ کو لوٹنے کا پروگرام بنا لیا ۔وہ جانتا تھا کہ بادشاہ کے پاس اس وقت کچھ بھی نہیں ہے مگر بادشاہ کے خزانے سے دولت وہاں منگوائی جا سکتی تھی۔ یہ اس کا کام تھا اور وہ کبھی اپنے کام میں ناکام نہ ہوا تھا چنانچہ وہ بادشاہ کے قریب گیا اور جھک کر بولا ،’’علی جناب! بندے کے یہ نصیب کہ آپ یہاں تشریف لائے ۔میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟‘‘

 بادشاہ نے حیرانی سے پوچھا ،’’یہ تم نے کیسے جان لیا کہ میں بادشاہ ہوں؟‘‘

 جادوگر بوڑھے نے کہا ،’’رات خواب میں میرے استاد مرحوم نے مجھے بتا دیا تھا اور آپ کو ایک مشورہ دینے کا حکم بھی دیا تھا۔‘‘

 بادشاہ بے حد خوش ہوا اور اس نے پوچھا کہ بتاؤ،’’تمہیں کیا مشورہ دینے کے لیے کہا گیا تھا؟‘‘



 مگر جادوگر نے کہا،’’آپ کی خاطر و مدارت میرا فرض ہے آپ بادشاہ ہیں اور میں رعایا۔‘‘

