=" Urdu Kahaniyan (AreeB): October 2023

Chalak Uont

 چالاک اونٹ

Chalak Uont

 ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بدو اپنے اونٹ پر سوار سفر کر رہا تھا ۔راستے میں رات ہو گئی تو بدو نے خیمہ تان لیا اور اونٹ کو خیمے کی کیل کے ساتھ باندھ دیا۔ کھانے سے فارغ ہو کر بدو سونے کے لیے لیٹا ہی تھا کہ اتنے میں اونٹ نے آواز دی،’’ میرے اچھے مالک! باہر ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے اور میری ناک سردی سے ٹھٹھر کر رہ گئی ہے۔اجازت دو تو میں اپنی ناک ذرا خیمے کے اندر کر لوں۔‘‘

 ’’ہاں تم ناک خیمے کے اندر کر سکتے ہو۔‘‘ بدو نے جواب دیا۔

 بدو ابھی اونگھ بھی نہ پایا تھا کہ اونٹ کی آواز پھر آئی،

’’ اچھے مالک سردی زیادہ ہے اگر اجازت دو تو میں اپنی گردن خیمے کے اندر کر لوں۔‘‘

’’ اچھا کر لو ‘‘۔بدو پھر سونے کی کوشش کرنے لگا۔ اونٹ نے پھر آواز دی۔

’’ اچھے مالک! مہربانی فرماؤ میں سردی سے اکڑنے لگا ۔ہوں بس ذرا اگلی ٹانگیں خیمے کے اندر کرنے دو پھر میں آپ کو تکلیف نہ دوں گا۔‘‘

 ہاں ہاں کر لو تمہیں اجازت ہے۔ بدو اتنا کہہ کر پھر سونے لگا

تھوڑی دیر گزری ہوگی کہ گھبرا کر اٹھ کھڑا ہوا ۔

AreeBTLM


اونٹ اپنے سارے جسم کو خیمے کے اندر داخل کرنے کی کوشش میں تھا اس نے اب اجازت لینا بھی ضروری نہیں سمجھا تھا۔ بدو سخت تلملایا ۔مگر اونٹ نےاس کے غصے کی ذرا پرواہ نہ کی اور بڑے ٹھاٹ سے خیمے کے اندر گھس گیا ۔بدو کے لیے اب سونے کو تو کیا بیٹھنے کی جگہ بھی نہیں تھی ۔اس نے اونٹ کو ڈانٹ ڈپٹ کر باہر نکالنا چاہا لیکن اونٹ اس کی کب سننے والا تھا ۔وہ مزے سے خیمے میں براجمان ہو گیا ۔

ناچار بدو کو خیمے سے باہر نکل کر رات بھر سردی میں ٹھٹرنا پڑا ۔

۔۔۔ختم شد۔۔۔

ماخوذ

Sahera Ka Jagugar

 صحرا کا جادوگر

Sahera Ka Jagugar

مدتیں گزری جب کٹنگا افریقہ کے ایک مشہور ملک کے سب سے بڑے صحرا میں وہاں کا بادشاہ نینی پوں شکار کھیلنے گیا۔ یہ بادشاہ بے حد لالچی اور خودغرض انسان تھا ۔اس نے زندگی بھر دوسروں کی دولت سے اپنا خزانہ بھرا تھا اور جس نے کبھی رعایا کی فلاح و بہبود پر کچھ خرچ نہ کیا تھا ۔ہر چند نینی پوں ظالم نہ تھا مگر دوسروں کی حق تلفی بذات خود ایک ظلم ہوا کرتی ہے اور نینی پوں میں یہ خرابی موجود تھی۔ شکار کھیلتے ہوئے نینی پوں اچانک راستہ بھول بیٹھا اس کے ہمراہ اس کے چار وزیر بھی تھے ۔وہ اپنے سپاہیوں سے بچھڑ گیا اور جنگل میں دور جا نکلا۔

          اچانک انہیں اس صحرا کے جنگل میں جہاں کہیں کہیں کھجور کے درخت تھے ایک نخلستان دکھائی دیا ۔وہاں ایک بوڑھا مکار شخص موجود تھا۔ اس کا سیاہ اور مکروہ چہرہ بتا رہا تھا کہ یہ شخص بوڑھا ضرور ہے مگر مہمان نواز اور درست آدمی نہیں ہے ۔وہ شخص اس صحرا کا ایک جادوگر تھا جو مدتوں سے اس نخلستان میں تنہا رہتا تھا۔ وہ ادھر سے گزرنے والے  ہر قافلے کو لوٹ لیتا تھا اور انہیں اپنے جادو کے زور سے جانور بنا دیتا تھا ۔اور پھر وہ لوٹی ہوئی ساری دولت اسی صحرا کے قلعے کے نیچے دفن کر دیا کرتا تھا ۔گو یہ دولت اس کے کسی کام نہ ا ٓسکتی تھی مگر لالچ انسان کو خودغرض بنا دیا کرتا ہے اور یہ جادوگر بھی بادشاہ سے زیادہ لالچی اور خودغرض واقع ہوا تھا۔ بادشاہ کو دیکھتے ہی وہ تاڑ گیا کہ ہو نہ ہو یہ بادشاہ ہی  ہے اور اسے معلوم تھا کہ یہ بادشاہ نینی پوں اس دور میں دنیا کا دولت مند  اور لالچی شخص ہے۔ چنانچہ اس نے بادشاہ کو لوٹنے کا پروگرام بنا لیا ۔وہ جانتا تھا کہ بادشاہ کے پاس اس وقت کچھ بھی نہیں ہے مگر بادشاہ کے خزانے سے دولت وہاں منگوائی جا سکتی تھی۔ یہ اس کا کام تھا اور وہ کبھی اپنے کام میں ناکام نہ ہوا تھا چنانچہ وہ بادشاہ کے قریب گیا اور جھک کر بولا ،’’علی جناب! بندے کے یہ نصیب کہ آپ یہاں تشریف لائے ۔میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟‘‘

 بادشاہ نے حیرانی سے پوچھا ،’’یہ تم نے کیسے جان لیا کہ میں بادشاہ ہوں؟‘‘

 جادوگر بوڑھے نے کہا ،’’رات خواب میں میرے استاد مرحوم نے مجھے بتا دیا تھا اور آپ کو ایک مشورہ دینے کا حکم بھی دیا تھا۔‘‘

 بادشاہ بے حد خوش ہوا اور اس نے پوچھا کہ بتاؤ،’’تمہیں کیا مشورہ دینے کے لیے کہا گیا تھا؟‘‘



 مگر جادوگر نے کہا،’’آپ کی خاطر و مدارت میرا فرض ہے آپ بادشاہ ہیں اور میں رعایا۔‘‘