 پہلے مجھے فارغ ہونے دیجیے پھر سب بتاؤں گا۔ چنانچہ وہ اپنے چھوٹے سے مکان میں جو وہاں بنایا گیا تھا چلا گیا اور جادوگر نے جادو کے زور سے بے شمار کھانے  اور مشروبات وہاں جمع کر کے بادشاہ کے حضور پیش کر دیے۔ بادشاہ نے جب یہ سب کھایا تو اسے بہت لطف آیا۔ وہ حیران تھا کہ یہ شخص اس نخلستان میں یہ سب کچھ کیسے اور کہاں سے لے آیا ؟ مگر اسے اس سے کیا سروکار وہ تو اس اُلجھن میں تھا کہ بوڑھا شخص اسے کیا مشورہ دینے والا تھا ۔کھانے کے بعد بادشاہ نے مشورے کے بارے میں پوچھا، تو بوڑھے شخص نے بتایا کہ وہ تنہائی میں ساری بات کرے گا۔ بادشاہ نے وزیروں کو وہاں سے جانے کا حکم دیا۔ جادوگر نے بادشاہ سے کہا ،’’علی جناب ! میں عرصہ90 سال سے یہاں آپ کے لیے ہوں اور میرے مرشد نے کہا ہے کہ جب میں پورے 90 سال کا ہو جاؤں گا تو میرے90 سال پورے ہونے والے دن مجھے اس مکان میں دولت میں دبا دیا جائے گا اور وہ دولت جس میں مجھے دبایا جائے گا وہ سو گنا بڑھ جائے گی ۔پرسوں وہ دن آنے والا ہے اور اس سے پہلے خدا نے آپ کو یہاں بھیج دیا ہے ۔میں مشورہ دوں گا کہ آپ اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھائیں۔ بادشاہ کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا۔ اس نے کہا میں پرسوں ضرور اپنی ساری دولت لے کر یہاں ا ٓجاؤں گا۔ بوڑھے نے کہا مگر یہ کام سورج ڈھلنے سے پہلے ہو سکے گا بعد میں وقت گزر جانے کے بعد کچھ نہ ہو سکے گا ۔بادشاہ شکریہ ادا کر کے چلا گیا اور کسی سے اس نے کوئی بات نہ کی ۔تیسرے دن وہ اپنی ساری دولت 100 اونٹ پر لاد کر انہی چار وزیروں کے ہمراہ وہاں آگیا ۔کسی بھی سپاہی یا ساتھی کو اس نے نہ کچھ بتایا اور نہ ساتھ لانا مناسب سمجھا ۔سورج نکلنے سے پہلے وہ بوڑھے کے پاس صحرا میں پہنچ چکا تھا۔ بوڑھے نے جب تیر نشانے پر بیٹھا پایا تو اس نے وزیروں کو مشورہ دیا کہ وہ زمین میں گڑھا کھود کر ساری دولت دبا دیں۔ اور اس کے ساتھ پھر اس بھی اسے بھی دبا دیا جائے۔ وزیر اس ساری کاروائی پر حیران تھے مگر وہ بادشاہ کے سامنے کیا بول سکتے تھے ۔دوپہر تک جب وہ ایسا کر کے فارغ ہو چکے تو بوڑھے کے چہرے پر مکاری زیادہ دکھائی دے رہی تھی ۔اچانک وہ گھر میں گیا اور اس نے ایک بڑا سا ربڑ کا تھیلا نکالا اور کچھ پڑھنے لگا ۔بادشاہ نے دیکھا کہ اس کے چاروں وزیر مرغ بن گئے تھے اور بوڑھے کے تھیلے میں گُھس رہے تھے بوڑھے نے تھیلے کا منہ بند کر دیا اور اسے بھی زمین میں دبا دیا ۔پھر وہ بادشاہ سے بولا، علی جناب ! مجھے مدت سے آپ کی اور آپ کی اس دولت کی تلاش تھی ۔جو آپ نے رعایا سے لوٹ کر جمع کی ہے اور میں اب وہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکا ہوں میں چاہوں تو آپ کو ہلاک کر سکتا ہوں مگر میں ایسا نہیں کروں گا۔ میں تمہیں مرغ بھی نہیں بناؤں گا البتہ شتر مرغ بنا کر اس صحرا میں آوارہ  گھومنے کے لیے چھوڑ دوں گا۔ تم عمر بھر یہاں بھٹک بھٹک کر مر جاؤ گے اور اپنا مدعا بیان نہ کر سکو گے ۔بادشاہ نے بہت منت سماجت کی مگر وہ بھلا بادشاہ کو کیسے چھوڑ دیتا ۔اس نے ایسا ہی کیا جادو کے زور سے بادشاہ کو شتر مرغ بنا دیا اور صحرا میں چھوڑ دیا ۔مدتوں بادشاہ آوارہ گھومتا رہا وہ جانتا تھا کہ اگر وہ اپنی سلطنت میں واپس گیا تو رعایا اس کا شکار کرے گی اور خود اس کا بیٹا بھی جو اب ضرور بادشاہ بن چکا ہوگا ۔اسے نہیں پہچانے گا وہ کس قدر مجبور اور بے بس تھا وہ یوہی گھومتا اور زندگی گزارتا رہا ۔ایک دن اس نے اپنے ایک حبشی غلام کو اکیلے میں صحرا میں پیدل سفر سے نڈھال دیکھا تو اس کے پاس گیا اور اس نے اپنے پنجے سے زمین پر لکھ کر اسے بتایا کہ وہ شتر مرغ نہیں انسان ہے اور اس ملک کا بادشاہ بھی ہے۔ اور یہ بھی بتا دیا کہ اس کے ساتھ کیا بیتی ہے ؟ حبشی غلام غصے میں آ کر بولا،’’  مجھے بتا دو وہ شخص کون ہے؟  میں اُسے ہلاک کر دوں گا۔‘‘  چنانچہ شتر مرغ بادشاہ نے اسے مشورہ دیا کہ وہ اس پر سوار ہو جائے تو وہ اس سے جادوگر کے پاس لے جائے گا۔ جب وہ وہاں پہنچے گا تو قریب چھپ جائے گا اور جادوگر کے سونے کا انتظار کرے گا ۔اور اس طرح جب جادوگر سو رہا ہوگا وہ اسے تلوار سے قتل کر کے دولت بھی وہاں سے نکال لے گا اور جادوگر کا جادو ختم ہونے سے وہ پھر پہلے جیسا بادشاہ بن جائے گا ۔چنانچہ شتر مرغ پر سوار حبشی غلام وہاں پہنچا اور کھجور کے درختوں کے پیچھے چھپ گیا بوڑھے کو شتر مرغ سے کیا ہمدردی تھی؟  اس نے شتر مرغ کو دیکھا اورسوکھی روٹی کھانے کو دی شتر مرغ اسے کھا کر زمین پر لیٹ گیا جیسے سو گیا ہو ۔بوڑھا بھی ایک کھجور کے درخت کے نیچے چٹائی بچھا کر سو گیا ۔اچانک شتر مرغ اٹھا اور اس نے اپنی ملازم کو اطلاع دی کہ بوڑھا سو چکا ہے۔ چنانچہ اس حبشی غلام نے بڑی احتیاط سے قریب جا کر جادوگر پر اتنا بھرپور وار کیا کہ وہ ہلاک ہو گیا اور جو ہی وہ ہلاک ہوا بادشاہ پھر سے بادشاہ بن گیا اور اس کے چاروں وزیر بھی جو زمین میں دبا دیے گئے تھے۔ پھر زمین سے زندہ نکل آئے۔ اس طرح بادشاہ نے زمین سے اپنی ساری دولت ملی اور واپس آ کر اپنی سلطنت میں لوٹا دیا اور بادشاہ کا بیٹا جو اسے مردہ خیال کر کے چپ ہو رہے تھے اسے دیکھ کر حیران رہ گئے۔ بادشاہ نے رعایا سے حاصل کردہ ساری دولت رعایا میں تقسیم کر دی۔ اور اس حبشی غلام کو اپنا وزیراعظم بنا لیا اور رعایا سے دولت لوٹنے اور بے جا تنگ کرنے سے ہمیشہ ہمیش کے لیے توبہ کر لی ۔

 

۔۔۔۔ختم شد۔۔۔

ماخوذ۔۔

3 comments:

Bhoton Ki Shahezadi

انتخاب : انصاری اریب نوشاد علی۔ بھوتوں کی شہزادی پچھلے زمانے میں ملک شام پر ایک بادشاہ پرویز حکومت کرتا تھا۔ اس بادشاہ کا ایک ہی بیٹا تھا ش...