 پہلے مجھے فارغ ہونے دیجیے پھر سب بتاؤں گا۔ چنانچہ وہ اپنے چھوٹے سے مکان میں جو وہاں بنایا گیا تھا چلا گیا اور جادوگر نے جادو کے زور سے بے شمار کھانے  اور مشروبات وہاں جمع کر کے بادشاہ کے حضور پیش کر دیے۔ بادشاہ نے جب یہ سب کھایا تو اسے بہت لطف آیا۔ وہ حیران تھا کہ یہ شخص اس نخلستان میں یہ سب کچھ کیسے اور کہاں سے لے آیا ؟ مگر اسے اس سے کیا سروکار وہ تو اس اُلجھن میں تھا کہ بوڑھا شخص اسے کیا مشورہ دینے والا تھا ۔کھانے کے بعد بادشاہ نے مشورے کے بارے میں پوچھا، تو بوڑھے شخص نے بتایا کہ وہ تنہائی میں ساری بات کرے گا۔ بادشاہ نے وزیروں کو وہاں سے جانے کا حکم دیا۔ جادوگر نے بادشاہ سے کہا ،’’علی جناب ! میں عرصہ90 سال سے یہاں آپ کے لیے ہوں اور میرے مرشد نے کہا ہے کہ جب میں پورے 90 سال کا ہو جاؤں گا تو میرے90 سال پورے ہونے والے دن مجھے اس مکان میں دولت میں دبا دیا جائے گا اور وہ دولت جس میں مجھے دبایا جائے گا وہ سو گنا بڑھ جائے گی ۔پرسوں وہ دن آنے والا ہے اور اس سے پہلے خدا نے آپ کو یہاں بھیج دیا ہے ۔میں مشورہ دوں گا کہ آپ اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھائیں۔ بادشاہ کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا۔ اس نے کہا میں پرسوں ضرور اپنی ساری دولت لے کر یہاں ا ٓجاؤں گا۔ بوڑھے نے کہا مگر یہ کام سورج ڈھلنے سے پہلے ہو سکے گا بعد میں وقت گزر جانے کے بعد کچھ نہ ہو سکے گا ۔بادشاہ شکریہ ادا کر کے چلا گیا اور کسی سے اس نے کوئی بات نہ کی ۔تیسرے دن وہ اپنی ساری دولت 100 اونٹ پر لاد کر انہی چار وزیروں کے ہمراہ وہاں آگیا ۔کسی بھی سپاہی یا ساتھی کو اس نے نہ کچھ بتایا اور نہ ساتھ لانا مناسب سمجھا ۔سورج نکلنے سے پہلے وہ بوڑھے کے پاس صحرا میں پہنچ چکا تھا۔ بوڑھے نے جب تیر نشانے پر بیٹھا پایا تو اس نے وزیروں کو مشورہ دیا کہ وہ زمین میں گڑھا کھود کر ساری دولت دبا دیں۔ اور اس کے ساتھ پھر اس بھی اسے بھی دبا دیا جائے۔ وزیر اس ساری کاروائی پر حیران تھے مگر وہ بادشاہ کے سامنے کیا بول سکتے تھے ۔دوپہر تک جب وہ ایسا کر کے فارغ ہو چکے تو بوڑھے کے چہرے پر مکاری زیادہ دکھائی دے رہی تھی ۔اچانک وہ گھر میں گیا اور اس نے ایک بڑا سا ربڑ کا تھیلا نکالا اور کچھ پڑھنے لگا ۔بادشاہ نے دیکھا کہ اس کے چاروں وزیر مرغ بن گئے تھے اور بوڑھے کے تھیلے میں گُھس رہے تھے بوڑھے نے تھیلے کا منہ بند کر دیا اور اسے بھی زمین میں دبا دیا ۔پھر وہ بادشاہ سے بولا، علی جناب ! مجھے مدت سے آپ کی اور آپ کی اس دولت کی تلاش تھی ۔جو آپ نے رعایا سے لوٹ کر جمع کی ہے اور میں اب وہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکا ہوں میں چاہوں تو آپ کو ہلاک کر سکتا ہوں مگر میں ایسا نہیں کروں گا۔ میں تمہیں مرغ بھی نہیں بناؤں گا البتہ شتر مرغ بنا کر اس صحرا میں آوارہ  گھومنے کے لیے چھوڑ دوں گا۔ تم عمر بھر یہاں بھٹک بھٹک کر مر جاؤ گے اور اپنا مدعا بیان نہ کر سکو گے ۔بادشاہ نے بہت منت سماجت کی مگر وہ بھلا بادشاہ کو کیسے چھوڑ دیتا ۔اس نے ایسا ہی کیا جادو کے زور سے بادشاہ کو شتر مرغ بنا دیا اور صحرا میں چھوڑ دیا ۔مدتوں بادشاہ آوارہ گھومتا رہا وہ جانتا تھا کہ اگر وہ اپنی سلطنت میں واپس گیا تو رعایا اس کا شکار کرے گی اور خود اس کا بیٹا بھی جو اب ضرور بادشاہ بن چکا ہوگا ۔اسے نہیں پہچانے گا وہ کس قدر مجبور اور بے بس تھا وہ یوہی گھومتا اور زندگی گزارتا رہا ۔ایک دن اس نے اپنے ایک حبشی غلام کو اکیلے میں صحرا میں پیدل سفر سے نڈھال دیکھا تو اس کے پاس گیا اور اس نے اپنے پنجے سے زمین پر لکھ کر اسے بتایا کہ وہ شتر مرغ نہیں انسان ہے اور اس ملک کا بادشاہ بھی ہے۔ اور یہ بھی بتا دیا کہ اس کے ساتھ کیا بیتی ہے ؟ حبشی غلام غصے میں آ کر بولا،’’  مجھے بتا دو وہ شخص کون ہے؟  میں اُسے ہلاک کر دوں گا۔‘‘  چنانچہ شتر مرغ بادشاہ نے اسے مشورہ دیا کہ وہ اس پر سوار ہو جائے تو وہ اس سے جادوگر کے پاس لے جائے گا۔ جب وہ وہاں پہنچے گا تو قریب چھپ جائے گا اور جادوگر کے سونے کا انتظار کرے گا ۔اور اس طرح جب جادوگر سو رہا ہوگا وہ اسے تلوار سے قتل کر کے دولت بھی وہاں سے نکال لے گا اور جادوگر کا جادو ختم ہونے سے وہ پھر پہلے جیسا بادشاہ بن جائے گا ۔چنانچہ شتر مرغ پر سوار حبشی غلام وہاں پہنچا اور کھجور کے درختوں کے پیچھے چھپ گیا بوڑھے کو شتر مرغ سے کیا ہمدردی تھی؟  اس نے شتر مرغ کو دیکھا اورسوکھی روٹی کھانے کو دی شتر مرغ اسے کھا کر زمین پر لیٹ گیا جیسے سو گیا ہو ۔بوڑھا بھی ایک کھجور کے درخت کے نیچے چٹائی بچھا کر سو گیا ۔اچانک شتر مرغ اٹھا اور اس نے اپنی ملازم کو اطلاع دی کہ بوڑھا سو چکا ہے۔ چنانچہ اس حبشی غلام نے بڑی احتیاط سے قریب جا کر جادوگر پر اتنا بھرپور وار کیا کہ وہ ہلاک ہو گیا اور جو ہی وہ ہلاک ہوا بادشاہ پھر سے بادشاہ بن گیا اور اس کے چاروں وزیر بھی جو زمین میں دبا دیے گئے تھے۔ پھر زمین سے زندہ نکل آئے۔ اس طرح بادشاہ نے زمین سے اپنی ساری دولت ملی اور واپس آ کر اپنی سلطنت میں لوٹا دیا اور بادشاہ کا بیٹا جو اسے مردہ خیال کر کے چپ ہو رہے تھے اسے دیکھ کر حیران رہ گئے۔ بادشاہ نے رعایا سے حاصل کردہ ساری دولت رعایا میں تقسیم کر دی۔ اور اس حبشی غلام کو اپنا وزیراعظم بنا لیا اور رعایا سے دولت لوٹنے اور بے جا تنگ کرنے سے ہمیشہ ہمیش کے لیے توبہ کر لی ۔

 

۔۔۔۔ختم شد۔۔۔

ماخوذ۔۔

Chacha Gidh

 چاچا گدھ

انتخاب : نوشاد علی

 میں کبھی گِدھوں کے بارے میں سوچتا بھی نہ تھا گِدھوں کے بارے میں سوچتا بھی کون ہے! وہ نہ تو خوبصورت ہیں اور نہ ہی ان کی آواز ایسی سُریلی ہے جسے سنا جائے بلکہ وہ تو شور مچانے والے بد صورت اور بدبودار پرندے ہیں ۔ان میں کوئی ایسی خاص بات نہیں جو لوگ ان سے محبت کریں۔میرے والد ایک کسان ہیں وہ اپنی زمینوں پر باجرہ، تل اور پھلیاں اُگاتے ہیں۔ ہمارے پاس ہر طرح کے جانور بھی ہیں۔ اسکول سے آنے کے بعد گھر میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ کام کرنے کو ہوتا لہذا ہمیں کھیلنے کو مشکل ہی سے وقت ملتا ۔میں اس بارے میں کوئی شکوہ نہیں کر رہا کیونکہ میں نے اپنا بچپن بہت اچھا گزارا اور ہمارے والدین نے اس بات کا بہت خیال رکھا کہ ہمیں کوئی کمی نہ ہونے پائے۔ ہمارے علاقے میں موسم زیادہ تر گرم اور خشک رہتا تھا ۔جب یہ گرمی ناقابل برداشت ہو جاتی تو ہمیں پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا اور ہمارے بہت سے جانور پیاس سے مر جاتے ۔جب بھی کوئی جانور مرتا تو اس کے مردہ جسم کو کھیت کے باہر لے جا کر چھوڑ دیا جاتا  تاکہ پرندے اور دوسرے جانور ا ٓکر انہیں کھا لیں۔

 ایک سال ہمارے گاؤں میں خشک سالی ہوئی اس سال ہمارا بہت نقصان ہوا ۔فصلیں خراب ہو گئیں اور جانور مرنے لگے ہماری دو بکریاں اور ایک گائے مر گئیں۔ میں نے اور میرے بھائی نے مردہ جانوروں کوکھیت سے باہر لے جا کر چھوڑ دیا تاکہ گد ھ اور دوسرے جانور آ کر انہیں کھا لیں۔ اگلی صبح اسکول جاتے ہوئے میں نے دیکھا کہ مردہ جسم اب تک وہیں پڑے ہوئے ہیں۔ جو کوئی ایسی خلاف معمول بات نہیں تھی کیونکہ اکثر گدھوں اور دوسرے جانوروں کو مردہ جانور خانے میں دو تین دن لگتے تھے مگر آج کسی چیز کی کمی محسوس ہو رہی تھی۔ ہاں آج گدھ نہیں تھے۔

مجھے یہ بات بہت عجیب لگی ہمیشہ تو گدھ مردہ جانوروں کے ارد گرد جمع ہوتے اور بوٹی بوٹی کے لیے لڑ رہے ہوتے تھے۔ مگر آج کوئی بھی نہ تھا میں اسکول پہنچنے تک اس بارے میں سوچتا رہا مگر جب پڑھائی شروع ہوئی تو سب کچھ بھول کر پڑھائی میں لگ گیا ۔اس دوپہر گھر آ کر جب میں اور بھائی صفائی کر رہے تھے تب مجھے یاد ایٓا بھائی کیا آپ نے آج کوئی گدھ  دیکھا ،میں نے پوچھا ،بھائی تھوڑی دیر سوچنے کے بعد بولے،‘‘ نہیں ! میں نے آج کوئی گد ھ نہیں دیکھا۔’’

‘‘  کافی عجیب بات معلوم ہوتی ہے کہ باہر دو موٹے تازے جانور مرے پڑے ہیں اور گدھ  ہی نظر نہیں آرہا ہے !’’

‘‘بالکل صحیح !میں بھی یہی سوچ رہا تھا ’’ مگر وہ تو صرف گدھ ہیں ان کی کسی کو کیا فکر ہو؟  عجیب بات تو یہ تھی کہ میں ان کے بارے میں سوچ رہا تھا اور میں نہیں جانتا کیوں ؟

کچھ دنوں بعد اپنے گھر والوں کے ساتھ ناشتہ کرتے ہوئے میں نے اپنے والد کے ساتھ والدہ کو باتیں کرتے ہوئے سنا : ‘‘ کیا تم نے سنا ہے کہ خشک سالی کے بعد سے بہت کم گدھ  نظر آرہے ہیں ؟ ’’ میرے والد نے کہا ۔ ‘‘ خاص طور پر جانوروں کے مردہ جسم ادھر اُدھر پڑے ہونے کی وجہ سے سارا علاقہ غلیظ لگ رہا ہے۔ میں نے سنا ہے کہ سائنس دانوں کی ٹیم یہاں یہ پتہ کرنے کے لیے آ رہی ہے کہ گدھ اچانک کہاں غائب ہو گئے ۔’’

اس دن میں اسکول جاتے ہوئے اس بارے میں سوچتا رہا آخر سائنسدان ہماری زمینوں پر کیوں آرہے تھے ۔کیا اس کا مطلب ہے کہ کچھ گڑبڑ ہے ؟ میں اپنے خیالوں میں اتنا مگن تھا کہ شاید یہ محسوس ہی نہیں کیا ہوتا اگر اونچی ‘‘دھاڑ ’’ کی آواز نہ سنتا۔ دیکھا تو درخت کے نیچے ایک بڑا کتھئی رنگ کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ میں اس کی طرف بھاگا تاکہ معلوم کر سکوں کہ کیا ہے وہ ایک گدھ تھا۔ دو ہفتوں میں یہ پہلا گدھ نظر آیا تھا دوسرے درخت پر دو اور گدھ بیٹھے ہوئے تھے جو بظاہر تو بالکل ٹھیک معلوم ہوتے تھے سوائے اس کے ان کے سر اُلٹے ڈھلک رہے تھے بالکل ایسے جیسے وہ گردن موڑ کر دیکھ رہے ہوں۔ جمعہ کا دن تھا اور اگلے دو دن چھٹی تھی لہذا میں جلدی گھر جانا چاہتا تھا کیونکہ ہمیں کرکٹ کھیلنا تھا اور ہفتے کو دوستوں کو رات کے کھانے پر مدعو کرنا تھا ۔گھر جلدی جانے کے لیے میں نے فیصلہ کیا کہ چھوٹا راستہ اختیار کروں جو کہ کچراکنڈی کے قریب سے گزرتا تھا وہاں مردہ جانور پڑے ہوئے تھے اور مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں ہر طرف بدبو پھیلی ہوئی تھی۔ جب میں اپنی زمینوں میں داخل ہوا تو سکون کا سانس لیا ۔

AreeBTLM


          اس رات کھانے پر بھائی اور میرے ابو کافی تھکے ہوئے لگ رہے تھے۔ بھائی اسکول نہیں جاتے تھے لہذا سارا دن ابو کے ساتھ کھیت پر کام کرتے۔ میرا خیال ہے کہ آج مجھے جلدی سونا چاہیے۔ بھائی نے کہا،‘‘ یہ بہترین خیال ہے۔’’  ابو بولے، ‘‘  میرے جوڑوں میں بھی درد ہے۔ بھائی نے شکایت کی ،‘‘  حیرت ہے تمہارے جوڑوں میں کبھی درد نہیں ہوتا۔’’

 امی پریشان ہو کر بولی۔ اگلی صبح امی کو ڈاکٹر کو گھر بلانا پڑا کیونکہ ابو اور بھائی دونوں بیمار ہو گئے تھے۔ وہ دونوں کراہ رہے تھے اور چکر اور جوڑوں میں درد کی شکایت کر رہے تھے ۔ ڈاکٹر صاحب نے امی سے پوچھا ،‘‘ کیا انہوں نے کوئی خراب چیز کھائی تھی یا گندا پانی پیا تھا؟’’  امی نے لاعلمی کا اظہار کیا تو ڈاکٹر نے ان کے خون کے ٹیسٹ کرانے کو کہا اور امی کو باقی گھر والوں کو ابو اور بھائی سے دور رہنے کے لیے کہا تاکہ بیماری نہ پھیلے۔

 اس رات میں نے اپنے دوستوں کو کرکٹ کھیلنے کے لیے بلایا میرے قریبی دوست شارق اور علی اور میرے اسکول کے باقی دوست آئے ۔کھیل کے دوران شارق نے بتایا کہ اس کے چھوٹے بھائی کو دو دن سے بخار تھا اور وہ کچھ کھا پی نہیں رہا تھا۔ دوسرے دوست نے بتایا کہ اس کی والدہ بیمار تھیں اور ان کو پیٹ اور جسم میں درد کی شکایت تھی شاید یہ اس لیے ہے کہ گرمی زیادہ ہے اور کھانا جلدی خراب ہو جاتا ہے۔ علی نے اندازہ لگایا اگلے دن ہمارے اسکول میں ڈاکٹروں کی ٹیم آئی۔ سب کھڑے ہو گئے ڈاکٹروں کو سلام کیا اور پھر واپس بیٹھ گئی ۔

صبح بخیر بچوں! ‘‘  ہم سب یہاں آپ سے بات کرنے آئے ہیں۔ یہ بتانے کے لیے کہ گد ھ ہمارے ماحول کے لیے کتنی اہمیت کے حامل ہیں؟  کیا آپ میں سے کسی نے یہ بات محسوس کی کہ گِدھوں کے ساتھ کچھ گڑبڑ ہے ۔ڈاکٹر عریب بولے۔

‘‘ بیٹا تمہارا نام کیا ہے؟ انہوں نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا ، ‘‘ عامر’’  میں نے جواب دیا ۔

‘‘عامر مجھے بتاؤ، تم نے کیا دیکھا ہے؟    آج  کل بہت زیادہ گدھ نظر نہیں آرہے ہیں اور یہ ایک عجیب بات ہے کیونکہ یہاں ان کے کھانے کے لیے بہت کچھ موجود ہے مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  کیا عامر؟   ڈاکٹر نے پوچھا ۔وہ کافی عجیب حرکتیں کر رہے تھے ایسا لگتا ہے کہ وہ بیمار ہیں کیونکہ ان کے سر ان کے سینے کے ساتھ لگے ہوئے تھے بہت اچھا شکریہ عامر!  اب تم بیٹھ سکتے ہو ہاں تو ٓ اپ نے دیکھا ہوگا بچوں کے ہندوستان اور پاکستان میں گدھوں نے ایسی عجیب حرکتیں کرنا شروع کر دی ہیں کوئی نہیں جانتا کیوں مگر ہم سمجھتے ہیں کہ ان کو کوئی بیماری ہے گِدھ دنیا میں سب سے بڑی تعداد میں پائے جانے والے پرندوں میں سے ہیں۔ یہ خاص ہوتے ہیں کیونکہ یہ مردہ جانور کھاتے ہیں۔ اس طرح یہ خاکروب کا کام انجام دیتے ہیں اور سڑتے ہوئے مردہ جانوروں کا جلد از جلد صفایا کرتے ہیں مگر اب یہ جوان کو یہ بیماری لگ رہی ہے اور جو کہ بہت تیزی سے پھیل  رہی ہے تو ہم نے اپنے ایک نیشنل پارک میں ان کا خاص مشاہدہ کیا اور سندھ میں پائے جانے والے گِدھوں پر بھی تحقیق کی۔ ڈاکٹر روف نے بتایا۔

‘‘ گِد ھ میں  عجیب طرح کی حرکتیں ظاہر ہونے کے بعد ایک مہینے میں مر جاتے ہیں ایک دن وہ جس درخت پر بیٹھے ہوں اس سے زمین پر دھاڑ کر کے گر جاتے ہیں۔ ڈاکٹر نوشاد علی نے بتایا ،‘‘ میں نے بھی یہی دیکھا تھا میں نے سوچا اس سے ہم کو اندازہ ہوتا ہے کہ گِدھ  گو کہ بدصورت اور بدبودار پرندے ہیں مگر ہمارے ماحولیاتی نظام کے لیے کتنے اہم ہیں۔ ان پرندوں کے بغیر مردہ جانور پڑے رہتے ہیں اور سڑنا شروع ہو جاتے ہیں جس سے بیماریاں پھیلتی ہیں۔’’  جب وہ چلے گئے تو ہم نے اپنے معمول کے حساب سے پڑھائی شروع کی مگر میں پڑھائی پر دھیان نہیں دے رہا تھا ۔میرے ذہن میں وہ دھاڑ گونج رہی تھی جب گدھ درخت سے نیچے گرا تھا ۔گاؤں کے ڈاکٹر اس مہینے کافی مصروف تھے کیونکہ لوگوں کو مختلف بیماریاں اور پیٹ کے انفیکشنز ،بخار ،فلو وغیرہ ہوئے ۔شارق کی بہن کو قریبی شہر کے ہسپتال لے جانا پڑا ۔جہاں اس نے کچھ دن گزارے۔ میری چھوٹی بہن سونیا کو بھی پیٹ میں درد کی شکایت تھی مگر کوئی ایسی پریشانی کی بات نہیں تھی۔ امی اور میں تو ٹھیک رہے۔ ابو ایک ہفتہ آرام کرنے کے بعد ٹھیک ہو گئے ابو نے بتایا کہ ابو اور بھائی کو ہیپاٹیٹس ہو گیا تھا۔ بھائی کبھی پوری طرح تندرست نہ ہو سکا ۔ڈاکٹر نے بتایا کہ بیماری کے دوران اس کا کلیجہ متاثر ہوا تھا ۔ جب پروفیسر اور ڈاکٹر ہمارے گھر کے دورے پر آئے تو انہوں نے ابو اور بھائی کی بیماری کی وجوہات کا اندازہ لگاتے ہوئے بتایا کہ چونکہ گِدھوں نے مردہ جانور نہیں کھائے تو قدرت نے دوسرا انتظام کر دیا ۔مردہ جسم کو سڑانے میں بیکٹیریا نے اہم کردار ادا کیا۔ بیکٹیریا بے ضرر اور نقصان دار دونوں طرح کے ہوتے ہیں ان میں سے کچھ بیماریاں بھی پیدا کرتے ہیں۔ یہ جب زیر زمین پانی میں چلے گئے تو سب لوگ بیمار ہونے لگے ابو اور بھائی شاید کنویں کا پانی پینے سے بیمار ہوئے ہوں۔ کیونکہ کنواں کچرا کنڈی کے قریب تھا جہاں مردہ جانوروں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے ۔جانوروں کے مردہ جسموں کو دوسری جگہ منتقل کرنا پڑا تاکہ وہ انسان کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔ کچرا کنڈی پر جڑی بوٹیوں سے تیار شدہ دواؤں کا چھڑکاؤ کیا گیا تاکہ اس کو مضر اثرات سے پاک کیا جا سکے۔ آہستہ آہستہ لوگ بہت بہتر ہونے لگے مگر پھر بھی بیماریاں ختم نہیں ہوئی جب بھی کوئی مردہ جانور پڑا رہنے دیا جاتا تو پھر بیماریاں پھوٹ پڑتیں ۔

جب بھی میں گِدھ کو دیکھتا ہوں تو اداس ہو جاتا ہوں اس لیے کہ کوئی بھی یہ نہیں جانتا کہ ان کی مدد کیسے کی جائے؟  سائنس دان  اب بھی یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ کیا چیز ہے جو ان طاقتور پرندوں کو ہلکے ہلکے مار رہی ہے ۔میں سوچتا ہوں کہ کب وہ اسے دریافت کر پائیں گے؟ اور یہ بھی سوچتا ہوں کہ آپ اور مجھ جیسے لوگ ان کی مدد کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟؟؟؟

۔۔۔ختم شد۔۔۔

 

 

 

Meri Madad Karo

 میری مدد کرو

          چوں ،چوں ،چوں ، بی چڑیا مستقل کھڑکی کے اوپر چونچیں مار رہی تھی، کبھی پر مارتی ،جیسے بہت پریشان ہوں بے چین ہو۔ سمیہ نے کہانی کی  کتاب غصے سے تکیے پر رکھی اور کھڑکی کے پاس جا کر دیکھا کہ آخر اس کی پریشانی کیا ہے ؟ ‘‘اف! کہانی اتنی مزیدار ہے کہ چھوڑنے کو جی نہیں چاہ رہا ہے مگر ابھی بیچاری چڑیابی بھی تو پریشان ہیں۔’’ سمیہ نے اپنے کمرے کی کھڑکی کھول کر دیکھا تو کچھ خانہ  بدوش عورتیں اور بچے کلہاڑی مار مار کر درخت کاٹ رہے تھے۔ درخت کی شاخیں کٹ کٹ کر زمین پر گر رہی تھی۔ سمیہ  نے ذرا اور جھک کر دیکھا تو بیچاری چڑیا کا گھونسلہ بھی نیچے پڑا تھا اور انڈے بھی ٹوٹے پڑے تھے۔

ٍ          اف میرے اللہ !تو یہ تھی پریشانی واقعی ایسی پریشانی کی بیان سے باہر ، چچ چچ ! افسوس کوئی ان کا گھر ایسے توڑ کر پھینک دے تو کتنا غصہ آئے۔ ٹھہرو،بی چڑیا مجھے تمہارے لیے کچھ کرنا پڑے گا ۔ سمیہ  نیچے آگئی اور گیٹ پر آ کر چوکیدار کو سب قصہ سنایا ۔

شبیر بابا ایک نیک آدمی  تھے۔ ان کو بھی بڑا دکھ ہو، ا زیادہ یوں بھی کہ سمیہ بی بی کی بڑی بڑی آنکھوں میں آنسو بھی تھے ۔انہوں نے اپنا ڈنڈا پکڑا خانہ  بدوشوں کے پاس پہنچے اور انہیں سمجھایا بھی کہ یہ ہرے بھرے درخت کاٹنا تو بہت غلط بات ہے ۔یہ زندہ ہیں اور ہماری طرح سانس لیتے ہیں پھر زمین پر پڑا ہوا چڑیا بھی کا ننھاسا گھر دکھا کر کہا،‘‘بولو یہ معصوم کہاں بسیراکرے گا؟ یہ کہہ کر بابا نے ڈنڈا زور سے زمین پر مارا وہ سب کے سب خانہ بدوش اپنی گٹھریاں سنبھال کر بھاگے۔سمیہ  خوب ہنسی اور خوش ہو گئی مگر یہ فکر تھی کہ چڑیا بی کا گھر اب کیسےبنے؟ ان لوگوں نے تین چار درخت کاٹ ڈالے تھے سب اجڑا اجڑا لگ رہا تھا ۔

          سمیہ کو پھر ایک خیال آیا اس نے شبیر بابا کے ساتھ مل کر چڑیا بی کو گھر کے پیچھے جو پیپل کا درخت تھا اس کی ایک گھنی شاخ پر بٹھا دیا۔ چوں چوں چوں چڑیا بھی خوب چہکی ۔ اس کی ننھی ننھی آنکھیں چمک رہی تھی۔سمیہ خوش ہو کر گھر آگئی اور اپنی کہانی بھی مصروف ہو گئی۔ مگر ذہن ابھی بھی وہیں لگا ہوا تھا کہ کاش سب کو یہ بات معلوم ہو جائے کہ درخت ہم جانداروں کے لیے کتنے اہم ہیں ۔ سمیہ نے ابو کی لائبریری میں سے درختوں کے بارے میں کتاب ڈھونڈی وہ چاہتی تھی کہ شبیر بابا کو درختوں کے فائدے بتائے۔

‘‘ شبیر بابا  ؟’’ جی بی بی کچھ  منگانا ہے آپ کو؟

 نہیں بابا جی آپ کو درختوں کی باتیں بتانی ہیں ۔شبیر بابا بڑے حیران ہوئے درختوں کی باتیں؟؟ ‘‘ بی بی  وہ تو درخت ہے سایہ دیتا ہے، پھل دیتا ہے اور بس!

 ہاں ہاں آپ کو تو کافی معلومات ہے بالکل صحیح مزیدار پھل جو ہماری صحت اچھی رکھتے ہیں ہمیں درخت ہی دیتے ہیں ۔ہم جو کپڑے پہنتے ہیں اس کے لیے بھی ریشم درختوں سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ ریشم کا کیڑا شہتوت کے درخت کے پتے کھاتا ہے اور اسی طرح ریشمی کپڑے ہم کو ملتے ہیں ۔

‘‘ اچھا اور بتاؤ درخت کس کا کمال ۔’’ شبیر بابا کو مزہ آیا  وہ  آلتی پالتی مار کر ہری بھری ٹھنڈی گھاس پر بیٹھ گئے۔

سمیہ کہنے لگی ، ‘‘  شہد کہاں سے آیا  ؟وہ بھی درختوں کی مدد سے حاصل ہوتا ہے۔ درختوں سے ہم کو آکسیجن ملتی ہے جو ہماری زندگی کے لیے بہت ضروری ہے۔ گرمی کے موسم میں پہاڑوں پر جمی برف پانی بن کر بہتی ہےجب جب یہ پانی پہاڑی جنگلات سے گزرتا ہے تو اس میں موجود گندگی گھنے درختوں کی شاخوں اور پتوں میں اٹک کر رک جاتی ہے اور درختوں سے نکلنے والی آکسیجن اس پانی میں شامل ہو جاتی ہے یہ پانی کی صفائی کا قدرتی طریقہ ہے۔

           اور بتاؤ بابا یہ جو ہمارے جنگلات ہیں وہ موسموں کے بدلنے میں بھی مددگار ہوتے ہیں۔

‘‘ ارے بی بی  تم کو اتنا کچھ معلوم ہے۔ واہ بھئی! اب میں روز آپ سے معلومات حاصل کروں گا۔

 بالکل ٹھیک میں آپ کو اور بھی باتیں بتاؤں گی ٹھیک ہے۔ اللہ حافظ!

#ماخوذ



Bhoton Ki Shahezadi

انتخاب : انصاری اریب نوشاد علی۔ بھوتوں کی شہزادی پچھلے زمانے میں ملک شام پر ایک بادشاہ پرویز حکومت کرتا تھا۔ اس بادشاہ کا ایک ہی بیٹا تھا ش...